’’انقلاب زندہ باد،‘‘ ایک کسان لیڈر نے نعرہ لگایا۔ ’’زندہ باد، زندہ باد،‘‘ باقی کسانوں نے اس نعرہ کو دوہرایا۔ مشکل بھرے ۱۸۰ کلومیٹر کے لمبے مارچ کے اخیر میں، تھکے ماندے کسانوں کے ذریعہ جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں – جہاں ۱۲ مارچ کو مورچہ ختم ہوا – لگایا جانے والا نعرہ اتنا دَمدار نہیں تھا، جتنا کہ ناسک میں ۶ مارچ کو اس کی شروعات کے وقت تھا (دیکھیں کھیت اور جنگل سے: ممبئی تک لمبا مارچ )۔ لیکن ان کا مجموعی عزم ناشکستہ تھا۔ گرمی میں ایک ہفتہ تک چلنے کے بعد بھی ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے کا وہ بخوبی جواب دے رہے تھے، جب کہ ان میں سے اکثر کے پیروں میں چھالے پڑ چکے تھے، وہ راتوں کے دوران کھلے میں سو رہے تھے اور کم کھانا کھا رہے تھے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسوادی) کی کسان تنظیم، اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے ذریعہ منعقدہ یہ تاریخی مارچ، تقریباً ۲۵ ہزار احتجاجیوں کے ساتھ، ناسک ٹاؤن کے سی بی ایس چوک سے شروع ہوا۔ کسانوں کا یہ قافلہ جس وقت ممبئی میں داخل ہوا، تب تک ان کی تعداد ۴۰ ہزار تک پہنچ چکی تھی، ایسا اجیت ناولے نے اندازہ لگایا، جو منتظمین میں سے ایک تھے اور کسان سبھا کے جنرل سکریٹری ہیں۔
سبھی تھک چکے تھے، لیکن ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
وہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے، ریاست بھر کے مزید کسان شاہپور (ممبئی سے ۷۳ کلومیٹر دور) اور تھانے (ممبئی سے ۲۵ کلومیٹر دور) میں اس مارچ میں شامل ہوتے گئے۔
’’یہ سفر اتنا ناقابل برداشت نہیں ہے جتنا کہ سرکار نے ہمارے ساتھ برتاؤ کیا،‘‘ وِلاس بابر نے (آزاد میدان سے تقریباً ۵۵ کلومیٹر دور) بھیونڈی تعلقہ کے سونالے گاؤں، جہاں کسانوں نے ۱۰ مارچ کی دوپہر کو کھانا کھایا تھا، ایک ٹیمپو سے سٹ کر کھڑے ہوئے بتایا۔ زمین پر بیٹھے ہزاروں کسانوں کو المونیم کے بڑے پتیلوں سے دال اور چاول تقسیم کیے جا رہے تھے۔ ان کسانوں نے یہ کھانا خود سے تیار کیا تھا – ہر ایک تعلقہ کے کسانوں نے مشترکہ طور پر یہ اناج اکٹھا کیے تھے۔
سونالے کے میدان میں پہنچنے سے چند سو میٹر پہلے، شاہراہ پر موجود ایک ڈھابہ نے پیاسے کسانوں کو پانی پلایا – ڈھابہ کے چار ملازم پانی کے جگ اور گلاس کے ساتھ وہاں کھڑے تھے، خالی ہونے پر ان جگوں کو پاس میں رکھے پانی کے ایک ڈرم سے فوراً دوبارہ بھر لیا جاتا تھا۔
ریلی کو نکلے ہوئے پانچ دن ہو چکے تھے، اور یہ کسان جنوبی ممبئی کی اپنی منزل سے اب بھی ۵۵ کلومیٹر دور تھے۔
مراٹھواڑہ کے پربھنی ضلع کے سُر پِمپری گاؤں کے تقریباً ۴۵ سالہ کسان، بابر نے ۵ مارچ کو پربھنی ٹاؤن سے ناسک کے لیے ایک ٹرین پکڑی تھی، اور تبھی سے وہ سفر میں تھے۔ ’’میرے پاس اور کیا راستہ بچا تھا؟‘‘ انھوں نے سوال کیا۔ ’’گلابی رنگ کے کیڑے نے میرے پانچ ایکڑ کھیت میں لگی کپاس کو پوری طرح نقصان پہنچایا تھا۔ یہ [وہ کپاس جس کی فصل کاٹی جانی تھی] تقریباً ۶۰ کوئنٹل تھی۔ اگر آپ ہر ایک کوئنٹل کپاس کی قیمت کم از کم ۴ ہزار روپے بھی لگائیں، تو مجھے تقریباً ڈھائی لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔‘‘ اس کیڑے نے پربھنی اور وِدربھ کے کپاس کے بیلٹ پر نومبر ۲۰۱۷ میں حملہ کیا تھا، ٹھیک اس وقت جب کپاس کی فصل کو کاٹنے کا وقت ہوتا ہے۔
بابر ٹماٹر کی بھی کھیتی کرتے ہیں۔ ’’میں تاجروں کے سامنے گڑ گڑا رہا ہوں کہ وہ ۱ روپیہ فی کلو کے حساب سے فصل کو خرید لیں، لیکن وہ خریدنا نہیں چاہتے [کیوں کہ ٹماٹر کی قیمت اتنی تیزی سے نیچے گری ہے، کہ اب اسے کم سے کم قیمت پر بھی بیچنا ممکن نہیں ہے]،‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’سرکار کو ہمارے مطالبات پر غور کرنا ہے، جس میں شامل ہے ان لوگوں کو معاوضہ دینا جنہیں کپاس کے کیڑے اور آندھی طوفان کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے [ریاستی حکومت کا اندازہ ہے کہ مہاراشٹر میں آندھی طوفان سے ۲۶۲،۰۰۰ ہیکٹیئر کو نقصان پہنچا ہے؛ ان میں سے ۹۸،۵۰۰ ہیکٹیئر مراٹھواڑہ میں ہیں، اور ۱۳۲،۰۰۰ وِدربھ کے امراوتی ضلع میں ہیں]، کم از کم امدادی قیمت پیداواری لاگت کا ڈیڑھ گنا، مکمل طور پر قرض معافی، اور جنگلاتی حقوق قانون (فاریسٹ رائٹس ایکٹ) کا نفاذ تاکہ آدیواسی کسان اپنی زمینوں کا مالکانہ حق حاصل کر سکیں۔‘‘
۱۱ مارچ کو تھانے شہر میں ناشتہ کرنے کے بعد صبح ۱۱ بجے سے چلنا شروع کرنے کے بعد (پچھلے دن وہ ۴۰ کلومیٹر کی دوری پیدل طے کر چکے تھے)، یہ کسان ۱۱ مارچ کو ہی رات کے تقریباً ۹ بجے ممبئی کے چونا بھٹی علاقہ کے کے جے سومیا گراؤنڈ پہنچے تھے۔ یہاں، انھوں نے رات میں کیمپ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لہٰذا بابر نے سوچا کہ اس دن کا کام اب پورا ہو چکا ہے۔ ’’صبح سے ہی میرے پیروں میں اینٹھن ہو رہی تھی،‘‘ انھوں نے بتایا، جس وقت احتجاجی گراؤنڈ میں جمع ہو رہے تھے، جہاں متعدد سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے لمبی لمبی تقریریں کیں، جس کی وجہ سے تھکے ہوئے کسانوں کو رات کا کھانا کھانے میں دیری ہوئی۔ ’’کل آخری پڑاؤ ہے،‘‘ انھوں نے کہا۔
تاہم، ۱۲ مارچ کو ممبئی میں سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ (ایس ایس سی) طلبہ کو اپنا امتحان دینا تھا۔ کسان سبھا کے لیڈروں نے اس پر چرچہ کی، اور رات میں تقریباً ساڑھے ۱۱ بجے فیصلہ کیا کہ آدھی رات کے بعد پیدل مارچ کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، تاکہ مارچ سے اگلے دن ٹریفک اور طلبہ کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ بابر ایک کمبل پر لیٹے ہی تھے، لیکن ان کے آرام کے وقت کو گھٹا دیا گیا – انھوں نے ایک گھنٹہ تک تھوڑی سی نیند لی، پھر اپنے کمبل کو لپیٹا، اسے اپنے کندھے پر لٹکائے جانے والے تھیلے میں ڈالا، اور آدھی رات کو ۱ بجے دوبارہ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔
اپنی پریشانی میں بھی ان کسانوں نے ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، تھکا ہوا ہونے کے باوجود آزاد میدان کی طرف کوچ کرنے لگے، اور وہاں صبح کے ۵ بجے پہنچ گئے۔ لہٰذا وکھرولی میں تقریباً ۳ بجے شام کو تھوڑا سا وقفہ لینے، اور رات کے کھانے کے لیے ڈیڑھ گھنٹہ تک رکنے اور کے جے سومیا گراؤنڈ میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے علاوہ – وہ جنوبی ممبئی پہنچنے سے پہلے ۱۸ گھنٹے میں سے ۱۴-۱۵ گھنٹے لگاتار چلتے رہے۔
ممبئی میں راستے بھر، ان کسانوں کا شہر کی طرف سے زوردار استقبال کیا گیا – افراد، رہائشی تنظیمیں، مذہبی گروپ اور سیاسی پارٹیاں ایسٹرن ایکسپریس ہائی وے اور شہر کے مزید اندر متعدد مقامات پر قطار لگا کر انھیں پانی پلاتے رہے، بسکٹ اور کیلے کھلاتے رہے۔
سومیا گراؤنڈ میں، آدھی رات سے ٹھیک پہلے میری ملاقات ۶۵ سالہ کملا بائی گایکواڑ سے بھی ہوئی، جب وہ درد بھگانے والی دوا تقسیم کرنے والی گاڑی کے پاس پہنچی تھیں۔ ’’اسے جاری رکھنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے،‘‘ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ وہ ناسک کے ڈِنڈوری گاؤں سے ننگے پیر چل کر آئی تھیں۔ اگلے دن جب میں نے انھیں دیکھا، تو وہ چپل پہنے ہوئی تھیں، جو کہ ان کے پیروں سے کچھ زیادہ ہی بڑی تھی، لیکن پھر بھی آبلے والی گرمی میں اس سے پیروں کو کچھ تو راحت ملی۔ ’’کسی نے آج صبح مجھے یہ دیا،‘‘ انھوں نے کہا۔
مارچ جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا زیادہ سے زیادہ کسان اس میں شامل ہوتے رہے – دہانو سے، مراٹھواڑہ، شاہپور اور دیگر مقامات سے – اس میں ناسک ضلع کے آدیواسی کسانوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، جنہوں نے ۶ مارچ کو چلنا شروع کیا تھا۔ ان کے بنیادی مطالبات ہیں زمین کا مالکانہ حق اور سینچائی کی سہولت۔
اپنی عمر کے ۵۰ ویں سال میں چل رہیں، سندھو بائی پلوے نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انھیں زمین کا مالکانہ حق دیا جائے۔ ’’ہم اپنی زمین پر پسینہ بہاتے ہیں اور ایک دن کوئی دوسرا اسے ہم سے چھین سکتا ہے،‘‘ انھوں نے کہا۔ سندھو بائی، جن کا تعلق کول مہادیو آدیواسی برادری سے ہے، سُرگانا تعلقہ کی کروڈ بستی سے یہاں آئی تھیں۔ ’’ہمیں وہ کیوں نہیں مل سکتا، جو کہ ہمارا ہے؟‘‘ انھوں نے سوال کیا۔ ’’اس کے علاوہ [نار-پار اور دمن گنگا-پِنجل] ندی پروجیکٹ سُرگانا کی زمین کو ڈبو دے گا [اور آدیواسی کسانوں کو اُجاڑ دے گا]۔‘‘
سندھو بائی، جن سے میری ملاقات سب سے پہلے بھیونڈی میں ہوئی اور اس کے بعد آزاد میدان میں، مارچ میں شامل دیگر کسانوں کی طرح ہی، پھٹے ہوئے اور آبلوں والے پیر کے ساتھ چل رہی تھیں، اور ہر رات کو اس پر مرہم لگا لیتیں، جسے انھیں مارچ کے ساتھ چلنے والی ایک ایمبولینس نے دیا تھا۔ ’’میرے پاس تین ایکڑ کھیت ہے، جس پر میں چاول کی کھیتی کرتی ہوں،‘‘ پسینے میں شرابور انھوں نے بتایا۔ ’’لیکن ہمارے پاس وافر مقدار میں پانی نہیں ہے۔ ہم پوری طرح مانسون پر بھروسہ کرکے زندگی نہیں گزار سکتے۔‘‘
یہ مورچہ جب آزاد میدان پہنچا، تو لال جھنڈوں اور ٹوپیوں کے سمندر کے درمیان، ٹیلی ویژن چینلوں اور اخباروں کے متعدد صحافیوں نے کسانوں سے بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ کسان اتنے تھکے ہوئے تھے کہ ان میں سے بہت سے کسانوں نے بات کرنے سے منع کر دیا، اور گزارش کی کہ انھیں اکیلا چھوڑ دیا جائے، تاکہ وہ اسٹیج پر موجود سی پی آئی (ایم) لیڈروں کی تقریریں سن سکیں۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ، دیوندر پھڑنویس نے ۱۲ مارچ کی شام کو کہا کہ سرکار کسانوں کے تئیں ’’حساس‘‘ ہے، اور ان کی تشویشوں کے حل والا تحریری مسودہ دو مہینوں کے اندر دے گی۔ تب پھڑنویس سے ملاقات کرنے والے کسان لیڈروں کے وفد نے وِدھان سبھا کی عمارت کو گھیرنے کے پلان کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھڑنویس کے ذریعہ تحریری یقین دہانی کرانے اور اسمبلی میں اسے پیش کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد، ریاستی حکومت سے بات چیت کرنے والے کسان لیڈروں نے احتجاج روک دیا۔ (دیکھیں مارچ کے بعد نتیجہ... )
مارچ کی کامیابی صرف سرکار کے اعلان سے ہی ظاہر نہیں تھی۔ اس کے تین وزراء کسانوں کو یہ بتانے کے لیے آزاد میدان پہنچے کہ ان کی تین بڑی مانگیں مان لی گئی ہیں: مہاراشٹر میں ردّ کی جا چکی قرض معافی، اس کی طے شدہ میعاد میں تبدیلی، اور آدیواسی کسانوں کو جنگل کی زمین سے متعلق حقوق۔ سرکار نے انھیں فوراً نافذ کرنے کے لیے کابینہ کی چھ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی اور کہا کہ دیگر مطالبات پر بھی غور کیا جائے، جیسے کہ قیمت، کسانوں اور مزدوروں کے لیے طبی سہولیات، وغیرہ وغیرہ۔
مارچ کو منسوخ کرنے کا جب اعلان ہوا، تو سندھو بائی نے صرف یہ کہا، ’’ہم اپنے لیڈروں پر بھروسہ کرتے ہیں،‘‘ اور دو ٹرینوں میں سے ایک کو پکڑنے چل پڑیں جس کا انتظام سنٹرل ریلویز نے سی ایس ایم ٹی سے بھواسل تک کے لیے اُس رات کیا تھا۔ ’’ہم دیکھیں گے کہ سرکار اپنے وعدوں کو پورا کرتی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں کرتی ہے، تو ہم دوبارہ مارچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)