بی کسٹا طویل عرصے سے پھلوں کی کھیتی میں اپنی قسمت آزمانا چاہتے تھے۔ ’’زرعی مزدوری کرکے میں اپنا قرض کسی بھی طرح نہیں واپس کر سکتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ پچھلے سال، انہوں نے قدم بڑھایا – اور چار ایکڑ زمین پٹّہ پر لی۔ ’’میں نے ۲۰ ہزار روپے فی ایکڑ [سالانہ] کے حساب سے چار ایکڑ کے پیسے ادا کیے،‘‘ کسٹا کہتے ہیں، جو بوڈیگنی ڈوڈّی گاؤں میں رہتے ہیں۔ ’’میں نے اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی کے لیے گزشتہ تین برسوں میں لیے گئے قرض کو چکانے کی امید کرتے ہوئے کھیتی شروع کی تھی۔‘‘
لیکن مارچ کے آخر میں لاک ڈاؤن شروع ہونے سے کچھ ہفتے پہلے، انہوں نے اننت پور ضلع کے بُکّارائے سمُدرم منڈل کے اپنے گاؤں اور دیگر گاؤوں میں تیز ہواؤں اور خراب موسم کے سبب اپنی زمین پر کیلے (اور ساتھ ہی تربوز) کے ۵۰ ٹن کا تقریباً آدھا حصہ کھو دیا۔ پھل فروخت کرکے انہوں نے مشکل سے ایک لاکھ روپے واپس حاصل کیے – اور انہیں تقریباً ۴ لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ اپنے پچھلے قرضوں کی ادائیگی کرنے میں کامیاب ہونے کے بجائے، ان کے اوپر ساہو کاروں کی جو ۳ء۵ لاکھ روپے کی بقایا رقم تھی، وہ بڑھ کر ۷ء۵ لاکھ روپے ہو گئی۔
اننت پور کے کسانوں کو ۲۰۱۹ میں اچھے مانسون سے منافع ہوا تھا۔ کسٹا کی طرح، وہ اس سال ربیع کی بہتر فصل ہونے کے سبب اچھی کمائی کی امید کر رہے تھے۔ کیلے کے کسانوں کو اندازہ تھا کہ انہیں اس کی قیمت ۸ ہزار روپے فی ٹن ملے گی۔
پھر ۲۵ مارچ کو – ربیع سیزن کے آخر میں، لاک ڈاؤن آ گیا۔ بازار کی غیر یقینی صورتحال کے سبب تاجر پیداوار کو خریدنے سے ہچکچانے لگے۔ کھیتی کرنے والوں پر برا اثر پڑ رہا ہے – ربیع سیزن کے دوران اپریل تک ہر دو ہفتے میں کیلے کی کٹائی کی جاتی ہے، اور ہر ایک دور متاثر ہوا تھا۔
جن لوگوں کو نقصان ہوا ہے، ان میں بُکّا رائے سمُدرم گاؤں کے جی سبرامنیم بھی ہیں۔ انہوں نے ۳ء۵ ایکڑ میں کیلے لگائے تھے، جس پر انہیں تقریباً ۳ء۵ لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے تھے۔ اپریل میں، انہوں نے جو ۷۰ ٹن کی فصل کاٹی، اسے انہوں نے صرف ۱۵۰۰ روپے فی ٹن کے حساب سے تھوک میں ان تاجروں کو بیچا، جو گاؤں میں آئے تھے۔ اس مہینے، ۸-۹ ٹن کیلے صرف ۵۰۰۰ روپے میں خرید کر ٹرک پر لادے جا رہے تھے – جو کہ کسانوں کے ذریعے فی ٹن کی متوقع قیمت سے ۳۰۰۰ روپے کم تھی۔
’’ہیلتھ ایمرجنسی [کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن] کے دوران، اگر سرکار نے پھل کی خرید کی ہوتی، تو کھیتوں میں برباد ہونے کے لیے چھوڑی گئی فصل کے بجائے لوگوں کو غذائی کھانا فراہم کیا جا سکتا تھا۔ کسانوں کو کچھ وقت بعد بھی پیسہ دیا جا سکتا تھا،‘‘ سبرامنیم کہتے ہیں۔
رپٹاڈو منڈل کے گونڈی ریڈی پلّے گاؤں کے سی رام موہن ریڈی، جنہوں نے اپنی سات ایکڑ زمین میں سے تین ایکڑ پر کیلے لگائے تھے، کہتے ہیں کہ تاجر ۱۵۰۰ روپے ٹن بھی خریدنے سے ہچکچا رہے تھے، کیوں کہ وہ اس پیداوار کو بازار میں پہنچانے کو لیکر غیریقینی صورتحال کے شکار تھے۔ عام طور پر، کیلے کو ۱۱۰۰۰ سے ۱۲۰۰۰ روپے فی ٹن بیچا جاتا ہے۔ ۳۱ جنوری کو یہ پھل ۱۴۰۰۰ روپے فی ٹن فروخت ہو رہا تھا، جب ریاست کے وزیر زراعت، کُراسل کنّن بابو نے ایران کو برآمد کرنے کے لیے مقامی سطح پر اگائے گئے ۹۸۰ میٹرک ٹن کیلے سے بھری ’فروٹ ٹرین‘ کو ہری جھنڈی دکھاکر تاڑپتری شہر سے ممبئی کے لیے روانہ کیا تھا، ایسا رپورٹوں میں کہا گیا تھا۔
خشک رائل سیما علاقہ کے اننت پور ضلع میں ۱۱ء۳۶ لاکھ ہیکٹیئر کے قابل کاشت علاقے میں، پھل والی فصلیں تقریباً ۱۵۸۰۰۰ ہیکٹیئر میں اگائی جاتی ہیں، اور سبزیاں ۳۴۰۰۰ ہیکٹیئر میں۔ باغبانی محکمہ کے ضلع ڈپٹی ڈائرکٹر بی ایس سُبّا رایوڈو نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلع کی کل ۵۸ لاکھ میٹرک ٹن سالانہ باغبانی پیداوار ۱۰ ہزار کروڑ روپے کی ہے۔
سُبّا رایوڈو اس بات سے غیر متفق ہیں کہ لاک ڈاؤن کے سبب قیمت میں گراوٹ آئی ہے، اور کہتے ہیں کہ اس وقت ہر سال [۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے مہینے]، کیلے کی قیمت تقریباً ۸-۱۱ روپے فی کلو سے گھٹ کر ۳-۵ روپے فی کلو ہو جاتی ہے۔ اپریل ۲۰۱۴ میں، وہ کہتے ہیں، یہ پھل ۲ روپے فی کلو بھی فروخت نہیں ہوا تھا۔ ’’پیداوار ۲۰ ٹن فی ایکڑ سے بڑھ کر ۴۰-۴۵ ٹن ہو گئی ہے۔ کسانوں کو بہتر قیمت پانے کے لیے اپنی پیداوار اے پی ایم سی [زرعی پیداوار مارکیٹنگ کمیٹی] بازار میں فروخت کرنی چاہیے، نہ کہ اپنے کھیتوں سے [تاجروں کو]،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اس طرح، انہیں بہتر قیمت مل جائے گی۔‘‘
حالانکہ، کسانوں کا کہنا ہے کہ قیمتیں عام طور پر اتنی نہیں گرتیں جتنی کہ سُبّا رایوڈو دعویٰ کر رہے ہیں – اور وہ اس سال اپریل میں کیلے کی قیمت ۸ سے ۱۱ روپے کلو ہی رہنے کی امید کر رہے تھے۔
ٹی آدی نارائن (اوپر کے کور فوٹو میں)، جنہوں نے بُکّا رائے سمدرم منڈل کے بوڈیگنی ڈوڈّی گاؤں میں چھ ایکڑ میں کیلے کی کھیتی کی، کہتے ہیں، ’’لیکن، لاک ڈاؤن کے سبب کیلے مشکل سے ۲ روپے کلو فروخت ہوئے تھے۔ مجھے بینکوں سے پیسے نہیں ملتے کیوں کہ میں ایک بٹائی دار کسان ہوں اور میں نے فصل پر ۴ء۸۰ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی...‘‘
اسی منڈل کے ریڈّی پلّی گاؤں کے سی لنگا ریڈّی، جنہوں نے اپنے پانچ ایکڑ کھیت میں کیلے لگائے تھے، کہتے ہیں کہ انہیں اپنے ذریعے خرچ کیے گئے ۱۰ لاکھ روپے میں سے مشکل سے ۲ء۵۰ لاکھ روپے واپس ملے ہیں۔ انہوں نے بینک سے، کھاد کی دکانوں اور دیگر سے قرض لیا ہے۔ ’’اگر لاک ڈاؤن نہیں ہوتا، تو میں نے ۱۵ لاکھ روپے کمائے ہوتے۔ میں نے معاوضے کے لیے درخواست دی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
یہاں کے کارکنوں اور کسانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اننت پور کے کئی گاؤوں میں کاٹی گئی سبھی فصلوں کی تفصیل جمع کر لی ہے۔ مقامی بازار کمیٹی نے معاوضہ کا انتظام کرنے کے لیے کسانوں کے پاس بک کی فوٹو کاپیاں جمع کی ہیں۔ لیکن، کسانوں کا کہنا ہے کہ سرکار نے ابھی تک اس بارے میں مزید جانکاری طلب نہیں کی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں آگے کوئی قدم اٹھایا ہے۔
’’افسروں کے پاس منصوبے کی کمی تھی اور وہ ضد کر رہے تھے کہ ہم انہیں ایسے کسانوں کے انفرادی معاملہ کے بارے میں مطلع کریں جو اپنی فصل فروخت نہیں کر سکتے، جب کہ پورا گاؤں پریشان ہے۔ جس eNam سسٹم کی کافی تشہیر کی گئی تھی، وہ بھی کسانوں کا کوئی بھلا نہیں کر سکی،‘‘ اکھل بھارتیہ کسان سبھا، اننت پور کے ضلع سکریٹری، آر چندر شیکھر ریڈی کہتے ہیں۔ (آندھرا پردیش میں اپریل ۲۰۱۶ میں شروع ہوا eNam سسٹم، کسانوں اور تاجروں کو سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو آن لائن بیچنے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن میں غیر یقینی صورتحال کے سبب، تاجر بولی لگانے سے دور رہے۔)
کسٹا کہتے ہیں کہ افسروں نے ان سے ابھی تک ان کے نقصان کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی ہے۔ ’’میرے پاس ٹیننسی کارڈ نہیں ہے اور رایتو بھروسہ [کسانوں کے لیے آندھرا حکومت کی سبسڈی اسکیم] کی رقم زمین کے مالک کو چلی گئی۔ مجھے شک ہے کہ وہ مجھے کوئی معاوضہ دے گا، اگر سرکار نے اسے بھیجا ہے، حالانکہ اس نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
کسٹا کو اب اپنی بقیہ فصل کی دیکھ بھال کرنے کے لیے نجی ساہوکاروں سے مزید قرض لینا ہوگا - کم از کم ایک لاکھ روپے، ۲۴ فیصد سالانہ شرح سود پر۔ ’’کیلے کی کھیتی تین سال سے ہو رہی ہے۔ اس لیے ابھی، میں کھیتی جاری رکھ رہا ہوں...‘‘ وہ کہتے ہیں، اس امید میں کہ اگلی فصل سے انہیں اچھا پیسہ ملے گا۔
مترجم: محمد قمر تبریز