ایک وقت تھا، جب وہ سلطان کا عکس یا یوں کہیں کہ سایہ کی طرح اس کا ساتھی، معاون، صلاح کار یا رہنما تھا۔ ان کے پیار و محبت اور کھانے پینے کی کہانیاں ایک جیسی تھیں۔ اس کی موجودگی دربار کے ماحول میں جان ڈال دیتی تھی۔ اس نے غلط کیا کیا آخر؟ جو ہوا وہ سب آخر ہوا کب؟ جیل کی سیاہ کوٹھری میں بند وِدوشک، سلطان کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات میں اچانک آئے المناک موڑ کے بارے میں بار بار سوچتا رہا کہ سلطان کی اس سے ناراضگی کی وجہ آخر کیا تھی؟ کیا اسے اس بابت کم از کم ایک وضاحت بھی نہیں ملنی چاہیے؟ کیا ان میں ایک دوسرے کو لے کر اتنی تلخی تھی؟ اتنے عجیب طریقے سے اپنے نصیب کے پلٹنے کے واقعہ پر اس کو ہنسی بھی نہیں آئی۔
لیکن راجدھانی میں چیزیں بڑے ڈرامائی انداز سے بدل گئی تھیں۔ افلاطون کا جمہوریہ ہو، اوشینیا ہو، یا پھر ہو وہ ہندوستان، اس بات سے ذرا بھی فرق نہیں پڑنا تھا۔ جو بات معنی رکھتی تھی، وہ تھا سلطان کا شاہی فرمان، جس نے یہ حکم نامہ جاری کر دیا تھا کہ ٹھیک اسی وقت سے ہر کہیں سے، ہر چہرے، سلطنت کے ہر کونے سے ہنسی کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ اسے غائب کر دیا جائے۔ طنز، مذاق، ہنسی، چٹکلے، سٹکام، کارٹون اور پیروڈی، یہاں تک کہ لمرک اور الفاظ کے مزاحیہ کھیل پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔
ریاست کے موڈ کی تاریخ اور اس کے پیمانے پر کھرا اترنے والے لیڈروں کی سوانح کے علاوہ، صرف وہ رزمیہ داستانیں (مستند اور ہنسی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والی پولیس کے ذریعے تصدیق شدہ) مطلوب تھیں، جن میں اس کے اقدار کی پاسداری کرنے والے دیوتاؤں کی مدح سرائی تھی اور جن میں ایسی محب وطن ہستیوں کی تعریف تھی، جنہیں انتظامیہ نے منظوری دی ہوئی تھی۔ کسی بھی چیز کو، جو انسان کے اندر کسی بھی قسم کا اُبال لائے، اس کی فہم و تفہیم کو متاثر کرے یا لوگوں میں جوش بھر دے، کو بخشا نہیں گیا تھا۔ ہنسی صرف ان کے نصیب میں آئی تھی، جن کے لیے اس کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ ہنسی کو دربار سے، پارلیمنٹ سے، تھیٹروں سے، کتابوں سے، ٹیلی ویژن سے، تصاویر سے، بچوں کے معصوم چہروں سے مٹا دیا جانا تھا۔
مکمل بکواس
اندھیرا
آگ کی تیزی سے پھیلتا ہے گاؤں میں
لوگ ڈرتے ہیں جیسے بوکھلایا
ہوا سانڈ گھُس آیا ہو
ایک ڈری ہوئی ماں فون کرتی ہے
ڈاکٹر کو
’’میرے بیٹے پر سایہ ہے
کسی شیطانی بد روح کا۔‘‘
اچانک گڑگڑانے لگتے ہیں بادل
ڈاکٹر کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے
’’دراڑ پڑ گئی ہے اس کے
ہونٹوں پر
تنی ہوئی ہیں اس کے چہرے کی
رگیں
اس کے منہ سے جھانکتے ہوئے
دانت
جیسے چمک رہے ہوں چنبیلی کے
پھول کی طرح‘‘
کانپنے لگتا ہے گھبرائے
ڈاکٹر کا جسم
وہ کہتا ہے
’’جاؤ، اُس پولیس کے پاس
جاؤ
جو ہنسی کو کٹہرے میں کھڑاکرتی
ہے
لگنے دو خبر راجا کو‘‘
ماں سہم جاتی ہے
اس کی پتھرائی آنکھوں سے آنسو
بہنے لگتے ہیں
اے مصیبت کی ماری ماں!
روکو نہیں، بہنے دو آنسوؤں کو
وہ ظلم عجیب، وہ آفت بے لگام
نگل رہا ہے تمہارے بیٹے کو بھی
کبھی کبھی بس رو پانا بہتر
ہوتا ہے
اس کے آنگن میں رات مزید
گہری ہو گئی ہے
گیسوں کے بادل سے پیدا ہوتے
ہیں تارے
اور ختم ہو جاتے ہیں سپرنووا
دھماکہ کے بعد
لمبے چوڑے بسترپر سینے کے بل
پڑا راجا
خوابوں کی دنیا کی سیر کر رہا
ہے
اسے بتایا جاتا ہے-
’گاؤں میں دیکھی گئی ہنسی
ایک بچے کے چہرے پر‘
اچانک جیسے گرجنے لگتے ہیں
بادل
زمین کانپنے لگتی ہے
راجا نیند سے بیدار ہو جاتا ہے
(سلطان کا رحم و کرم، رحم
و کرم کی سلطنت)
رنجیدہ آواز میں وہ کہتاہے-
’’کون سی بد دعا لگ گئی
ہے میرے ملک کو؟‘‘
(سلطان کا رحم و کرم، رحم
و کرم کی سلطنت)
نیام میں پڑی اس کی تلوار
چمکنے لگتی ہے
راجا سوچتا ہے
ملک کی بھلائی کے لیے
اسے کرنے ہوں گے قتل
مٹا دینا ہوگا چہروں سے ہنسی
کا سراغ
چڑھا دینا ہوگا اسے تلوار کی
دھار پر
(سلطان کا یہ رحم و کرم،
رحم و کرم کی یہ سلطنت)
ماں کی ایک آنکھ میں
چمکتی ہے تلوار
دوسری میں جھلملاتا ہے بیٹے کی
ہنسی کا منظر
جسم پر تلوار کے وار کی شناسا
آواز
دکھ کی جانی پہچانی اُداس آواز
سلطان کی مدح سرائی
صبح کے سنہرے آسمان کے نیچے
ہوا کے رگ رگ میں
جذب ہو جاتی ہیں یہ ساری
آوازیں
سورج نمودار ہوتا ہے
جیسے اٹھتا ہے کوئی بچہ
جس کے ہونٹ پھٹے ہوئے ہیں
جس کے چہرے کی رگوں میں شکن پڑ
گیا ہے
جس کے دانت باہر جھانک رہے ہیں
کیا یہی ہنسی کی چمک ہے؟
اتنی مدھم پھر بھی روشن
اتنی مختصر پھر بھی واضح
جسے وہ اس چہرے پر دیکھتی ہے؟
لفظ و معنی
وِدوشک : سنسکرت کے ڈراموں میں وِدوشک ایک مزاحیہ کردار ہوتا تھا۔ وہ عام طور سے ہیرو کا دوست ہوتا تھا اور اپنی شکل و صورت، پوشاک، بات چیت وغیرہ سے ناظرین کی تفریح کرتا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز