’’بندر کی پھیری لاؤ، بندر کی پھیری لاؤ...‘‘
راجستھان کے سِروہی ضلع کے قصبہ، شیو گنج کی گلیوں میں سائیکل چلاتے ہوئے جھوجارام دھرمی جی سنت یہی پکارتے ہیں۔ ’’لوگ ہمیشہ کچھ بچا ہوا کھانا، جیسے روٹی اور کچی پکی سبزیاں بڑی آسانی سے دے دیتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اور جب میں چھ سات گلیوں سے [کھانا] جمع کر لیتا ہوں، تو میری ایک بوری بھر جاتی ہے۔‘‘ وہ ایک پلاسٹک کی بوری استعمال کرتے ہیں، جس میں ۱۵-۲۰ کلو (وزن) آ جاتا ہے۔
جھوجارام سال کے آٹھ مہینے، ہر صبح ساڑھے آٹھ بجے سے بندروں کے لیے کھانا جمع کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ جب بوری بھر جاتی ہے، تو وہ سائیکل چھوڑ موپیڈ سے آٹھ کلومیٹر دور گنگیشور مہادیو مندر جاتے ہیں، جو قومی شاہراہ ۶۲ پر سِروہی تحصیل کے پالڈی گاؤں کے جنوب مشرق میں، پہاڑیوں سے گھرا ہوا ایک چھوٹا سا مندر ہے۔
وہ صبح ۱۱ بجے تک مندر پہنچ جاتے ہیں اور بندروں کو بلاتے ہوئے ’’آؤ آؤ‘‘ پکارتے ہیں۔ اچانک جیسے جادو سے، ۲۰۰-۳۰۰ لنگور فوراً آ جاتے ہیں اور بالکل اچھے بچوں کی طرح دعوت کے انتظار میں انھیں تاکنے لگتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ ہوا میں روٹیاں پھینکتے ہیں، سارے طور طریقے غائب ہو جاتے ہیں۔ جانور اچھل کود کرتے ہوئے جو ہاتھ لگا، وہ چٹ کر جاتے ہیں اور باقی لنگور بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جھوجارام کے مطابق، وہ آدھے گھنٹے میں جنگل میں موجود سبھی ۷۰۰ بندروں کا پیٹ بھر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ گرمیوں میں آلو، بسکٹ، لوکی اور گاجر کھانا پسند کرتے ہیں، روٹی اور چیکو بھی۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ جب دوسرے لوگ بندروں کو کھلانے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں حملہ آور گھُڑکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’وہ باہری لوگوں سے ڈرتے ہیں – کئی بار لوگ پتھر مار کر انھیں زخمی کر دیتے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ انھیں چوٹ پہنچاتے ہیں، وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ پوچھتے ہیں۔
جھوجارام بندروں کو ہندو دیوتا، ہنومان کا روپ مانتے ہیں اور اپنے کام کو ’سیوا‘ کی طرح دیکھتے ہیں۔ ’’بندر ہمیشہ آتے ہیں، کیوں کہ یہ کام سالوں سے چل رہا ہے اور انھیں اس کی عادت پڑ گئی ہے۔ اگر کسی وجہ سے میں یہ کام کچھ دنوں تک نہیں کر پاتا، تو انھیں باہر آنے میں وقت لگتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
سِروہی ضلع کی پالڈی پنچایت کے قریب واقع اندروے گاؤں میں پیدا ہوئے جھوجارام عمر کی چالیسویں دہائی میں ہیں اور یہ کام پانچ سالوں سے کر رہے ہیں۔ ہنومان سیوا سنگھ نامی شیوگنج کے ایک مقامی گروپ کے ذریعے انھیں ۴۰۰۰ روپے ماہانہ ملتا ہے۔ ’’مجھے پیسے ضرور ملتے ہیں، لیکن میں یہ کام مزدور کی طرح نہیں، بلکہ خدمت کے نظریہ سے کرتا ہوں۔ پیسہ میرے بینک کھاتہ میں نہیں آتا، بلکہ اوپر بیٹھے مالک کے پاس میرے کھاتہ میں جاتا ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے۔ ان کا [بندروں کا] خوب آشیرواد ملتا ہے۔ ان کی خدمت کرنے سے خود مالک بھی ان کی سنے گا اور مجھے آشیرواد دے گا۔‘‘
جھوجارام ریباری ذات سے تعلق رکھتے ہیں (راجستھان میں اس ذات کو دیگر پس ماندہ طبقہ، او بی سی میں شامل کیا گیا ہے) اور وہ گلوکار بھی ہیں۔ ان کی فیملی پروگراموں میں بھجن گاتی ہے۔ ان کے دو بیٹے ہیں؛ پہلا ایک مقامی کپڑوں کی دکان میں کام کرتا ہے اور دوسرا ۵ویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ ان کی بیوی کبھی کبھی مزدوری کرتی ہیں اور گھر اور جھوجارام کی ماں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں، جو انہی کے ساتھ رہتی ہیں۔
ان چار مہینوں میں جب جھوجارام بندروں کو کھان کھلانے کا کام نہیں کرتے ہیں، وہ کبھی کبھی تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتے ہیں یا شیو گنج کی سڑکوں پر آئس کریم بیچتے ہیں۔ ’’میں اس سے مہینہ کے ۱۰۰۰ سے ۲۰۰۰ روپے اور کبھی کبھی کچھ نہیں کما پاتا ہوں اور میرا بیٹا (جو کپڑوں کی دکان پر کام کرتا ہے)، تقریباً ۴۰۰۰ روپے کما لیتا ہے۔ اگر کوئی کمی ہوئی، تو بھولے ناتھ (ہندو دیوتا، شیو) اس کی دیکھ بھال کریں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
شدید گرمی کے مہینوں میں جب بوجھ زیادہ ہوتا ہے، تو بندروں کو کھلانے کے کام میں جھوجارام کے ساتھ ہنومان سیوا سنگھ کے ذریعے مقرر کردہ ایک اور آدمی شامل ہوتا ہے۔ مانسون کے بعد، وہ دونوں یہ کام کچھ وقت کے لیے روک دیتے ہیں۔ ’’بارش کے بعد جنگل میں [بندروں کے لیے] بہت سارا کھانا آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔ پچھلے سال کا مانسون بہت اچھا تھا، یہ جگہ ہری بھری تھی،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
’’لیکن گرمی میں، جب پانی نہیں ہوتا ہے تو [بندروں کی] ساری ٹکڑیاں یہاں آتی ہیں۔ پانچ ٹکڑیاں ہیں اور سردیوں میں ان میں سے تین یہاں کھانے آتی ہیں۔ اور باقی اُس پہاڑی کے اوپر وہاں چلے جاتے ہیں‘‘، وہ ایک سلسلہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’مندر کے پاس گاؤوں ہیں، تو وہ وہاں چلے جاتے ہیں۔ سردیوں میں کئی بندر گاؤوں میں آ جاتے ہیں جہاں انھیں خوب کھانے کو ملتا ہے، کبھی کبھی تو کھڑی فصل بھی۔
’’گرمیوں میں، میں زیادہ کھانا لانے کی کوشش کرتا ہوں کیوں کہ ان کے کھانے کے لیے ادھر زیادہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔ گرمیوں میں دن بھی زیادہ لمبے ہوتے ہیں اور صبحیں بہت ٹھنڈی نہیں ہوتیں، تو میں زیادہ کھانا جمع کر پاتا ہوں کیوں کہ میرے پاس زیادہ وقت ہوتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’وہ ببول نہیں کھاتے کیوں کہ یہ کھانے لائق نہیں ہوتا ہے، لیکن وہ کبھی کبھی پپڑی (ببول کی بین جیسی پھلیاں) ضرور کھاتے ہیں۔ سردیوں میں بیر کا موسم ہوتا ہے، تو وہ اسے بھی کھاتے ہیں۔
جھوجارام بتاتے ہیں کہ انھوں نے پانچ سال پہلے بندروں کو کھلانے کا کام شروع کیا تھا۔ ’’اس سے پہلے میں ایک دکان پر کام کرتا تھا، جب کہ یہاں کوئی اور آدمی ان کو روزانہ کھلاتا تھا۔ بندروں کو کھانا کھلانا تقریباً ۵۰ سالوں سے چل رہا ہے۔ لوگ بدلتے رہتے ہیں، لیکن کام کبھی نہیں رکتا۔‘‘
جب پوچھا گیا کہ اگر وہ کچھ دن کام نہیں کر پاتے تو ان کی جگہ کون آتا ہے، تو وہ کہتے ہیں، ’’کوئی نہیں! دوسرے لوگ یہ کام نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ انھیں ڈر لگتا ہے کہ بندر چوٹ پہنچائیں گے۔ یہ جانور بھی نئے لوگوں کا بھروسہ نہیں کریں گے۔ دیکھو، تم لوگ [اسکول کے بچے] آئے اور وہ فوراً واپس چلے گئے۔‘‘
جھوجا رام بتاتے ہیں کہ وہ ایک کرانے کی دکان پر کام کرتے تھے جب ایک بار گرمیوں میں ان کے مالک نے بتایا کہ بندروں کو کھانا کھلانے کے لیے ایک آدمی کی ضرورت ہے، ورنہ وہ بھوکے مر جائیں گے اور ان کی روح پریشان ہوگی۔ انھوں نے مجھ سے کہا، ’’تم یہیں کام پر رہوگے لیکن پہلے بندروں کا پیٹ بھرنے کا کام کرو۔‘‘ پھر جھوجا رام نے اگلے چار سال یہی کیا اور جب تک دوسرا آدمی نہیں مل گیا اور وہ بندروں کو کھلانے کا کام نہیں چھوڑ سکتے تھے، دکان پر بھی کام کرتے رہے۔
دکان پر ۱۵ سال کام کرنے کے بعد، اپنے مالک سے اختلاف ہونے کی وجہ سے جھوجارام نے دو سال پہلے کام چھوڑ دیا۔ اور جب گرمیوں میں بندروں کو کھانا کھلانے کے لیے دوسرے آدمی کی ضرورت پڑی، تو وہ سامنے آئے اور تب سے یہ کام دوبارہ کر رہے ہیں۔
’’میں نے سنا ہے کہ شہروں میں لوگ درخت کاٹتے ہیں اور جانوروں کو چوٹ پہنچاتے ہیں۔ آپ نے بھی ضرور سنا ہوگا کہ لوگ بندروں پر پتھر پھینکتے ہیں۔ تو آپ کیا کرتے ہیں؟‘ وہ ہم سے سوال کرتے ہیں۔ ’’بڑے ہوں یا بچے، میں ان سے روٹی [کھانا] دینے کے لیے کہتا ہوں یا اگر آپ دینا نہیں چاہتے تو نہ دیں، لیکن براہِ کرم انھیں چوٹ نہ پہنچائیں یا انھیں پریشان نہ کریں۔ اپنے آس پاس کے جانوروں اور پرندوں کا خیال رکھیں؛ ہمیں دوسرے جانداروں کو چوٹ پہنچانے کا حق نہیں ہے۔‘‘
جھوجا رام کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک بار شیو گنج سے باہر جانے کے بارے میں سوچا تھا اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے چلے جائیں۔ ’’انھیں فیصلہ کرنا ہے کہ انھیں جانا ہے یا نہیں۔ مجھے پختہ طور پر معلوم ہے کہ میں شہر نہیں جانا چاہتا۔ مجھے اپنا کام اور یہ خدمت مل گئی ہے۔‘‘
ہم نے جھوجا رام کے ۱۹ سالہ بیٹے، دنیش کمار (جو کپڑے کی دکان پر کام کرتے ہیں) سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی اپنے والد کا کام کریں گے۔ ’’یہ ثواب کا کام ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اگر یہ میرے نصیب میں لکھا ہے تو میں بھی کروں گا۔‘‘
نامہ نگار، جھوجا رام دھرمی جی سنت کا وقت دینے، تحمل کا مظاہرہ کرنے اور پرجوش طریقے سے اپنی کہانی سنانے کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ میں اپنے ٹیچر، گنیش وینکٹ رمن کا بھی ان کی رہنمائی کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
آدمی اور سائیکل کا خاکہ: سرشٹی ویشنوی کمارن، طالبہ، کلاس ۱۰، شیبومی اسکول، بنگلورو
سبھی تصویریں: سدھ کیوڈیا اور گنیش وینکٹ رمن، شیبومی اسکول، بنگلورو
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)