ایک سہانی سی دوپہر میں اوشا شندے اپنے پوتے کو پیٹھ پر لادے ندی پار کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ ڈگمگاتی ہوئی کشتی امید سے کچھ زیادہ ہی ایک طرف کو جھک گئی اور اوشا اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائیں۔ بچے کے ساتھ جب وہ ندی میں گریں، تو انہیں ڈوب جانے کا ڈر ستانے لگا۔
یہ حادثہ اس سال مارچ میں اُس وقت ہوا، جب کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر پورے ملک میں تیزی سے پھیل رہی تھی۔ اوشا کے چار سالہ پوتے، شمبھو کو بخار تھا۔ ۶۵ سالہ اوشا کہتی ہیں، ’’مجھے اس بات کا ڈر ستا رہا تھا کہ اسے کہیں کورونا [وائرس] تو نہیں ہو گیا ہے۔ موسمی مزدوروں کے طور پر چینی مل میں کام کرنے والے اس کے ماں باپ تب مغربی مہاراشٹر میں تھے۔ اس لیے میں نے اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا فیصلہ کیا۔‘‘
لیکن اس کیلئے انہیں ایک عارضی کشتی کے سہارے گاؤں کے پاس بہتی ندی پار کرنی تھی۔ اوشا بتاتی ہیں، ’’میں نے اپنا توازن کھو دیا اور شمبھو کو لیکر ندی میں گر گئی۔ مجھے تیرنا نہیں آتا۔ خوش قسمتی سے اس وقت میرا بھتیجہ پاس ہی تھا۔ اس نے پانی میں چھلانگ لگائی اور ہمیں ندی سے باہر نکالنے میں مدد کی۔ میں ڈر گئی تھی، میں نہیں چاہتی تھی کہ میری وجہ سے میرے پوتے کو کچھ ہو جائے۔‘‘
اوشا کا گاؤں، سوتاڑہ مہاراشٹر کے بیڈ ضلع میں وِنچرنا ندی کے کنارے واقع ہے۔ شاندار رامیشور جھرنے کا پانی ۲۲۵ فٹ کی اونچائی سے ندی میں گرتا ہے۔ یہ جھرنا گاؤں سے ڈیڑھ کلومیٹر دور پٹودہ تعلقہ میں ہے۔ ندی سوتاڑہ گاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، نتیجتاً گاؤں کا ایک چھوٹا سا حصہ اہم حصے سے الگ ہو جاتا ہے۔ ندی پر پل نہ ہونے کی وجہ سے شندے بستی – جو سوتاڑہ گاؤں کا الگ حصہ ہے – کے لوگوں کو دکانوں و اسپتالوں سے لیکر ہر ایک چیز تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ندی پار کرنی پڑتی ہے۔
ندی پار کرنے کو آسان بنانے کیلئے، گاؤں والوں نے ندی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ایک موٹی رسّی باندھ دی ہے۔ یہ رسّی کشتیوں پر بنی لوہے کی ریلنگ کے بالکل بیچ سے گزرتی ہے اور بنا کشتی کے ادھر ادھر گئے ندی پار کرنے میں ان کی مدد کرتی ہے۔ تینوں کشتیاں پہاڑی سے کچھ نیچے، ندی کے کنارے پارک کی جاتی ہیں۔ سرسبز میدانوں اور پہاڑیوں سے گھری پرسکون ندی کا حسن اسے پار کرنے کے خطرے اور تناؤ کے درمیان مندمل ہونے لگتا ہے۔ ڈگمتاتی ہوئی کشتی پر سوار ہونے کے لیے، سب سے پہلے جسم کا توازن بناتے ہوئے چٹان پر چڑھنا ہوتا ہے اور پھر احتیاط سے کشتی پر پیر رکھنا ہوتا ہے، جو رسّی کو کھینچنے سے آگے بڑھتی ہے۔ کشتی کو ندی پار کرنے میں ۵-۷ منٹ کا وقت لگتا ہے۔
شندے بستی کے سرکاری پرائمری اسکول کے ٹیچر، ۴۶ سالہ بالا صاحب شندے کہتے ہیں، ’’ہم کئی سالوں سے ایک پُل کے لیے فریاد کر رہے ہیں۔ یہاں سے باہر نکلنے کا ایک اور راستہ ہے، لیکن وہ بہت لمبا ہے۔ وہ کھیتوں کے درمیان سے گزرتا ہے، لیکن کسان ہمیں اس راستے سے جانے نہیں دیتے۔ اس لیے ہم جب بھی کسی کام کیلئے یہاں سے باہر نکلتے ہیں، تو ہمیں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔‘‘
سوتاڑہ گاؤں کی تقریباً ۵۰۰ لوگوں کی آبادی والی شندے بستی کا ہر انسان اس محدود رسائی کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ خاص کر عورتوں اور بچوں کے لیے یہ سب سے مشکل رہا ہے۔ گاؤں میں ۱۰ ایکڑ زمین کی مالکن اور ۴۰ سالہ کسان، اندوبائی شندے بتاتی ہیں، ’’حاملہ عورتوں تک کو اسی ڈگمگاتی کشتی کے سہارے ندی پار کرنی پڑتی ہے۔ آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنا خطرناک اور جوکھم بھرا ہے؟ اکثر، حمل کے آخری دو مہینوں میں عورتوں کو ان کے مائکے بھیج دیا جاتا ہے۔ اور ہم نقل مکانی کرکے ندی کے اُس پار بھی نہیں جا سکتے کیوں کہ ہماری ساری زمینیں اِسی طرف ہیں۔‘‘
جب اندوبائی شندے کی ۲۲ سالہ بیٹی ریکھا حاملہ تھیں، تو ایمرجنسی کے خوف نے انہیں ندی کے اُس پار اپنی ماں کے پاس جانے سے روک دیا۔ اندوبائی کہتی ہیں، ’’بیٹیاں عام طور پر حمل کے دوران اپنے مائکے چلی جاتی ہیں۔ لیکن میں اپنی بیٹی کا خیال نہیں رکھ سکی، اور مجھے اس کی پشیمانی ہے۔ دردِ زہ ہونے پر، اگر ہم اسے وقت پر اسپتال نہیں لے جا پاتے تب کیا ہوتا؟ ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ بنیادی حفظانِ صحت تک رسائی کے لیے بھی ہمیں دو بار سوچنا پڑتا ہے۔‘‘
مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے شروع ہونے کے بعد گاؤں والوں کی یہ علیحدگی بڑی تشویش کا باعث بن گئی۔ بالا صاحب کہتے ہیں، ’’خوش قسمتی سے یہاں کووڈ کی وجہ سے کسی کی موت نہیں ہوئی ہے۔ ہم میں سے جب بھی کوئی بیمار پڑتا، تو ہم اس کا ٹیسٹ نہیں کروا پاتے تھے۔ پھر گاؤں کا ہی کوئی آدمی [ندی کے اُس پار] میڈیکل اسٹور جاتا اور پیراسیٹامول [کی ٹیبلیٹ] لیکر آتا تھا۔‘‘
پڑوس میں واقع لِمباگنیش گاؤں کے رہنے والے ڈاکٹر اور طبی کارکن، گنیش دھولے کورونا وائرس پھیلنے کے بعد دو بار شندے بستی گئے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’کئی لوگوں نے مجھ سے بدن درد، سر درد اور کووڈ کی دیگر علامتوں کی شکایت کی۔ میں نے ان علامتوں کی بنیاد پر ان کا علاج کیا۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان سے جو کچھ ہو سکتا تھا، انہوں نے کیا۔ ’’اس مسئلہ کا کوئی مستقل حل نکالنا ہوگا۔ سوتاڑہ گاؤں ٹیکہ کاری کے معاملے میں بھی بہت پیچھے ہے۔ کم از کم ۲۱ویں صدی میں تو ایسا کوئی گاؤں نہیں ہونا چاہیے، جہاں تک رسائی صرف عارضی کشتی کے سہارے ممکن ہو۔‘‘
فی الحال گاؤں والوں کو اِس پار سے اُس پار لانے لے جانے والی عارضی کشتیاں، طویل عرصے سے استعمال ہونے والی پرانی کشتیوں کے مقابلے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ان نئی کشتیوں کو ممبئی کے کچھ بہی خواہوں نے اس سال کے شروع میں بنایا تھا۔ اس میں لوہے کی ریلنگ اور ربڑ کے چھلّے لگے ہوئے ہیں۔ شندے بستی میں تین ایکڑ زمین کی مالکن، ۷۰ سالہ کسان وتسلا شندے بتاتی ہیں، ’’اس سے پہلے ہم ندی پار کرنے کے لیے ٹرک کے ٹائروں یا تھرماکول کی شیٹ کا استعمال کرتے تھے۔ ان کے سہارے ندی پار کرنا کہیں زیادہ خطرناک تھا اور ان کا توازن بنائے رکھنا بھی بیحد مشکل کام تھا۔ تھرماکول کی شیٹ کمزور ہوتی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ شندے بستی کے زیادہ تر بچے چوتھی کلاس سے آگے نہیں پڑھ پائے۔ اندوبائی بتاتی ہیں، ’’یہاں کے پرائمری اسکول میں صرف چوتھی کلاس تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ کوئی اس بات پر کیسے یقین کر سکتا ہے کہ ۱۰ سال کا بچہ ٹائر یا تھرماکول شیٹ کے سہارے ندی پار کر لے گا؟ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے کھیتوں پر کام کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، اس لیے ہم روزانہ تو اپنے بچوں کو اسکول نہیں چھوڑ سکتے؟‘‘
اندوبائی کو امید ہے کہ ربڑ کی ان نئی کشتیوں سے بچے ندی پار کرکے دوسری طرف واقع سیکنڈری اسکول جا سکیں گے۔ لیکن مانسون کے دنوں میں ندی کی بڑھی ہوئی آبی سطح کے سبب کسی کا بھی ندی پار کرنا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اندوبائی کہتی ہیں، ’’خوش قسمتی سے، ابھی تک کوئی ڈوبا نہیں ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ کبھی نہ کبھی ندی میں گرے ضرور ہیں۔‘‘
ان کشیتوں میں ایک بار میں ۴-۶ بالغ افراد سوار ہو سکتے ہیں۔ زیادہ وزن ہونے پر کشتی کے پلٹنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ ایسے حالات میں کسی کا خریداری کے لیے جانا دو دھاری تلوار پر چلنے سے کم نہیں ہے۔ لوگوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کئی بار ندی کے اُس پار جانے سے بچنے کے لیے اپنے پاس مناسب مقدار میں ضروری سامان جمع کرکے رکھ لیں۔ لیکن انہیں اس بات کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے کہ واپسی میں ان کے پاس اتنا ہی سامان ہو جس کا وزن کشتی برداشت کر سکے۔
لیکن گاؤں والے ہر بار توازن برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ وتسلا بتاتی ہیں، ’’میں خود دو چار بار بار دال، دودھ اور دیگر کیرانے کے سامانوں کے ساتھ ندی میں گر چکی ہوں۔ عمر کے اس پڑاؤ پر اب میں نے بازار جانا بند کر دیا ہے۔ گاؤں کی زیادہ تر عورتوں کو تیرنا نہیں آتا۔ اور عورتوں کے لیے ساڑی پہن کر کشتی چلانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے عورتیں اکثر گاؤں میں ہی رہتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایمرجنسی آ جائے تو پھر ہمارے گاؤں کا رہائشی ہونا بدقسمتی سے کم نہیں ہے۔‘‘
وتسلا مثال کے طور پر تقریباً ایک دہائی پہلے کی کہانی بیان کرتی ہیں: ان کی بہو جیجا بائی فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو گئی تھیں۔ انہیں جلد از جلد اسپتال لے جانے کی ضرورت تھی کیوں کہ ان کی حالت بگڑ رہی تھی۔ ’’لیکن وہ تھرماکول شیٹ پر چڑھ نہیں سکتی تھی۔ وہ بہت بیمار تھی اور ہمیں تب تک انتظار کرنا پڑا جب تک کہ وہ خود سے اس پر سوار نہیں ہو گئی۔ ندی پار کرنے میں اسے کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا۔‘‘
یہ دیری جان لیوا ثابت ہوئی – اسپتال پہنچنے کے کچھ وقت بعد ہی جیجا بائی کی موت ہو گئی۔ دھولے کہتے ہیں، ’’یہاں اس بات کا کوئی مطلب نہیں ہے کہ اگر وہ اسپتال تھوڑا پہلے پہنچ گئی ہوتی، تو اس کی جان بچ گئی ہوتی۔ کسی بھی رشتہ دار کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ان کی فیملی کا رکن اگر وقت رہتے اسپتال پہنچ گیا ہوتا تو اس کی جان بچ ہی جاتی۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ضلع انتظامیہ کو پورے معاملے سے واقف کرانے کی ان کی کوششوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
سوتاڑہ کے بقیہ علاقوں سے اس طرح کٹے ہونے کا برا اثر وہاں کے لڑکوں کی شادیوں پر بھی پڑا ہے۔ بالا صاحب کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنے لڑکوں کی شادی کرنے میں کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لڑکی والوں کو یہ فکر ستاتی ہے کہ ان کی بیٹیاں یہاں آکر پھنس جائیں گی۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی ہمارے یہاں نہیں کرنا چاہتے۔ یہاں تو ہمارے رشتہ دار بھی ہم سے ملنے کم ہی آتے ہیں۔‘‘
اسٹوری کی اس سیریز کو پوٹتزر سنٹر کی م دد حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز