’’اب جب کہ طوفان ختم ہو گیا ہے، ہمیں یہاں سے چلے جانے کو کہا گیا ہے،‘‘ کالیداس گاؤں کی رہنے والی امینہ بی بی نے مئی کے آخر میں مجھے بتایا تھا۔ ’’لیکن ہم کہاں جائیں؟‘‘
اُس طوفان سے ایک دن پہلے، امفن طوفان مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع میں امینہ کے گاؤں سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور زمین سے ٹکرایا تھا، تب مقامی اہلکاروں نے کئی گاؤوں سے کنبوں کو نکال کر انہیں راحت کیمپوں میں رکھا تھا۔ امینہ اور ان کی فیملی کو اس سال ۱۹ مئی کو، پڑوس کے ایک گاؤں میں بنے عارضی کمروں میں لے جایا گیا۔
اس سمندری طوفان نے سندربن میں واقع گوسابا بلاک میں، تقریباً ۵۸۰۰ لوگوں کی آبادی والے گاؤں میں امینہ کے مٹی سے بنے گھر کو اجاڑ دیا تھا۔ ان کا سارا سامان بھی بہہ گیا تھا۔ ۴۸ سالہ امینہ، ان کے شوہر، ۵۶ سالہ محمد رمضان مولّا اور ۲ سے ۱۶ سال کی عمر کے ان کے چھ بچے محفوظ رہنے میں کامیاب رہے۔
محمد رمضان سمندری طوفان آنے سے دو ہفتے قبل ہی گاؤں لوٹے تھے۔ وہ مہاراشٹر کے پونہ میں ایک مال میں صفائی کا کام کرتے تھے اور ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کماتے تھے۔ اس بار، انہوں نے گاؤں میں ہی ٹھہرنے اور پاس کے مولّا کھلی بازار میں چائے کی ایک دکان کھولنے کا ارادہ کیا تھا۔
امینہ اپنے گھر کا کام ختم کرنے کے بعد پاس کی گومور ندی سے کیکڑے اور مچھلیاں پکڑتیں اور فیملی کی آمدنی میں مدد کرتی تھیں۔ وہ انہیں بازار میں فروخت کرتی تھیں۔ ’’لیکن اس سے میں نے ایک دن میں ۱۰۰ روپے بھی نہیں کمائے،‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا تھا۔
ان کے سب سے بڑے بیٹے، رقیب علی نے ۲۰۱۸ میں اسکول چھوڑ دیا تھا، جب وہ ۱۴ سال کا تھا۔ ’’ابّا جو پیسے گھر بھیجتے ہیں، اس سے ہم گزارہ نہیں کر سکتے،‘‘ اس نے کہا۔ ’’اسی لیے میں کام کرنے لگا۔‘‘ رقیب کولکاتا میں سلائی کی ایک دکان میں معاون کے طور پر کام کرکے ۵ ہزار روپے ماہانہ کماتا تھا۔ کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران جب امفن طوفان آیا، تب وہ گھر پر ہی تھا۔
گھاس کی چھت کے ساتھ فیملی کا مٹی سے بنا گھر گومور ندی کے کنارے پر کھڑا تھا۔ یہاں آنے والے ہر ایک سمندری طوفان کے ساتھ – سدر (۲۰۰۷)، آئیلا (۲۰۰۹) اور بلبل (۲۰۱۹) – ندی ان کے گھر کے قریب آتی گئی اور دھیرے دھیرے ان کی پوری تین بیگھہ (ایک ایکڑ) زمین پانی میں ڈوب گئی، جس پر وہ سال میں ایک بار کچھ سبزیوں کے ساتھ دھان کی کھیتی کرتے تھے۔ جس وقت امفن آیا، ان کے پاس کوئی زمین نہیں بچی تھی۔
اس سال ۲۰ مئی کو امفن کے ذریعے ایک بار پھر گاؤں کے گھروں اور کھیتوں میں کیچڑ اور کھارا پانی بھرنے سے پہلے، امینہ کی فیملی کے ساتھ ساتھ کئی دیگر لوگوں کو بدیا دھری اور گومور ندیوں کے ٹوٹے باندھوں پر واقع چھوٹا مولّا کھلی گاؤں میں عارضی طور پر بسایا گیا تھا۔ ریاستی حکومت اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں نے ان کنبوں کو پکا ہوا کھانا اور پانی کے پاؤچ تقسیم کیے۔ عارضی کمروں میں بھیڑ تھی اور بجلی نہیں تھی، اور کووڈ- ۱۹ وبائی مرض کے وقت جسمانی دوری بنائے رکھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
’’وہ یہاں کب تک رہیں گے؟ ایک مہینہ، دو مہینے - پھر [وہ کہاں جائیں گے]؟‘‘ راحت کیمپ میں کھانا تقسیم کرنے والی مقامی تنظیم، سندربن ناگرک منچ کے سکریٹری، چندن میتی نے سوال کیا۔ ’’مردوں کو – یہاں تک کہ نوجوانوں کو بھی – معاش کی تلاش میں نکلنا ہوگا۔ جو لوگ ہجرت نہیں کر سکتے، وہ زندہ رہنے کے لیے مچھلی، کیکڑوں اور شہد، ندیوں اور جنگلات پر منحصر رہیں گے۔‘‘
گزشتہ دو دہائیوں میں، سندربن خطہ کے رہائشیوں نے اونچے مدوجزر، سیلاب اور سمندری طوفانوں کے ذریعے لائے گئے کھارے پانی کے سبب تیزی سے قابل کاشت زمین کھو دی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے ذریعے ۲۰۲۰ میں کیے گئے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ اس علاقہ کے تقریباً ۸۵ فیصد رہائشی ہر سال دھان کی ایک فصل اُگاتے تھے۔ لیکن کھاراپن مٹی کی زرخیزی کو ختم کر دیتی ہے، جس سے میٹھے پانی میں رہنے والی مچھلیوں کی انواع کم ہو رہی ہیں۔ زمین کو دوبارہ قابل کاشت بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
’’پانی ۱۰-۱۵ دنوں تک کھیتوں میں رُک جائے گا،‘‘ نام کھانا بلاک کے موسونی جزیرہ پر واقع بلیارا گاؤں کے ۵۲ سالہ ابو جبیّر علی شاہ نے کہا۔ ’’نمک کی وجہ سے اس زمین پر کوئی فصل نہیں اُگے گی، اور نہ ہی تالابوں میں مچھلیاں ہوں گی۔‘‘ علی شاہ جھینگوں کے تاجر ہیں؛ وہ انہیں پاس کی ندیوں سے جھینگا پکڑنے والے لوگوں سے خریدتے ہیں اور مقامی فروشندوں کو فروخت کرتے ہیں۔
وہ اور ان کی فیملی – بیوی رقیہ بی بی (۴۵)، ایک خاتونِ خانہ، جو کبھی کبھی کڑھائی کا کام کرکے تھوڑی کمائی کر لیتی ہیں، اور گھر پر ان کے دو بچے – اُس پیسے پر منحصر ہیں جو اُن کے سب سے بڑے بیٹے، ۲۴ سالہ صاحب علی شاہ بھیجتے ہیں۔ صاحب کیرالہ میں راج مستری کا کام کرتے ہیں۔ ’’وہاں، وہ دوسروں کے گھروں کی تعمیر کر رہا ہے اور یہاں، اس کا اپنا گھر ٹوٹتا جا رہا ہے،‘‘ ابو جبیّر نے کہا۔
اقوامِ متحدہ کی غذائی اور زرعی تنظیم کے فی الحال جاری ایک تحقیقی پروجیکٹ ’ڈیلٹا ولنریبلیٹی اینڈ کلائمیٹ چینج: مائگریشن اینڈ اڈیپشن‘ (ڈیلٹا پر خطرہ اور ماحولیاتی تبدیلی: مہاجرت اور مطابقت) کے ذریعے کیا گیا مطالعہ بتاتا ہے کہ ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۸ کے درمیان، سندربن خطہ سے ہوئی تمام مہاجرتوں کا ۶۴ فیصد مالی بحران کے سبب ہوا۔ اسی طرح، اویجیت مستری (نستارِنی ویمنس کالج، پرولیا، مغربی بنگال کے اسسٹنٹ پروفیسر) کے ذریعے سندربن کے ۲۰۰ گھروں کے ایک سروے سے پتا چلا کہ سروے میں شامل تقریباً تین چوتھائی کنبوں میں کم از کم ایک رکن کام کی تلاش میں دیگر ضلعوں اور ریاستوں میں ہجرت کر چکا ہے۔
گوسابا بلاک کے کمیر ماری گاؤں میں پرائمری اسکول کی ایک ٹیچر، پوبترا گئین بتاتی ہیں کہ اس خطہ کے کئی بچوں کو ہجرت کے سبب اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی ہے۔ ’’جس طرح ندی دھیرے دھیرے ہمارے گھروں اور زمینوں کو کھا رہی ہے، اسی طرح تعلیم کا شعبہ دھیرے دھیرے اپنے طلبہ کو کھو رہا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔
’’گزشتہ ۳ سے ۴ برسوں میں [۲۰۰۹ میں آئیلا طوفان کے بعد] حالات تھوڑے بہتر ہوئے تھے،‘‘ گھوڑا مارا پنچایت کے پردھان، سنجیب ساگر نے کہا۔ ’’بہت سے مہاجر [سندربن خطہ میں] لوٹ آئے تھے اور کھیتی کرنا، تالابوں میں مچھلی پالنا، یا چھوٹا کاروبار شروع کر دیا تھا۔ لیکن پہلے بلبل، اورپھر امفن نے سب کچھ ختم کر دیا۔‘‘
قریب کے شمالی ۲۴ پرگنہ ضلع میں، ۵۶ سالہ نظرُل مولّا، اور ان کی چھ رکنی فیملی امفن طوفان سے کسی طرح بچ گئی، جس نے ان کے مٹی کے گھر کو اجاڑ دیا تھا۔ مولّا بھی کیرالہ میں راج مستری کا کام کرتے تھے، اور کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کے سبب، امفن سے تقریباً ایک مہینہ پہلے مینا کھانا بلاک میں اپنے گاؤں، اُچِلداہ لوٹ آئے تھے۔
سمندری طوفان کے اگلے دن، ۲۱ مئی کو نظرُل پلاسٹک کی چادریں لینے گئے – جسے مقامی اہلکار تقسیم کر رہے تھے – تاکہ اسے چھت کے طور پر استعمال کر سکیں۔ جب نظرل کی باری آئی، تو چادریں ختم ہو چکی تھیں۔ ’’ہم اب فقیروں سے بھی بدتر ہیں،‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا تھا۔ ’’اس بار عید [۲۴ مئی کو] آسمان کے نیچے گزرے گی۔‘‘
پاتھر پرتیما بلاک کے گوپال نگر اُتّر گاؤں میں، ۴۶ سالہ چھبی بھوئیاں اپنے والد شنکر سردار کی ٹوٹی ہوئی فوٹو فریم کو زور سے پکڑ لیتی ہیں، جن کا انتقال ۲۰۰۹ میں آئیلا طوفان کے دوران ان کی جھونپڑی گرنے سے ہو گئی تھی۔ ’’اس سمندری طوفان [امفن] نے نہ صرف ہمارے گھر کو چھین لیا، بلکہ مجھے اپنے شوہر سے بھی الگ کر دیا ہے [موبائل نیٹ ورک میں رکاوٹ کے سبب]،‘‘ انہوں نے کہا۔
چھبی کے شوہر، شریدم بھوئیاں آئیلا طوفان کے فوراً بعد تمل ناڈو چلے گئے تھے۔ وہاں پر وہ ایک ریستراں میں ویٹر کا کام کرتے تھے، اور اچانک لاک ڈاؤن کے سبب گھر نہیں لوٹ سکے۔ ’’آخری بار ہم نے دو دن پہلے بات کی تھی،‘‘ چھبی نے مجھے بتایا تھا، جب مئی میں ان سے میری بات ہوئی تھی۔ ’’انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کافی پریشان ہیں – ان کا کھانا اور پیسے ختم ہو گئے تھے۔‘‘
گوپال نگر اُتّر میں مردنگ بھنگ (جسے مقامی طور پر گوبوڈیا کہا جاتا ہے) ندی کے کنارے ایک ساحل پر کھڑے ہوکر گاؤں کے سب سے بزرگ، تقریباً ۸۸ سالہ سناتن سردار نے کہا، ’’برسوں پہلے، مہاجر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ یہاں [سندربن] آتے تھے۔ وہ اب نہیں آتے۔ اب ہم مہاجر بن گئے ہیں۔‘‘
پوسٹ اسکرپٹ: اس رپورٹر نے ۲۳ جولائی کو جب امینہ بی بی اور ان کی فیملی سے دوبارہ ملاقات کی، تو وہ واپس اپنے گاؤں جا چکے تھے۔ پانی خشک ہو گیا تھا، اور انہوں نے بانس اور پلاسٹک کی چادروں سے ایک عارضی جھونپڑی دوبارہ بنا لی تھی۔ رمضان اب بھی گھر پر ہی تھے اور لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے سبب کام پر نہیں جا سکے تھے۔ ان کے پاس اب اپنی چائے کی دکان کھولنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
نظرُل مولّا اور ان کی فیملی کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں نے بھی اپنے ٹوٹے مکانوں اور زندگی کو دوبارہ کھڑا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز