پانچ دن، ۲۰۰ کلومیٹر، اور ۲۷ ہزار روپے – مہاراشٹر کے بیڈ ضلع میں ریمڈیسیور انجیکشن حاصل کرنا روی بوبڈے کو اتنا مہنگا پڑا۔
یہ سب اُس وقت شروع ہوا، جب اس سال اپریل کے آخری ہفتے میں ان کے والدین میں کووڈ۔۱۹ پازیٹو کی علامت ظاہر ہونے لگی۔ ۲۵ سالہ روی، بیڈ کے ’ہرکی نمگاؤں‘ گاؤں میں اپنے سات ایکڑ کے کھیت سے گزرتے ہوئے یاد کرتے ہیں، ’’دونوں کو بری طرح کھانسی آنے لگی، سانس لینے میں تکلیف ہوئی اور سینے میں درد اٹھنے لگا۔ اس لیے، میں انہیں قریب کے ایک پرائیویٹ اسپتال لے گیا۔‘‘
ڈاکٹر نے فوراً ریمڈیسیور لکھ دی – اینٹی وائرل دوا جس کا استعمال کووڈ۔۱۹ کے علاج میں کیا گیا – جس کی سپلائی بیڈ میں کم تھی۔ روی نے بتایا، ’’میں پانچ دنوں تک ادھر ادھر بھاگتا رہا۔ وقت تھا نہیں اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ اس لیے، میں نے ایک ایمبولینس کرایے پر لی اور اپنے والدین کو سولاپور کے ایک اسپتال میں داخل کرایا۔ ’’میں ایمبولینس میں گزرے اُن چار گھنٹوں کو کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔‘‘
والدین – ارجن (۵۵ سال) اور گیتا (۴۸ سال) – کو ماجلگاؤں تعلقہ میں واقع ان کے گاؤں سے تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور، سولاپور لے جانے کے لیے ایمبولینس کے ڈرائیور نے ان سے ۲۷ ہزار روپے وصول کیے۔ روی نے بتایا، ’’میرا ایک دور کا رشتہ دار ہے، جو سولاپور میں ڈاکٹر ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ انجیکشن کا انتظام کر دیں گے۔ پورے بیڈ میں لوگ دوا لینے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔‘‘
ریمڈیسیور، جسے شروع میں ایبولا کے علاج کے لیے تیار کیا گیا تھا، وبائی مرض کے ابتدائی دنوں میں اسپتال میں داخل کووڈ۔۱۹ مریضوں کے علاج میں کارگر پایا گیا۔ حالانکہ، نومبر ۲۰۲۰ میں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ریمڈیسیور کے استعمال کے خلاف ’’ مشروط تجویز ‘‘ جاری کی۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس دوا سے اسپتال میں داخل کووڈ۔۱۹ مریضوں کی قوت مدافعت بڑھانے اور دیگر نتائج پر کوئی اثر پڑا۔
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کی مہاراشٹر شاخ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اویناش بھونڈوے کہتے ہیں کہ حالانکہ اس اینٹی وائرل دوا کو اب علاج کے رہنما خطوط میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ممنوع نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ریمڈیسیور کا استعمال پچھلے کورونا وائرس [SARS-CoV-1] سے نمٹنے کے لیے کیا گیا تھا، اور اسے مؤثر پایا گیا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کا استعمال کورونا وائرس [SARS-CoV-2 یا کووڈ۔۱۹] کی پہلی لہر کے دوران ہندوستان میں شروع کیا۔‘‘
ڈاکٹر بھونڈوے بتاتے ہیں، ’’دوا کے کورس میں پانچ دنوں کی مدت میں چھ انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔ اگر [کووڈ۔۱۹] مرض کے شروعاتی دنوں میں اسے استعمال کیا جاتا ہے، تو ریمڈیسیور جسم میں وائرس کے پھیلنے کو روکتا ہے اور اثردار ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
حالانکہ، جب مرض پھیلنا شروع ہوا، تو لال فیتہ شاہی کے سبب اور دوا کی کمی کی وجہ سے بیڈ میں کووڈ مریضوں کو مشکل سے ہی ریمڈیسیور وقت پر مل سکا۔ ضلع کو اس کی سپلائی ریاستی حکومت اور پریہ ایجنسی نام کے ایک پرائیویٹ فرم سے حاصل ہوتی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر رادھا کرشن پوار کہتے ہیں، ’’جب کوئی ڈاکٹر ریمڈیسیور لکھتا ہے، تو مریض کے رشتہ داروں کو ایک فارم بھرنا ہوتا ہے اور اسے ضلع انتظامیہ کو جمع کرنا ہوتا ہے۔ سپلائی کی بنیاد پر، انتظامیہ ایک فہرست بناتی ہے اور متعلقہ مریضوں کو ریمڈیسیور دیتی ہے۔ اپریل اور مئی کے دوران اس کی کمی بنی ہوئی تھی۔
بیڈ کے ضلع مجسٹریٹ رویندر جگتاپ کے ذریعے مہیا کرائے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریمڈیسیور کی مانگ اور سپلائی میں کافی فرق تھا۔ اس سال ۲۳ اپریل سے ۱۲ مئی کے دوران – جب ملک میں کووڈ کی دوسری لہر اپنے عروج پر تھی – ضلع میں ۳۸ ہزار ریمڈیسیور انجیکشن کی ضرورت تھی۔ حالانکہ، صرف ۵۷۲۰ ہی مہیا کرائے گئے، جو کہ ضرورت کا محض ۱۵ فیصد حصہ تھا۔
اس کمی نے بیڈ میں بڑے پیمانے پر ریمڈیسیور کی کالا بازاری کی صورتحال پیدا کر دی۔ انجیکشن کی قیمت، ریاستی حکومت کے ذریعے ۱۴۰۰ روپے فی شیشی طے کی گئی تھی، وہیں بلیک مارکیٹ میں اس کی قیمت ۵۰ ہزار روپے تک چلی گئی تھی، یعنی ۳۵ گنا زیادہ۔
بیڈ تعلقہ کے پنڈھریا چیواڑی گاؤں میں چار ایکڑ کھیت کا مالکانہ حق رکھنے والی کسان، سنیتا مگر کو اس سے تھوڑی کم قیمت ادا کرنی پڑی۔ جب ان کے ۴۰ سالہ شوہر، بھرت اپریل کے تیسرے ہفتے میں کووڈ۔۱۹ کی چپیٹ میں آئے، تو سنیتا نے ایک شیشی کے لیے ۲۵ ہزار روپے ادا کیے۔ لیکن انہیں چھ شیشیوں کی ضرورت تھی، اور قانونی طور پر وہ صرف ایک ہی خرید پا رہی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے صرف انجیکشن پر ایک لاکھ ۲۵ ہزار روپے خرچ کیے۔‘‘
جب ۳۷ سالہ سنیتا نے انتظامیہ کو دوا کی ضرورت کے بارے میں لکھا، تو انہیں بتایا گیا کہ جب دستیاب ہوگا، تو انہیں مطلع کر دیا جائے گا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے ۴-۳ دنوں تک انتظار کیا، لیکن تب تک کوئی اسٹاک نہیں آیا تھا۔ ہم لمبے عرصے تک انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ مریض کو وقت پر علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے، ہم نے وہی کیا جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
ریمڈیسیور کی تلاش میں وقت ضائع کرنے اور پھر بلیک مارکیٹ سے خریدنے کے باوجود، بھرت کی دو ہفتے بعد اسپتال میں موت ہو گئی۔ سنیتا کہتی ہیں، ’’میں نے رشتہ داروں اور دوستوں سے پیسے قرض لیے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۱۰ لوگوں نے دس دس ہزار روپے کی مدد کی تھی۔ میں نے پیسے بھی گنوائے اور اپنے شوہر کو بھی کھو دیا۔ ہم جیسے لوگوں کو دوا تک نصیب نہیں ہے۔ آپ اپنے عزیزوں کو تبھی بچا سکتے ہیں، جب آپ امیر ہوں اور رسوخ دار ہوں۔‘‘
بیڈ میں ریمڈیسیور کے چکّر میں سنیتا جیسے کئی کنبے تباہ ہو گئے۔ سنیتا بتاتی ہیں کہ قرض چُکانے کے لیے انہیں دوسروں کے کھیتوں میں بھی کام کرنا ہوگا۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’میرے بیٹے کو اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، ہمارے کھیت میں میری مدد کرنی ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں ہماری زندگی اُلٹ پلٹ گئی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں اب کیا کروں۔ یہاں کام کے زیادہ مواقع دستیاب نہیں ہیں۔‘‘
بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے بیڈ کے کسان اور زرعی مزدور کام کی تلاش میں شہروں کی طرف بڑی تعداد میں مہاجرت کرتے رہے ہیں۔ اس ضلع میں اب تک ۹۴ ہزار سے زیادہ کووڈ کے معاملے سامنے آئے ہیں اور ۲۵۰۰ موتیں درج کی گئی ہیں۔ یہ ضلع اُس مراٹھواڑہ علاقے میں آتا ہے جہاں مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کے سب سے زیادہ معاملے درج کیے گئے ہیں۔ پہلے سے ہی ماحولیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، اور زرعی بحران کے سبب قرض میں مبتلا اس ضلع کے لوگ، غیر قانونی طریقے سے ریمڈیسیور خریدنے کے لیے مزید پیسے قرض لینے کو مجبور ہیں، جس سے وہ قرض کے دلدل میں اور گہرے دھنس گئے ہیں۔
ڈاکٹر بھونڈوے کہتے ہیں، ریمڈیسیور کا غیر قانونی کاروبار، ریاستی حکومت کی دور اندیشی کی کمی کا نتیجہ ہے۔ ’’ہم دوسری لہر کے دوران کووڈ۔۱۹ کے معاملوں میں اضافہ دیکھ پا رہے تھے۔ اپریل میں، [ریاست میں] روزانہ تقریباً ۶۰ ہزار معاملے سامنے آ رہے تھے۔‘‘
ڈاکٹر بھونڈوے کہتے ہیں کہ اوسطاً ۱۰ فیصد کووڈ پازیٹو مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ’’ان میں سے ۷-۵ فیصد کو ریمڈیسیور کی ضرورت پڑی ہوگی۔‘‘ عہدیداروں کو ضرورت کا اندازہ لگانا چاہیے تھا اور دوا کا اسٹاک رکھنا چاہیے تھا۔ ’’کالا بازاری تب ہوتی ہے، جب کمی ہوتی ہے۔ آپ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ کروسین کو بلیک مارکیٹ میں بیچا جا رہا ہے۔‘‘
سنیتا نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ انہیں ریمڈیسیور کی شیشیاں کس نے دیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس نے ضرورت کے وقت میری مدد کی۔ میں اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتی۔‘‘
مجلگاؤں کے ایک پرائیویٹ اسپتال کے ایک ڈاکٹر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُس سوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ دوا بلیک مارکیٹ میں کیسے پہنچی ہوگی: ’’انتظامیہ کے پاس ان مریضوں کی فہرست ہوتی ہے جنہوں نے انجیکشن کے لیے کہا ہے۔ کئی معاملوں میں دوا آنے میں ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ اس مدت کے دوران، مریض یا تو ٹھیک ہو جاتا ہے یا مر جاتا ہے۔ اس کے بعد، اُس کے اہل خانہ انجیکشن کے بارے میں پوچھنے نہیں جاتے۔ وہ انجیکشن کہاں جاتا ہے؟‘‘
حالانکہ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جگتاپ کا کہنا ہے کہ انہیں بیڈ میں اس دوا کی بڑے پیمانے پر ہوئی کالا بازاری کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔
بیڈ شہر کے ’دینک کاریارمبھ‘ اخبار کے صحافی، بالاجی مرگوڈے کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے ریمڈیسیور حاصل کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ سیاسی کنکشن کے ذریعے اسے حاصل کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’پارٹی لائن سے ہٹ کر، مقامی لیڈر یا ان سے جڑے لوگ اسے حاصل کر لیتے ہیں۔ میں نے جن لوگوں سے بات کی ہے ان میں سے تقریباً سبھی نے یہی بات کہی ہے، لیکن وہ اس سے زیادہ جانکاری نہیں دیں گے، کیوں کہ وہ ڈرے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے اتنا پیسہ اُدھار لیا ہے کہ اسے چُکا نہیں سکتے۔ انہوں نے اپنی زمین اور زیور بیچ دیے ہیں۔ ریمڈیسیور پانے کے انتظار میں کئی مریضوں کی موت ہوئی ہے۔‘‘
بھونڈوے بتاتے ہیں کہ ریمڈیسیور، کورونا وائرس پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں اثر کرتا ہے، مریض کے خون میں آکسیجن کا لیول گرنے سے پہلے۔ ’’یہ ہندوستان میں سامنے آئے کئی معاملوں میں کام نہیں کرتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر مریض سخت علیل ہونے پر ہی اسپتال آتے ہیں۔‘‘
روی بوبڈے کے والدین کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا تھا۔
ریمڈیسیور کی کمی کی وجہ سے بیڈ میں بڑے پیمانے پر کالا بازاری شروع ہوئی۔ ریاستی حکومت کے ذریعے انجیکشن کی طے قیمت ۱۴۰۰ روپے فی شیشی سے بڑھ کر، بلیک مارکیٹ میں ۵۰ ہزار روپے تک چلی گئی
ایمبولینس کے ذریعے سولاپور کے اسپتال لے جانے کے بعد، ایک ہفتہ کے اندر ہی ارجن اور گیتا بوبڈے کی موت ہو گئی۔ روی کہتے ہیں، ’’چار گھنٹے کے اس سفر نے ان کی حالت مزید خراب کر دی تھی۔ سڑکیں اچھی نہیں ہیں، اس کا بھی اثر ان پر پڑا ہوگا۔ لیکن، میرے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔ میں نے بیڈ میں ریمڈیسیور حاصل کرنے کے لیے پانچ دنوں تک انتظار کیا تھا۔‘‘
والدین کے گزر جانے کے بعد، روی اب ہرکی نمگاؤں واقع اپنے گھر میں تنہا بچے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی جلندر، تقریباً ۱۲۰ کلومیٹر دور جالنہ میں رہتے ہیں اور وہیں کام کرتے ہیں۔ روی کہتے ہیں، ’’مجھے عجیب لگ رہا ہے۔ میرے بڑے بھائی آئیں گے اور کچھ دنوں تک میرے ساتھ رکیں گے، لیکن وہ نوکری کرتے ہیں۔ انہیں واپس جالنہ جانا ہوگا اور مجھے تنہا رہنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔‘‘
روی کھیت میں اپنے والد کی مدد کرتے تھے، جہاں وہ کپاس، سویابین اور ارہر کی کھیتی کرتے تھے۔ گھر میں اپنے بستر پر سکڑ کر بیٹھے روی کہتے ہیں، ’’زیادہ تر کام وہی کرتے تھے، میں صرف ان کی مدد کرتا تھا۔‘‘ ان کی آنکھوں میں کسی ایسے آدمی کی بے چینی نظر آتی ہے جس کے کندھے پر بہت جلد، ڈھیر ساری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے والد پیش پیش رہتے تھے۔ میں بس ان کے ذریعے بتایا گیا کام کرتا تھا۔‘‘
کھیت میں ارجن اُن کاموں پر توجہ دیتے تھے جن میں مہارت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ بوائی؛ وہیں، روی ان کاموں کو کرتے تھے جن میں محنت زیادہ شامل ہوتی تھی۔ لیکن، اس سال بوائی کے سیزن کے دوران، جو جون کے درمیان میں شروع ہوا تھا، روی کو اپنے والد کے حصے کا کام بھی خود کرنا پڑا۔ یہ ان کے لیے اس سیزن کی ڈراؤنی شروعات تھی – ان کے پاس اب ایسا کوئی پیشوا نہیں تھا جس کی وہ پیروی کریں۔
پیچھے مڑ کر دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ پانچ دن، ۲۰۰ کلومیٹر، اور ۲۷ ہزار روپے کو جوڑ کر بھی اس نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا جو ریمڈیسیور حاصل کرنے کے لیے بھٹکتے ہوئے روی کو برداشت کرنا پڑا۔
مترجم: محمد قمر تبریز