ہر دن صبح ۱۰ بجے مشرقی سورت کے مینا نگر علاقے میں رینوکا پردھان کا ایک کمرے کا گھر ان کے کام کی جگہ میں بدل جاتا ہے۔ ان کے گھر پر پہنچائی گئی رنگین ساڑیوں کی گٹھریاں باورچی خانہ کے سِنک اور دروازے کے پاس اور کھٹیا کے نیچے بھی رکھ دی جاتی ہیں۔ پردھان جلدی سے گٹھریاں کھول کر گلابی-نیلے رنگ کی پالیسٹر کی ایک چمکیلی ساڑی نکالتی ہیں، جسے وہ اپنے گھر کے باہر لگے پانی کے نل کے اوپر لٹکا دیتی ہیں۔
پڑوس کی وید روڈ پر واقع ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ اکائیوں سے یہ ساڑیاں یہاں لائی گئی ہیں۔ مشینی کشیدہ کاری کے عمل کے دوران پالیسٹر کے کپڑے کے آخر میں کھلے دھاگے چھوٹ جاتے ہیں۔ ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ اکائیوں کے استری اور تہہ لگانے والے شعبوں میں واپس بھیجنے سے پہلے ان کپڑوں سے یہ کھلے دھاگے پوری احتیاط سے نکالنے پڑتے ہیں۔ پردھان جیسے گھر سے کام کرنے والے کاریگروں کی یہیں ضرورت پڑتی ہے۔ پردھان اپنے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی کا استعمال کرتے ہوئے ایک دن میں ۷۵ سے زیادہ ساڑیوں سے کھلے دھاگے نکالتی ہیں۔ اگر ساڑی تھوڑی مہنگی پالیسٹر ریشم کی بنی ہوتی ہے، تو وہ دھاگے کاٹنے کے لیے چاقو کا استعمال کرتی ہیں۔ ’’میں ہر ساڑی پر پانچ سے سات منٹ لگاتی ہوں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’اگر میں تھوڑا زیادہ دھاگے کھینچ لوں اور کپڑا خراب ہو جائے، تو مجھے ٹھیکہ دار کو ساڑی کی پوری قیمت دینی پڑے گی۔ مجھے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔‘‘
دو روپے فی ساڑی کے حساب سے، پردھان روزانہ ۱۵۰ روپے تک کما لیتی ہیں۔ ایک غلطی کی قیمت ان کی پانچ دنوں کی مزدوری ہو سکتی ہے۔ ’’[آٹھ گھنٹے کے] دن کے اختتام پر میں مشکل سے اپنی انگلیوں میں سنسناہٹ محسوس کر پاتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اوڈیشہ کے گنجم ضلع کے پولاسر بلاک کے سن برگم گاؤں سے تعلق رکھنے والی ۳۵ سالہ پردھان، پاورلوم میں کام کرنے والے اپنے شوہر اور چار بچوں کے ساتھ سورت میں گزشتہ ۱۷ سالوں سے رہ رہی ہیں۔ سورت میں ایک اندازہ کے مطابق، تقریباً ۸ لاکھ اڑیسہ مہاجر ہیں (دیکھیں کپڑے مصنوعی، مایوسی اصلی اور کرگھوں کے کمرے میں رہائش )۔ ان میں سے زیادہ تر ملک کی ٹیکسٹائل راجدھانی مانے جانے والے شہر کی پاورلوم اور ٹیکسٹائل صنعتوں میں کام کرتے ہیں – گجرات بُنکر ایسوسی ایشن فیڈریشن اور اس کے ماتحت پنڈیسر بُنکر ایسوسی ایشن کی جولائی ۲۰۱۸ کی رپورٹ کے مطابق، اس کا تقریباً ۵۰ ہزار کروڑ روپے کا سالانہ کاروبار ہے۔
پردھان گھر سے کام کرنے والی اُن ہزاروں مزدوروں میں سے ایک ہیں جو دکھائی نہیں دیتی ہیں – ان میں سے زیادہ تر اڑیہ پاورلوم ملازمین کی بیویاں ہیں – جو شمالی سورت کے صنعتی گلیارے کے آس پاس کی جگہوں میں رہتی اور کام کرتی ہیں۔ ان کا کام کھلے دھاگے کاٹنا اور کپڑوں پر ہیرے (رنگین ستارے) چپکانا ہے۔ انھیں کام کرنے کے لیے سیکورٹی کا کوئی سامان مہیا نہیں کرایا جاتا ہے اور کام کے سبب ہونے والی کسی بھی جسمانی پریشانی، جیسے آنکھوں میں درد، کٹنے سے چوٹ اور پیٹھ درد وغیرہ کے بدلے کوئی معاوضہ نہیں ملتا ہے۔ انھیں تنخواہ سے متعلق کوئی معاہدہ یا سماجی تحفظ نہیں ملتا ہے، اور وہ اکثر مول بھاؤ کرنے کی حالت میں نہیں ہوتی ہیں۔
’’میں گزشتہ ۱۵ برسوں سے کم کر رہی ہوں، لیکن مجھے کمپنی یا اس کے مالک کا نام تک بھی معلوم نہیں ہے۔ ہر صبح گٹھریاں آ جاتی ہیں، اور ہر ۱۵ دنوں میں مجھے اپنے کام کی اجرت نقد میں مل جاتی ہے،‘‘ پردھان بتاتی ہیں۔
پردھان کے گھر سے کچھ ہی میٹر دور، شانتی ساہو بھی یہی کام کرتی ہیں۔ وہ گنجم ضلع کے، برہم پور صدر بلاک کے بدوکا گاؤں سے سورت آئی تھیں۔ ۴۰ سالہ ساہو، صبح ۵ بجے اٹھ کر مینا نگر کی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس کے پیسہ دو اور استعمال کرو والے شوچالیہ جاتی ہیں۔ اگلے کچھ گھنٹے گھر کے کاموں میں گزر جاتے ہیں – جیسے پانی بھرنا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور اپنے شوہر اریجیت ساہو کو دیکھنا، جو پاورلوم میں رات بھر کام کرنے کے بعد ابھی ابھی گھر لوٹے ہیں۔
دریں اثنا، ان کی بیٹی آشا ساڑیوں کی گٹھریاں کھولنا شروع کر دیتی ہے۔ ’’ہم ساتھ ساتھ ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں،‘‘ ساہو اپنی ۱۳ سالہ بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ آشا کو پڑھائی چھوڑنی پڑی تھی کیوں کہ سورت میونسپل کارپوریشن کے اس کے اڑیہ میڈیم اسکول میں صرف آٹھویں جماعت تک پڑھائی ہوتی تھی اور پرائیویٹ اسکول کی تعلیم ان کے پہنچ سے باہر تھی۔ ماں بیٹی کی جوڑی تھوڑی مہنگی ساڑیوں پر کام کرتی ہے جس میں دھاگے کا پیچیدہ کام ہوتا ہے، اور ہر پیس کے ۵ سے ۱۰ روپے کماتی ہیں۔ غلطی کی قیمت بھی زیادہ چکانی پڑتی ہے۔ ’’ہمارے کمرے کی چھت نیچی ہے اور کم روشنی آتی ہے، جس سے اندر کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم باہر تھوڑی اونچائی پر ساڑیاں لٹکا دیتے ہیں اور تقریباً پورا دن کھڑے کھڑے کام کرتے ہیں۔ کپڑے پر کوئی بھی داغ ہماری اجرت سے کاٹ لیا جائے گا،‘‘ ساہو بتاتی ہیں۔
ٹیکسٹائل صنعت میں حاشیہ پر رہنے والی ان خواتین کا سرکاری دستاویزوں میں کوئی ریکارڈ نہ ہونے کے سبب ان کی تعداد کا صحیح صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ’’ان میں سے کسی نے بھی کسی تحریری معاہدہ پر دستخط نہیں کیے ہیں، انھیں شاید قریبی ٹھیکہ دار کا نام بھی نہ معلوم ہو،‘‘ سنجے پٹیل بتاتے ہیں، جو مغربی ہندوستان میں اڑیہ مہاجر مزدوروں کے ساتھ کام کرنے والے سورت کے آجیویکا بیورو نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے پروگرام کورآڈی نیٹر نہیں۔ ’’کئی معاملوں میں خواتین اور ان کے اہل خانہ کے کام کو مزدوری بھی نہیں مانا جاتا ہے، کیوں کہ کام گھروں کے اندر ہوتا ہے۔ بچوں کو بھی کام کرنا پڑ جاتا ہے، کیوں کہ روزانہ کے مقررہ پیس پورے کرنے ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی اجرت کا بھی مول بھاؤ نہیں کرتے ہیں۔‘‘
گجرات کم از کم مزدوری ضابطہ (اپریل-ستمبر ۲۰۱۹؛ جس میں ہر ۶ مہینے پر موجودہ افراطِ زر کے مطابق ترمیم کی جاتی ہے) کے مطابق، ’ریڈی میڈ کپڑا اور متعلقہ پیداوار اور سلائی کے کارخانوں‘ میں کام کرنے والے غیر ہنر مند مزدور ۸ گھنٹے کی شفٹ کے لیے روزانہ ۳۱۵ روپے کی اُجرت کے حقدار ہیں۔ حالانکہ اوڈیشہ کی پردھان، ساہو اور دوسری خواتین کے ذریعے گھر سے کیے ہوئے کام کو پیس در پیس شمار کیا جاتا ہے اور انھیں اکثر ریاست کے ذریعے مقررہ کم از کم اجرت سے ۵۰ فیصد کم ملتا ہے۔ کارخانوں میں کام کرنے والی خواتین دھاگے کاٹنے کا یہی کام کرکے ماہانہ اوسطاً ۵-۷ ہزار روپے کماتی ہیں اور انھیں سماجی سیکورٹی کا فائدہ، جیسے اوور ٹائم بھتہ اور کارکنوں کا بیمہ بھی مل جاتا ہے، جب کہ گھر سے کام کرنے والی خواتین ۳۰۰۰ روپے سے زیادہ نہیں کما پاتی ہیں اور انہیں کام کی لاگت بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔
’’دس سال پہلے بھی میں فی ساڑی صرف ۲ روپے کما رہی تھی۔ ہر بار جب میں نے ٹھیکہ دار سے اجرت بڑھانے کی بات کی، تو اس نے جواب دیا کہ میں تو ویسے بھی گھر سے کام کرتی ہوں اور اس کام میں کسی خصوصی ہنر کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ لیکن بجلی کے بل اور کمرے کے کرایہ کا کیا، جو مجھے بھرنا پڑتا ہے؟‘‘ ۳۲ سالہ گیتا سمل گولیا کہتی ہیں، جن کے شوہر راجیش پاورلوم میں کام کرتے ہیں۔ یہ فیملی مینا نگر سے قریب چار کلومیٹر دور، وِشرام نگر میں رہتی ہے۔
کیلیفورنیا واقع برکلے یونیورسٹی کے فروری ۲۰۱۹ کے ایک مطالعہ بعنوان ’کپڑے پر لگے داغ: ہندوستان میں گھر پر مبنی کپڑا صنعت میں کام کر رہی خواتین اور لڑکیوں کا استحصال‘ کے مطابق، ہندوستان کی کپڑا صنعت میں گھر سے کام کرنے والے کاریگروں میں ۹۵ء۵ فیصد خواتین ہیں۔ جدید غلامی کے محقق، سدھارتھ کارا کی قیادت میں تیار یہ رپورٹ آگے بتاتی ہے کہ ان مزدوروں میں سے کسی کو بھی کام کی جگہ چوٹ لگنے پر کسی قسم کی طبی مدد نہیں ملی تھی، وہ کسی مزدور یونین سے نہیں جڑی تھیں، نہ ہی ان کے پاس کوئی تحریری معاہدہ تھا۔
سورت کی ٹیکسٹائل صنعت میں گھر سے کام کرنے والی خواتین کے کام کو باقاعدہ روزگار کے طور پر نہیں پہچانا جاتا ہے، ان کا گھر ہی ان کے کام کرنے کی جگہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی لیبر قانون جیسے کارخانہ ایکٹ، ۱۹۴۸ کے ماتحت نہیں آتی ہیں، جس سے صنعتوں میں کام کرنے والے ملازمین کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔
’’گھر پر مبنی کام کا معاہدہ صرف ایک آپسی معاہدہ ہے (یہ آجر اور ملازم کے بیچ کا رشتہ نہیں ہے)، جس میں لیبر قوانین نافذ نہیں ہوتے ہیں۔ اوپر سے، چونکہ کام ٹھیکہ پر باہر دیا جاتا ہے، اس لیے عمل آوری کی تصدیق کا بھی کوئی نظام نہیں ہے،‘‘ سورت علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر آف لیبر، جی ایل پٹیل بتاتے ہیں۔
’’بیمہ اور معاوضہ صرف ان مزدوروں کو فراہم کیا جا سکتا ہے جنہیں رجسٹرڈ کارخانہ کے علاقے میں چوٹ پہنچی ہے،‘‘ (مرکزی کپڑا وزارت کے ذریعے قائم) پاور لوم سروِس سینٹر، سورت کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر سدھیشور لومبے کہتے ہیں۔ ’’حالانکہ یہ معلوم ہے کہ خواتین کاریگر اس صنعت کا حصہ ہیں، لیکن چونکہ وہ اپنے گھر میں سہولت کے حساب سے اپنے وقت پر کام کرتی ہیں، اس لیے ان کے کام کی مدت، حالات اور چوٹ کا بیورہ رکھنا بہت مشکل ہے۔‘‘
کسی ادارہ جاتی تحفظ اور سماجی تعاون کے نظام کی کمی کے باوجود، گنجم کے بگوڈا بلاک کے بھوگوڈا سے آنے والی ۳۰ سالہ رنجیتا پردھان نے وشرام نگر میں اکیلی ’’خاتون ازیہ ایجنٹ‘‘ کا خطاب حاصل کیا ہے۔ ’’مرد ٹھیکہ داروں کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل تھا، جو ہمیں وقت پر ادائیگی نہیں کرتے تھے۔ وہ بغیر وجہ بتائے ہماری اجرت بھی کاٹ لیتے تھے،‘‘ پردھان کہتی ہیں، جنہوں نے ۱۳ سال پہلے گھر سے کام کرنا شروع کیا تھا۔
پردھان نے وید روڈ پر واقع ایک کپڑا کارخانہ کے مالک سے ۲۰۱۴ میں سیدھے رابطہ کیا اور خود کو ٹھیکہ ملنے پر ’’اچھی کوالٹی کا کام‘‘ دینے کا وعدہ کیا۔ تب سے انھوں نے تین کپڑا کارخانوں کے مالکوں سے ہیرے چپکانے کا کام ٹھیکہ پر لے کر پڑوس کی ۴۰ خواتین سے یہ کام کروایا ہے۔ ان کے زبانی معاہدہ کے مطابق، پردھان ہر پندرہ دنوں میں خواتین کاریگروں کو ایک کلو چمکیلے ستارے اور گوند پہنچا دیتی ہیں۔ کپڑے ہر صبح ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ ہر گھریلو کاریگر روزانہ تقریباً ۲۰۰۰ ستارے چپکاتی ہے اور روزانہ اوسطاً ۲۰۰ روپے (ہر ۱۰ ستارے کا ۱ روپیہ) کما لیتی ہے۔
’’وہ میرا بھروسہ کرتی ہیں کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں،‘‘ پردھان کہتی ہیں۔ ’’کام میں مشکل پیٹرن بناتے ہوئے خواتین کو گھنٹوں پیٹھ جھکائے رہنا پڑتا ہے۔ انھیں پیٹھ اور آنکھوں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔ اور پھر، اگر ہم شکایت کریں، تو ہمارے شوہر بھی کہتے ہیں کہ یہ تو بس ’ٹائم پاس‘ ہے، اصلی کام نہیں ہے۔‘‘
شام کے ۷ بجے ہیں اور پردھان پاورلوم سے اپنے شوہر، بھگوان کے لوٹنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے دن بھر کے کام کو پھر سے گٹھریوں میں باندھ دیا ہے۔ گزشتہ ۱۳ سالوں سے روزانہ ایسا ہی رہا ہے۔ ’’ہم یہ سوچ کر سورت آئے تھے کہ ہم کسی دن گنجم لوٹ کر اپنی فیملی کے لیے ایک گھر بنائیں گے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’لیکن ہم کچھ بچا نہیں پائے ہیں اور یہاں بمشکل گزارہ کرتے ہیں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)