uploads/Articles/P. Sainath/Wrestling /29n7.jpg


آپ سوچیں گے کہ یہ شاید سچن تندولکر کا فائنل ٹیسٹ ہو۔ ایسا کسی کو بھی دھوکہ ہو سکتا ہے، یہ دیکھ کر کہ ہلکی بوندا باندی کے باوجود لاکھوں لوگوں کا مجمع کھیل شروع ہونے کے پانچ گھنٹے پہلے سے وہاں موجود ہے۔ لیکن کُنڈل ٹاؤن کے لیے یہ ’’معمول سے کم‘‘ ہے، جہاں ہر سال مہاراشٹر کا یہ سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کھیل منعقد ہوتا ہے۔ اور یہ کرکٹ نہیں ہے، بلکہ یہ کُشتی ہے۔ چند کھیل ریاست کی دیہی اقتصادیات کا اٹوٹ حصہ ہیں، خاص کر مغربی مہاراشٹر کی کھیتی میں۔ یہاں تک کہ پچھلے سال پانی کے بحران کی وجہ سے کُنڈل میں منعقد ہونے والے اس کھیل کو ردّ کر دیا گیا تھا۔

’’قحط کے موسم میں تین لاکھ لوگوں کےے لیے پانی کا انتظام کرنے کے بارے میں سوچ کر دیکھئے،‘‘ اس کھیل کے ایک آرگنائزر کہتے ہیں۔

کُشتی اس ریاست کے دیہی علاقوں میں ہونے والے کھیل، سیاست، کلچر اور اقتصادیات کے محور میں واقع ہے۔ کُشتی شہری علاقوں میں بھی ہوتی ہے، لیکن پہلوان گاؤوں کے ہوتے ہیں۔ اور زیادہ تر کا تعلق کسان خاندانوں سے ہوتا ہے، جیسا کہ دی ہندو اخبار کے نمائندہ کو اس پورے علاقے میں کئی اکادمیوں کا دورہ کرنے کے بعد پتہ چلا۔

ترقی میں رکاوٹ

گزشتہ چند برسوں سے مہاراشٹر کے زرعی بحران نے اس کھیل کو متاثر کیا ہے۔ پچھلے سال کا قحط، اور اس سال کے شروع میں پانی کے بحران نے اسے اور خراب کر دیا ہے۔ ’’خشکی نے ہمیں برباد کرکے رکھ دیا ہے،‘‘ اپّا صاحب کدم کہتے ہیں، جو کہ اس ریاست کے بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں، اور کولہاپور ٹاؤن میں تعلیم یا کُشتی اکیڈمی چلاتے ہیں۔ ’’زیادہ تر لوکل ٹورنامنٹس ردّ کر دیے گئے۔‘‘ باقی میں، انعام کا پیسہ ختم ہو گیا۔ ’’بہت سے طلبہ کھلاڑیوں نے اکیڈمی چھوڑ دی، جس کی وجہ سے ان کی فیملی نے ان پر جو پیسہ لگایا تھا، وہ بھی ڈوب گیا۔‘‘ اور اس موسم میں، حد سے زیادہ بارش نے ٹھیک ویسا ہی حال کیا ہوگا۔

یہاں کے ایک چھوٹے سے ٹورنامنٹ میں پہلا انعام ٹریکٹر ہو سکتا ہے۔ یقیناً، کوئی پرائیویٹ کمپنی اسے انعام کے طور پر رکھ سکتی ہے، سانگلی ضلع کے کُنڈل میں ہونے والے اس بڑے کھیل کے دو آرگنائزر بالا صاحب لاڈ اور ارونا لاڈ بتاتے ہیں۔ ’’لیکن کل ۲۵ لاکھ روپے میں سے ۱۵ لاکھ عام شیتکری (کسانوں) سے آتے ہیں۔‘‘

اچھی زندگی کا ٹکٹ

کُشتی غریبی ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، دیہی غریبوں کے لیے مقام بنانے کی ایک کوشش ہے۔ ’’ان میں سے تقریباً ۹۰ فیصد غریب کسان خاندانوں سے ہیں،‘‘ کولہاپور کے کدم کہتے ہیں۔ ’’باقی بے زمین مزدوروں، لوہاروں وغیرہ کے بچے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی تعلیم یافتہ طبقہ سے نہیں ہے۔ کُشتی ایک شوق بھی ہے۔ مشکل سے پانچ فیصد پہلوان ہی اونچائی تک جا پاتے ہیں۔‘‘

یہ شوق ان کی تعلیم یا اکیڈمی میں دو یا تین چھوٹے کمروں میں رہنے والے نوجوان پہلوانوں میں دکھائی دیتا ہے، جو ایک ساتھ مل کر اپنا کھانا خود پکاتے ہیں۔ ان میں سے کئی صبح ۴ بجے ہی اٹھ کر دوڑتے ہیں، کیوں کہ ۵ بجے سے تعلیم شروع ہو جاتی ہے، جو ساڑھے ۸ بجے صبح تک چلتی ہے۔ چھوٹے بچے صبح ۱۰ بجے سے شام کے ۵ بجے تک اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ٹریننگ آدھے گھنٹہ بعد شروع ہوتی ہے، اور شام کے ساڑھے ۸ بجے تک چلتی ہے۔ یہاں کا ڈسپلن بہت سخت ہے۔ ’’ابھرتے ہوئے کرکٹ کھلاڑیوں کو شاید سال میں چار مہینے کی ٹریننگ دی جاتی ہو۔ لیکن کُشتی میں دس سال کی ٹریننگ بھی کافی نہیں ہے۔‘‘

تعلیم یا اکیڈمیوں میں کسان اور مزدور گرو یا استادوں کے سامنے گڑگڑاتے رہتے ہیں کہ وہ ان کے بیٹوں کو پہلوان بنا دیں۔ ابھی صبح کے ۶ بجے ہیں، اور ۸۳ سالہ گن پت راؤ اندھالکر کولہا پور کی اپنی اکیڈمی میں، دیگر بچوں کے ساتھ ایک آٹھ سال کے لڑکے کو پڑھانے میں مصروف ہیں۔ ایشیاڈ کے سابق گولڈ میڈلسٹ اور اولمپئن، گن پت راؤ بڑی عمر کے شاگردوں کے پریکٹس باؤٹس پر گہری نظر رکھتے ہیں، جب کہ چھوٹے بچوں کو اس کھیل کی باریکیاں بتاتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ پہلوانوں پر چیختے چلاتے بھی ہیں۔ اکثر وہ اپنی اونچی جگہ سے چھوٹے کھلاڑیوں کے ساتھ نیچے اترتے ہیں اور پہلوانوں کے سامنے آکر کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر انھیں پہلوانی کے گُر سکھاتے ہیں اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

’’کُشتی کی جڑیں زرعی اقتصادیات میں گہری پیوست ہیں۔ لیکن، آج یہ اقتصادیات کمزور ہو چکی ہے،‘‘ اندھالکر کہتے ہیں۔ ’’تعلیم میں فیس معمولی ہے، شاید ماہانہ ۱۰۰ سے ۲۰۰ روپے۔‘‘ اندھالکر کو خود فیس سے اُتنا پیسہ نہیں ملتا، جتنا کہ انھیں ریاست بھر میں ہونے والے پروگراموں میں ’’مہمانِ خصوصی‘‘ بننے سے مل جاتا ہے۔ جو بچہ سب سے غریب ہوتا ہے، اس سے وہ کچھ نہیں لیتے۔ ’’پھر بھی انھیں کھانے پر خرچ ہونے والی بڑی رقم خود ہی برداشت کرنی پڑتی ہے۔‘‘

حکومت کا معمولی سپورٹ

انھوں نے بھلے ہی متعدد چمپئن پیدا ہوکیے ہوں، اور بھلے ہی ان کی فیڈریشن کی سربراہی سرکردہ سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں میں ہو، کُشتی کے استادوں یا گروؤں کو سرکار سے بہت کم تعاون ملا ہے۔ پورے مغربی مہاراشٹر کی یہی شکایت ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کی سرکاریں پہلوانوں کے ساتھ کہیں زیادہ بہتر رویہ اپناتی ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/Wrestling /29n4.jpg


کھانے پر کافی خرچ آتا ہے، پُنے میں اپنی تعلیم یا اکیڈمی میں سابق ایشیاڈ، کامن ویلتھ اور نیشنل میڈلسٹ، کاکا پوار بتاتے ہیں۔ بڑے لڑکوں کو ہر روز ۴۰۰ گرام بادام، چار لیٹر اصلی دودھ، ۵۰۰ گرام گھی، بہت سے انڈے، پھل اور سبزیاں چاہئیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ میں تین بار بکرے کا گوشت بھی ضروری ہے۔ ’’ان سب پر روزانہ ۷۰۰ روپے کا خرچ آتا ہے، چھوٹے لڑکوں پر شاید ۵۰۰ روپے۔‘‘

ایک غریب کسان فیملی کے لیے یہ خرچ بہت بڑا ہے، ’’لیکن بعض دفعہ گاؤں کے لوگ مدد کرتے ہیں۔‘‘ چند سالوں میں، چھوٹے بچے ایک کُشتی کے بدلے ۲۰۰۰ روپے کما سکتے ہیں، جب کہ بڑے بچے ۵۰۰۰ روپے۔ پہلوان کی صلاحیت جیسے جیسے بہتر ہوتی رہتی ہے، رقم میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جاتراؤں (میلوں یا تہواروں) کے موقع پر لاکھوں لوگ جمع ہوتے ےہیں، جہاں کئی کشتیاں ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ سامعین بھی ابھرتے ہوئے پہلوانوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ کچھ ایسے ٹورنامنٹ بھی ہوتے ہیں، جہاں اچھا پہلوان ایک دن میں ۲۰ ہزار سے ۵۰ ہزار روپے تک کما سکتا ہے، اپّا صاحب کدم بتاتے ہیں۔

اس سال کے شروع میں چونکہ کئی ٹورنامنٹ ردّ کر دیے گئے، سچن جمدار اور یوگیش بومبالے جیسے نوجوان چمپئن کے پاس فیس جمع کرنے کے بھی پیسے جمع نہیں ہو سکے۔ اور، باصلاحیت سنتوش سوتار کے معاملے میں یہ ہوا کہ انھیں ’’کولہاپور کی تعلیم کو چھوڑنا پڑا۔ مجھے سانگلی ضلع کے اس اتپاڑی میں واپس لوٹنا پڑا، جہاں میری فیملی رہتی ہے۔‘‘

چٹائیوں پر کُشتی اس کھیل میں ایک نئی تبدیلی ہے۔ ’’ہندوستانی پہلوان مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، چٹائیوں سے نہیں،‘‘ لیجنڈری اندھالکر کہتے ہیں۔ سینکڑوں گاؤوں میں کُشتی کے لیے مٹی تیار کرنا ایک مشکل کام ہے جس میں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس میں کچھ دہی، لیموں پانی، گھی اور ہلدی ملی ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح سے پہلوانوں کے لیے دوا ہوتی ہے، کیوں کہ انھیں کُشتی کے دوران اکثر چوٹیں آ جایا کرتی ہیں۔ (بعض معاملوں میں، مٹی کے آمیزہ میں قیمہ بھی ملایا جاتا ہے۔)

ہاکی کے متوازی

چٹائی کا معیاری سائز ۴۰ فیٹ گُنا ۴۰ فیٹ ہوتا ہے، جس کی قیمت تقریباً ۷ لاکھ روپے ہے۔ یہ گاؤں کے معمولی اور چھوٹی تعلیم کی پہنچ سے باہر کی چیز ہے، جو اس سے چھوٹی سائز کی چٹائی بھی نہیں خرید سکتیں۔ اگر ہر کوئی چٹائی پر ہی کُشتی لڑنے لگے، تو ایک دن مقامی ٹورنامنٹ ختم ہو سکتے ہیں، ایسی روایتی پہلوانوں کی دلیل ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے ’’کُشتی کو بھی وہی نقصان ہوگا، جو ایسٹرو ٹرف سے ہندوستانی ہاکی کو ہوا ہے۔‘‘ مقامی لوگ اس کا خرچ برداشت نہیں کر سکے، جس کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کا اس کھیل پر سے غلبہ ختم ہو گیا۔‘‘ چٹائی والی کُشتی تیز رفتار ہوتی ہے، جس میں کھیل چند منٹوں میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔ جب کہ مٹی پر ہونے والی کشتی تقریباً ۲۵ منٹ تک چلتیی ہے۔ ’’فرق ڈرامائی ہے، ثقافتی، اقتصادی اور ایک کھیل کے طور پر،‘‘ اندھالکر کہتے ہیں۔

دریں اثنا، اٹپاڈی میں، جہاں پچھلے موسم میں تمام کُشتیاں ردّ کر دی گئیں، ٹیچر نام دیو شری رنگ بدارے پرامید ہیں۔ ’’پانی کے لگاتار بحران کی وجہ سے اب زیادہ تر لوگ زراعت کو ہر موسم میں چھوڑ رہے ہیں۔ اگر زراعت ختم ہوگئی، تو کُشتی بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘


یہ مضمون سب سے پہلے یہاں شائع ہوا تھا :

http://www.thehindu.com/opinion/columns/sainath/wrestling-with-the-rural-economy/article5286230.ece

P. Sainath

ପି. ସାଇନାଥ, ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ୍ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ପ୍ରତିଷ୍ଠାତା ସମ୍ପାଦକ । ସେ ବହୁ ଦଶନ୍ଧି ଧରି ଗ୍ରାମୀଣ ରିପୋର୍ଟର ଭାବେ କାର୍ଯ୍ୟ କରିଛନ୍ତି ଏବଂ ସେ ‘ଏଭ୍ରିବଡି ଲଭସ୍ ଏ ଗୁଡ୍ ଡ୍ରଟ୍’ ଏବଂ ‘ଦ ଲାଷ୍ଟ ହିରୋଜ୍: ଫୁଟ୍ ସୋଲଜର୍ସ ଅଫ୍ ଇଣ୍ଡିଆନ୍ ଫ୍ରିଡମ୍’ ପୁସ୍ତକର ଲେଖକ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ପି.ସାଇନାଥ
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique