پیرمُڈے گاؤں کے ایک بڑے مکان کے دروازے پر ہر شخص اس رقاص کو دیکھنے کے لیے جمع ہوا تھا، جو جلد ہی کورڈبّو دَیو میں تبدیل ہونے والا تھا۔ اپنے پرتکلف لباس، زیورات اور چہرے پر شوخ زرد پینٹ لگائے وہ قابل دید منظر پیش کر رہا تھا۔
رسومات کا آغاز میزبان یعنی مالک مکان کے ذریعہ نقال کو دستور کے مطابق غسل کے لیے تیل پیش کرنے کے ساتھ ہوا۔ دَیو نے میک اپ کرنا شروع کیا جب کہ ان کے خاندان کا ایک رکن پڈّنا گاتا رہا۔ پڈّنا، دیو کی ابتدا اور ان کی صلاحیتوں کا رزمیہ ہے۔ کورڈبّو دیو دلت برادری سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی ثقافتی ہیرو ہیں۔ اس دوران رات کے تقریباً ساڑھے دس بجے چکے تھے۔
گلوبند، چوڑیاں، تاج، کانسے اور چاندی سے بنے ماسک پہن کر، اور لکڑی، دھات، ناریل کے نرم پتوں، پھولوں، شیلز (سیپ)، بانس اور کپڑے سے بنے خوبصورت ہالے کا خود سر کے پیچھے رکھ کر، ہاتھ میں جلی ہوئی مشعل لے کر اور پاؤں میں پیتل کے پازیب پہن کر تیار ہونے کے بعد کورڈبّو دَیو نے رقص کیا تھا۔
یہ دکشن کنڑ ضلع کے منگلور تعلقہ سے متعلق ایک دہائی پہلے کا واقعہ ہے۔ مجھے فنکار کا نام یاد نہیں ہے، لیکن اسی تعلقہ کے گاؤں پاڈوپیِرار کے دیانند کتھالسار نے، جو خود ایک نقالی کرنے والے فنکار ہیں، حال ہی میں مجھ سے کہا، ’’اگر آپ دَیو پر یقین رکھتے ہیں، تو اس سے آپ کو راحت ملے گی…‘‘
ایک دہائی قبل اس رات کو رقاص اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے، غضب ناک اور پرزور طریقے سے ادھر ادھر اچھل کود مچا رہا تھا۔ اس نے دانی (میزبان) سے پوچھا کہ اسے کیوں بلایا گیا ہے۔ نقال کے خاندان کے ایک فرد کے ہاتھ میں ایک جلتی ہوئی مشعل تھی۔ دَیو نے علامتی طور پر اس آگ میں اپنا ہاتھ دھویا تھا۔ کتھالسار کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی وہ کوئلوں کے انگاروں پر چلتے یا بھاگتے ہیں یا کافور کے شعلوں کو ’نگلتے‘ ہیں۔ یہ سب کچھ خوف اور وحشت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘‘
پھر میزبان فیملی کا ایک فرد انہیں نرم ناریل، کچے چاول، زندہ مرغیاں، گنے اور دیگر کھانے کی چیزیں بطور نذرانہ پیش کرتا ہے۔ نقالی کی پیشکش کے دوران رقص کے اختتام پر جب نذرانے پیش کر کے دَیو کو ’شانت‘ کر دیا جاتا ہے، تب وہ ہاتھ میں پنکھا لیے بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے بعد لوگ اس کے پاس کمکم اور پِنگارا (سپاری کے درخت کے پھول) کی شکل میں آشیرواد (دعا) لینے آتے ہیں۔ اس سے اپنی پریشانیوں کا حل دریافت کرتے ہیں، مثلاً ان کی موروثی زمین سے متعلق تنازعات کا حل، اچھی فصل کی امید، شادی کے امکانات، صحت کے مسائل، وغیرہ۔ دیو ایک غیبی ہدایت حاصل کر کے پیشن گوئیاں کرتا ہے اور نسخے تجویز کرتا ہے۔ کتھالسار کہتے ہیں، ’’وہ کولا [نقل یا تقریب] میں شرکت کرنے والے لوگوں کو درپیش مختلف مسائل کا حل دے کر انہیں راحت فراہم کرتا ہے۔‘‘
کتھالسار خود دسمبر اور مئی کے درمیان آنے والے کولا کے موسم کے دوران تقریباً ۷۵ سے ۱۰۰ مرتبہ یہ رول ادا کرتے ہیں۔ یہ تقریبات بنیادی طور پر کرناٹک کے دکشن کنڑ اور اُڈوپی اضلاع تک محدود ہیں۔ کسی تجربہ کار نقال کو ایک ہی دروازے پر ایک ہی فیملی کے زیر اہتمام لگاتار دو سے تین (دن اور رات) نقالی کی اداکاری کے عوض میزبانوں کے ذریعہ اور دیگر نذرانوں کی شکل میں ۱۵ سے ۵۰ ہزار روپے کے درمیان مل جاتے ہیں۔ اس طرح کی تقریبات میں بعض اوقات مختلف نقال (روایتی طور پر اس علاقے کے لیے مخصوص دیو) اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کتھالسار کہتے ہیں، ’’میں نے اپنے پِجّیرے [پردادا] کو دیکھا، پھر اپنے آجّیرے [دادا] کو دیکھا، اور بعد میں اداکاری کے دوران اپنے امّیرے [والد] کی مدد کی۔ میری پرورش کولا کے آس پاس ہوئی ہے اور مجھے ہمیشہ ہی اس فن میں دلچسپی رہی ہے۔ ایک چھوٹے سے رول سے شروعات کر کے میں اپنے خاندان کے تقریباً تمام دیووں کی نقالی کر چکا ہوں۔‘‘
۴۴ سالہ کتھالسار کرناٹک تولو ساہتیہ اکیڈمی کے صدر ہونے کے علاوہ بطور ڈاکیہ اور بطور ریڈیو میزبان (ایک مذہبی شو کے) بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر فیملی میں دیووں کا اپنا ’اسٹاک‘ یا سلسلہ ہے۔ اور وہ صرف انہیں کی نقالی کرتے ہیں۔ ’’یہ ایک موروثی عمل ہے، اس لیے یہ فیملی کے اندر یکساں طور پر قائم رہتا ہے۔‘‘
کتھالسار کے مطابق دیووں اور بھوتوں کے درمیان فرق ہے، حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان دونوں اصطلاحات کو ایک دوسرے کا قائم مقام سمجھتے ہیں۔ کتھالسار کہتے ہیں کہ جو دیو پرکرتی شکتیوں (قدرتی طاقتوں) یا الوہیت میں پیدا ہوتے ہیں صرف انہیں ہی دیو کہا جانا چاہیے۔ اور وہ شکلیں جو آبائی یا حیوانی ذرائع سے نکلتی ہیں انہیں یا تو دیو یا بھوت کہا جا سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں، ’’مختلف برادریوں کے اپنے بھوت یا دیو ہوتے ہیں۔ شروعاتی بھوت حیوانی ذرائع سے متعلق تھے: پنجورلی [جنگلی سور] اور پیلی چامنڈی [شیر] کچھ قدیم ترین بھوتوں کی مثالیں ہیں۔ یہ وہ جانور ہیں جن سے قدیم کسان ضرور ڈرتا ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ تُولُووا بادشاہوں کے پاس اپنا راجندر [شاہی] بھوت آ گیا تھا، پھر کچھ ربانی فطرت والے بھوت بھی تھے جیسے جُماڈی یا رکتیشوری [دیوی درگا سے مماثل]۔‘‘
حالانکہ پروفیسر بی اے وویک رائے دیووں اور بھوتوں میں فرق نہیں کرتے۔ وہ منگلور یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس ہیں، جہاں وہ پہلے کنڑ اور لوک ادب کے پروفیسر تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ان دونوں اصطلاحوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں گاؤں کے دیوتاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تُولُووا ثقافت میں ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ دونوں الفاظ سنسکرت زبان سے ماخوذ ہیں۔‘‘
کچھ روایتیں ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح نوآبادیاتی اور اونچی ذات کے مؤرخین نے ’دیو‘ کی اصطلاح کو ’بھوت‘ میں تبدیل کیا تاکہ غیر برہمنی ذاتوں کے ذریعہ پوجے جانے والے دیوتاؤں کی اہمیت کو کم کیا جاسکے۔ کرناٹک فوک لور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلراور مینگلور یونیورسٹی کے شعبہ کنڑ کے سابق پروفیسر کے چنِّپّا گوڈا کہتے ہیں، ’’لفظ ’دیو‘ کا مطلب ہے ’ستیہ‘ یعنی حقیقت، جبکہ، تولو میں بھوت کا مطلب ہے ’گزرے ہوئے‘ یا ’وفات پائے ہوئے‘۔ یہ دونوں لفظ سنسکرت زبان سے ماخوذ ہیں۔ لیکن اگر ہم ادبی سیاق و سباق یا پڈّنا (لوک گیتوں) پر نظر ڈالیں، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بھوت کی ابتدا ایک ہیرو کے طور پر ہوئی تھی نہ کہ شیطان کے طور پر۔ دراصل برہمنوں، مشنریوں اور نوآبادیوں نے بھوت کی عبادت کی اہمیت کو کم کر دیا۔‘‘
پروفیسر رائے کے مطابق برہمنوں کے علاوہ زیادہ تر تُولُو برادریاں روایتی طور پر کولا میں شامل تھیں۔ دیووں کی ابتدا کی کچھ کہانیاں پڈنّوں میں بیان کی گئی ہیں۔ ان کہانیوں میں دلت برادریوں کے ہیروز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ ایسے ہیروز ہیں جو لڑائیوں میں المناک موت کا شکار ہوئے تھے یا پھر بادشاہوں اور اونچی ذاتوں کے ہاتھوں ان کا قتل ہوا تھا۔ پروفیسر رائے کہتے ہیں کہ دیووں کی ابتدا کی کہانیوں اور کولا میں مسلمانوں سمیت دیگر ذاتوں اور برادریوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
پروفیسر رائے کہتے ہیں، ’’بھوتوں کا تصور اور ان سے متعلق رسوم کی ادائیگی کا رواج ۱۵ویں صدی سے شروع ہوا ہوگا۔ ۱۴ویں سے ۱۷ویں صدی تک تولوناڈ پر حکمرانی کرنے والے تولووا بادشاہ زیادہ تر جین برادری سے تعلق رکھتے تھے، اور یہ مذہب بھوت پوجا میں یقین نہیں رکھتا۔ بھوتوں کی پوجا کرنے والے بنیادی طور پر بَنت جیسی کسان برادریاں تھیں۔ چونکہ جینوں کے پاس بھی بڑی زمینیں تھیں، اس لیے بعد میں انہوں نے بھی بھوتوں کی پوجا شروع کر دی۔ جب ۱۹۷۰ کی دہائی میں اصلاح ارضی قانون نافذ کیا گیا [جسے کرناٹک میں ۱۹۶۱ میں پاس کیا گیا تھا]، تو بہت سے بنتوں کو اپنی وسیع زمینداری سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ دیگر تولووا برادریاں جنہوں نے زمین حاصل کی انہوں نے بھی اس روایت کو جاری رکھا۔‘‘
’’برہمنوں نے بہت سے ہندو مندروں میں بھوتوں کو اپنا لیا۔ انہوں نے بھوتوں کے عبادت خانوں کی تزئین و آرائش کی۔ ان کے ابتدائی رسومات کے انعقاد اور نقالی میں کچھ برہمنی عبادتوں اور رسومات کو شامل کیا۔ اور وہ خود بھی بھوتوں کی نقالی میں شریک ہونے لگے…‘‘
کتھالسار کا تعلق پَمبد برادری سے ہے۔ یہ ایک درج فہرست ذات ہے۔ کولا میں نقالی کرنے والا فنکار کتھالسار کی طرح ہمیشہ مرد ہوتا ہے۔ فیملی کی ایک خاتون نقالی کے آغاز میں گیت گاتی ہے۔ وہ پڈّنا گاتی ہے (یہ گیت دھان توڑنے کے دوران، گھر میں فراغت کے وقت، تہواروں کے موقعوں پر، اور گزشتہ زمانے میں تاڑی لگانے کے دوران بھی گایا جاتا تھا)۔ پروفیسر گوڑا کہتے ہیں، ’’دلت برادریوں کی خواتین پڈّنوں کی ادبی روایت کی محافظ رہی ہیں۔ پڈّنا میں بھوتوں / دیووں کی ابتدا، ان کے پھیلاؤ اور ان کی مہم جوئی کا بیان کیا جاتا ہے۔ اس پوری زبانی روایت کو نقالوں کی برادری کی خواتین نے محفوظ رکھا ہے۔ خواتین، علاقے کے اس مقامی علم کا منبع ہیں۔‘‘
کتھالسار کہتے ہیں، ’’میری ماں اور دادی فصل کی بوائی کے دوران کھیت میں پڈّنا گاتی تھیں۔ لیکن میری بیوی اسے ٹھیک ڈھنگ سے نہیں گا سکتی ہے، اس لیے یہ کام مجھے کرنا پڑتا ہے۔ عورتوں کو پہلے عبادت خانے اور انگنا (جہاں نقالی کا مظاہرہ ہوتا ہے) کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ آس پاس کے علاقے میں جمع ہوتی تھیں۔ آج انہیں ہر جگہ جانے کی اجازت ہے، حالانکہ بعض مقامات پر آج بھی خواتین کو بھوت/دیو سے براہ راست تبرک حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
کتھالسار کی بیوی شیلجا ایک سرکاری اسکول کی سابق ٹیچر ہیں، اور اب ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ان کا اکلوتا بیٹا کیرتن ۹ویں کلاس میں پڑھتا ہے اور تین سال قبل وہ نقالی کی اپنی پہلی کوشش کر چکا ہے۔
پڈّنا گانے اور دیو/ بھوت کے تیار ہونے کے بعد، اصل پیشکش شروع ہوتی ہے۔ پروفیسر رائے کہتے ہیں، ’’یہ ایک رسمی لوک پرفارمنس ہے، اسے ’رسوماتی تھیئٹر’ بھی کہا جا سکتا ہے، جس میں ضروری ساز و سامان کے علاوہ ملبوسات، میک اپ، رقص، گانا، کوریوگرافی، جادوئی مکالمے، ترانے، نذرانے، مقدس اشیاء کی تقسیم جیسے چندن کا پیسٹ، راکھ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔‘‘
پروفیسر گوڈا مزید کہتے ہیں، ’’یہ رسوماتی تھیٹر ہے جس میں غضب ناکی اور احتجاج کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ اس امر پر غور کریں کہ مندروں میں دیوتاؤں کی مورتیاں کس قدر پرسکون ہیں، جب کہ بھوت چیخ و پکار کرتے اور بے چین نظر آتے ہیں۔ یہ دلت برادری کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم اور ناانصافی کی تاریخ کے آئینہ دار ہیں۔‘‘
بعض اوقات ملبوسات اور زیورات کا وزن ۶۰ سے ۷۰ کلو تک ہو سکتا ہے اور سر کے پیچھے کا شاندار ہالہ (انی) ۱۰ فٹ اونچا۔ کتھالسار سے جب میں نے پوچھا کہ وہ یہ وزن کیسے اٹھاتے ہیں اور نقالی کی پیشکش کے دوران اپنے پیروں کی حرکت کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں، تو وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’اسی طریقے سے جس طرح سے میرے والد نے کیا، مشاہدے کے ذریعے۔ میں نے ان کا مشاہدہ کیا، اور میرا بچہ میرا مشاہدہ کرے گا اور سیکھے گا۔ ایسا کوئی اسکول نہیں ہے جہاں جا کر ہم اس فن کو سیکھ سکیں۔ اس فن کا کوئی گرو نہیں۔ یہ سراسر مشاہدہ اور تقلید پر مبنی ہے۔ موسیقی کی آواز، گرمی، اور لباس سب اداکار کے دیو/ بھوت کی شکل اختیار کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
ایک دہائی قبل کی اس رات کو، کورڈبّو دیو کے علاوہ راہو گُلیگا نے بھی نقالی کے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان کی نقالی کا ایک حصہ چاول کے مرمرے اور مرغ کے کچے گوشت کو جنونی انداز میں کھانا شامل تھا۔ انہوں نے چڑھاوے کی مرغ کا خون بھی پیا۔ مظاہرے کے لیے انہوں نے کوئی بھاری ملبوسات یا ماسک نہیں پہنا تھا اور چند پھولوں کے ہار پہن کر اور اپنے جسم کو پینٹ کرنے کے بعد اپنی پیشکش کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ اسٹیج نہ ہونے کے باعث وہ ہجوم کے درمیان چلے گئے تھے۔ اور اپنے شائقین کو براہ راست اپنی پیشکش میں شامل کیا تھا۔ کبھی کبھی وہ موسیقاروں سے ناراض ہونے کا ڈرامہ کرتے تھے اور کبھی کبھی ’سحرزدہ‘ شخص کے ارد گرد بھاگتے تھے۔ یہ کام وہ صرف شائقین کی طرف سے سرزنش کے بعد پرسکون ہونے کے لیے کرتے تھے۔ وہ کورڈبّو دیو کے ساتھ گھنٹوں رقص کرتے رہے تھے۔
کولا کے اختتام پر دیو/ بھوت بھوت استھان (مندر) کے گرد گھومتا ہے، اور ہاتھ میں پنکھا لیے تھک کر بیٹھ جاتا ہے، جب کہ لوگ اس کے پاس دعا حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ دھیرے دھیرے، رات ختم ہونے لگتی ہے۔ اس دوران نقال متعدد کردار ادا کرتا ہے: جنگل کے ایک محافظ کے طور پر (وہاں مقامی دیووں / بھوتوں کے لیے وقف مقدس درختوں کے جھرمٹ ہیں)، مقامی تنازعات حل کرنے کے لیے ایک دیہی عدالت کے طور پر، بہتوں کے لیے تزکیہ نفس کے ذریعہ کے طور پر، اور کہانی سنانے اور دلت برادریوں کے بھولے ہوئے ہیروز کی یاد کے ذریعہ کے طور پر۔
مترجم: شفیق عالم