اس ہفتہ منگل کے روز بارش کی وجہ سے سنٹرل ممبئی کا شیوا جی پارک کیچڑ سے اتنا بھر گیا تھا کہ پھسلن کی وجہ سے چلنا دشوار ہو رہا تھا۔ سکھو بائی کھورے پھسل کر گر گئیں اور ان کے پیر میں چوٹ بھی لگی۔ لیکن، پھر بھی وہ مسکرائیں، حالانکہ ان کے زیادہ تر دانت اب جھڑ چکے ہیں، اور بولیں، ’’یہاں میں اپنے دیو (بھگوان) کے پیر چھونے آئی ہوں۔ میں یہاں تب تک آتی رہوں گی جب تک کہ آ سکتی ہوں، جب تک میرے ہاتھ پیر کام کر رہے ہیں، تب تک، جب تک کہ میری آنکھوں میں روشنی ہے، تب تک میں آتی رہوں گی۔‘‘
ان کے، اور یہاں جمع ہونے والے تقریباً ہر شخص کے دیو ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ہیں۔ سکھو بائی ایک نیو بدھسٹ دلت ہیں۔ ان کی عمر تقریباً 70 سال ہے۔ وہ 6 دسمبر بروز بدھ کو، بابا صاحب امبیڈکر کی برسی پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے، جلگاؤں ضلع کے بھُساوَل سے یہاں آئی ہیں۔
یہ وہ دن ہے، جب ہر سال شیوا جی پارک – اور قریب میں واقع دادر کی چیتیہ بھومی میں دلت برادری کے ہزاروں، لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ چیتیہ بھومی وہی جگہ ہے، جہاں 1956 میں ہندوستان کے آئین ساز ڈاکٹر امبیڈکر کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔ وہ یہاں بی آر امبیڈکر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے آتے ہیں، جو 20ویں صدی کے ایک عظیم قائد اور مصلح قوم تھے اور جنہوں نے ہر جگہ دبے کچلے لوگوں کے حق میں آواز بلند کی۔ وہ بس سے، ٹرین سے اور بعض دفعہ لمبی دوریاں پیدل چل کر اس دن یہاں پہنچتے ہیں۔ وہ ممبئی سے، مہاراشٹر اور دیگر کئی ریاستوں کے مختلف گاؤوں اور شہروں سے یہاں آتے ہیں، نہایت ادب، احسان مندی اور محبت کے ساتھ۔ بہت سے لوگوں کو یہاں پہنچنے سے پہلے کئی دنوں تک کا لمبا سفر کرنا پڑتا ہے۔
لیلا بائی سین، تقریباً 1100 کلومیٹر دور، مدھیہ پردیش کے جبل پور سے گزشتہ 42 برسوں سے یہاں آ رہی ہیں۔ وہاں یہ ایک مالش والی کے طور پر کام کرتی ہیں؛ بقول اُن کے، ان کے شوہر ایک حجام تھے، نائی ذات سے ان کا تعلق تھا۔ اس دفعہ وہ 60 دیگر عورتوں کے ایک گروپ کے ساتھ آئی ہیں، رک رک کر چلنے والی ٹرین سے جس نے یہاں تک پہنچانے میں تین دن لگا دیے۔ ’’ہم صبح میں 2 بجے پہنچے اور دادر اسٹیشن پر سو گئے۔ آج رات کو ہم یہیں (شیواجی پارک سے باہر) فٹ پاتھ پر سوئیں گے،‘‘ وہ خوشی سے بتاتی ہیں۔ ’’ہم بابا صاحب سے لگاؤ کی وجہ سے یہاں آتے ہیں۔ انھوں نے ملک کے لیے اچھا کام کیا، جسے کوئی نہیں کر سکا، انھوں نے کر دکھایا۔‘‘
لیلا بائی کا گروپ اپنے تھیلوں کے ساتھ سڑک کنارے ٹھہرا ہوا ہے۔ یہ عورتیں آپس میں باتیں کر رہی ہیں، ہنس رہی ہیں، نظاروں اور آوازوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ حالانکہ یہ ڈاکٹر امبیڈکر کا یومِ وفات ہے اور دعائیہ تقریب ہے، پھر بھی لوگوں میں جشن کا ماحول ہے۔ یہ لوگ اس لیڈر کا جشن منا رہے ہیں جس نے ان کے لیے آواز بلند کی۔ چیتیہ بھومی کو جانے والی سڑک پر، ہر چند قدموں کی دوری پر دلت کارکن گانے گا رہے ہیں۔ کوئی انقلابی گانے گا رہا ہے، تو کوئی تقریر کر رہا ہے۔ باقی لوگ فٹ پاتھ پر بیچنے کے لیے رکھے گئے مختلف قسم کے سامانوں کو دیکھ رہے ہیں، جیسے گوتم بدھ اور بابا صاحب کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں، جے بھیم کیلنڈر، انگوٹھی کے چھلے، پینٹنگ وغیرہ۔ چاروں طرف نیلے رنگ کے بہوجن جھنڈے، بینر اور پوسٹر لہرا رہے ہیں۔ پولس والے بھی ہر جگہ موجود ہیں، جو بھیڑ کو کنٹرول کر رہے ہیں، سب پر نظر رکھے ہوئے ہیں، لوگوں کے سوالوں کا جواب دے رہے ہیں، یا پھر کچھ پولس والے دن بھر ڈیوٹی دینے کے بعد تھک چکے ہیں اور اب آرام کر رہے ہیں۔
شیواجی پارک کے اندر بھی درجنوں ٹینٹ کے اندر دکانیں لگی ہوئی ہیں، حالانکہ ان میں سے زیادہ تر پر کوئی سامان نہیں بیچا جا رہا ہے، بلکہ خدمات مہیا کرائی جا رہی ہیں – جیسے مفت کھانے، پانی، یہاں تک کہ انشورنس فارم بھی یا صرف ہمدردی – زیادہ تر اسٹال مزدور یونینوں، دلت سیاسی تنظیموں اور نوجوان کارکن گروپوں کے ہیں۔ ان میں سب سے مقبول وہ ہے جس پر کھانے کا سامان بانٹا جا رہا ہے۔ ایسے ہر ایک اسٹال پر مردوں، عورتوں اور بچوں کی لمبی قطاریں ہیں، جن میں سے کئی ننگے پیر کھڑے ہیں اور جن کے پیروں میں کیچڑ بھری ہوئی ہے۔ انہیں میں سے ایک بیبی سریتل ہیں، جو کریک جیک بسکٹ کا پیکٹ پانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ ہنگولی ضلع کے اونڈھا ناگناتھ تعلقہ کے شِراد شہا پور گاؤں سے یہاں آئی ہیں۔ ’’میں یہ سب، جاترا (میلہ) دیکھنے آئی ہوں،‘‘ وہ چاروں طرف پھیلی ہلچل کی جانب اشارہ کرتی ہوئی کہتی ہیں، ’’یہاں پر مجھے بابا صاحب امبیڈکر کے بارے میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
سکھو بائی بھی ’کریک جیک ٹینٹ‘ کے قریب انتظار کر رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں لال رنگ کا ایک پلاسٹک بیگ ہے جس کے اندر صرف ایک ساڑی اور ربڑ کی ایک جوڑی چپل ہے۔ کسی اسٹال پر رضاکاروں نے ان کو جو دو کیلے دیے تھے، وہ بھی اس تھیلے میں رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس پیسہ بالکل بھی نہیں ہے۔ گھر پر سکھو بائی کا ایک بیٹا ہے، جو زرعی مزدور کے طور پر کام کرتا ہے۔ ان کے شوہر بھی ایک زرعی مزدور تھے، جن کا چار مہینے قبل انتقال ہو چکا ہے۔ ’’میں اکیلی آئی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں کئی برسوں سے یہاں ہر سال آ رہی ہوں۔ مجھے یہاں آکر اچھا لگتا ہے۔‘‘
انہی کی طرح، سماج کی غریب ترین برادریوں میں سے جو لوگ 6 دسمبر کو دادر- شیواجی پارک آئے ہیں، ان کے پاس یا تو بہت کم پیسہ ہے یا بالکل بھی نہیں ہے۔ اس موقع پر ٹرین سے مفت سفر کا انتظام ہوتا ہے، اور یہ لوگ اسٹالوں پر ملنے والے کھانے پر منحصر رہتے ہیں، شانتا بائی کامبلے بتا رہی ہیں، جو کیچڑ والی زمین پر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں، خشک پتّے کی کٹوریوں اور سلور فوائل والے پیپر پلیٹوں میں دال اور روٹی کھا رہی ہیں۔ ان کے بزرگ، خاموش طبع شوہر منوہر نے ایک کپڑے میں کئی روٹیاں باندھ دی ہیں، تاکہ وہ اس سے رات کا اور اگلے دن کا کھانا کھا سکیں۔ یہ لوگ یوتمال ضلع کے پوسد تعلقہ کے سمبل پمپری گاؤں کے رہنے والے ہیں اور زرعی مزدور ہیں، جنہوں نے پچھلی رات سڑک پر گزاری تھی۔ شانتا بائی کا کہنا ہے کہ عام طور سے یہ لوگ شیواجی پارک کے اندر ٹینٹ میں سوتے ہیں، لیکن اس سال بارش کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے۔
آنند واگھمارے بھی ایک زرعی مزدور ہیں؛ وہ ناندیڑ ضلع کے امبولگا گاؤں سے نندی گرام ایکسپریس سے، اپنی 12 سالہ بیٹی نیہا کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ آنند کے پاس بی اے کی ڈگری ہے، لیکن انھیں کوئی کام نہیں مل سکا۔ ’’ہمارے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔ اس لیے میں کھیتوں میں مزدوری کا کام کرتا ہوں، اور ایک دن میں 100 سے 150 روپے تک کما لیتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں یہاں بابا صاحب کا درشن کرنے آیا ہوں۔ ہمیں (وہ ایک نیو بدھسٹ ہیں، پہلے ان کا تعلق مہار برادری سے تھا) یہ ساری سہولتیں انہی کی وجہ سے حاصل ہوئیں۔ وہ لوگوں کے مہاتما تھے۔‘‘
پارک کے اندر سامان بیچنے کے لیے جو اسٹال بنائے گئے ہیں، کیچڑ کی وجہ سے وہ اچھا کاروبار نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایم ایم شیخ نے دو لمبی میزوں کے اوپر کتابیں لگا رکھی ہیں، جن میں سے زیادہ تر کتابیں سماج اور ذات کے موضوع پر ہیں۔ وہ مراٹھواڑہ کے بیڈ سے یہاں آئے ہیں، اپنے گھر پر بھی وہ یہی کام کرتے ہیں۔ ’’میں ہر سال آتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’لیکن آج کچھ بھی فروخت نہیں ہو سکا ہے۔ میں جلد ہی اپنا سامان پیک کروں گا اور آج رات کو ہی واپس لوٹ جاؤں گا۔‘‘
ان کی دکان سے کچھ ہی دوری پر ایک ٹینٹ لگا ہوا ہے، جس میں صحت سے متعلق مفت خدمات مہیا کرائی جا رہی ہیں۔ اس کے سربراہ ڈاکٹر اُلہاس واگھ ہیں، جو بتا رہے ہیں کہ وہ یہاں ہر سال 15-12 ڈاکٹروں کی ایک ٹیم لے کر آتے ہیں اور دن بھر تقریباً 4000 لوگوں کی – سردرد، جلد پر دھبے، پیٹ درد وغیرہ سے متعلق شکایتیں دور کرتے ہیں۔ ’’یہاں پر جو طبقہ آتا ہے وہ نہایت غریب ہے، یہ گاؤوں اور جگھیوں میں رہنے والے لوگ ہیں جہاں بہت کم طبی سہولیات دستیاب ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اس ٹینٹ میں آنے والے زیادہ تر لوگوں کی شکایت یہ ہوتی ہے کئی دنوں تک سفر کرنے اور بھوک کی وجہ سے انھیں کمزوری محسوس ہو رہی ہے۔
پربھنی ضلع کے جِنتور تعلقہ کے کانہا گاؤں کے دو نوجوان کسان پاس سے گزر رہے ہیں، یہ دونوں تجسس بھری نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام نتن ہے جو 28 سال کے ہیں اور دوسرے کا نام راہل دَوَنڈے ہے جو 25 سال کے ہیں۔ دونوں آپس میں بھائی اور نیو بدھسٹ ہیں، جو اپنے تین ایکڑ کھیت پر کپاس، سویابین، ارہر اور اُڑد کی کھیتی کرتے ہیں۔ انھیں چند رضاکاروں کی مدد سے ایک کالج میں رات میں ٹھہرنے کی سہولت مل گئی ہے۔ ’’ہم یہاں شردھانجلی (عقیدت مندی) کے طور پر آتے ہیں،‘‘ نتن کا کہنا ہے۔ ’’ہمارا ماننا ہے کہ اگر ہم یہاں آتے رہیں گے، تو ایک دن ہمارے بچے بھی آئیں گے اور اس طرح یہ روایت جاری رہے گی۔‘‘
شام میں جیسے ہی اندھیرا ہونے لگا، چیتیہ بھومی کی طرف آنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی، اور اب اس بھیڑ کے اندر گھسنا تقریباً ناممکن ہو گیا۔ لاتور ضلع کے اوسا تعلقہ کے اوٹی گاؤں سے یہاں آنے والے سندیپن کامبلے جب اندر جانے میں ناکام رہے، تو انھوں نے باہر ہی انتظار کرنے کا فیصلہ کیا، اور اب وہ ایک درخت کے نیچے جھپکی لے رہے ہیں۔ ’’میں یہاں پہلی بار آیا ہوں،‘‘ زرعی مزدور سندیپن کہتے ہیں۔ ’’میرے ساتھ میری بیوی اور بچے بھی ہیں۔ میں نے سوچا کہ چلو اس سال انھیں بھی 6 دسمبر دکھا دوں۔‘‘
وہیں، پارک کے اندر، شیخ کی بک اسٹال کے قریب، ایک چھوٹی لڑکی گم ہو گئی ہے اور اپنی ماں کو زور زور سے آواز لگاتی ہوئی گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگ رہی ہے۔ مٹھی بھر لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں، جو اسے دلاسہ دے کر اس سے بولنے کے لیے کہہ رہے ہیں؛ اسے صرف کنڑ زبان آتی ہے، لیکن کسی طرح وہ موبائل نمبر بتاتی ہے۔ ایک نوجوان پولس والا وہاں آتا ہے اور معاملہ کو سنبھالتا ہے۔ جس سنجیدگی سے اس لڑکی کی تشویش کو دور کیا گیا وہ ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے – اتنے بڑے مجمع میں کہیں بھی افرا تفری کا عالم نہیں ہے، نہ ہی خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا کوئی واقعہ سامنے آیا ہے، نہ ہی کوئی کسی کے ساتھ تلخ کلامی کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اور اسی درمیان بک اسٹال سے تھوڑی ہی دوری پر، ایک دوسری چھوٹی لڑکی دوڑتی ہوئی ایک ٹینٹ کے اندر داخل ہوتی ہے اور ڈاکٹر امبیڈکر کے گلے میں مالا پڑی ہوئی تصویر کے سامنے، سرجھکائے ہوئے، ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)