رما کے لیے جمعہ، یکم اپریل ۲۰۲۲ کی صبح عام دنوں جیسی ہی تھی۔ وہ تقریباً ساڑھے چار بجے سو کر اٹھیں، گاؤں کے ایک نزدیکی کنویں سے پانی لے کر آئیں، کپڑے دھوئے، گھر کی صفائی کی، اور کچھ دیر بعد اپنی ماں کے ساتھ کانجی پی۔ اس کے بعد وہ اپنے گاؤں سے ۲۵ کلومیٹر دور، ڈنڈی گل ضلع کے وید سندور تعلقہ میں واقع ’نیچی ایپریل‘ کپڑا فیکٹری میں کام کرنے کے لیے روانہ ہو گئیں۔ لیکن اُس دن دوپہر کے بعد، ۲۷ سالہ رما اور ان کے ساتھ کام کرنے والی دیگر خواتین کارکنوں نے ایک تاریخ رقم کی – ایک سال سے بھی زیادہ طویل عرصے تک جدوجہد کرنے کے بعد وہ اپنی کپڑا فیکٹری سے جنسی ہراسانی کو ختم کروانے میں کامیاب رہیں۔
’’سچ کہوں تو، مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم نے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے،‘‘ رما ڈنڈی گل معاہدہ کے بارے میں بتاتی ہیں – جس پر اُس دن ایسٹ مین ایکسپورٹس گلوبل کلودنگ (تریپور میں واقع نیچی ایپریل کی بانی کمپنی) اور تمل ناڈو ٹیکسٹال اینڈ کامن لیبر یونین (ٹی ٹی سی یو) نے دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ تمل ناڈو کے ڈنڈی گل ضلع میں ایسٹ مین ایکسپورٹس کے ذریعے چلائی جا رہی فیکٹریوں سے صنف کی بنیاد پر تشدد اور ہراسانی کو ختم کرنے سے متعلق ہے۔
اس تاریخی معاہدہ کے تحت، ملٹی نیشنل فیشن برانڈ، ایچ اینڈ ایم، نے ٹی ٹی سی یو – ایسٹ مین ایکسپورٹس معاہدہ کے نفاذ میں مدد کرنے کے لیے ایک ’قابل نفاذ برانڈ ایگریمنٹ‘ یا ای بی اے پر دستخط کیے۔ ایسٹ مین ایکسپورٹ کی نیچی ایپریل فیکٹری میں تیار ہونے والا کپڑا سویڈن بھیجا جاتا ہے، جہاں پر کپڑے کی اس کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ ایچ اینڈ ایم کے ذریعے دستخط شدہ یہ معاہدہ، فیشن انڈسٹری میں صنف کی بنیاد پر ہونے والے تشدد سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر اس قسم کا دوسرا معاہدہ ہے۔
ٹی ٹی سی یو، کپڑا فیکٹری میں کام کرنے والوں کی ایک ٹریڈ یونین ہے، جس کی قیادت دلت خواتین کر رہی ہیں۔ رما بھی اس یونین کی ایک رکن ہیں اور نیچی ایپریل میں گزشتہ چار سالوں سے کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ انتظامیہ اور برانڈ [ایچ اینڈ ایم] دلت خواتین کی قیادت والی ٹریڈ یونین کے ساتھ کسی معاہدہ پر دستخط کرے گی۔ کچھ غلط کام کرنے کے بعد، اب جا کر انہوں نے صحیح قدم اٹھا ہے۔‘‘ یونین کے ساتھ کیا جانے والا ایچ اینڈ ایم کا یہ معاہدہ ہندوستان میں اب تک کا ایسا پہلا ای بی اے ہے۔ یہ قانون سے مشروط معاہدہ ہے، جس کے تحت ایچ اینڈ ایم کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ اگر ایسٹ مین ایکسپورٹس ، ٹی ٹی سی یو کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے تو وہ اس کے اوپر جرمانہ عائد کرے۔
لیکن یہ معاہدہ اتنی آسانی سے نہیں ہوا ہے۔ بلکہ، نیچی ایپریل میں کام کرنے والی ایک ۲۰ سالہ خاتون، جیاسرے کاتراویل کی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کو ایک سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد ایسٹ مین کمپنی اس معاہدہ کے لیے تیار ہوئی۔ اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے فیکٹری کے ایک سپروائزر نے جیاسرے کا کئی مہینوں تک جنسی استحصال کیا، اور جنوری ۲۰۲۱ میں ان کا قتل کر دیا گیا۔ اس جرم کے لیے سپروائزر کو سزاوار پایا گیا ہے۔
جیاسرے کے قتل کے بعد کپڑا فیکٹری اور اس کی بانی کمپنی، ایسٹ مین ایکسپورٹس کے خلاف لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا۔ ایسٹ مین ایکسپورٹس کپڑا بنانے اور اس کی برآمد کرنے والی ہندوستان کی سب سے بڑی کمپنی ہے، جو ایچ اینڈ ایم، گیپ اور پی وی ایچ جیسی دنیا کی بڑی کمپنیوں کو ان تیارہ شدہ کپڑوں کی سپلائی کرتی ہے۔ جیاسرے کو انصاف دلانے کی مہم کے دوران یونینوں، مزدوروں کے گروہوں اور خواتین کی تنظیموں کے عالمی اتحاد نے مطالبہ کیا تھا کہ فیشن برانڈز ’’ ایسٹ مین ایکسپورٹس کے ذریعے مس کاتراویل کی فیملی کو دی جانے والی دھمکیوں کے خلاف سخت کارروائی کریں‘‘۔
لیکن، جیاسرے کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان کی موت کے بعد، نیچی ایپریل میں کام کرنے والی کئی خواتین کارکنان نے سامنے آکر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی کہانیاں بیان کیں۔ یہ عورتیں ذاتی طور پر ملنے سے کترا رہی تھیں، لہٰذا اُن میں سے کچھ نے پاری سے فون پر بات کی۔
کپڑا فیکٹری میں کام کرنے والی ۳۱ سالہ کوسلا بتاتی ہیں، ’’یہاں کے [مرد] سپروائزر ہمیں ہمیشہ گالیاں دیتے ہیں۔ کسی وجہ سے اگر ہم کام پر دیر سے پہنچے یا ہم نے پروڈکشن ٹارگیٹ کو پورا نہیں کیا، تو وہ ہمارے ساتھ بہت بیہودگی سے پیش آتے ہیں اور ہمیں ذلیل کرتے ہیں۔ کوسلا کا تعلق دلت برادری سے ہے، جنہوں نے ایک دہائی پہلے ۱۲ویں کلاس پاس کرنے کے بعد اس کپڑا فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ مزید بتاتی ہیں، ’’یہاں پر کام کرنے والی دلت خواتین کو سپروائزروں کے ذریعے سب سے زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے – اگر ہم نے ٹارگیٹ پورا نہیں کیا، تو وہ ہمیں ’بھینس‘، ’کتیا‘، ’بندریا‘، جو کچھ بھی منہ میں آتا ہے بولتے رہتے ہیں۔ کئی سپروائزر تو ایسے بھی تھے، جو ہمیں چھونے کی کوشش کرتے یا ہمارے لباس پر تبصرہ کرتے یا خواتین کے جسم کے بارے میں فحش مذاق کرتے تھے۔‘‘
گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کر چکیں لتا نے اپنی آگے کی پڑھائی کے لیے پیسوں کا انتظام کرنے کی خاطر اس فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ (انہیں اور کپڑا بنانے والے دیگر کارکنوں کو یہاں آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرنے کے بدلے یومیہ ۳۱۰ روپے ملتے ہیں۔) لیکن فیکٹری کی خوفناک صورتحال سے وہ کافی پریشان تھیں۔ وہ روتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’مرد منیجر، سپروائزر اور میکینک – سبھی ہمیں چھونے کی کوشش کرتے ہیں اور یہاں ایسا کوئی بھی نہیں ہے جس کے پاس جا کر ہم ان کے خلاف شکایت کر سکیں۔‘‘
لتا کو کام کرنے کے لیے اپنے گاؤں سے فیکٹری تک پہنچنے میں ۳۰ کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ وہ آگے بتاتی ہیں، ’’جب کوئی میکینک ہماری سلائی کی مشین ٹھیک کرنے آئے گا، تو وہ آپ کو چھوئے گا یا جنسی تعلقات قائم کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ اگر آپ نے انکار کر دیا، تو وہ آپ کی مشین کو وقت پر ٹھیک نہیں کرے گا، جس کی وجہ سے آپ اپنا پروڈکشن ٹارگیٹ پورا نہیں کر پائیں گے – پھر آپ کو سپروائزر یا منیجر گالیاں دے گا۔ کبھی کبھی تو سپروائزر خاتون کارکن کے بغل میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کے جسم سے اپنا جسم رگڑتا ہے۔‘‘
لتا بتاتی ہیں کہ عورتوں کے پاس اس سے نمٹنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ’’وہ کس سے شکایت کرے؟ اگر وہ کسی اونچی ذات کے مرد منیجر کے خلاف اپنی آواز اٹھائے گی، تو دلت خاتون کی باتوں پر بھلا کون یقین کرے گا؟‘‘
ٹی ٹی سی یو کی صدر، ۴۲ سالہ دِویہ راکنی بھی وہی سوال اٹھاتی ہیں، ’’وہ کس سے شکایت کرے؟‘‘ نیچی ایپریل میں صنف پر مبنی ہراسانی کو ختم کرنے کے لیے دِویہ اس لمبی مہم کی قیادت کر چکی ہیں۔ دلت خواتین کی قیادت والی ٹریڈ یونین، ٹی ٹی سی یو سال ۲۰۱۳ میں بنائی گئی تھی، جو جیاسرے کی موت سے پہلے بھی، تمل ناڈو میں صنف پر مبنی تشدد کے خاتمہ کے لیے کارکنوں کو منظم کرنے کا کام کرتی رہی ہے۔ یہ ٹریڈ یونین کوئمبٹور، ڈنڈی گل، ایروڈ اور تریپور جیسے ملبوسات بنانے کے مرکز سمیت تمل ناڈو کے ۱۲ ضلعوں کے تقریباً ۱۱ ہزار کارکنوں کی نمائندگی کرتی ہے – جن میں سے ۸۰ فیصد لوگ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی صنعت میں کام کرتے ہیں۔ یہ ٹریڈ یونین کپڑے کی فیکٹریوں میں ہونے والی اجرت کی چوری اور ذات پر مبنی تشدد کے خلاف بھی آواز اٹھاتی ہے۔
دویہ بتاتی ہیں، ’’اس معاہدہ سے پہلے، فیکٹری [نیچی] میں شکایت درج کرانے کے لیے کوئی معقول انٹرنل کمپلینٹس کمیٹی [آئی سی سی] نہیں تھی۔‘‘ فیکٹری میں کام کرنے کے لیے ۲۸ کلومیٹر دور کے ایک گاؤں سے آنے والی ۲۶ سالہ دلت کارکن، منی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی سی سی عورتوں کے برتاؤ کو لے کر پولیس والا کام کرتی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہماری شکایتوں کا ازالہ کرنے کی بجائے، ہم سے کہا جاتا تھا کہ کپڑے کیسے پہننے ہیں یا بیٹھنا کیسے ہے۔ ہمیں باتھ روم جانے سے روکا جاتا، وقت سے زیادہ کام کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا اور وہ چھٹیاں بھی نہیں دی جاتی تھیں جن کے ہم حقدار تھے۔‘‘
جیاسرے کی موت کے بعد، ٹی ٹی سی یو نے نہ صرف جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے قدم اٹھانے کی مانگ کی، بلکہ اس نے باتھ روم جانے سے منع کرنے اور زبردستی اوورٹائم کرانے کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔
دویہ بتاتی ہیں، ’’کمپنی یونینوں کے خلاف تھی، اس لیے زیادہ تر کارکنوں نے یونین کی رکنیت کے بارے میں کسی کو بتایا نہیں۔‘‘ لیکن جیاسرے کی موت نے انہیں اپنی آواز اٹھانے کا موقع دے دیا۔ فیکٹری کی طرف سے ڈرائے دھمکائے جانے کے باوجود، رما، لتا اور منی جیسی کارکنوں نے اس کے خلاف لڑنے کا من بنا لیا۔ تقریباً ۲۰۰ خواتین کارکنوں نے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ ان میں سے کئی عورتوں نے جیاسرے کو انصاف دلانے والی مہم کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کے لیے عالمی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں کو اس کے بارے میں بتایا۔
آخرکار، ٹی ٹی سی یو، اور بین الاقوامی فیشن سپلائی چین میں ہونے والے تشدد اور ہراسانی کو روکنے کے لیے مہم چلانے والی دو تنظیموں – ایشیا فلور ویج الائنس (اے ایف ڈبلیو اے) اور گلوبل لیبر جسٹس-انٹرنیشنل لیبر رائٹس فورم (جی ایل جے-آئی ایل آر ایف) – نے اس سال اپریل میں ’ایچ اینڈ ایم‘ کے ساتھ قابل نفاذ برانڈ ایگریمنٹ پر دستخط کیے۔
تینوں تنظیموں کے ذریعے جاری کردہ مشترکہ پریس ریلیز کے مطابق، ڈنڈی گُل معاہدہ ہندوستان کا پہلا قابل نفاذ برانڈ ایگریمنٹ ہے۔ یہ ’’دنیا کا پہلا ای بی اے بھی ہے جس میں کپڑے کی فیکٹریوں اور لباس میں استعمال ہونے والے کپڑے اور ٹیکسٹائل بنانے والی فیکٹریوں، دونوں کو شامل کیا گیا ہے۔‘‘
اس کے تمام دستخط کنندگان نے مشترکہ طور پر ’’صنف، ذات، یا مہاجرت کی حالت پر مبنی امتیاز کو ختم کرنے؛ شفافیت بڑھانے؛ اور ملبوسات بنانے والی فیکٹریوں میں باہمی احترام کا ماحول تیار کرنے‘‘ کا وعدہ کیا ہے۔
اس معاہدہ میں عالمی مزدوری کے معیاروں کو اپنایا گیا ہے، جو بین الاقوامی مزدور تنظیم (آئی ایل او) کے تشدد اور ہراسانی کے کنونشن سے ماخوذ ہیں۔ یہ معاہدہ دلت خواتین کارکنان کے حقوق، ان کے متحد ہونے کی آزادی اور انہیں یونین بنانے اور ان میں شامل ہونے کے ان کے حق کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ داخلی شکایات کمیٹی (آئی سی سی) کو شکایات موصول کرنے اور ان کی تحقیقات کرنے کے ساتھ ہی، ان شکایات کے تدارک سے متعلق تجاویز پیش کرنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ معاہدہ کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے آزاد تشخیص کار رکھے جائیں گے، اور عدم تعمیل کی صورت میں ’ایچ اینڈ ایم‘ کی طرف سے ایسٹ مین ایکسپورٹس کو کاروباری نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
ڈنڈی گل معاہدہ میں نیچی ایپریل اور (ڈنڈی گل میں واقع) ایسٹ مین اسپنگ ملز کے تمام کارکنوں کا احاطہ کیا گیا ہے، جن کی تعداد کل ملا کر ۵۰۰۰ سے زیادہ ہے۔ تقریباً سبھی کارکنان خواتین ہیں، جن میں سے اکثریت کا تعلق دلت برادری سے ہے۔ دویہ کہتی ہیں، ’’یہ معاہدہ ملبوسات کے شعبے میں کام کرنے والی عورتوں کی حالت کو بہت حد تک بہتر بنائے گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ منظم دلت خواتین کیا کچھ حاصل کر سکتی ہیں۔‘‘
۳۱ سالہ ملّی کہتی ہیں، ’’میرے ساتھ یا جیاسرے جیسی میری بہنوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اب میں اس کا ماتم نہیں کرنا چاہتی۔ بلکہ آئندہ میں یہ دیکھنا اور سوچنا چاہتی ہوں کہ جیاسرے اور دوسروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آئندہ کسی اور کے ساتھ کبھی نہ ہو، اس بات کو یقینی بنانے میں ہم اس معاہدہ کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘
اب اس کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔ لتا کہتی ہیں، ’’اس معاہدہ کے بعد کام کے حالات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ اب باتھ روم جانے اور دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے معقول مہلت دی جاتی ہے۔ چھٹی لینے سے بھی منع نہیں کیا جاتا – خاص کر جب ہم بیمار پڑ جائیں۔ کسی سے زبردست اوور ٹائم نہیں کرایا جا رہا ہے۔ سپروائز اب خواتین کارکنوں کو گالیاں نہیں دیتے ہیں۔ بلکہ یوم خواتین اور پونگل کے موقع پر وہ ان کارکنان کو مٹھائیاں دیتے ہیں۔‘‘
رما خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’حالات اب بدل گئے ہیں۔ سپروائزر ہمارا احترام کرنے لگے ہیں۔‘‘ کارکن کی اس مہم کے دوران انہوں نے فل ٹائم کام کیا، اور ہر گھنٹے ۹۰ زیر جامہ (انڈرگامینٹ) کی سلائی کی۔ اس کام کے دوران ان کی پیٹھ میں شدید درد ہوتا ہے، جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں، ’’اس کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس صنعت میں کام کرنے کا ایک حصہ ہے۔‘‘
شام کو گھر واپس جانے کے لیے کمپنی کی بس کا انتظار کر رہیں رما کہتی ہیں، ’’ہم کارکنوں کے لیے اور بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘
اس اسٹوری میں ہم نے کپڑا فیکٹریوں میں کام کرنے والی جن کارکنوں کا انٹرویو لیا ہے، ان سبھی کے نام بدل دیے گئے ہیں تاکہ ان کی رازداری کی حفاظت کی جا سکے۔
مترجم: محمد قمر تبریز