۵۰۔ وزیری تھل: طبی سہولیات پر بھی اندھیرے کا غلبہ
جموں و کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کے ایک دورافتادہ گاؤں میں حاملہ خواتین بجلی کی ناقص فراہمی اور صحت عامہ کی خراب سہولیات کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہیں۔ گاؤں میں ان کی واحد امید ایک بزرگ دائی (دایہ) ہیں
۱۷ نومبر، ۲۰۲۲| جگیاسا مشرا
۴۹۔ خواتین کی صحت پر بھاری پڑ رہا ہے بیڑی بنانا
مرشد آباد ضلع میں غریب عورتیں ہی بیڑی بنانے کا کام کرتی ہیں، جس کے لیے انہیں کڑی محنت کرنی پڑتی ہے جب کہ اجرت بہت کم ملتی ہے۔ تمباکو کے رابطے میں لگاتار رہنا عام صحت کے ساتھ ساتھ ان کی تولیدی صحت کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے
۳۱ اکتوبر، ۲۰۲۲| اسمیتا کھٹور
۴۸۔ اپنے ہی گھر میں تنہائی کی شکار حائضہ عورتیں
اتراکھنڈ کے اودھم سنگھ نگر ضلع کی عورتیں بتا رہی ہیں کہ حیض اور زچگی کے دوران کیسے انہیں قدیم رواجوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
۱۹ ستمبر، ۲۰۲۲| کریتی اٹوال
۴۷۔ بولیرو کی پچھلی سیٹ پر بچے کی پیدائش
ہماچل پردیش میں قابل رسائی طبی خدمات اور پوری طرح سے کام کر رہے صحت عامہ کے مراکز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے دیہی علاقوں میں رہنے والی عورتوں کو آج بھی زچگی کے دوران مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
۳۱ اگست، ۲۰۲۲| جگیاسا مشرا
۴۶۔ ناقابل برداشت درد میں مبتلا اسُنڈی کی دلت خواتین
کم مزدوری اور پیٹ بھرنے لائق کھانا نہیں ملنے سے ہاویری ضلع کے اس گاؤں کی عورتوں کی صحت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ ان کی کالونی میں بیت الخلاء نہ ہونے کی وجہ سے حیض سے متعلق مسائل میں مبتلا خواتین کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے
۱۸ اگست، ۲۰۲۲ | ایس سینتلیر
۴۵۔ ’نس بندی کرانے، میں گھر سے اکیلی ہی نکل گئی تھی‘
ان کی فیملی کے مرد عموماً سورت اور دوسرے شہروں میں مہاجر مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں، اسی لیے اُدے پور کی گمیتی برادری کی ان تنہا عورتوں نے صحت اور مانع حمل جیسے معاملوں میں خود کفیل ہونا سیکھ لیا ہے، اور اپنے فیصلے خود لیتی ہیں
۲۷ جولائی، ۲۰۲۲ | کویتا ایئر
۴۴۔ ’مجھے اور بچے پیدا ہی نہیں کرنے تھے‘
سنیتا دیوی کی خواہش تھی کہ وہ محفوظ اور آسان طریقے سے بچے پیدا کرنا بند کر دیں، اسی لیے انہوں نے کاپر ٹی لگوائی، لیکن جب یہ حمل کو روکنے میں ناکام رہی، تو انہیں اپنا اسقاط حمل کروانے کے لیے دہلی اور بہار میں واقع پی ایچ سی سے پرائیویٹ کلینک اور پھر وہاں سے سرکاری اسپتالوں تک کے چکر لگانے پر مجبور ہونا پڑا
۱۲ جولائی، ۲۰۲۲ | سنسکرتی تلوار
۴۳۔ کلاوتی سونی: مانع حمل اشیاء اور رازداری کی ڈپو ہولڈر
مانع حمل اور کنڈوم کے تھیلے کے ساتھ کلاوتی سونی، امیٹھی ضلع کے ٹیکری گاؤں کی خواتین کی ایک قابل اعتماد سہیلی بن چکی ہیں۔ ان کی غیر رسمی گفتگو نے یہاں تولیدی حقوق کے پیغام کو زندہ رکھا ہے
۲۲ جون، ۲۰۲۲| انوبھا بھونسلے
۴۲۔ ’یہ سب میری بچہ دانی نکالے جانے کے بعد ہی شروع ہوا‘
بیڈ ضلع میں گنّے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین مزدوروں کی ایک بڑی آبادی کو بچہ دانی نکلوانے کی سرجری سے گزرنے کے بعد بے چینی، تناؤ، جسمانی امراض، اور تلخ شادی شدہ زندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
۲۵ مارچ، ۲۰۲۲ | جیوتی شنولی
۴۱۔ ’اسقاط حمل کے بارے میں دوسروں کو بتانا نہیں چاہتی تھی‘
ندی کا پانی بہت زیادہ کھارا ہو چکا ہے، گرمیوں میں درجۂ حرات کافی بڑھ جاتا ہے، اور صحت عامہ کے مراکز تک رسائی حاصل کرنا اُن کے لیے آج بھی ایک ادھورا خواب بنا ہوا ہے۔ ان تمام چیزوں کی وجہ سے سندربن کی عورتیں مختلف قسم کے طبی مسائل میں مبتلا ہیں
۱۰ مارچ، ۲۰۲۲ | اُروشی سرکار
۴۰۔ ’دوائیں دیتے وقت وہ میرے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہیں‘
https://ruralindiaonline.org/ur/articles/%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%DB%8C%D8%AA%DB%92-%D9%88%D9%82%D8%AA-%D9%88%DB%81-%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%92-%D8%AC%D8%B3%D9%85-%D9%BE%D8%B1-%DB%81%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%BE%DA%BE%DB%8C%D8%B1%D8%AA%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%BA/
راجدھانی دہلی میں بھی اسپتال کے عملہ کے ذریعے ہونے والے استحصال و ذلت آمیز رویہ، اور اپنی رازداری کی خلاف ورزی کی وجہ سے سیکس ورکرز کا حفظان صحت کی سہولیات تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے، اور وبائی مرض نے ان کی مشکلوں کو مزید بڑھا دیا ہے
۲۱ فروری، ۲۰۲۲ | شالنی سنگھ
۳۹۔ جھارکھنڈ: ’جھولا چھاپ‘ ڈاکٹروں کے سہارے چلتا طبی نظام
جھارکھنڈ کے مغربی سنگھ بھوم ضلع کے دور افتادہ گاؤوں میں طبی خدمات کی حالت کافی خستہ ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے چیلنجز اسے مزید سنگین بناتے ہیں۔ ایسے میں ’دیہی میڈیکل پریکٹشنر‘ یعنی ’جھولا چھاپ ڈاکٹروں‘ کو نظر انداز کرنا ناممکن ہو گیا ہے، اور طبی نگہداشت کا سارا بوجھ انسانی بھروسے کی کمزور رسی پر ٹکا ہوا ہے
۳ فروری، ۲۰۲۲ | جیسنتا کیرکیٹا
۳۸۔ میلگھاٹ کی آخری بچیں روایتی دایہ
https://ruralindiaonline.org/ur/articles/%D9%85%DB%8C%D9%84%DA%AF%DA%BE%D8%A7%D9%B9-%DA%A9%DB%8C-%D8%A2%D8%AE%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%DA%86%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA%DB%8C-%D8%AF%D8%A7%DB%8C%DB%81/
مہاراشٹر کے میلگھاٹ ٹائیگر ریزرو کے آس پاس کی آدیواسی بستیوں میں، روپی اور چارکو جیسی روایتی دایہ نے ہی برسوں سے گھر پر بچوں کی ڈیلیوری کروائی ہے۔ لیکن، اب دونوں بوڑھی ہو چکی ہیں اور ان کی روایت کو آگے بڑھانے والا کوئی نہیں ہے
۲۸ جنوری، ۲۰۲۲ | کویتا ایئر
۳۷۔ یوپی: ’نس بندی صرف عورت کیلئے ہی کیوں؟‘
یوپی کے وارانسی ضلع میں، موسہر خواتین کی طبی خدمات تک رسائی تو کم ہے ہی، لیکن بار بار رسوائی کے ڈر سے وہ اپنے اختیارات کا استعمال بھی پوری طرح نہیں کر پا رہی ہیں
۱۰ جنوری، ۲۰۲۲| جگیاسا مشرا
۳۶۔ مدھوبنی: جہاں بیٹیوں کے برتھ سرٹیفکیٹ نہیں بنتے
بہار کے مدھوبنی ضلع کے غریب اور مالی اعتبار سے پس ماندہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو بنیادی طبی سہولیات تک رسائی حاصل کرنے اور ان کا فائدہ اٹھانے کے لیے مصیبتوں کے تلاطم سے گزرتے ہوئے تمام طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے صحت کے جس نظام سے انہیں تھوڑی بہت مدد یا راحت مل جاتی ہے، جب اس میں بھی بدعنوانی کے معاملے سامنے آتے ہیں، تو پھر بے بسی کے عالم میں ان کے پاس بس نا امیدی ہی بچتی ہے
۲۷ اکتوبر، ۲۰۲۱| جگیاسا مشرا
۳۵۔ یوپی: ’ہمارا گاؤں کسی اور دور میں جی رہا ہے‘
سونو اور مینا کی کہانی، پریاگ راج کے دیہی علاقوں کی دلت بستیوں میں رہنے والی تمام نو عمر بچیوں کی کہانی ہے۔ سونو اور مینا کی جلد ہی شادی ہونے والی ہے، جب کہ ان کی عمر ابھی کافی کم ہے
۱۱ اکتوبر، ۲۰۲۱ | پریتی ڈیوڈ
۳۴۔ تین بیٹیاں؟ اب کم از کم دو بیٹے پیدا کرو
غریبی، ناخواندگی، اور اپنی زندگی پر کنٹرول نہ ہونے کے سبب، بہار کے گیا ضلع کی مختلف طبقوں کی عورتوں کی صحت کو مسلسل خطرہ لاحق ہے
۲۹ ستمبر، ۲۰۲۱| جگیاسا مشرا
۳۳۔ دہلی: عورتوں کی صحت کے ساتھ چل رہا کھلواڑ
دیپا جب ڈیلیوری کے بعد دہلی کے ایک اسپتال سے واپس لوٹیں، تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے جسم میں کاپر ٹی لگایا جا چکا ہے۔ دو سال بعد جب انہیں درد اور خون آنے لگا، تو ڈاکٹر کئی مہینوں تک ڈیوائس کا پتہ ہی نہیں لگا سکے
۱۴ ستمبر، ۲۰۲۱ | سنسکرتی تلوار
۳۲۔ ’ایسا لگتا ہے جیسے مرد ہر وقت ہمیں گھور رہے ہیں‘
بند پڑے پبلک ٹوائلیٹ، دور افتادہ بلاک، پردے سے ڈھکے چھوٹے ڈبے جیسے ٹوائلیٹ، غسل اور سینیٹری پیڈ کے استعمال اور نمٹارہ کے لیے رازداری کی کمی، رات کے وقت بیت الخلاء کے لیے ریل کی پٹریوں پر جانے کی مجبوری: یہ ایسی مشکلیں ہیں جن کا سامنا پٹنہ کی جھگی بستیوں میں رہنے والی لڑکیاں ہر روز کرتی ہیں
۳۱ اگست، ۲۰۲۱ | کویتا ایئر
۳۱۔ ’کاش مجھے معلوم ہوتا کہ پانی میں کینسر ہے‘
بہار کے گاؤوں میں زمین کے اندر سے نکلنے والے پانی میں آرسینک ہونے کی وجہ سے پریتی کی فیملی جیسے لوگوں کی کینسر سے موت ہو گئی اور خود ان کے سینے میں بھی گانٹھ ہو گیا ہے۔ لیکن یہاں کی عورتوں کو اپنا علاج کرانے میں اکثر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
۲۵ اگست، ۲۰۲۱ | کویتا ایئر
۳۰۔ بہار: گھر ہی پر ۷ بچوں کی پیدائش، ۳۶ سال میں بن گئیں نانی
شانتی مانجھی نے بہار کے شیوہر ضلع کی موسہر بستی میں سات بچوں کو گھر پر ہی جنم دیا۔ یہاں کے کچھ ہی لوگوں کی رسائی طبی خدمات تک ہے اور اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ بچوں کی ڈیلیوری کے لیے کیا یہاں کوئی پی ایچ سی موجود ہے
۱۸ اگست، ۲۰۲۱ | کویتا ایئر
۲۹۔ ’میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹیوں کی حالت میرے جیسی ہو‘
بہار کے پٹنہ ضلع کی کم عمر اور نوجوان دلہنوں کے سامنے بیٹے کی خواہش میں بچے پیدا کرتے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں بچا ہے۔ ان کے لیے، سماجی رسم و رواج اور بدگمانی کی اہمیت قانون اور قانونی ضابطوں سے کہیں زیادہ ہے
۲۳ جولائی، ۲۰۲۱| جگیاسا مشرا
۲۸۔ ہر مہینے قید تنہائی کا سامنا کرتی ہیں کاڈوگولّا خواتین
قانون، سماجی بیداری مہم، اور انفرادی جدوجہد کے باوجود معاشرے میں بدنامی اور غیبی عذاب کے خوف سے، کرناٹک کی کاڈوگولّا برادری کی خواتین زچگی کے بعد اور حیض کے دوران درختوں کے نیچے اور جھونپڑیوں میں خود کو علیحدہ رکھنے پر مجبور ہیں
۵ جولائی، ۲۰۲۱ | تمنا نصیر
۲۷۔ مجھ طوائف سے کون شادی کرے گا!
بہار کے مظفر پور ضلع کے چتربھُج استھان کی سیکس ورکرز، اکثر اپنے ’پرماننٹ‘ گاہکوں کو خوش کرنے کے سبب کم عمر میں ہی حاملہ ہو جاتی ہیں؛ کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے حالات بے حد خراب ہیں
۱۵ جون، ۲۰۲۱| جگیاسا مشرا
۲۶۔ ملکانگیری میں بچوں کی پیدائش آسان نہیں
اوڈیشہ کے ملکانگیری میں آبی ذخائر والی آدیواسی بستیوں میں، گھنے جنگلات، اونچی پہاڑیوں اور ریاست و ملی ٹینٹ کے درمیان تصادم کے بیچ، کمیاب طبی مراکز تک پہنچنے کا سہارا کبھی کبھار چلنے والی کشتیاں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں
۴ جون، ۲۰۲۱ | جینتی بُرودا
۲۵۔ بہار: کورونا دور میں بھی نہیں رکی کم عمری کی شادی
بہار کے گاؤوں میں پچھلے سال لاک ڈاؤن کے دوران، اپنے گاؤں لوٹے مہاجر لڑکوں سے کئی نو عمر لڑکیوں کی شادی کر دی گئی تھی۔ ان میں سے کئی اب حاملہ ہیں اور اس بات کو لیکر فکرمند ہیں کہ آگے کیا ہوگا
۷ مئی، ۲۰۲۱ | کویتا ایئر
۲۴۔ مدھوبنی میں تبدیلی کی خواہش، چپکے چپکے
ایک دہائی قبل، بہار کے حسن پور گاؤں میں خاندانی منصوبہ بندی کو درکنار کر دیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہاں کی عورتیں صالحہ اور شمع جیسی طبی کارکنوں کے پاس مانع حمل انجیکشن لگوانے آ رہی ہیں۔ یہ تبدیلی کیسے ہوئی؟
۱۳ اپریل، ۲۰۲۱ | کویتا ایئر
۲۳۔ بہار کی ’خواتین‘ ڈاکٹروں پر کام کا دباؤ، لوگوں کا غصہ
بہار کے کشن گنج ضلع میں کام کر رہی خواتین گائناکولوجسٹ کے لیے، دن لمبا ہوتا ہے، میڈیکل سپلائیز کم ہیں، اور اپنی متعدد حاملہ مریضوں اور مانع حمل کو لیکر ان کی ہچکچاہٹ کو سنبھالنا انتہائی مشکل کام
۷ اپریل، ۲۰۲۱| انوبھا بھونسلے
۲۲۔ ’میری نو لڑکیاں ہیں اور یہ دسواں – لڑکا ہے‘
گجرات کے ڈھولکا تعلقہ میں بھارواڑ گلہ بان برادری کی عورتوں کے لیے، بیٹے پیدا کرنے کے لیے دباؤ اور خاندانی منصوبہ بندی کے چند متبادل کا مطلب ہے کہ مانع حمل کے اختیارات اور تولیدی حقوق صرف الفاظ تک محدود ہیں
۱ اپریل، ۲۰۲۱ | پرتشٹھا پانڈے
۲۱۔ ’وہ کہتے ہیں اگر میں پڑھتی رہی، تو کون مجھ سے شادی کرے گا؟‘
بہار کے سمستی پور ضلع میں، مہادلت برادری کی نوجوان لڑکیوں کو سماج کی طرف سے طعنے سننے پڑتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی تعلیم کو ترک کر دیں، خواب دیکھنا چھوڑ دیں، اور شادی کر لیں – کچھ تو اس کا مقابلہ کرتی ہیں، لیکن دیگر لڑکیاں ہار مان لیتی ہیں
۲۹ مارچ، ۲۰۲۱| امرتا بیاتنال
۲۰۔ ’ہمارا دفتر اور سونے کی جگہ ایک ہی ہے‘
بہار کے دربھنگہ ضلع کے پرائمری ہیلتھ سینٹر میں جگہ اور سہولیات کی کمی کے سبب وہاں کے طبی ملازمین کو دفتر میں، وارڈ کے بستر پر، اور کبھی کبھی فرش پر بھی سونے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے
۲۶ مارچ، ۲۰۲۱ | جگیاسا مشرا
۱۹۔ حمل میں مردہ قرار دی گئی بچی کی اگلے دن صحیح سلامت پیدائش
بہار کے ویشالی ضلع کے ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر میں، الٹرا ساؤنڈ مشین مکڑیوں کا گھر ہے، ملازم پیسے مانگتے ہیں، اور ایک فیملی کو بتایا گیا کہ ان کی بچی پیٹ میں ہی مر چکی ہے – جس سے انہیں زیادہ پیسے خرچ کرکے پرائیویٹ اسپتال کی طرف بھاگنا پڑا
۲۲ فروری، ۲۰۲۱ | جگیاسا مشرا
۱۸۔ خستہ حال طبی مراکز، بنا ڈگری کے ڈاکٹر
ملازمین کی کمی سے دو چار ابتدائی طبی مراکز جہاں جنگلی جانور گھومتے ہوں، اسپتالوں کے بارے میں خوف، فون کی خراب کنیکٹیوٹی – یہ تمام چیزیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ بہار کے بڑگاؤں خورد گاؤں کی حاملہ خواتین گھر پر ہی بچے کو جنم دیں
۱۵ فروری، ۲۰۲۱| انوبھا بھونسلے اور وشنو سنگھ
۱۷۔ الموڑہ میں، بچوں کی پیدائش کے لیے پہاڑوں کی گردش
پچھلے سال، اتراکھنڈ کے الموڑہ ضلع کی رانو سنگھ نے پہاڑی راستے سے اسپتال جاتے ہوئے، بیچ راستے میں ہی بچہ کو سڑک پر جنم دیا۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں پر مشکل گزار راستے اور اخراجات پہاڑی بستیوں میں رہنے والی بہت سی خواتین کو گھروں پر ہی بچے کو جنم دینے پر مجبور کرتے ہیں
۱۱ فروری، ۲۰۲۱ | جگیاسا مشرا
۱۶۔ جبراً نس بندی، بے رحم موت
راجستھان کے بانسی گاؤں کی بھاونا سُتھار کی پچھلے سال ایک ’کیمپ‘ میں نس بندی کے بعد موت ہو گئی، جہاں ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں متبادل پر غور کرنے کا وقت نہیں دیا گیا تھا۔ ان کے شوہر دِنیش کو اب بھی انصاف کی تلاش ہے
۲۰ نومبر ۲۰۲۰| انوبھا بھونسلے
۱۵۔ ’نوماہ کے حمل کے دوران بھی گاہک آتے ہیں‘
چار بار اسقاط حمل، شرابی شوہر، اور فیکٹری کی نوکری چلی جانے کے بعد دہلی میں مقیم ہنی نے پانچویں بار حاملہ ہونے پر جسم فروشی کرنے کا فیصلہ کیا اور تب سے انہیں ایس ٹی ڈی ہے۔ اب، لاک ڈاؤن میں وہ کمانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں
۱۵ اکتوبر، ۲۰۲۰ | جگیاسا مشرا
۱۴۔ ’میری بیوی کو انفیکشن کیسے ہو گیا؟‘
نس بندی کے بعد انفیکشن ہو جانے کے سبب، راجستھان کے دوسہ ضلع کی ۲۷ سالہ سُشیلا دیوی کو تین سالوں تک درد برداشت کرنا پڑا، اسپتالوں کے چکر کاٹنے پڑے، قرض بڑھتا گیا اور آخر میں انہیں اپنی بچہ دانی نکلوانی پڑی
۳ ستمبر، ۲۰۲۰ | انوبھا بھونسلے اور سنسکرتی تلوار
۱۳۔ ’ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میری ہڈیاں کھوکھلی ہوچکی ہیں‘
زندگی بھر بیماری اور کئی سرجری کے بعد، پونہ ضلع کے ہڈشی گاؤں کی بیبا بائی لوئرے کمر سے جھک گئی ہیں۔ پھر بھی، وہ کھیتی کا کام اور اپنے فالج زدہ شوہر کی دیکھ بھال کرنا جاری رکھے ہوئی ہیں
۲ جولائی، ۲۰۲۰ | میدھا کالے
۱۲۔ میرا کاٹ [بچہ دانی] باہر نکلتا رہتا ہے
مہاراشٹر کے نندربار ضلع میں باہر نکلی بچہ دانی والی عورتوں کی رسائی طبی مراکز تک نہیں ہے۔ سڑک یا موبائل سہولیات نہ ہونے کے سبب جدوجہد کر رہی ان عورتوں کو مشکل زچگی اور اذیت ناک درد برداشت کرنا پڑتا ہے
۱۷ جون، ۲۰۲۰ | جیوتی شنولی
۱۱۔ ’ڈاکٹروں نے بچہ دانی نکلوانے کا مشورہ دیا تھا‘
ذہنی طور پر معذور عورتوں کی جنسی اور تولیدی صحت کے حقوق کی اکثر خلاف ورزی کی جاتی ہے اور انہیں اکثر اپنی بچہ دانی نکلوانے کے لیے مجبور کر دیا جاتا ہے۔ لیکن مہاراشٹر کے واڈی گاؤں میں، مالن مورے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنی ماں کا ساتھ ملا
۹ جون، ۲۰۲۰ | میدھا کالے
۱۰۔ ’تقریباً ۱۲ بچوں کے بعد یہ خود ہی رک جاتا ہے‘
ہریانہ کے بیواں گاؤں میں، مانع حمل تک میو مسلمانوں کی رسائی ثقافتی اسباب، ناقابل رسا طبی خدمات اور متعصب فراہم کنندگان کی وجہ سے انتہائی مشکل ہے – نتیجتاً وہاں کی عورتیں بچے پیدا کرنے کے جال میں پھنس جاتی ہیں
۲۰ مئی، ۲۰۲۰ | انوبھا بھونسلے اور سنسکرتی تلوار
۹۔ گھروں میں بند طالبات: کوئی بنیادی ضرورت، پیریڈ نہیں
اترپردیش کے چترکوٹ ضلع میں اسکول بند ہو جانے کے سبب غریب کنبوں کی لڑکیوں کو مفت سینیٹری نیپکن نہیں مل پا رہا ہے، اس لیے اب وہ جوکھم بھرا متبادل اپنانے لگی ہیں۔ اکیلے یوپی میں ایسی لڑکیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے
۱۲ مئی، ۲۰۲۰ | جگیاسا مشرا
۸۔ گایوں کی گنتی، دیہی صحت کے اشاریوں کی نہیں
معمولی تنخواہ اور بے شمار سروے، رپورٹ اور کاموں کے بوجھ سے لدی سنیتا رانی اور ہریانہ کے سونی پت ضلع کی دیگر آشا کارکن دیہی کنبوں کی افزائشی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں
۸ مئی، ۲۰۲۰ | انوبھا بھونسلے اور پلوی پرساد
۷۔ نیلگری میں، کم غذائیت کی وراثت
تقریباً بغیر ہیموگلوبن والی مائیں، دو سال کے بچوں کا وزن ۷ کلو، شراب کی لت، کم آمدنی اور جنگل سے ان کی بڑھتی دوری، یہ سب تمل ناڈو کے گڈلور کی آدیواسی عورتوں میں تیز رفتار کم غذائیت کو فروغ دے رہے ہیں
۱ مئی، ۲۰۲۰ | پریتی ڈیوڈ
۶۔ ’اس پوتے کی خواہش میں، ہمارے چار بچے ہو گئے‘
دہلی سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور، ہریانہ کے ہرسانا کلاں گاؤں کی عورتیں بتا رہی ہیں کہ مردانہ چشمک کے دوران انہیں خود اپنی زندگیوں اور تولیدی اختیارات پر کچھ حد تک قابو پانے کے لیے کتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے
۲۱ اپریل، ۲۰۲۰ | انوبھا بھونسلے اور سنسکرتی تلوار
۵۔ ’اب میری بکریاں ہی میرے بچوں جیسی ہیں‘
مہاراشٹر کے نندُربار ضلع میں دھڑگاؤں علاقے کی بھیل عورتیں بدنامی، سماجی بائیکاٹ اور دیہی طبی نظام، جو بانجھ پن کا کارگر علاج مہیا کرنے میں ناکام ہے، کی وجہ سے جدوجہد کر رہی ہیں
۱۳ اپریل، ۲۰۲۰ | جیوتی شنولی
۴۔ ’پچھلے سال، صرف ایک آدمی نس بندی کے لیے راضی ہوا‘
فیملی پلاننگ میں ’مردوں کی شمولیت‘ ایک معروف لفظ ہے، لیکن بہار کے وکاس متر اور آشا کارکنوں کو مردوں کو نس بندی کرانے کے لیے سمجھانے میں بہت کم کامیابی ملی ہے، اور مانع حمل صرف عورتوں تک ہی محدود ہے
۱۳ اپریل، ۲۰۲۰ | امرتا بیاتنال
۳۔ ’انہیں صرف ایک گولی دے کر واپس بھیج دیا جاتا ہے‘
تمام سہولیات سے لیس چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع کا پرائمری ہیلتھ سینٹر کئی آدیواسی خواتین کی پہنچ سے دور ہے، اس لیے وہ ممکنہ خطرناک اسقاط حمل اور زچگی کے لیے نااہل طبیبوں کا رخ کرتی ہیں
۱۱ مارچ، ۲۰۲۰ | پریتی ڈیوڈ
۲۔ ’پریشانیوں کا خاتمہ‘ – نیہا نے نس بندی کرالی
سپریم کورٹ کے ۲۰۱۶ کے حکم کے بعد نس بندی کیمپوں کی جگہ اب ’نس بندی کے دن‘ نے لے لی ہے، لیکن آج بھی نس بندی بنیادی طور پر عورتوں کی ہی کی جاتی ہے – اور یوپی میں بہت سی عورتیں ایسا صرف اس لیے کرتی ہیں کیوں کہ ان کے پاس مانع حمل کے جدید طریقوں کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے
۲۸ فروری ۲۰۲۰| انوبھا بھونسلے
۱۔ کوولاپورم کا عجیب و غریب مہمان خانہ
مدورئی ضلع کے کوولاپورم اور چار دیگر گاؤوں میں، حیض والی عورتوں کو علیحدہ کرکے ’مہمان خانہ‘ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ دیوتاؤں اور انسانوں کے غضب کے خوف سے کوئی بھی اس تفریق کو چیلنج نہیں کر پاتا