’’ضرورت کے وقت میں یہیں رفع حاجت کر لیتی ہوں،‘‘ دیا ٹوپو (بدلا ہوا نام) ایک بہت ہی چھوٹی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، جو کہ چائے کی کانٹے دار جھاڑیوں کے درمیان ہے۔ وہ تشویش کے ساتھ کہتی ہیں، ’’آج صبح ہی مجھے شہد کی ایک مکھی نے ڈنک مار دیا تھا۔ یہاں آپ کو سانپ بھی کاٹ سکتے ہیں۔‘‘
دہاڑی مزدوروں کے لیے کام کاج کے حالات بے حد خراب ہوتے ہیں، لیکن چائے کے باغات میں کام کرنے والی خواتین مزدوروں کے لیے تو رفع حاجت کے لیے جانا بھی انجان خطروں سے بھرا ہو سکتا ہے۔
تقریباً ۵۳ سال کی یہ مزدور بتاتی ہیں، ’’جب میں نوجوان تھی، تو رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہونے پر سائیکل سے کمرے پر جا کر بیت الخلاء استعمال کرنے کے بارے میں سوچتی تھی۔‘‘ لیکن اس طرح آنے جانے سے ان کے پتّی چُننے کا وقت گھٹ جاتا۔ ’’مجھے روزانہ کا ٹارگیٹ [پتّیاں چننے کا] پورا کرنا ہوتا ہے۔ میں دہاڑی (اجرت) کٹنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔‘‘
ان کے ساتھ کام کرنے والی سنیتا کِسکو (بدلا ہوا نام) ان سے اتفاق کرتی ہیں: ’’صرف دو متبادل ہوتے ہیں – یا تو پورے دن پیشاب کو قابو کرو یا کہیں کھلے میں کر دو۔ لیکن یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے، کیوں کہ یہاں بڑی تعداد میں کیڑے اور جونک ہوتے ہیں۔‘‘
کچھ چائے کمپنیاں ایک چھاتا، ایک جوڑی چپل، ترپال، اور ایک جھوری (تیھلا) ضرور مہیا کراتی ہیں۔ دیا کے مطابق، ’’ترپال ہمارے کپڑوں کو پودوں میں موجود پانی سے بھیگنے سے بچاتا ہے۔ دوسری چیزیں [جوتے وغیرہ] ہمیں خود ہی خریدنی پڑتی ہیں۔‘‘
تقریباً ۲۶ سال کی سنیتا (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں، ’’ہم سے ایک بار میں تقریباً ۱۰ گھنٹے کام کرنے کی امید کی جاتی ہے۔‘‘ اگر وہ پیدل گھر جا کر بیت الخلاء استعمال کرنا چاہیں، جو باغات سے ۲ کلومیٹر دور واقع ہے، تو وہ کچھ گھنٹوں کی دہاڑی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ دو بچوں کی یہ ماں ایسا خطرہ نہیں اٹھا سکتی۔
دیا اور سنیتا اُن ہزاروں دہاڑی مزدوروں میں سے ہیں جو یہاں مغربی بنگال کے دوار علاقے میں واقع چائے کے باغ میں کام کرتے ہیں۔ ان مزدوروں میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بہت سی خواتین نے پاری کو بتایا کہ کام کے دوران بیت الخلاء استعمال کر پانا ناممکن ہے۔
اور، جب پیشاب کے وقت ہونے والی جلن انہیں ناقابل برداشت محسوس ہونے لگتی ہے، تو وہ چمپا ڈے (بدلا ہوا نام) کے پاس جاتی ہیں، جو ایک سینئر اے این ایم (معاون نرس دایہ) ہیں۔ ڈے کہتی ہیں کہ جلن اور پیشاب میں خون آنا اندام نہانی میں انفیکشن (یو ٹی آئی) کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’’یہ بہت کم پانی پینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘ چمپا ڈے تقریباً ۳۴ برسوں سے چائے باغات کی مزدوروں کے درمیان کام کر رہی ہیں۔
حالانکہ، چائے کمپنیاں باغات کے آس پاس کچھ جگہوں پر پینے کے پانی کا ٹینک مہیا کراتی ہیں۔ چمپا کہتی ہیں، ’’ان میں سے زیادہ تر خواتین مزدور پانی نہیں پیتی ہیں، تاکہ کھلی جگہ پر پیشاب نہ کرنا پڑے۔‘‘
اگر بیت الخلاء دور ہوتے ہیں، تو وہاں جانے پر پتیاں چننے کا کافی وقت برباد ہو جاتا ہے اور ان کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے۔ ایک مزدور کو ۲۳۲ روپے کی دہاڑی کمانے کے لیے ۲۰ کلو پتیاں چننی پڑتی ہیں۔ اگر وہ بغیر آرام کیے ۱۰ گھنٹے کام کرتی ہیں، تو موٹے طور پر ایک گھنٹہ میں دو کلو پتیاں چننے کا اوسط نکلتا ہے۔
پشپا لکڑا (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں، ’’گرمی کی وجہ سے میں دو گھنٹے میں صرف دو کلو پتیاں ہی جمع کر پائی ہوں۔‘‘ تقریباً ۲۶ سالہ پشپا صبح ساڑھے ۷ بجے ہی آ گئی تھیں، اور شام ۵ بجے لوٹیں گی، ملک کے مشرقی کونے میں سورج کے ڈوبنے سے ٹھیک پہلے۔ گزشتہ ۸ برسوں سے ان کا یہی معمول ہے۔ چمکدار ہری پتیاں جو انہوں نے چُنی ہیں، جالی دار جھوری (تھیلے) میں پڑی ہیں، اور جھوری ان کے سر سے بندھی ہوئی ہے۔
دیپا اوراؤں (بدلا ہوا نام) گزشتہ پانچ برسوں سے چائے کے باغ میں مزدوری کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’زیادہ تر دنوں میں، خاص کر گرمی اور برسات کے دوران ہمارے لیے ٹارگیٹ پورا کرنا مشکل ہوتا ہے، اور ہم اپنی دہاڑی سے ۳۰ روپے گنوا دیتے ہیں۔‘‘
حائضہ عورتوں کے لیے بیت الخلاء کا نہ ہونا کسی ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔ تقریباً ۲۸ سال کی میری کسکو (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں، ’’یہاں سینٹری پیڈ بدل پانے کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ وہ ۱۰ سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔ یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ایک بار باغ میں کام کرتے وقت مجھے حیض شروع ہو گیا، لیکن میں گھر نہیں جا سکی کیوں کہ مجھے ٹارگیٹ پورا کرنا تھا۔ اس دن میں خون میں ڈوبے کپڑوں میں گھر پہنچی تھی۔‘‘
رانی ہورو مقامی آشا کارکن ہیں، جو اپنے مریضوں میں حیض کے دوران صفائی برتنے کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ رانی ان مزدوروں کے ساتھ گزشتہ ۱۰ برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’گندے ٹوائلٹ، باقاعدہ پانی کی کمی، اور حیض کے دنوں میں گندے کپڑوں کا استعمال صحت سے متعلق مشکلیں پیدا کرتا ہے، جس میں حمل کے دوران آنے والے خطرات بھی شامل ہیں۔‘‘
چائے کے باغات میں کام کرنے والی بہت سی خواتین کم بلڈ پریشر کے مرض میں بھی مبتلا ہیں، جو ان کی مشکلوں کو بڑھاتا ہے۔ چمپا کہتی ہیں، ’’جن خواتین کو ٹی بی اور اینیمیا کی شکایت ہوتی ہے وہ بچے کی ولادت کے دوران زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں۔‘‘
پشپا، دیوی اور سنیتا جیسی مزدور اپنے گھریلو کام نمٹانے کے بعد صبح ساڑھ ۶ بجے گھر سے روانہ ہو جاتی ہیں۔ پبلک ہیلتھ ورکر رنجنا دتہ (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں، ’’باغات میں وقت پر پہنچنے کے چکر میں زیادہ تر عورتیں ناشتہ نہیں کرتی ہیں، اور سیدھے کام پر لگ جاتی ہیں۔‘‘ رنجنا کے مطابق، انہیں دوپہر کا کھانا کھانے کا بھی وقت نہیں ملتا، اس لیے وہ ٹھیک طرح سے کھا نہیں پاتیں۔ رنجنا مزید کہتی ہیں، ’’اس لیے یہاں زیادہ تر خواتین مزدوروں کو اینیمیا کا مسئلہ ہے۔‘‘
میری کہتی ہیں، ’’ہم بیمار پڑنے پر طبی مراکز [یہ سہولت کچھ باغات میں ہے] میں چھٹی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، لیکن تب ہم اپنی ایک چوتھائی مزدوری گنوا دیں گے۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ زیادہ تر مزدور ان سے متفق ہیں۔ عارضی مزدور اگر کچھ گھنٹے بھی کام نہ کریں، تو ان کی پوری دہاڑی کٹ جاتی ہے۔
باغات کی زیادہ تر خواتین مزدوروں کو اپنے بچوں کا بھی خیال خود ہی رکھنا ہوتا ہے۔ مستقل مزدور کے طور پر کام کرنے والی پمپا اوراؤں (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں، ’’میں آج باغ نہیں جا پائی، کیوں کہ مجھے آج اپنے بچے کو اسپتال لے جانا پڑا۔ میری آج کی دہاڑی میں سے ایک چوتھائی حصہ کٹ جائے گا۔‘‘
مینا منڈا (بدلا ہوا نام) جیسی بہت سی خوااتین اپنے چھوٹے بچوں کو کام پر لے جاتی ہیں، کیوں کہ ایسا کوئی نہیں ہے جس کے پاس وہ انہیں چھوڑ سکیں۔ اس سے ان کے کام پر اثر پڑتا ہے۔ دو چھوٹے بچوں کی ماں، مینا کہتی ہیں، ’’میں کام پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتی۔‘‘
بہت سی خواتین کے لیے اپنی معمولی دہاڑی سے بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھا پانا ممکن نہیں ہے۔ تقریباً ۲۰ سال کی مزدور، مومپی ہانسدا اپنے ۷ مہینے کے بیٹے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہ میرا پہلا بچہ ہے۔ میں نہیں جانتی کہ ہم اس کی پڑھائی کا بوجھ کیسے اٹھا پائیں گے۔‘‘
اسٹوری میں شامل بہت سی خواتین نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر اپنے تجربات شیئر کیے تھے۔
مترجم: محمد قمر تبریز