نوجوان طلب حسین، گرم جھاگ والے پانی میں بھیگے کمبل کو تسلسل کے ساتھ اپنے پیروں کے پنجوں سے کوٹ رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے، گویا وہ کمبل پر رقص کر رہے ہوں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔ سہارا کے لیے سامنے لگے درخت کی شاخ کو پکڑ کر وہ کہتے ہیں، ’’آپ کو کمبل پر کھڑا ہونے کے لیے توازن بنانا پڑتا ہے۔‘‘ ان کے پاس کھڑا ایک دوسرا آدمی اس گھمیلا (گھڑے) میں صابن والا مزید گرم پانی بھر رہا ہے، جس میں کمبل کو بھگو کر رکھا گیا ہے۔
جموں کے سانبہ ضلع کی ایک چھوٹی سی بکروال بستی میں یہ جاڑے کی ایک اندھیری رات ہے۔ پاس میں لکڑیوں سے جلنے والے ایک عارضی چولہے پر رکھے ایک برتن میں نئے بُنے ہوئے اونی کمبلوں کو دھونے کے لیے پانی ابالا جا رہا ہے۔ وہاں پھیلی ہوئی مدھم روشنی کا واحد ذریعہ لکڑیوں سے اٹھنے والے یہ شعلے ہی ہیں۔
اونی کمبل درج فہرست قبائل – میگھ اور مینگھ برادریوں کے ذریعے بنائے جاتے ہیں، جو اپنی اس کاریگری کے لیے بہت مشہور ہیں۔ کمبل جب تیار ہو جاتا ہے، تو انہیں بکروال مرد اپنے ہاتھوں سے دھوتے اور سُکھاتے ہیں۔ کمبل کی بُنائی کے لیے سوت اور دھاگے تیار کرنے کا کام عموماً بکروال عورتیں کرتی ہیں، اور دھاگوں کو بکروال برادری کے لوگ گھر پر ہی رنگتے ہیں۔
خلیل خان، جموں ضلع کے پرگالتا گاؤں کے قریب ہی ایک بستی میں رہتے ہیں۔ نوجوان بکروال خلیل بتاتے ہیں کہ اس طریقے سے کمبل بنانا بہت محنت کا کام ہے اور اس میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے، لیکن اگر دور کی سوچیں تو یہ سستا پڑتا ہے، کیوں کہ یہ کمبل لمبے وقت تک چلتا ہے۔ محمد کالو، کھنّہ چرگل سے آئے ہیں جو پرگالتا میں ندی کے اوپری کنارے پر آباد ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ ایک پرانے اونی کمبل جس پر ان کا ننھا سا بیٹا سویا ہوا ہے، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’آپ اسے دیکھ رہے ہیں؟ جتنے دن ایک آدمی زندہ رہتا ہے، کم و بیش اتنے ہی دن یہ کمبل بھی چلتا ہے، جب کہ بازار سے خریدا ہوا ایکریلک اون کا کمبل مشکل سے کچھ سال تک ہی چلتا ہے‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ پچم (ایکریلک کے لیے استعمال ہونے والا مقامی لفظ) سے بنائے گئے کمبل کو بھگونے کے بعد سوکھنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ مویشیوں کو چرانے کا کام کرنے والے خلیل اور کالو کہتے ہیں، ’’جاڑے میں ایکریلک کمبل کے استعمال سے ہمارے پیروں میں جلن ہونے لگتی ہے، پورا بدن اینٹھنے لگتا ہے۔‘‘
*****
صرف کمبل ہی نہیں، بلکہ مویشیوں سے حاصل ہونے والے کھردرے اون سے قالین اور نمدہ (دری) بھی بنائے جاتے ہیں، جن میں رنگ برنگے پھولوں والی کشیدہ کاری اور بھرائی کی تکنیک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ چھوٹے سائز کے کمبل (جنہیں تارو کہتے ہیں) بھی بناتے ہیں، جنہیں رضائیوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور تحفے میں بھی دیا جاتا ہے۔ ان کے اوپر بھی کشیدہ کاری کا کام ہوتا ہے، جنہیں عموماً عورتیں کرتی ہیں اور ہر فیملی کے پاس اپنا ایک خاص ڈیزائن ہوتا ہے۔
’’میں کسی بھی رضائی کو دیکھ کر یہ بتا سکتی ہوں کہ اسے کس فیملی نے بنایا ہے،‘‘ طلب حسین کی ہی بستی میں رہنے والی زرینہ بیگم کہتی ہیں۔ ان کے مطابق، ایک کمبل کو بنانے میں تقریباً ۱۵ دن لگتے ہیں۔
زرینہ بتاتی ہیں، ’’کونے میں پڑے ان کمبلوں کو دیکھئے، وہ کسی فیملی کی شادی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ وہ خاص کمبل ہیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق دولہے کی فیملی ۱۲ سے ۳۰ کمبل دیتی ہے، اور کبھی کبھی ۵۰ کمبل بھی دیے جاتے ہیں۔‘‘ وہ پوری برادری کی ایک پسندیدہ بزرگ ہیں، جن کی عزت ہر کوئی کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کل لوگ زیادہ کمبل نہیں دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ شادی کی ہر ایک تقریب میں دیا جانے والا روایتی تحفہ ہے۔
حالانکہ، تحفے میں ملے ان کمبلوں کی ایک خاص اہمیت ہے، لیکن اب دھیرے دھیرے ان کی جگہ الیکٹرانک سامان اور فرنیچر لینے لگے ہیں۔
منور اور ان کی بیوی معروف، بسوہلی تحصیل کی اپنی بستی کے آخری سرے کی نچلی ڈھلان پر رہتے ہیں۔ پھٹے پرانے خیمہ کے اندر اپنی دستکاری کے نمونے دکھاتے ہوئے منور کہتے ہیں، ’’اس خوبصورت کشیدہ کاری کو دیکھئے؛ اب ہمارے لیے آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔‘‘
ان کے خیمہ میں ہم جہاں بیٹھے ہیں وہاں دستکاری کے کئی نمونے پڑے ہیں، جنہیں وہ اپنی ۵۰-۴۰ بھیڑ بکریوں کے ساتھ کشمیر جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ وہاں ایک تارو (رضائی)، گھوڑے کے گلے میں باندھی جانے والی تلیارو اور گلتانی جیسی چیزیں اور بہت ساری گھنٹیاں، چیکے یا لگام بھی بکھرے پڑے ہیں۔ منور کہتے ہیں، ’’کشیدہ کاری، مویشیوں کی دیکھ بھال – یہ سبھی مشکل کام ہیں۔ لیکن ہماری کوئی پہچان نہیں ہے۔ ہمارے کام کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ہے۔‘‘
*****
معاذ خان کہتے ہیں، ’’جن لوگوں کے پاس آج بھی مل ہیں، انہیں ڈھونڈنا بہت مشکل کام ہے۔‘‘ عمر میں ۶۰ سال سے زیادہ کے ہو چکے معاذ خان کا تعلق ایک ایسی فیملی سے ہے جو آج بھی اون بنانے کا کام کرتی ہے۔ برادری کے زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ چرخہ کا استعمال اب بند ہو چکا ہے اور بُنکروں نے بُنائی چھوڑ دی ہے۔
ایسے میں بکروال چرواہوں کے لیے اون بیچنا اب مشکل ہو گیا ہے۔ محمد طالب بتاتے ہیں، ’’ہمیں ایک کلو اون بیچنے پر کم از کم ۱۲۰ سے ۲۲۰ روپے کی آمدنی ہوتی تھی، لیکن اب ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔ تقریباً دس سال پہلے تک بکریوں کے اون کی بھی بازار میں قیمت ہوا کرتی تھی، لیکن اب تو بھیڑوں کا اون بھی خریدنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ وہ ایک بکروال ہیں اور کٹھوعہ ضلع کی بسوہلی تحصیل میں رہتے ہیں۔ غیر استعمال شدہ اون ان کے کباڑ خانہ میں پڑے رہتے ہیں یا مویشیوں کے بال تراشنے کی جگہ پر ہی چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اون کے سامان بنانے والے کاریگروں کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
گوجر بکروال برادری کے لیے سالوں سے کام کرنے والے سماجی کارکن اور محقق ڈاکٹر جاوید راہی کہتے ہیں، ’’آج کل بکروال خود کوئی سامان نہیں بناتے۔ یہ ایک ’چھوٹا کام‘ مانا جانے لگا ہے۔ سنتھیٹک اون کا متبادل بہت سستا ہے۔‘‘
اون حاصل کرنے کے لیے مویشیوں کا ریوڑ پالنا اب کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جموں اور اس کے آس پاس مویشیوں کے لیے چراگاہوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان لوگوں کو بھی پیسے چکانے پڑتے ہیں جن کے کھیتوں یا زمینوں پر یہ مویشی گھاس چرنے جاتے ہیں۔
حالیہ دنوں سانبہ ضلع کے آس پاس کے گاؤوں پر پنچ پھول (لنٹانا کیمارا) نام کی ایک جنگلی جھاڑی نے حملہ کر دیا ہے۔ بسوہلی تحصیل کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے منور علی کہتے ہیں، ’’ہم یہاں اپنے مویشیوں کو چرا نہیں سکتے۔ یہاں چاروں طرف جنگلی جھاڑیاں ہیں۔‘‘
مویشیوں کی کئی پرانی نسلوں کو ریاستی حکومت نے اب ہائبرڈ نسلوں سے بدل دیا ہے۔ بکروالوں کے مطابق، بھیڑوں کی نئی ہائبرڈ نسلیں میدانی علاقوں کی گرمیوں کو زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کر پاتی ہیں اور نہ ہی وہ پہاڑی علاقوں میں اپنا راستہ تلاش کرنا جانتی ہیں۔ چرواہے طاہر رضا ہمیں بتاتے ہیں، ’’جب ہم کشمیر کے راستے پر ہوتے ہیں، تو یہ بھیڑیں بیچ میں کہیں بھی ٹھٹھک کر کھڑی ہو جاتی ہیں کیوں کہ وہ چھوٹے چھوٹے نالوں کو بھی کود کر پار کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ پرانی نسلیں سفر کے لحاظ سے بہتر تھیں۔‘‘
حکومت کی منظوری سے مسلح دستوں کے لیے لگائے گئے باڑ یا محکمہ جنگلات کے ذریعے تلافی کے طور پر شجرکاری کے پروجیکٹوں اور جنگلات کے تحفظ سے متعلق سرگرمیوں کے سبب چراگاہوں تک بکروالوں کی رسائی اب کافی حد تک محدود کر دی گئی ہے۔ پڑھیں: باڑ لگنے سے پریشان خانہ بدوش بکروال
باڑ لگانے کے سرکاری فرمان کا ذکر کرتے ہوئے یہ خانہ بدوش چرواہے کہتے ہیں، ’’ہمارے اور ہمارے مویشیوں کے لیے سبھی راستے اب بند ہو چکے ہیں۔‘‘
رتائن مکھرجی، سنٹر فار پیسٹورلزم کی طرف سے ملنے والے ایک آزادانہ سفری گرانٹ کے ذریعے گلہ بان اور خانہ بدوش برادریوں کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہیں۔ سنٹر نے اس رپورتاژ کے مواد پر اپنے کسی ادارتی کنٹرول کا اظہار نہیں کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز