جَیَمّا بیلیہ، ۳۵، کرناٹک کے چماراجانگر کے اننجی ہنڈی گاؤں کی ایک جینو کُروبا آدیواسی ہیں۔ ان کے اس تصویری مضمون میں جنگل کی ایک ایسی زندگی کی کہانی بیان کی گئی ہے، جہاں انسانوں اور جانوروں، دونوں میں ہی ایک دوسرے ذریعہ مرنے اور مارے جانے کا امکان موجود رہتا ہے۔ جیما نے چھ مہینوں کے دوران ہندوستان میں چیتوں کی سب سے بڑی جگہ، باندی پور نیشنل پارک کے کنارے اپنی روزمرہ کی زندگی کو تصویروں میں قید کیا۔ ان کا یہ تصویری مضمون وائلڈ لائف کے ساتھ زندگی گزارنے کے بڑے مشترکہ فوٹوگرافی پروجیکٹ کا ایک حصہ ہے۔ یہ پہلی بار تھا، جب انھوں نے کیمرہ (فیوجی فلم فائن پکس ایس ۸۶۳۰) کو استعمال کرنا سیکھا۔
ان کا یہ تصویری مضمون عام طور سے انسان۔ جنگلی جانوروں کے رشتوں میں پوشیدہ جنسی محرک کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ جنگلاتی زندگی کو محفوظ کرنے سے متعلق اس روایتی طریق کار پر سوال کھڑے کرتا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر دیہی غریبوں کے سماجی و اقتصادی حقائق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہاں پر جو تصویریں پیش کی گئی ہیں، ان کے ساتھ ساتھ جیما نے پرندوں کی بھی متعدد خوبصورت تصویریں کھینچیں۔ ’’میری فیملی کو حیرانی تھی کہ میں بھی اتنی خوبصورت تصویریں کھینچ سکتی ہیں،‘‘ انھوں نے کنڑ زبان میں بتایا۔
گھاٹی میں گائیں: ’’یہ پست قد گائیں (غیر معروف مقامی مویشی، جنہیں زیادہ تر گوبر دینے والا تصور کیا جاتا ہے) میری فیملی کی ہیں، اور میری بہن اور نند انھیں چرانے کے لیے میدانوں کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ہمیں اپنے گاؤں پہنچنے کے لیے (باندی پور) جنگل کو پار کرنا پڑتا ہے۔ دو سال قبل، ہمارے ایک بچھڑے کو جنگل کے اندر تیندوے نے مار دیا تھا۔‘‘
گھر جاتی بھیڑیں: ’’یہاں ہماری بہنیں بھیڑوں کو واپس گھر لے جا رہی ہیں۔ میری بہن ان لکڑیوں کو بھی لے جا رہی ہے، جسے اس نے جمع کیا تھا۔ ہم میں سے بعض کو حکومت سے ایل پی جی (کھانا پکانے کا گیس سیلنڈر) مفت میں ملا، لیکن دوسروں نے اسے نہیں لیا۔ انھیں لگا کہ اسے حاصل کرنے کے لیے انھیں پیسے ادا کرنے ہوں گے، اسی لیے انھوں نے اسے لیا نہیں۔‘‘
عورتیں اور بکریاں: ’’یہ بکریاں بھی ہماری ہی فیملی کی ہیں۔ میرا بھائی، بہن اور نند ان کا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس تقریباً ۵۰ بکریاں ہیں، جو جنگل میں چرتی ہیں۔ ہم روزانہ شام کو انھیں جلدی گھر لے آتے ہیں، ورنہ جنگلی جانور انھیں کبھی بھی مار سکتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ہم زیادہ پیسہ نہیں کما سکے یا کوئی اور بات پیش آگئی، تو ہم ان میں سے ایک یا دو بکریوں کو بیچ دیں گے۔‘‘
چیتے کے پیر کے نشان: ’’میں نے پیروں کے اس نشان کو ایک صبح تب دیکھا، جب میں (گھریلو ملازمہ کے طور پر پاس کے گھروں میں) کام کرنے جا رہی تھی۔ یہاں پر بہت سے چیتے ہیں، وہ ہماری گایوں اور بکریوں کو مار دیتے ہیں، وہ یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں اب تیندوے کے مقابلے چیتے زیادہ ہیں۔‘‘
دو لڑکیاں: ’’میری بھتیجیوں کو اسکول پہنچنے کے لیے جنگل سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے؛ وہ ہمارے گاؤں سے روزانہ تین کلومیٹر پیدل چل کر جاتی ہیں۔ میری پہلی بھتیجی نے ۸ویں کلاس پاس کر لی ہے، لیکن یہاں پر کوئی ہائی اسکول نہیں ہے، اس لیے اسے ایک ایسے اسکول جانا پڑے گا، جو یہاں سے ۱۰ کلومیٹر دور ہے۔ وہ یا تو وہاں کے ہوسٹل میں رکے گی یا پھر روزانہ یہاں سے چل کر جائے گی۔ چونکہ اب وہ یہاں سے جا رہی ہے، اس لیے اس کی چھوٹی بہن کو اکیلے اسکول جانا پڑتا ہے۔ جنگلی جانوروں کی وجہ سے اسے اکیلے چلنے میں ڈر لگتا ہے، اس لیے بعض دفعہ وہ اسکول ہی نہیں جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسکول ہی چھوڑ دے۔ میرے گاؤں میں، سات یا آٹھ بچے ایسے ہیں جو اسکول تو گئے، لیکن بیچ میں ہی پڑھائی چھوڑ دی۔ صرف میری بھتیجی یہاں تک اسکول کی تعلیم مکمل کرنے والی واحد لڑکی ہے۔‘‘
تیندوے کا درخت: ’’یہ کالوداری (فٹ پاتھ) ہے، جو جنگل سے ہوکر گزرتا ہے۔ میں روزانہ اسی راستے سے کام کرنے جاتی ہوں، اور میری بھتیجیاں صبح کو میرے ساتھ ہی اسکول جاتی ہیں۔ تین ماہ قبل، ایک بوڑھی عورت صبح سویرے جنگل میں اپنی بکریاں چرانے گئی۔ بعد میں، جب میں کام پورا کرنے کے بعد گھر واپس جا رہی تھی، تو میں نے دیکھا کہ اسی درخت کے پاس بہت سارے لوگ جمع ہیں۔ اس کی تمام بکریاں پہلے ہی گھر پہنچ چکی تھیں، ان میں سے نہ تو کسی پر حملہ ہوا تھا اور نہ ہی کوئی بکری زخمی تھی۔ لہٰذا دوسرے لوگوں نے جب اس بوڑھی عورت کو گھر پر نہیں پایا، تو وہ اس کی تلاش میں نکل پڑے اور دیکھا کہ وہ اسی درخت کے نیچے پڑی ہوئی ہے۔ جانور نے اسے کھایا نہیں تھا، بلکہ اس کی پیشانی پر دونوں طرف صرف کاٹنے کے دو نشان تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ نشان چیتے کے تھے یا تیندوے کے۔ اس عورت کو اسپتال لے جایا گیا، جہاں اگلے دن اس کی موت ہو گئی۔ وہ میری چچی تھیں۔ میں اسی راستے سے روزانہ آتی جاتی ہوں۔ ہمیں چلتے ہوئے ڈر لگتا ہے، لیکن ہم اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اس کے ڈر سے گھر پر بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ ہم سبھی نے دستخط کرکے اسکولی بچوں کے لیے بس شروع کرنے کی درخواست بھیجی، لیکن کچھ نہیں ہوا۔‘‘
تیندوا: ’’میں جہاں کام کرتی ہوں، اس جگہ کے پیچھے پہاڑی کی ڈھلان کے ایک پتھر پر تیندوا بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے تب دیکھا، جب میں اپنا کام ختم کرکے شام کو گھر واپس لوٹ رہی تھی۔ وہ میرے کافی قریب تھا، شاید ۴ سے ۵ میٹر دور۔ میرے شوہر مجھے لینے کے لیے آئے ہوئے تھے، اس لیے میں زیادہ ڈری نہیں۔ اگر تیندوا قریب آ جائے، تو ہم زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ میں نے یہ تصویر اس لیے کھینچی، کیوں کہ میں تیندوا کی ایک تصویر لینا چاہتی تھی۔ اگر میرے شوہر وہاں نہ ہوتے، تب بھی میں یہ تصویر ضرور کھینچتی۔ مجھے تیندوے اور چیتے سے ڈر لگتا ہے۔ جب میں نے یہ تصویر لی، تیندوے نے ہم دونوں کو دیکھا اور آہستہ سے اپنا سر چٹان کے پیچھے کر لیا۔‘‘
مچان: لوگ جب مونگ پھلی، راگی اور اوارے کائی اُگاتے ہیں، تب وہ شام کو سات بجے اپنے کھیتوں پر جاتے ہیں اور اگلی صبح چھ بجے تک وہاں رکتے ہیں۔ وہ درخت کے اوپر چڑھ جاتے ہیں اور رات پر جاگ کر جانوروں سے اپنے کھیتوں کی رکھوالی کرتے ہیں۔ وہ ہاتھیوں اور جنگلی سوروں سے اپنی فصلوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جانور جب آتے ہیں، تو یہ پٹاخے پھوڑتے ہیں۔ بعض دفعہ تو یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ وہ یہ سب کٹائی کے موسم میں چھ مہینوں تک کرتے ہیں، ورنہ سب کچھ برباد ہو جائے گا۔‘‘
مرا ہوا گدھ: ’’گدھ کو کرنٹ والے بجلی کے تار کا علم نہیں تھا، اسی لیے وہ اس پر بیٹھتے ہی مر گیا۔ یہ بارش کے فوراً بعد کی بات ہے۔ یہ جانور ان تاروں میں دوڑ رہے کرنٹ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ وہ نیچے روجاڈ گیڈ (پنچ پھول) کی جھاڑی میں گر پڑا۔ پہلے اس علاقے میں کافی گدھ ہوا کرتے تھے، لیکن اب ان کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ ابھی یہاں جتنی پنچ پھول کی جھاڑیاں ہیں پہلے اتنی نہیں کرا کرتی تھیں، لیکن گزشتہ ۱۰ برسوں میں یہ کافی تیزی سے پھیلی ہیں، اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ اتنی تیزی سے کیسے بڑھ گئیں۔ اس کا بہت زیادہ استعمال تو نہیں ہے، لیکن اس کی شاخوں سے کرسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ اب یہ جنگل میں بھی اُگ رہی ہیں۔ یہ ان جگہوں پر پھیل رہی ہیں، جہاں گھاس اُگتی ہے، اسی لیے اب گھاس کم ہیں۔ اس کی وجہ سے گائے اور بکریوں کو کھانے کے لیے بہت کم رہ گیا ہے۔‘‘
اس کام کو جیئرڈ مارگلیز نے کرناٹک کے منگلا گاؤں میں واقع مریَمّا چیریٹیبل ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا۔ یہ ۲۰۱۶۔ ۲۰۱۵ کے فل برائٹ نہرو اسٹوڈنٹ ریسرچ گرانٹ کی وجہ سے ممکن ہو پایا، جو کہ یونیورسٹی آف میری لینڈ بالٹی مور کاؤنٹی کا ایک گریجویٹ اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن ریسرچ گرانٹ ہے، ساتھ ہی اسے مریما چیریٹیبل ٹرسٹ سے بھی مدد ملی۔ لیکن اس میں سب سے بڑی شراکت خود فوٹوگرافرس کی رہی، جنہوں نے پوری تندہی اور محنت سے کام کیا۔ متن کا ترجمہ کرتے وقت بی آر راجیو کا قیمتی تعاون بھی شامل حال رہا۔ تمام تصویروں کے کاپی رائٹس، پاری کے کریٹو کامنس یوز اور ری پروڈکشن پالیسیوں کے مطابق، پوری طرح سے فوٹوگرافرس کے پاس محفوظ ہیں۔ ان کے استعمال یا دوبارہ اشاعت سے متعلق کوئی بھی سوال پاری سے کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ کے دیگر تصویری مضامین:
’ہمارے پاس پہاڑیاں اور جنگل ہیں، ہم یہیں رہتے ہیں‘
باندی پور کے پرنس سے قریبی سامنا
’یہی وہ جگہ ہے جہاں تیندوا اور ٹائیگر حملہ کرتے ہیں‘
’میں نے جب یہ تصویر کھینچی اس کے بعد ہی یہ بچھڑا غائب ہوگیا‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)