سمیرالدین شیخ، احمد آباد کی بھیڑ بھاڑ والی پرانی سڑکوں پر دن میں اپنی سائیکل سے آتے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جوہا پورہ کی فتح واڑی میں اپنے گھر سے ’تاج انویلپس‘، جہاں وہ کام کرتے ہیں، کا ۱۳ کلومیٹر کا سفر ایک طرف سے طے کرنے میں انہیں تقریباً ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ ’’میں اپنے کام پر جانے کے لیے اپنی موٹر سائیکل نہیں نکالتا ہوں، کیوں کہ میں پیٹرول کی قیمت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا،‘‘ ۳۶ سال کے نرم گو سمیرالدین اپنی سائیکل کھڑی کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
وہ پرانے شہری علاقہ کے ایک شاپنگ کامپلیکس کے بیسمنٹ (تہہ خانہ) میں ۱۰ گنا ۲۰ فٹ کے ایک کمرے میں دن بھر کام کرتے ہیں۔ شہر کا یہ علاقہ کھڑیا کہلاتا ہے۔ ان کے ساتھ لفافہ بنانے والے ۱۰ دیگر لوگ بھی کام کرتے ہیں۔ ایک دن میں سب سے زیادہ لفافے انہوں نے ۶۰۰۰ سے ۷۰۰۰ تک بنائے ہیں۔
سمیرالدین بتاتے ہیں کہ لفافہ بنانا اتنا بھی آسان کام نہیں ہے جتنا کہ یہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس کاریگری کو سیکھنے میں ڈیڑھ دو سال لگ جاتے ہیں۔‘‘ وہ تفصیل سے بتاتے ہیں، ’’آپ ایک آزاد کاریگر، جو اپنا محنتانہ خود طے کرتا ہو، تب تک نہیں بن سکتے، جب تک آپ کے استاد (جو عموماً کوئی بزرگ اور تجربہ کار کاریگر ہوتا ہے) آپ کے کام کے معیار سے متفق نہ ہوں اور اس پر اپنی مہر نہ لگا دیں۔‘‘
معیار کی بنیاد یہاں کام کی تیزی، صفائی، مہارت اور صحیح اوزاروں کے استعمال کے توازن سے ہے۔ کٹنگ اور پنچنگ والی دو مشینوں کو چھوڑ کر کارخانہ میں بقیہ تمام کام ہاتھ سے کیے جاتے ہیں۔
سب سے پہلے، کارخانہ (ورکشاپ) میں مشینیں کاغذ کی بڑی چادروں کو پہلے سے متعینہ چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیتی ہیں۔ اس کے بعد خصوصی طور پر بنے روایتی سانچہ کی مدد سے کاغذ کے ان ٹکڑوں کو الگ الگ سائزوں میں موڑا جاتا ہے۔ کاریگر ان ٹکڑوں کو گنتے ہیں اور ایک بار میں سو کاغذ کے ٹکڑوں کا بنڈل موڑنے، چپکانے، سیل کرنے اور آخر میں پیکنگ کرنے جیسے کام کے لیے لیتے ہیں۔
لفافہ بنانے کی پوری کاریگری باریکیوں سے بھری ہوئی ہے۔ لفافہ کے ہر حصے کا الگ نام ہوتا ہے – سب سے اوپر کا حصہ ماتھو کہلاتا ہے، نیچے کے فلیپ کو پیندی ، بغل کے فلیپ کو کھولا کہتے ہیں، جسے گوند سے چپکایا جاتا ہے۔ لفافہ بنانے کے عمل اور مرحلہ کا بھی الگ الگ نام ہوتا ہے، اور ہر عمل کو اسی صفائی کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ اوزاروں کے استعمال میں بھی احتیاط اور سمجھداری برتی جاتی ہے، ورنہ لاپروائی کے سبب گہری چوٹ لگنے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔
جب بغل کے فلیپ موڑے جاتے ہیں، تو کاریگر پہلے اپنی مٹھیوں کا اور اس کے بعد ’اسٹون‘ نام کے ایک اوزار کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ کاغذ کو صاف صاف اور دھاردار طریقے سے موڑا جا سکے۔ ’فولڈنگ اسٹون‘ اب گرائنڈنگ اسٹون سے نہیں بنائے جاتے ہیں۔ اب کاریگر ایک بھاری بھرکم لوہے کے سلیب کا استعمال کرتے ہیں۔ ۵۱ سال کے عبدالمطلب انصاری بتاتے ہیں، ’’جب میں یہ کام سیکھ رہا تھا تب پتھر میری انگلی سے آ ٹکرایا۔ میری انگلی سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا اور میرے قریب کی دیوار خون سے بھر گئی۔ تب میرے استاد نے بتایا کہ اگر مجھے ایک عمدہ کاریگر بننا ہے، تو طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے تکنیک کا استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔‘‘
’اسٹون‘ کا وزن ایک کلوگرام کے آس پاس ہوتا ہے۔ عبدالمطلب بتاتے ہیں، ’’ایک عام لفافہ بنانے کے لیے آپ کو اسے چار سے پانچ فعہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔‘‘ ۵۲ سالہ عبدالغفار انصاری کہتے ہیں، ’’کاغذ کی موٹائی کے حساب سے آپ کو اپنی تکنیک بدلنی پڑتی ہے۔ آپ کو کتنی اونچائی تک ’اسٹون‘ کو اٹھانا ہے، کتنی زور سے مارنا ہے، اور کتنی بار مارنا ہے – یہ سبھی کام آپ انہیں کرتے کرتے ہی سیکھ سکتے ہیں۔‘‘ وہ آگے بتاتے ہیں، ’’اس پورے عمل میں ایک لفافہ ہمارے ہاتھوں سے ۱۷-۱۶ بار گزرتا ہے۔ ایسے میں ہر دن اپنی انگلیوں کے کٹنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر گوند آپ کی کٹی انگلی سے چھو بھی جائے، تو اس میں بہت تیز جلن ہوتی ہے۔‘‘
لفافہ بنانے والے ۶۴ سال کے مستنصر اجینی بتاتے ہیں کہ کہیں کٹ جانے کی حالت میں وہ اپنے زخموں پر کوکم کا تیل لگاتے ہیں۔ کچھ دوسرے لوگ آرام پانے کے لیے ویسلین یا ناریل کا تیل استعمال کرتے ہیں۔ اس کام کی چنوتیاں اُس کاغذ کی قسم پر منحصر ہے جس کا استعمال لفافہ بنانے میں کیا جاتا ہے۔ سونل انویلپس میں کام کرنے والے محمد آصف کہتے ہیں، ’’کئی بار جب ہمیں کڑک مال [۱۲۰ جی ایس ایم کا آرٹ پیپر] ملتا ہے، تو ہمارے ہاتھ اکثر زخمی ہو جاتے ہیں۔ میں آرام کے لیے انہیں نمک ملے گرم پانی میں سات آٹھ منٹ کے لیے ڈبو دیتا ہوں۔‘‘ سمیرالدین شیخ ان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’موسم ٹھنڈا ہونے پر بھی ہمارے ہاتھوں میں درد اٹھتا ہے۔‘‘
اس کام میں کاریگروں کو کئی کئی گھنٹوں تک فرش پر بیٹھے رہنا پڑتا ہے۔ سمیرالدین کہتے ہیں، ’’ہم کام کرنے کے لیے ایک بار ساڑھے نو بجے صبح جو بیٹھتے ہیں، تو دوپہر کو ایک بجے کھانا کھانے کے لیے ہی اٹھتے ہیں۔ میری پیٹھ میں درد ہوتا ہے۔ کام ختم ہو جانے پر اٹھ کھڑے ہونے پر بھی یہ درد بنا رہتا ہے۔‘‘ کام کرتے ہوئے لمبے وقت تک ایک ہی حالت میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے ان کے ٹخنوں میں گٹھے پڑ گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ پریشانی ہر کسی کو ہونی ہی ہے۔‘‘ یہ بات وہ شاید اس لیے کہہ رہے ہیں، کیوں کہ ہر کاریگر کو فرش پر پالتھی مار کر بیٹھنا ہوتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اگر میں اپنے پیروں کی پرواہ کروں گا، تو میری پیٹھ میں درد شروع ہو جائے گا۔‘‘
اس درد اور اینٹھن، درد اور جلن کے بعد بھی اس کام سے ہونے والی آمدنی بہت کم ہے۔ تقریباً ۳۳ سال کے محسن خان پٹھان کے لیے یہ تشویش کی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری فیملی تنہا میری آمدنی پر ہی گزارہ کرتی ہے۔ گھر کا کرایہ ۶۰۰۰ روپے ہے۔ میرے ہلکے پھلکے ناشتہ اور چائے پر روزانہ ۵۰ روپے اور بس اور آٹو کے کرایے پر ۶۰ روپے خرچ ہوتے ہیں۔‘‘ ان کی چار سال کی بیٹی نے ابھی حال ہی میں ایک انگریزی میڈیم اسکول میں داخلہ لیا ہے۔ ’’اس کی سالانہ فیس ۱۰ ہزار روپے ہے،‘‘ وہ فکرمندی کے ساتھ بتاتے ہیں، اور دوبارہ لفافہ بنانے کے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
سمیرالدین کی فیملی میں کل چھ لوگ ہیں – تین بچے اور ایک بزرگ والد۔ وہ کہتے ہیں، ’’بچے اب بڑے ہونے لگے ہیں، اور لفافہ بنانے کے اس کام سے مجھے کچھ زیادہ نہیں مل پا رہا ہے۔ میں کسی طرح اپنی فیملی چلا رہا ہوں، لیکن کوئی بچت نہیں کر پا رہا ہوں۔‘‘ وہ آمدنی بڑھانے کا کوئی متبادل تلاش کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور ایک آٹو لائسنس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ایک آٹو رکشہ خرید کر بہتر آمدنی حاصل کر سکیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں، ’’لفافے کے کام میں آمدنی متعین نہیں ہے۔ جس دن ہمیں کام نہیں ملتا اُس دن ہم دوپہر ۳-۲ بجے تک فارغ ہو جاتے ہیں۔ ہم سبھی کمیشن پر کام کرنے والے کاریگر ہیں، ہماری کوئی مقررہ تنخواہ نہیں ہے۔‘‘
لفافہ کاریگروں کی ایک یونین ۱۹۸۸ میں قائم کی گئی تھی۔ یہ کبھی سرگرم رہتی تھی اور کبھی ناکارہ، آخرکار ایک دن اسے تحلیل کر دیا گیا۔ یہ کاریگر، یونین کے تحلیل ہونے کی صحیح تاریخ نہیں جانتے ہیں، لیکن بتاتے ہیں کہ کچھ سال بعد ان میں سے کچھ لوگوں نے یونین کو بحال کیا تھا۔ اور، تب یونین میں ورکشاپ مالکوں کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ مہنگائی بڑھنے کی حالت اور کام کے تناسب میں بونس اور چھٹی اور اجرت میں سالانہ اضافہ کے طور پر کاریگروں کی مزدوری میں ۱۰ فیصد کا اضافہ کیا جائے گا۔
احمد آباد میں، اس صنعت میں پوری طرح مردوں کا ہی غلبہ رہتا ہے – یہاں صرف ایک ہی خاتون کاریگر ہے جو لفافہ بنانے کا کام کرتی ہے۔
اجرت ہفتہ کے حساب سے ادا کی جاتی ہے، جو بنائے گئے لفافوں کی کل تعداد کے ساتھ ساتھ ان کے سائز اور موٹائی کے مطابق طے ہوتی ہے۔ عام کاغذ سے بنائے گئے فی ۱۰۰۰ لفافے کے عوض کاریگروں کو تقریباً ۳۵۰ روپے ملتے ہیں، جب کہ آرٹ پیپر سے بنائے گئے لفافوں کی مزدوری ۴۸۹ روپے ہے۔ ایک کاریگر ایک دن میں ۲ سے لے ۶ ہزار تک لفافے بناتا ہے۔ یہ تعداد لفافے کی قسموں، ان کو بنانے کی رفتار اور الگ الگ سیزن میں آنے والی مانگ پر منحصر ہے۔
دفتروں میں استعمال ہونے والا ۱۱ گنا ۵ انچ سائز کا ایک لفافہ، جس کا وزن ۱۰۰ جی ایس ایم (گرام فی مربع میٹر) ہوتا ہے، پانچ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
کاریگروں کو ۱۰۰ جی ایس ایم وزن والے ۱۰۰۰ لفافوں کے عوض ۱۰۰ روپے کی دہاڑی ملتی ہے۔ بالفاظ دیگر، آفس والا ایک لفافہ بنانے میں لگنے والی محنت کے بدلے انہیں ملنے والا پیسہ لفافے کی بازار میں قیمت کے پچاسویں حصے کے برابر ہوتی ہے۔
ساتھ ہی، ایک کاریگر کو ۱۰۰ روپے کمانے کے لیے دو گھنٹے کڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔
مضمون نگار اس اسٹوری کی رپورٹنگ میں مدد کے لیے حذیفہ اجینی کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز