آٹھ سالہ رگھو چنئی میں میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ چلائے جا رہے اپنے نئے اسکول میں پہلے دن، بلیک بورڈ پر یا اپنے سامنے رکھی نصابی کتابوں میں لکھا تمل کا ایک بھی لفظ سمجھ نہیں سکا، جب کہ اترپردیش کے نولی گاؤں میں اپنے اسکول میں، وہ ہندی یا بھوجپوری میں سب کچھ پڑھتا، لکھتا اور سمجھتا تھا۔
اب وہ صرف تصویروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر سکتا تھا کہ کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ ’’ایک کتاب میں پلس- مائینَس (جمع- تفریق) کے نشان تھے، اس لیے وہ ریاضی تھا؛ ایک اور کتاب شاید سائنس تھی؛ ایک دیگر کتاب میں عورتیں، بچے، گھر اور پہاڑ تھے،‘‘ وہ کہتا ہے۔
رگھو جب کلاس ۴ میں دوسری صف میں ایک بینچ پر خاموش بیٹھا ہوا تھا، تو اس کے بغل میں بیٹھے ایک لڑکے نے اس سے ایک سوال پوچھا۔ ’’سبھی بچوں نے مجھے گھیر لیا اور مجھ سے تمل میں کچھ پوچھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تو میں نے کہا، ’میرا نام رگھو ہے‘۔ وہ ہنسنے لگے۔ میں ڈر گیا۔‘‘
رگھو کے والدین نے جب مئی ۲۰۱۵ میں جالون ضلع کے ندی گاؤں بلاک میں واقع اپنا گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا، تو جس دن وہ ٹرین سے چنئی کے لیے روانہ ہوئے اس دن وہ زمین پر لیٹ کر رونے لگا تھا۔ اس کے پانچ سال کے بھائی، سنی نے اپنے والد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’وہ [رگھو] جانا نہیں چاہتا تھا۔ اسے اس طرح دیکھ کر میرا دل پھٹنے لگا تھا،‘‘ اس کی ماں، گایتری پال کہتی ہیں۔
لیکن رگھو کے والدین کے لیے اپنے گاؤں کو چھوڑ کر کہیں اور کام کرنا ناگزیز تھا۔ ’’اگر ہمیں کھیتی سے کچھ نہیں ملتا ہے، تو یقینی طور پر ہمیں مہاجرت کرنی ہوگی۔ اُس سال [۲۰۱۳-۲۰۱۴] ہمیں بمشکل دو کوئنٹل باجرا ملا تھا۔ فصلوں کے لیے پانی نہیں، گاؤں میں کوئی کام نہیں۔ ہمارے گاؤں کے آدھے لوگ پہلے ہی، جہاں بھی انہیں کام ملا، ریاست سے باہر جا چکے تھے،‘‘ ۳۵ سالہ گایتری کہتی ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر، ۴۵ سالہ منیش، چنئی کے ایک تعمیراتی مقام کی طرف روانہ ہو گئے، جہاں ان کے گاؤں کے کچھ لوگ پہلے سے ہی کام کر رہے تھے۔
پوری طرح سے ایک نئے شہر میں، رگھو کو اپنے گھر کی یاد ستانے لگی۔ ’’میں گاؤں میں اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ، گلّی ڈنڈا، کبڈّی کھیلتا تھا۔ ہم درختوں پر چڑھتے اور آم کھاتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتا ہے۔ شمالی چنئی کے رویاپورم علاقہ میں، ایک آنگن اور دو بیلوں کے ساتھ اپنے دو منزلہ گھر کی بجائے، ٹن کی چادر کا ایک چھوٹا کمرہ تھا۔ ببول، جامن اور آم کے درختوں کی بجائے، ایک زیر تعمیر رہائشی عمارت کا وسیع پلیٹ فارم، سیمنٹ کا انبار اور جے سی بی مشینیں تھیں – جہاں اس کے والدین میں سے ہر ایک ۳۵۰ روپے کی یومیہ مزدوری پر کام کر رہے تھے۔
پہلے سے ہی ان تبدیلیوں کا سامنا کر رہے رگھو کے لیے شاید سب سے بڑی تبدیلی نیا اسکول تھا۔ وہ زبان نہیں سمجھتا تھا اور کوئی دوست بھی نہیں تھا، حالانکہ اسکول میں اس نے بہار کے دو دیگر مہاجر لڑکوں کے بغل میں بیٹھنے کی کوشش کی۔ صرف تین ہفتے تک چنئی کے اسکول میں جانے کے بعد، وہ ایک دن روتا ہوا گھر لوٹا، گایتری یاد کرتی ہیں۔ ’’اس نے کہا کہ اب وہ اسکول نہیں جانا چاہتا، کیوں کہ اسے وہاں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا اور اسے لگا کہ ہر کوئی اس سے ناراض ہے۔ اس لیے ہم نے اس کے ساتھ زبردستی نہیں کی۔‘‘
اُن طلبہ کے برعکس جن کے والدین ٹیوشن کی کلاس کا خرچ اٹھا سکتے تھے، یا اپنے بچوں کو ہوم ورک میں مدد کر سکتے تھے، گایتری اور منیش رگھو کو پڑھانے کی حالت میں نہیں تھے۔ منیش نے صرف چوتھی کلاس تک پڑھائی کی ہے، جب کہ گایتری نے ایک سال پہلے ہی ہندی میں اپنا نام لکھنا سیکھا ہے – رگھو نے انہیں سکھایا تھا۔ انہوں نے اپنا بچپن بھینس چرانے اور چار چھوٹی بہنوں کے ساتھ کھیت میں کام کرنے میں گزارا تھا۔ ’’جب اسے اسکول بھیجنا مشکل ہو رہا ہے، تو ہم اضافی ٹیوشن کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا۔
چنئی کا اسکول چھوڑنے کے بعد، رگھو نے تین سال اپنے والدین کو تعمیراتی مقام پر کام کرتے ہوئے، اور سنی کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گزارے، جسے کنڈرگارٹن میں بھی داخلہ نہیں ملا تھا۔ کبھی کبھی، وہ اپنی ماں کے ساتھ لکڑی، پلاسٹک اور کاغذ اکٹھا کرنے کے لیے نکل جاتا تھا، تاکہ ان سے چولہا جلاکر کھانا پکایا جا سکے۔
اور جب اسکول جانا مشکل تھا، اور ان کے والدین مصروف تھے، تو تعمیراتی مقام کے آجروں نے رگھو اور سنی جیسے مہاجر بچوں کی دیکھ بھال، اسکولی تعلیم، حفاظت اور صحت کی نگرانی کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا۔ ایسے تعمیراتی مقامات پر، یونیسیف- آئی سی ایس ایس آر کی ۲۰۱۱ کی ایک ورکشاپ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں ۴۰ ملین مہاجر مزدور کام کرتے ہیں۔
اور ان دونوں بھائیوں کی طرح، ہندوستان بھر کے ۱۵ ملین بچے، جو یا تو آزادانہ طور پر یا اپنے والدین کے ساتھ مہاجرت کرتے ہیں، دائمی تعلیم سے باہر ہو جاتے ہیں، یا کوئی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، مذکورہ رپورٹ کا کہنا ہے۔ ’’موسمی، گشتی اور عارضی مہاجرت بچوں کی تعلیم کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ بچوں کو اسکولی تعلیم چھوڑنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور اس طرح وہ وہ سیکھنے کی کمی سے متاثر ہوتے ہیں... مہاجر مزدوروں کے تقریباً ایک تہائی بچے [جو اپنے والدین کے ساتھ چلتے ہیں اور فیملی کے دیگر ممبران کے ساتھ گاؤں میں نہیں رہتے] اسکول نہیں جا پا رہے ہیں،‘‘ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔
اور جب والدین کام کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں، تو رگھو جیسے بچوں کے لیے تعلیم کی رکاوٹیں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ چنئی کے تعمیراتی مقام پر جب مارچ ۲۰۱۸ میں کام ختم ہو گیا، تو منیش اور گایتری مہاراشٹر کے رائے گڑھ ضلع کے علی باغ تعلقہ چلے گئے، جہاں ایک رشتہ دار دو سال سے رہ رہا تھا۔
منیش نے تعمیراتی مقام پر مزدور کے طور پر کام کرنا جاری رکھا، جب کہ گایتری نے پیٹھ میں لگاتار درد رہنے کے سبب کام کرنا بند کر دیا اور اب گھراور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ منیش روزانہ صبح ۸ بجے علی باغ شہر کے مہاویر چوک کے مزدور ناکہ پر کھڑے ہوکر ٹھیکہ داروں کا انتظار کرتے ہیں، اور مہینہ میں تقریباً ۲۵ دنوں تک ۴۰۰ روپے یومیہ کماتے ہیں۔ ’’کبھی کبھی ۴-۵ دن یونہی گزر جاتے ہیں جب کوئی مجھے کوئی کام کے لیے نہیں لے جاتا۔ اس لیے اُس دن کوئی آمدنی نہیں ہوتی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
علی باغ چلے جانے کے سبب، رگھو کے لیے ایک اور جدوجہد شروع ہوئی – اسے اب مراٹھی میں لکھی نصابی کتابوں کو سمجھنے، ایک اور نئے اسکول میں جانے اور نئے دوست بنانے کی کوشش کرنی پڑی۔ اس نے جب پڑوس کے لڑکے کی کلاس ۴ کی جغرافیہ کی نصابی کتاب مراٹھی میں دیکھی، تو وہ دیوناگری رسم الخط کو پڑھنے میں ناکام رہا۔ اسکول سے تین سال تک دور رہنے کے سبب اسے بہت سی چیزیں دوبارہ سیکھنی پڑیں۔ پھر بھی، اس نے جولائی ۲۰۱۸ کے وسط میں اسکولی تعلیم دوبارہ شروع کی – ۱۱ سال کی عمر میں کلاس ۴ میں، اپنے سے چھوٹے بچوں کے ساتھ۔
’’میں بھول گیا تھا کہ مراٹھی کے حروف ہندی جیسے ہوتے ہیں، لیکن یہ الگ طرح سے لکھا ہوا تھا،‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’سریش [ایک پڑوس کے دوست] نے مجھے بنیادی باتیں سکھائیں کہ کیسے پڑھنا ہے اور الفاظ کے معنی بتائے۔ دھیرے دھیرے مجھے سمجھ میں آنے لگا۔‘‘
رگھو وائے شیت گاؤں کے ضلع پریشد (زیڈ پی) اسکول میں جاتا ہے۔ پرائمری اسکول کی ٹیچر، سواتی گاوڑے کا کہنا ہے کہ کلاس ۱ سے ۱۰ تک اس اسکول کے ۴۰۰ طلبہ میں سے تقریباً ۲۰۰ مہاجر والدین کے بچے ہیں۔ یہاں، رگھو بہار اور اتر پردیش کے دیگر بچوں سے ملا۔ وہ اب ۵ویں کلاس میں پڑھتا ہے اور مراٹھی میں پڑھ، لکھ اور بات کر سکتا ہے۔ سنی کو بھی اس کے والدین نے اسکول میں ڈالا تھا، اور اب وہ کلاس ۳ میں ہے۔
علی باغ ایک بڑھتا ہوا ساحلی شہر ہے، جو ممبئی شہر سے تقریباً ۱۲۲ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے یہاں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار نے بہت سے مہاجر مزدوروں کو راغب کیا ہے، جو اتر پردیش، بہار اور مدھیہ پردیش سے اپنے کنبوں کے ساتھ یہاں آتے ہیں۔ ان کے بچے عام طور پر تعلقہ کے ضلع پریشد یا سرکاری امداد یافتہ مراٹھی میڈیم کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔
تبدیلی کو آسان بنانے کے لیے، کچھ ٹیچر شروع میں مہاجر طالب علموں کے ساتھ ہندی میں بات چیت کرتے ہیں، گاوڑے بتاتی ہیں۔ ’’علی باغ کے ضلع پریشد اسکولوں میں مہاجر کنبوں کے کئی طالب علم ہیں اور بچے کے لیے پوری طرح سے نئے ماحول میں گھلنا ملنا بیحد مشکل ہے۔ ٹیچروں کے طور پر، ہم ان بچوں کے لیے نصابی کتابوں کو نہیں بدل سکتے، لیکن کم از کم ہم اپنی زبان کو کچھ دنوں کے لیے ضرور بدل سکتے ہیں۔ بچے نئیں چیزیں تیزی سے سیکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ٹیچروں کو کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
وائے شیت سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور، کرول گاؤں کی سدھاگڑ ایجوکیشن سوسائٹی، ایک سرکاری امداد یافتہ اسکول میں کلاس ۵ میں مراٹھی زبان کا سیشن چل رہا ہے۔ ٹیچر مانسی پاٹل نے ہر ایک بچے سے کلاس کے سامنے کچھ منٹ تک بات کرنے کے لیے کہا تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو سکے۔ اب ۱۰ سالہ ستیم نشاد کی باری ہے: ’’ہمارے گاؤں میں لوگ کھیتوں پر کام کرتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی کھیت ہے۔ جب بارش ہوتی ہے، تو وہ بیج بوتے ہیں، پھر کچھ مہینوں کے بعد وہ فصل کاٹتے ہیں۔ وہ انام کو بھوسی سے الگ کرتے ہیں۔ پھر وہ اسے پھٹکتے ہیں اور بوریوں میں ڈال کر گھر میں رکھتے ہیں۔ وہ اسے پیستے ہیں اور روٹی کھاتے ہیں۔‘‘ کلاس میں موجود ۲۲ طلبہ تالی بجاتے ہیں۔
’’ستیم بہت اُداس رہتا تھا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا،‘‘ پاٹل بتاتی ہیں۔ ’’بچے کو بہت ہی بنیادی باتیں سکھانا، حروف سے متعارف کرانے کے ساتھ شروعات کرنا، ٹیچروں اور دیگر بچوں سے بات کرنے کے لیے ان میں کچھ خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ جس زبان کے بارے میں انہوں نے کبھی نہیں سنا، اس کے لمبے جملوں کے ساتھ آپ ان پر بمباری نہیں کر سکتے۔ آپ کو ان کے ساتھ ہمدردی دکھانے کی ضرورت ہے۔‘‘
ستیم (اوپر کے کور فوٹو میں سب سے آگے) اپنے والدین کے ساتھ ۲۰۱۷ میں علی باغ آیا تھا۔ اس کے لیے اترپردیش کے دیوریا ضلع کے اپنے گاؤں، رامپور دُلاہ سے یہ ایک بڑی تبدیلی تھی۔ تب وہ صرف آٹھ سال کا تھا اور کلاس ۳ میں پڑھتا تھا۔ وہاں ہندی میڈیم کے اسکول میں جانے اور گھر پر بھوجپوری میں بولنے کے بعد، ستیم کو یہاں مراٹھی کی عادت ڈالنی پڑی۔ ’’جب میں نے پہلی بار مراٹھی دیکھی، تو میں نے اپنے والدین سے کہا کہ یہ غلط ہندی ہے۔ آخر میں کوئی ڈنڈا نہیں تھا... میں حروف کو پڑھ پا رہا تھا لیکن پورے لفظ کا معنی نہیں سمجھ پا رہا تھا،‘‘ ستیم کہتا ہے۔
’’ہمارے بچوں کو مراٹھی میڈیم کے اسکولوں میں جانا پڑتا ہے۔ انگریزی اسکول کی فیس بہت زیادہ ہے اور ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے،‘‘ ۳۵ سالہ آری، ستیم کی ماں، فیملی کے ۱۰۰ مربع فٹ کے کرایے کے کمرے میں بیٹھی ہوئی کہتی ہیں۔ خود آرتی نے صرف کلاس ۲ تک ہی پڑھائی کی ہے؛ وہ ایک خاتونِ خانہ اور کسان ہیں، جو رامپور دُلّاہ میں فیملی کے ایک ایکڑ کھیت میں باجرا اگاتی تھیں۔ ان کے شوہر، ۴۲ سالہ برج موہن نشاد بھی اسی کھیت پر کام کرتے تھے، لیکن خراب سینچائی کے سبب فصل کے بار بار ناکام ہونے کے بعد، انہوں نے کام کی تلاش میں گاؤں چھوڑ دیا۔
اب، تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرکے وہ مہینہ میں ۲۵ دنوں تک ۵۰۰ روپے یومیہ کما لیتے ہیں۔ اسی آمدنی سے ان کی پانچ رکنی فیملی کا خرچ چلتا ہے (ان کی دو بیٹیاں – ۷ سالہ سادھنا اور ۶ سالہ سنجنا بھی اسی اسکول میں جاتی ہیں، جہاں ستیم پڑھتا ہے)۔ اور وہ گاؤں میں اپنے بزرگ والدین کو ہر مہینے ۵ ہزار روپے بھیجتے ہیں۔
کرول میں اپنے گھر سے ۲۰ کلومیٹر دور، سساونے گاؤں میں چلچلاتی دھوپ میں ایک عمارت پر کام کر رہے برج موہن مجھ سے کہتے ہیں، ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے میرے ذریعے کی جانے والی کڑی محنت کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ پڑھائی کریں۔ یہ تمام کوششیں انہی کے لیے ہیں۔‘‘
ستیم کی طرح، خوشی راہیداس بھی زبان کی تبدیلی کا سامنا کر رہی تھی۔ ’’میں اپنے گاؤں کے اسکول میں بھوجپوری میں پڑھتی تھی،‘‘ سدھاگڑ کے اسکول میں کلاس ۶ کی طالبہ کہتی ہے۔ ’’میں مراٹھی نہیں سمجھ سکتی تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ اسکول جاؤں۔ حروف ہندی جیسے ہی تھے لیکن الگ لگتے تھے۔ آخرکار میں نے اسے سیکھا۔ اب میں ایک ٹیچر بننا چاہتی ہوں۔‘‘
خوشی کی فیملی اتر پردیش کے اُلارپور گاؤں سے علی باغ آئی تھی۔ اس کی ماں اندرا متی، کرول گاؤں میں اپنے گھر کے پاس ایک چھوٹی سے ہوٹل کے لیے ۵۰ سموسے بناکر ایک دن میں ۱۵۰ روپے کماتی ہیں۔ اس کے والد راجیندر، تعمیراتی مقامات پر کام کرتے ہیں اور ۵۰۰ روپے یومیہ کماتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس کوئی زمین نہیں ہے، ہم دوسرے کے کھیتوں پر کام کرتے تھے۔ لیکن بہت سے کسانوں نے کام کی تلاش میں گاؤں چھوڑ دیا کیوں کہ گاؤں میں کوئی کام نہیں تھا۔ ہم نے علی باغ میں ایک نئی زندگی شروع کی۔ یہ تمام کوششیں انہی کے لیے ہیں،‘‘ اندرا متی اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
سدھاگڑ اسکول میں خوشی اور ستیم جیسے غیر مراٹھی طالب علموں کی بڑھتی تعداد کے سبب کنڈر گارٹن سے کلاس ۱۰ تک کے ۲۷۰ طلبہ میں سے ۱۷۸ مہاجر کنبوں سے ہیں – پرنسپل سجاتا پاٹل مختلف موضوعات پر ہر ہفتے گروہی مباحثہ کراتی ہیں جیسے تہوار، یوم جمہوریہ، مشہور کھلاڑی، مجاہدین آزادی، موسم۔ ٹیچر فوٹو کارڈ کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ بچوں نے جو کچھ دیکھا اسے اپنی زبان میں بیان کر سکیں، اور پھر انہیں مراٹھی میں اس کا متبادل لفظ بتاتے ہیں۔ مباحثہ کے بعد، طالب علم میں تصویریں بناتے ہیں اور بھوجپوری یا ہندی کے ساتھ ساتھ مراٹھی میں بھی ایک جملہ لکھتے ہیں۔ اس مشق سے انہیں الفاظ کو یاد رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
اس کے علاوہ اسکول ہندی یا بھوجپوری بولنے والے بچے کے ساتھ کسی ایسے بچے کو جوڑ دیتا ہے، جو مراٹھی جانتا ہو۔ تو ۱۱ سالہ سورج پرساد جانوروں کی کہانی کی ایک کتاب سے مراٹھی میں ایک جملہ پڑھ رہا ہے، اور اس کا نیا ساتھی دیویندر راہیداس، جو ۱۱ سال کا ہے، جملہ کو دوہراتا ہے۔ دونوں لڑکے اترپردیش سے اپنے والدین کے ساتھ علی باغ آئے تھے – ۲۰۱۵ میں سورج اور ۲۰۱۸ میں دیویندر۔
’’زبانیں ایک ریاست سے دوسری ریاست میں مختلف ہوتی ہیں اور الگ الگ کنبوں کی مادری زبانیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ اہم ہے کہ مہاجر بچوں کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر مقامی زبان میں آسانی پیدا کی جائے، تاکہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں،‘‘ پرنسپل پاٹل کہتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس قسم کی کوششوں سے اسکول چھوڑنے کی شرح میں کمی آ سکتی ہے۔
نیشنل سیمپل سروے کے مطابق، زبان یا تعلیم کا غیر شناسا ذریعہ ان اسباب میں سے ایک ہے جو طلبہ کو اسکول سے باہر دھکیلتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسباب ہیں- مالی رکاوٹیں، معیار اور تعلیمی بنیادی ڈھانچے۔ سال ۲۰۱۷-۱۸ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اسکول چھوڑنے کی شرح پرائمری سطح پر ۱۰ فیصد، اَپر پرائمری کی سطح پر ۱۷ اعشاریہ ۵ فیصد اور سیکنڈری سطح پر ۱۹ اعشاریہ ۸ فیصد ہے۔
یونیسیف- آئی سی ایس ایس آر کی رپورٹ کہتی ہے: ’’بچوں کی بین ریاستی مہاجرت، زبان کی رکاوٹوں اور مختلف انتظامی ڈھانچوں کے سبب زیادہ مشکلیں پیدا کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کیے گئے تعلیم کے حق [آر ٹی ای] کے قانون کے باوجود، ریاست مہاجر بچوں کو نہ تو مہاجرت کی جگہ پر اور نہ ہی بنیادی مقام پر کوئی سہولت فراہم کرتی ہے۔‘‘
’’حل تلاش کرنا، بین ریاستی مہاجر بچوں کی زبان کی رکاوٹ کو دور کرکے معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے پالیسی تیار کرنا بہت ضروری ہے،‘‘ احمد نگر میں مقیم تعلیمی کارکن، ہیرمب کلکرنی کہتے ہیں۔ ’’یہ اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ بچہ جب اسکول جانا چھوڑ دیتا ہے، تو وہ بچہ مزدوری کرنے لگتا ہے، جس میں کوئی محفوظ مستقبل نہیں ہے۔‘‘ وائے شیت ضلع پریشد اسکول کی ٹیچر، سواتی گاوڑے مشورہ دیتی ہیں کہ ریاستی اہلکاروں کو مہاجر بچوں کا خیال رکھنا چاہیے اور آر ٹی ای کے تحت ان کی اسکولی تعلیم کو یقینی بنانا چاہیے۔
ریاست کی معمولی، لیکن دوستوں اور ٹیچروں کی کچھ مدد سے، رگھو، ستیم اور خوشی اب مراٹھی میں بات کر سکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن ان کے سر پر مہاجرت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ ان کے والدین کام کی تلاش میں دوسری ریاست میں پھر سے روانہ ہو سکتے ہیں – جہاں کی زبان کچھ اور ہوگی۔ رگھو کے والدین مئی میں احمد آباد، گجرات کے لیے روانہ ہونے کا فیصلہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ’’ان کا امتحان ختم ہونے دیجئے،‘‘ اس کے والد منیش کہتے ہیں، جو واضح طور پر فکرمند ہیں۔ ’’ہم نتائج آنے کے بعد انہیں بتائیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز