میں نے سال ۲۰۱۱ میں سنٹرل یونیورسٹی، اوڈیشہ کے طالب علموں سے کہا تھا کہ آپ کی یونیورسٹی، کم از کم جزوی طور پر، شاید کسی ایسے گاؤں کی زمین پر واقع ہے جہاں کے لوگوں کو کئی بار ان کی زمین سے بے دخل کیا گیا تھا۔ لیکن اس میں آپ کی کوئی غلطی یا کسی قسم کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن اس کا ہمیشہ احترام کریں۔
ان کے اندر احترام کا وہ جذبہ موجود تھا – لیکن کوراپُٹ میں واقع اوڈیشہ سنٹرل یونیورسٹی کے طلبہ کے اُس پرجوش اور تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنے والے گروپ نے جب یہ بات سنی، تو انہیں تھوڑا جھٹکا لگا۔ ان کا تعلق بنیادی طور پر شعبۂ صحافت اور ذرائع ابلاغ سے تھا۔ اور چِکاپار کی کہانی نے انہیں پریشان کر دیا۔ ایک ایسا گاؤں جہاں کے لوگوں کو من مانے طریقے سے، لگاتار تین بار ’ترقی‘ کے نام پر بے دخل کیا گیا تھا۔
اور میرا ذہن سال ۱۹۹۳ کے آخر میں اور ۱۹۹۴ کی شروعات میں پہنچ گیا جب ایک گدبا آدیواسی خاتون، مُکتا کدم (اپنے پوتے کے ساتھ کور فوٹو میں) نے مجھے بتایا کہ کیسے ۱۹۶۰ کی دہائی میں، مانسون کی ایک خوفناک رات میں انہیں بے دخل کر دیا گیا تھا۔ مُکتا کے پانچوں بچے آگے چل رہے تھے، ان کے سر پر سامان رکھا ہوا تھا اور گھنے اندھیرے میں جنگل سے گزرتے ہوئے وہ انہیں راستہ بتاتی رہیں۔ اُس وقت زبردست بارش بھی ہو رہی تھی۔ ’’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے۔ ہم صرف اس لیے گئے، کیوں کہ ’صاحب لوگ‘ نے ہمیں جانے کے لیے کہا تھا۔ یہ خوفناک تھا۔‘‘
وہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) مِگ فائٹر پروجیکٹ کے لیے راہ ہموار کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسا پروجیکٹ تھا جو اوڈیشہ میں پوری طرح سے نہ تو آیا، نہ کچھ کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی لوگوں کو ان کی زمین کبھی واپس نہیں کی گئی۔ اور معاوضہ؟ دہائیوں سے چِکاپار سے بے دخل کیے گئے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے جدوجہد کرنے والے دلت برادری کے کارکن جیوترموئے کھورا کہتے ہیں، ’’میری فیملی کے پاس ۶۰ ایکڑ زمین تھی۔ اور، کئی سالوں بعد ہمیں ۶۰ ایکڑ زمین کے لیے ۱۵ ہزار روپے [کل] بطور معاوضہ ملے۔‘‘ بے دخل کیے گئے لوگوں نے ایک بار پھر اپنا گھر، اپنی زمین پر بسایا، نہ کہ سرکار کی زمین پر۔ اس گاؤں کو بھی وہ ’چِکاپار‘ ہی کہہ کر پکارنے لگے۔
چِکاپار کے گدبا، پروجا اور ڈوم (ایک دلت برادری) غریب نہیں تھے۔ ان کے پاس زمین کے بڑے بڑے ٹکڑے اور مویشیوں کی شکل میں کافی دولت تھی۔ لیکن وہ بنیادی طور پر آدیواسی اور ان میں سے کچھ دلت تھے۔ اسی لیے انہیں آسانی سے بے دخل کر دیا گیا۔ ترقی کے نام پر آدیواسیوں کو جبراً سب سے زیادہ نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سال ۱۹۵۱ اور ۱۹۹۰ کے درمیان، پورے ہندوستان میں ’پروجیکٹوں‘ کے نام پر ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کیا گیا۔ (اور ۹۰ کی دہائی میں قومی پالیسی کے مسودے نے تسلیم کیا کہ ان میں سے تقریباً ۷۵ فیصد لوگ ’’اب بھی باز آبادکاری کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘)
اُس وقت قومی آبادی میں سات فیصد کی حصہ داری آدیواسیوں کی تھی، لیکن اس قسم کے تمام پروجیکٹوں کے سبب بے گھر کیے گئے لوگوں میں سے ۴۰ فیصد سے زیادہ آدیواسی تھے۔ مُکتا کدم اور دیگر چِکاپاریوں کی حالت اس سے بھی بدتر ہونے والی تھی۔ ۱۹۸۷ میں انہیں بحریہ کے اسلحہ ڈپو اور اَپر کولابا پروجیکٹ کے سبب، چکاپار۔۲ سے باہر نکال دیا گیا۔ اس بار مُکتا نے مجھ سے کہا، ’’میں اپنے پوتے پوتیوں کو لے کر چلی گئی۔‘‘ اس بار بھی انہوں نے کسی جگہ پر پھر سے اپنا گھر بسایا، جسے آپ چکاپار۔۳ کہہ سکتے ہیں۔
جب میں ۱۹۹۴ کی شروعات میں وہاں گیا اور قیام کیا، تو پتہ چلا کہ انہیں تیسری بار بے دخل ہونے کی نوٹس ملی تھی۔ اور اس بار ان کی نقل مکانی شاید پولٹری فارم یا شاید ملٹری انجینئرنگ سروسز ڈپو کے لیے ہونے والی تھی۔ درحقیقت، ترقی چکاپار کے پیچھے پڑ گئی تھی۔ یہ دنیا کا واحد ایسا گاؤں بن گیا، جس نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کا سامنا کیا، اور ہر بار شکست کھائی۔
ایچ اے ایل کے لیے جس زمین کو بنیادی طور پر تحویل میں لیا گیا تھا اسے سرکار کے ذریعے بتائے گئے مقاصد کے لیے کبھی استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ لیکن اس میں سے کچھ زمین اور جن الگ الگ زمینوں پر وہ بسے تھے، انہیں کسی دوسرے کام کے لیے تقسیم کر دیا گیا، لیکن ان زمینوں کے اصلی مالکوں کو کبھی نہیں دیا گیا۔ مجھے ۲۰۱۱ میں پتہ چلا کہ اس میں سے کچھ زمین اوڈیشہ سنٹرل یونیورسٹی کے اداروں، یا اس سے ملحق اداروں کو دے دی گئی تھی۔ جیوترموئے کھورا نے انصاف اور بے گھر ہوئے کنبوں کے اراکین کو، کم از کم ایچ اے ایل میں نوکری دلانے کی اپنی لڑائی جاری رکھی ہوئی تھی۔
یہ اسٹوری پوری تفصیل سے، دو حصوں میں، میری کتاب ’ایوری بڈی لوز اے گڈ ڈراٹ‘ میں موجود ہے، لیکن اس میں صرف ۱۹۹۵ تک پیش آنے والے واقعات کا ہی ذکر ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز