’’خوبانی کا ذائقہ اب بدل چکا ہے۔‘‘
’’مجھے وہ دن یاد ہے جب برف میرے گھٹنوں تک ہوا کرتا تھا۔‘‘
’’ہمارے یہاں پہلے ہمیشہ بارش ہوا کرتی تھی، لیکن اتنی تباہی نہیں مچتی تھی۔ ہم ڈرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’اب گرمی جلدی آ جاتی ہے۔‘‘
’’ہمیں نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ اور ہم اس کے لیے تیار بھی نہیں ہیں۔‘‘
’’برف کے تودے (گلیشیئر) کم از کم ایک کلومیٹر پیچھے کھسک گئے ہیں۔‘‘
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔‘‘
لیہہ شہر سے لے کر نوبرا وادی کے گاؤوں تک، ہر نسل اور پیشے سے تعلق رکھنے والوں کے منھ سے آپ کو یہی آوازیں سننے کو ملیں گی۔ گزشتہ چھ برسوں میں بھاری سیلاب، کیچڑوں کے بھرنے، زمینوں کے کھسکنے اور خطرناک بارش کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو کروڑوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
غلام محمد، جو کہ ’شایوک گیسٹ ہاؤس‘ کے مالک ہیں، اپنے گاؤں ترتوک اور پاس کے گاؤں چولونگکھا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے واقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’پریشانی یہ ہے کہ آئندہ آنے والی تبدیلیوں کو لے کر نہ تو ہم پہلے کبھی تیار تھے اور نہ ہی اب ہیں۔‘‘
نوبرا پہاڑی بلندیوں پر واقع سرد ریگستان ہے، جہاں کا درجہ حرارت حد درجہ کم ہے، بارش کبھی کبھار ہوتی ہے، جب کہ کافی پرانے گلیشیئر موجود ہیں۔ اس علاقہ میں ترتوک ایک بلند چوٹی پر واقع ہے، جس کے چاروں طرف بلند و بالا پہاڑ اور عظیم شایوک ندی کے دونوں جانب ہرے بھرے کھیت ہیں۔ قدیم شاہراہِ ریشم پر یہ کبھی ایک پڑاؤ ہوا کرتا تھا۔ یہ گاؤں ندی کی سطح سے ۳ ہزار کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کے درمیان موجود لائن آف کنٹرول سے ۱۰ کلومیٹر دور ہے اور لیہہ سے شمال کی جانب آٹھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
ایل او سی سے قریب ہونے کا مطلب تھا، یہ علاقہ سیاحوں کے لیے بند ہے۔ لیکن مقامی باشندوں کی لابنگ کی وجہ سے ۲۰۱۰ میں صورتحال بدل گئی، اتفاق سے اسی سال بادل پھٹنے سے لیہہ میں بھاری تباہی ہوئی، جس میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں گئیں۔ ترتوک میں بھی اس سال کافی بارش ہوئی، اور تب سے اب تک معمول کے خلاف بارش ہو ہی رہی ہے، جس کی وجہ سے مختلف قسم کی تباہییاں مچ رہی ہیں۔ ’’ان بارشوں میں ہمیں دقّتوں کا سامنا کرنا پڑا،‘‘ محمد ابراہیم، جو گاؤں کے گوبا (سربراہ) ہیں، بتاتے ہیں۔ ’’پانی گھروں میں گھُس گیا، جس سے کھانے کے سامان اور اناج وغیرہ برباد ہو گئے۔ بارش سے کھیت تباہ ہو گئے۔ ہم نے سرکاری اہل کاروں کو رپورٹیں بھیجیں، لیکن کچھ لوگ اب بھی امداد کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
غلام محمد (بائیں) اور محمد ابراہیم، گاؤں کے سربراہ
پرانے گھر، جو لکڑی، پتھر، کیچڑ، برش، گھاس اور مٹی کی سات تہوں سے بنے ہوئے ہیں، وہ بھاری بارش کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ’’پہلے، جب لوگوں کے پاس ٹِن کی چھت تھی، تو لوگ اسے دولت کا مظاہرہ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے،‘‘ غلام محمد بتاتے ہیں۔ ’’اب، آپ کو ٹِن کی چادر حاصل کرنے کے لیے طریقے تلاش کرنے پڑتے ہیں، کیوں کہ آپ اپنے گھر کو بارش سے تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے، خاص کر (خوبانی اور دیگر میووں کو) سوکھانے کے موسم میں۔‘‘
ٹن کی چادر کی نئی پرت کے ساتھ ایک پرانی بالتی چھت
ابراہیم عاشور کے مطابق، جو ڈِسکٹ نام کے پاس کے قصبہ میں محکمہ زراعت کے ایک ایکسٹنشن آفیسر ہیں، اور ترتوک میں عاشور گیسٹ ہاؤس کے مالکوں میں سے ہیں، تبدیلی کے دیگر اشارے بھی موجود ہیں۔ ’’گزشتہ ۲۵ برسوں کے دوران، پھل تیزی سے پکنے لگے ہیں، اور ہم لوگ جَو اور گندم نما اناج کے پودے وقت سے ۱۰ دن پہلے بونے لگے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ بارش یا برفباری کتنی ہوگی۔‘‘
’’موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے،‘‘ سونم لوٹس کہتے ہیں، جو سرینگر، کشمیر کے ہندوستانی محکمہ موسمیات کے ڈائرکٹر ہیں۔ ’’قدرت اور انسانی حرکات و سکنات کے درمیان ایک عدم توازن ہے۔ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جو پالیسی ساز نافذ کر رہے ہیں، وہ دیر سے ہو رہی ہیں۔ ہمیں بڑے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، وسائل کے انتظام و انصرام کے لیے نئے قوانین سے لے کر بچاؤ تک۔‘‘
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور کے جے رمن سری نواسن، جو موسمیاتی تبدیلی پر بین حکومتی پینل کی میعادی رپورٹوں کے مصنفین میں سے ایک ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہیں، ’’تشویش کی بات تبدیلی کی شرح ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۳ سے ۲۰۰۸ کے درمیان، لداخ میں درجہ حرارت تین ڈگری سلسیس بڑھا ہے، جب کہ باقی ہندوستان میں یہ صرف ایک ڈگری بڑھا ہے۔ اس سے برفباری اور بارش کے چکر پر اثر پڑ رہا ہے۔ ریگستان میں جب تھوڑے دنوں کے لیے شدید بارش ہوتی ہے، تو یہ تباہی مچاتی ہے؛ ان علاقوں میں اس سے نمٹنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔‘‘
اِنفوگرافکس جسے ماحولیاتی امور پر مبنی نیوز ویب سائٹ ’دی تھرڈ پول‘ نے تیار کیا ہے۔ یہ ڈاٹا ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے متعلق ۲۰۰۹ کی رپورٹ پر مبنی ہے، جسے ماہرین ماحولیات ٹنڈوپ آنگمو اور لیو فلپ ہینیگر نے تیار کیا تھا، اور جس میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور کی تحقیقات بھی شامل ہیں
ترتوک ’نالہ‘ مقامی ماحولیات کا سب سے اہم حصہ ہے
ترتوک، ۱۹۷۱ میں ہند۔پاک جنگ کے بعد ہندوستان میں شامل ہوا۔ یہ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ فارول، یول اور چوتانگ۔ یہ بالتی کمیونٹی کا گہوارہ ہے، جن کا خطہ، یعنی بالتستان، پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، ترتوک میں تقریباً ۴۰۰ کنبے رہتے ہیں۔
پہاڑ کے نازک ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے، بالتی لوگوں نے انوکھا ماحولیاتی نظام تیار کیا ہے، مثال کے طور پر نہر کے پانی کی تقسیم کا نظام اور اس کے لیے ایک چُنپا، یا پانی کے رکھوالے کی تقرری، جس کا کام سب کو پانی کی برابر تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔ چُنپا ہر سال بوائی کے موسم میں پچھلی بار سب سے پہلے پانی پانے والے کھیت کو بدل دیتا ہے۔ انھوں نے کھانے کو جمع کرکے رکھنے کا طریقہ، مویشیوں کو چَرانے کی ترتیب اور دودھ بانٹنے کا نظام، ویسٹ سسٹم اور یہاں تک کہ پولو ٹیم سلیکشن سسٹم بھی تیار کیا ہے۔
ذاکر حسین، فارول کے ’چُنپا۔ دائیں: نہر کا نظام، جس کے تحت ہر کھیت میں الگ الگ لائن بنائی گئی ہے
لیکن، پرانے طریقے اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، ماحولیات میں تبدیلی کے ساتھ ہی اقتصادیات اور ثقافت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ فارول کے چُنپا، ذاکر حسین ترتوک کے مستقبل کو لے کر پریشان ہیں، ’’اب کوئی بھی کھیتی نہیں کرنا چاہتا۔ سب کو گیسٹ ہاؤس چاہیے۔ کوئی بھی گائے اور بکریاں نہیں پالنا چاہتا یا انھیں چَرانے کے لیے نہیں لے جانا چاہتا۔ اگر آپ پہاڑ پر مزید بلندی پر جائیں گے، تو وہاں دیکھیں گے کہ پلاسٹک کے تھیلے پانی کے چشموں کو روک رہے ہیں۔ میں اس سال چُنپا نہیں بننا چاہتا تھا، کیوں کہ اس میں بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں، چونکہ برفباری کم ہوئی ہے، اس لیے مارچ کے شروع میں پانی کم رہتا ہے، جب کہ یہ مہینہ ہمارے لیے بُوائی کا ہوتا ہے، اور اس کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑا ہوتا ہے۔‘‘
اگلے سال تک ترتوک میں دس اور نئے گیسٹ ہاؤس بننے کی امید ہے، اس وقت تقریباً سات گیسٹ ہاؤس موجود ہیں۔ کمیونٹی کے لیے سیاحت، گرمیوں کے مہینے میں مقامی اقتصادیات کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہے، لیکن خدمت گزاری کا کلچر پنپنے سے گاؤں پر اثر پڑ رہا ہے۔ اب، سیاح جب یہاں سے گزرتے ہیں، تو بالتی بچے انھیں انگریزی یا لداخی میں سلام کرتے ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنے والدین (جو بالتی زبان بولتے ہیں) سے بالکل مختلف ترتوک سیکھیں گے۔ لیکن کلثوم بانو بنگ چوپا، جو پنچایت کی ایک ممبر ہیں، مزید گیسٹ ہاؤس بنانے پر بضد ہیں۔ ’’ہم اپنے کھیتوں سے پیسہ نہیں کما پاتے۔ ہمیں بیماری یا تعلیم، یا اپنے گھروں اور دیگر چیزوں کے لیے نقد پیسہ چاہیے۔‘‘
کلثوم جی ’ہَماچنیتو، جو کہ شادی شدہ عورتوں کا روایتی بالتی سرپوش ہے، پہنے ہوئے اپنے باورچی خانہ میں
غلام محمد مزید بتاتے ہیں، ’’ہم یہاں پر ہر چیز بنایا کرتے تھے۔ لیکن اب لوگ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارا کھانا پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم سے آتا ہے اور کپڑے ڈِسکِٹ سے خریدے جاتے ہیں۔‘‘
مستقبل کی فکر
ترتوک کے بزرگ جانتے ہیں کہ چیزیں کتنی بدل گئی ہیں۔ ’’ہم اپنی نوجوانی کے دنوں میں جب پہاڑوں پر جاتے تھے، تو گلیشیئر کافی قریب ہوا کرتے تھے،‘‘ محمد اسحوپا بتاتے ہیں، ’’اب یہ کم از کم ایک کلومیٹر پیچھے کھِسک گئے ہیں۔‘‘ ایک دوسرے بزرگ، محمد ابراہیم اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اب کہیں برف نہیں بچی ہے، تو گلیشیئر کیسے بچیں گے؟‘‘
بالتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مختلف طبقوں کے مرد۔ سب سے بائیں: ابراہیم عاشور۔ بیٹھے ہوئے (بائیں سے دائیں): عبدالقادر، محمد ابراہیم، علی محمد۔ کھڑے ہوئے (بائیں سے دائیں): عبدالکریم، محمد حسن، غلام محمد، محمد اسحوپا
ڈاکٹر شکیل رومشو، جو گلیشیولوجسٹ اور سرینگر میں واقع کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ ارضیاتی سائنس کے صدر ہیں، کہتے ہیں، ’’ہندوستان کے ہمالیائی علاقوں میں گزشتہ ۶۰ برسوں میں ۲۰ فیصد گلیشیئر ختم ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں کل کتنے گلیشیئر ہیں، اس کے بارے میں کوئی مستند ثبوت تو نہیں ہیں، لیکن اب حکومت نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ مستقبل میں ہمیں پانی کے لیے گلیشئر کا جمنا کتنا ضروری ہے۔‘‘
گاؤں کے ایک بزرگ بتا رہے ہیں کہ ترتوک میں چیزیں کیسے بدل گئی ہیں
لوگ ناراض ہیں کہ قدرتی تباہی کے دوران لیہہ کے لوگوں تک تو امداد پہنچیں، لیکن دنیا کے اس کونے میں موجود چھوٹے سے گاؤں کو بہت کم توجہ ملی۔ اچانک بارش کی وجہ سے جب سال ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۵ میں زمینیں کھسکیں، تو بوگ ڈونگ، چولونگکھا، ٹائگر اور سومور جیسے گاؤوں میں مکانات اور کھیت کھلیان تباہ ہوگئے تھے۔ چولونگکھا کے لوگ کہتے ہیں کہ مقامی اہل کاروں نے دورہ کیا تھا، لیکن انھیں اب بھی مالی مدد کا انتظار ہے۔
زمین کھسکنے کی وجہ سے ان کے کھیت بیچوں بیچ سے کٹ گئے؛ جو پتھر نظر آ رہے ہیں وہ کبھی ہرے بھرے کھیت ہوا کرتے تھے
ڈِسکِٹ میں، نوبرا کے اسٹیٹ ریونیو ڈپارٹمنٹ کے حبیب اللہ گِرداوَر، تباہی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ سال ۲۰۱۴ میں، نوبرا وادی میں لوگوں کے گھروں اور کھیتوں میں جو تباہی ہوئی، اس کا تخمینہ تقریباً ۳ کروڑ روپے تھا، اور سال ۲۰۱۵ میں، بقول ان کے، یہ نقصان ۱۵ کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ یہ نقصانات سخت ماحولیات میں رہنے والے چھوٹے کسانوں اور زمینداروں کے لیے تباہی کا باعث ہیں، جن کے پاس آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔
’’میں نے ایسی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی،‘‘ زلیخا بانو کہتی ہیں، جو ٹائگر گاؤں کی گوبا ہیں۔ ’’ایک مریض کی طرح جسے بیمار پڑنے پر یہ نہیں معلوم ہوتا کہ درد پر کیسے قابو پایا جائے، ہمارے گاؤں کی بھی یہی حالت ہے۔ ہمیں نہیں پتہ چلتا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں، یا اس سے کیسے نمٹا جائے۔ لیکن، ہمیں ایک کمیونٹی کے طور پر باہم مل کر اس پر قابو پانا ہوگا۔‘‘
ترتوک میں چہل قدمی کرتے ہوئے، غلام محمد ان مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن پر خطرہ منڈلا رہا ہے، جیسے وہ پُل جو گاؤں کو دونوں طرف سے جوڑتا ہے۔ اگر یہاں کبھی زمین کھسک گئی، تو وہ ترتوک نالہ کو بند کر دے گی اور پھر پورے گاؤں میں سیلاب آ جائے گا۔
’’ہم یہ پریشانی پہلے جھیل چکے ہیں، لیکن ہمیں اب بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ شاید میری زندگی میں وہ برا دن نہ آئے، لیکن اس کے بعد کیا ہوگا، کون جانتا ہے؟‘‘
یہ مضمون اُس میڈیا فیلوشپ کے تحت لکھا گیا، جو مصنفہ کو ماحولیاتی نیوز ویب سائٹ ’دی تھرڈ پول‘ اور ’اَرتھ جرنلزم نیٹ ورک‘، رضاکار، صحافیوں کے بین الاقوامی گروپ نے دیا تھا۔
غلام محمد، عاشور فیملی، اور نوبرا وادی کی کمیونٹیز کا خاص طور پر شکریہ۔