جنوبی کولکاتا کا کثیر ثقافتی مرکز سمجھے جانے والے لیک مارکیٹ میں مینا یادو اپنے گاہکوں کے ساتھ کبھی بھوجپوری میں بات کرتی ہیں، تو کبھی بنگالی اور ہندی میں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ بات چیت کے دوران یا راہگیروں کو پتہ بتاتے وقت بھی وہ ایسا ہی کرتی ہیں۔ بطور مہاجر اپنی روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’کولکاتا میں، یہ [زبان] کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ آگے کہتی ہیں، ’’یہ صرف کہنے کی بات ہے کہ بہاری لوگ بہار میں رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسمانی طور پر جتنے بھی مشکل کام ہیں، وہ ہم لوگ ہی کرتے ہیں۔ یہاں پر جتنے بھی قلی، بھشتی، اور بھاری سامان ڈھونے والے ہیں، وہ سبھی بہاری ہیں۔ یہ بنگالیوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپ نیو مارکیٹ، ہوڑہ، سیالدہ…کہیں بھی چلے جائیں، ہر جگہ بہاری ہی بھاری سامان ڈھوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لیکن اتنی محنت کرنے کے بعد بھی انہیں کوئی عزت نہیں ملتی۔ بہاری سب کو بابو کہتے ہیں…لیکن انہیں کم تر سمجھا جاتا ہے۔ آم کا گودا بنگالی بابوؤں کے لیے ہے، اور گٹھلی ہمارے لیے۔‘‘
مینا یادو زبان کے بارے میں بات کرتے کرتے فوراً شناخت کی سیاست پر پہنچ جاتی ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں، ’’چنئی میں ہمیں [بات چیت کرنے میں] پریشانی ہوتی ہے۔ ہندی یا بھوجپوری بولنے پر وہ لوگ جواب نہیں دیتے ہیں۔ وہ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں، جو ہمیں سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہے۔‘‘ بہار کے چھپرہ سے تعلق رکھنے والی ۴۵ سالہ مینا یادو، جو یہاں مکئی بیچتی ہیں، اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں، ’’دیکھئے، بہاری کی کوئی ایک زبان نہیں ہے۔ گھر پر ہم ۴-۳ زبانوں میں بات کرتے ہیں۔ کبھی ہم بھوجپوری بولتے ہیں تو کبھی ہندی، کبھی دربھنگیا (میتھلی) میں بات کرتے ہیں تو کبھی بنگالی میں۔ لیکن ہمیں دربھنگیا بولنے میں سب سے زیادہ آسانی ہوتی ہے۔‘‘
پھر وہ اتنے ہی حیرت انگیز طریقے سے یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’ہم آرہ اور چھپرہ کی بولی بھی بولتے ہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم جس زبان میں بھی بات کرنا چاہیں، آسانی سے کر لیتے ہیں۔‘‘ باوجود اس کے، وہ اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتیں کہ اتنی ساری زبانوں کے علم سے ان کی غیر معمولی مہارت کا کوئی تعلق ہے۔
’دنیا کو اس کی کثرت میں اظہار کرنے کے طریقوں کا جشن منانے‘ کی بات یونیسکو (جو مادری زبان کے عالمی دن کی میزبانی کرتا ہے) کے ڈائرکٹر جنرل پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ مینا کے لیے تو یہ بالکل سیدھی سی بات ہے۔ ان کے لیے تو اپنے آقاؤں، آجروں، اپنے گاہکوں، اپنی برادری کے لوگوں کی زبان کو سیکھنا ضروری ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’بہت سی زبانیں جاننا اچھا ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں زندہ رہنا تھا اس لیے ہم نے یہ زبانیں سیکھیں۔‘‘
مادری زبان کے اس عالمی دن پر، پاری نے مینا جیسے لوگوں – غریب تارکین وطن سے بات کی، جنہیں اپنے ہی ملک میں اکثر باہری سمجھ لیا جاتا ہے، جو اپنی مادری زبانوں سے دور ہیں۔ ہم نے ان کی لسانی کائنات میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس میں وہ رہتے ہیں، اس کی حفاظت اور تخلیق کرتے ہیں، اور اسی طرح سے ملک کے مختلف حصوں میں رہتے چلے آئے ہیں۔
پونہ میں مہاجر مزدور کے طور پر کام کرنے والے شنکر داس جب آسام کے کچار ضلع کے بورکھولا بلاک میں واقع اپنے گھر لوٹتے ہیں، تو انہیں عجیب قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے گاؤں جرئیل تلا میں جب وہ بڑے ہو رہے تھے، تو ان کے آس پاس رہنے والے لوگ بنگالی بولا کرتے تھے۔ اسی لیے، وہ کبھی آسامی نہیں سیکھ سکے، جوکہ ریاست کی سرکاری زبان ہے۔ عمر کی بیسویں دہائی میں گھر چھوڑنے اور پھر پونہ میں پندرہ سال گزارنے کے بعد انہوں نے اپنی ہندی درست کی اور مراٹھی زبان سیکھ لی۔
اب ۴۰ سال کے ہو چکے شنکر بتاتے ہیں، ’’مجھے بہت اچھی مراٹھی آتی ہے۔ میں پونہ کے طول و اطراف میں کافی گھوما ہوں۔ لیکن میں آسامی نہیں بول سکتا۔ میں اسے سمجھ تو لیتا ہوں، لیکن بول نہیں سکتا۔‘‘ وہ پونہ میں مشینوں کے ایک کارخانہ میں بطور مزدور کام کرتے تھے، لیکن کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے دوران جب ان کی نوکری چلی گئی تو انہیں آسام واپس لوٹنے اور کوئی نیا کام تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اپنے گاؤں جرئیل تلا میں انہیں کوئی کام نہیں ملا، اس لیے انہوں نے گوہاٹی کا رخ کیا، لیکن آسامی نہ جاننے کی وجہ سے وہاں بھی انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔
مینا یادو کے لیے تو یہ بالکل سیدھی سی بات ہے۔ ان کے لیے اپنے اظہار کی کثرت کو منانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ کہتی ہیں، ’بہت سی زبانیں جاننا اچھا ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں زندہ رہنا تھا اس لیے ہم نے یہ زبانیں سیکھیں‘
وہ بتاتے ہیں، ’’کسی آجر سے بات کرنا تو دور کی بات رہی، یہاں پر بس پکڑنے میں بھی پریشانی ہوتی ہے۔ میں پونہ لوٹنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ مجھے کام بھی مل جائے گا اور زبان کو لے کر ایسی کوئی پریشانی بھی نہیں ہوگی۔‘‘ افسوس کہ جہاں ان کا گھر ہے، وہاں انہیں روٹی تک ملنی مشکل ہے۔
گوہاٹی سے تقریباً دو ہزار کلومیٹر دور، قومی راجدھانی میں، ۱۳ سال کے پرفل سورین کو ہندی سیکھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے، تاکہ وہ اپنی اسکولی تعلیم کو جاری رکھ سکے۔ ایک سڑک حادثہ میں والد کی موت کے بعد، اسے جھارکھنڈ کے گُملا ضلع کی پہان ٹولی بستی میں واقع اپنے گھر سے ۱۳۰۰ کلومیٹر دور، نئی دہلی کے منیرکا گاؤں میں اپنی بوا (پھوپھی) کے پاس آنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پرفل کہتا ہے، ’’یہاں آنے کے بعد مجھے اکیلا پن محسوس ہوتا تھا۔ یہاں کسی کو مُنڈاری (بولی) نہیں آتی تھی۔ تمام لوگ ہندی بول رہے تھے۔‘‘
دہلی آنے سے پہلے، اس نے اپنے گاؤں کے اسکول میں ہندی اور انگریزی کے کچھ حروف ضرور سیکھے تھے، لیکن اتنا نہیں کہ وہ انہیں سمجھ سکے یا ان زبانوں میں اپنی بات کہہ سکے۔ دہلی میں دو سال تک پڑھنے اور پھوپھی کے ذریعے الگ سے ٹیوشن کا انتظام کرنے کے بعد، اب وہ کہتا ہے، ’’اسکول میں یا دوستوں کے ساتھ کھیلتے وقت تھوڑی بہت ہندی بول لیتا ہوں۔ لیکن گھر پر، بوا کے ساتھ مُنڈاری میں ہی بات کرتا ہوں۔ جو کہ میری مادری زبان ہے۔‘‘
دہلی سے مزید ۱۱۰۰ کلومیٹر دور، چھتیس گڑھ میں پڑھنے والی ۱۰ سال کی پریتی اب اپنے اسکول نہیں جانا چاہتی۔ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی ہے، لیکن وہاں پر وہ زبان نہیں بولی جاتی جو اس کے گھر کے لوگ بولتے ہیں۔
لتا بھوئی (۴۰) اور ان کے شوہر سریندر بھوئی (۶۰) کا تعلق ملوا کوندھ آدیواسی قبیلہ سے ہے۔ یہ لوگ اوڈیشہ کے کالا ہانڈی میں واقع کیندو پاڑہ گاؤں سے رائے پور آ گئے تھے اور یہاں پر ایک پرائیویٹ فارم ہاؤس کی پہریداری کا کام کرنے لگے۔ انہیں کام چلاؤ چھتیس گڑھی آتی ہے اور وہ فارم کے دوسرے مقامی مزدوروں کے ساتھ اس زبان میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ لتا بتاتی ہیں، ’’ہم لوگ ۲۰ سال پہلے روزی روٹی کی تلاش میں یہاں آئے تھے۔ میری فیملی کے تمام لوگ اوڈیشہ میں رہتے ہیں۔ وہ سبھی اڑیہ بولتے ہیں۔ لیکن میرے بچے ہماری زبان میں لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ وہ صرف بول سکتے ہیں۔ گھر پر ہم یہی بولتے ہیں۔ خود مجھے اڑیہ میں لکھنا یا پڑھنا نہیں آتا ہے۔ میں صرف اسے بول سکتا ہوں۔‘‘ پریتی ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ہے، جسے ہندی شاعری پسند ہے، لیکن اسکول جانا بالکل بھی پسند نہیں ہے۔
وہ بتاتی ہے، ’’میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ کسی طرح چھتیس گڑھی بول لیتی ہوں۔ لیکن اب میں یہاں نہیں پڑھنا چاہتی کیوں کہ اسکول کے دوست ’اوڑیا- ڈھوڑیا‘ کہہ کر میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ چھتیس گڑھی میں ’ڈھوڑیا‘ غیر زہریلے سانپ کو کہتے ہیں، جو فطرتاً کافی ڈرپوک ہوتا ہے۔ پریتی کے ماں باپ اب اسے ایس ٹی کوٹہ کے تحت اوڈیشہ کے کسی سرکاری رہائشی اسکول میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
ابتدائی عمر میں ہی اپنے ماں باپ، وطن اور زبان سے دور کر دیا جانا تقریباً ہر ایک مہاجر کی زندگی کی کہانی ہے۔
ناگیندر سنگھ (۲۱) کو روزگار کی تلاش میں ۸ سال کی عمر میں ہی اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا جب وہ ایک کلینر (صفائی کرنے والے) کے طور پر کرین چلانی والی ایک کمپنی میں کام کرنے لگے۔ ان کا گھر اتر پردیش کے کُشی نگر ضلع کے جگدیش پور گاؤں میں ہے، جہاں بھوجپوری بولی جاتی ہے۔ ناگیندر بتاتے ہیں، ’’یہ ہندی سے تھوڑی الگ ہے۔ اگر ہم بھوجپوری میں بات کرنا شروع کریں، تو آپ سمجھ نہیں پائیں گے۔‘‘ ’ہم‘ کا مطلب ان کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہنے اور شمالی بنگلور میں ایک تعمیراتی مقام پر بطور پینٹر ایک ساتھ کام کرنے والے تین لوگ ہیں۔ عمر، گاؤں، مذہب، اور ذات کے حساب سے علی (۲۶)، منیش (۱۸) اور ناگیندر کی پہچان الگ الگ ہے، لیکن تینوں کی مادری زبان ایک ہی ہے – یعنی بھوجپوری۔
انہوں نے نو عمری میں ہی اپنا گھر اور اپنی زبان گاؤں میں ہی چھوڑ دی تھی۔ علی کہتے ہیں، ’’اگر آپ کے اندر ہنر ہے، تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ میں دہلی، ممبئی، حیدر آباد، اور سعودی عرب میں بھی رہ چکا ہوں۔ میں آپ کو اپنا پاسپورٹ دکھا سکتا ہوں۔ میں نے وہاں انگریزی اور ہندی سیکھی۔‘‘ بات چیت میں شامل ہوتے ہوئے ناگیندر وضاحت کرتے ہیں کہ ایسا بہت آسانی سے ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جہاں بھی کام ملتا ہے، ہم وہاں چلے جاتے ہیں۔ گاؤں کا کوئی لڑکا بلا لیتا ہے، ہم آ جاتے ہیں۔‘‘
ناگیندر اپنے ساتھ کام کرنے والے ۵۷ سالہ سبرامنیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ان اِنکل جیسے لوگ بھی ہیں۔‘‘ مدورئی کے رہنے والے سبرامنیم صرف تمل جانتے ہیں۔ ’’ہم اشارے کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہمیں کچھ کہنا ہوتا ہے تو ہم کارپینٹر کو بتاتے ہیں، اور وہ ہماری بات کو اَنکل تک پہنچا دیتا ہے۔ لیکن اپنے درمیان ہم بھوجپوری میں بات کرتے ہیں۔ شام کو جب میں کمرے پر جاتا ہوں، تو اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتا ہوں اور بھوجپوری گانے سنتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اپنا موبائل نکال کر ہمیں اپنا ایک پسندیدہ گانا سنانے لگتے ہیں۔
پسندیدہ کھانا، دھنیں، تہوار، الگ الگ قسم کے عقیدے جنہیں ہم ہمیشہ اپنی ثقافت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ تمام چیزیں اکثر لسانی تجربات کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اور اسی لیے، پاری نے جب لوگوں سے ان کی مادری زبان کے بارے میں پوچھا، تو ان میں سے کئی لوگ اپنی ثقافت کے بارے میں بتانے لگے۔
دو دہائی سے بھی زیادہ عرصے قبل بہار کے پرتاپور گاؤں سے ممبئی آ کر گھریلو مددگار کے طور پر کام کرنے والے ۳۹ سالہ بسنت مکھیا سے جب میتھلی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہیں اپنے گھر کے کھانے اور گانوں کی یاد آنے لگی۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے ستّو [بھونے ہوئے چنے کا آٹا] بہت پسند ہے، اور اس کے ساتھ ہی چوڑا یا پوہا بھی پسند ہے۔‘‘ ان میں سے کچھ چیزیں انہیں ممبئی میں بھی مل جاتی ہیں، لیکن وہ بتاتے ہیں کہ اس میں ’’میرے گاؤں جیسا ذائقہ نہیں ہوتا ہے۔‘‘ پھر وہ مسکراتے ہوئے کھانے کے بارے میں بات کرنے لگتے ہیں۔ ’’گاؤں میں ہم لوگ ہر سنیچر (ہفتہ) کو دوپہر میں کھچڑی کھاتے ہیں اور شام کو بھوجا۔ بھوجا کو چوڑا، بھُنی ہوئی مونگ پھلی، اور بھونے ہوئے کالے چنے کو پیاز، ٹماٹر، ہری مرچ، نمک، سرسوں کے تیل اور دیگر مسالوں کے ساتھ ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ ممبئی میں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ سنیچر کب آیا اور کب چلا گیا۔‘‘
اسی بات چیت کے دوران انہیں اپنے گاؤں میں کھیلی گئی ہولی بھی یاد آ جاتی ہے۔ بسنت کہتے ہیں، ’’دوستوں کا گروپ اُس دن آپ کو بتائے بغیر آپ کے گھر میں گھس جائے گا۔ ہم رنگوں کے ساتھ پوری مستی سے کھیلتے ہیں۔ پھر مال پوا کھاتے ہیں (جسے ہولی کے موقع پر سوجی، میدہ، چینی اور دودھ کی مدد سے بنایا جاتا ہے)۔ ہم ہولی کے گیت گاتے ہیں، جسے پھگوا کہا جاتا ہے۔‘‘ ہمارے ساتھ وہ اپنی مادری زبان میں بات نہیں کر رہے ہیں، پھر بھی ان کے ذہن میں اپنے وطن کی پوری تصویر گھومنے لگتی ہے۔
وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اپنے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ تہوار منانا اور اپنی زبان میں بات کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔‘‘
الہ آباد کے امیلوٹی گاؤں کے رہنے والے راجو (انہیں اسی نام سے پکارا جانا پسند ہے) کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے۔ وہ گزشتہ ۳۰ سالوں سے پنجاب میں رہ کر اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ اہیر برادری سے تعلق رکھنے والے راجو اپنے گھر پر اودھی میں بات کیا کرتے تھے۔ امرتسر آنے کے بعد، شروع میں انہیں کافی پریشانی ہوئی۔ ’’لیکن آج میں فراٹے سے پنجابی بولتا ہوں اور ہر کوئی مجھ سے پیار کرتا ہے،‘‘ وہ خوشی سے کہتے ہیں۔
پھر بھی، پنجاب کے ترن تارن ضلع کے پٹّی شہر کے ایک باغ میں پھل بیچنے والے راجو کو اپنے تہواروں کی یاد ستاتی ہے۔ کام کا زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے گاؤں نہیں جا پاتے اور ’’یہاں پر میرے لیے خود اپنا تہوار منانا ممکن نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ایک آدمی ۱۰۰ لوگوں کے تہوار میں شریک ہو سکتا ہے، لیکن مجھے بتائیے کہ اگر صرف دو یا چار لوگ ہی تہوار منا رہے ہوں تو اس میں کون شامل ہوگا؟‘‘
ملک کے دوسرے کونے پر، ۳۸ سالہ شبانہ شیخ، جو کام کی تلاش میں اپنے شوہر کے ساتھ راجستھان سے کیرالہ آئی تھیں، یہی سوال کرتی ہیں۔ ’’ہم اپنے گاؤں میں اپنا تہوار مناتے ہیں اور اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔ لیکن یہاں کیرالہ میں ہم اسے کیسے منا سکتے ہیں؟‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’دیوالی کے دوران کیرالہ میں زیادہ روشنی نہیں ہوتی۔ لیکن راجستھان میں اس تہوار کے دوران ہم مٹی کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ یہ کافی خوبصورت لگتا ہے۔‘‘ ان کی آنکھیں ان یادوں سے روشن ہو جاتی ہیں۔
ہم نے جتنے بھی مہاجر مزدوروں سے بات کی، ان میں سے ہر ایک کی زندگی اپنی زبان، ثقافت اور یادوں سے جڑی ہوئی تھی۔ لیکن اپنے وطن سے کافی دور کسی اور جگہ پر رہتے ہوئے انہوں نے ان چیزوں کو زندہ رکھنے کا طریقہ بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔
اپنی عمر کی ۶۰ویں دہائی میں چل رہے مشرو رباری کا ناگپور، وردھا، چندرا پور، یا یوتمال کے کسی کھیت کو چھوڑ کر اپنا کوئی مستقل پتہ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر گجرات کے کچھّ سے تعلق رکھنے والے مشرو رباری اب وسط ودربھ میں خانہ بدوش چرواہے کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ مخصوص رباری پوشاک (اچکن یا انگرکھا، دھوتی، اور ایک سفید پگڑی) میں ملبوس، وہ کہتے ہیں، ’’ایک طرح سے میں ورہدی ہوں۔‘‘ وہ ودربھ کی مقامی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مقامی زبان میں گالی گلوج اور فقرے بازی بھی کر سکتے ہیں! پھر بھی انہوں نے اپنے آبائی وطن کے رسم و رواج اور ثقافت سے اپنا رشتہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ ایک کھیت سے دوسرے کھیت پر جاتے ہوئے جہاں ایک طرف ان کے سامان اونٹوں کی پیٹھ پر بندھے ہوتے ہیں، اسی طرح مویشیوں کی دنیا، ماحولیات وغیرہ کے بارے میں انہیں موروثی طور پر ملنے والی فوک کہانیاں، عقل و شعور، گانے، روایتی علم کا مجموعہ بھی ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا ہے۔
کھدائی کا کام کرنے والے جھارکھنڈ کے ۲۵ سالہ ثناء اللہ عالم، اب کرناٹک کے اُڈوپی میں رہتے ہیں۔ کام کی جگہ پر وہ اکیلے شخص ہیں جو فراٹے سے ہندی بولتے ہیں۔ اپنی زبان اور لوگوں سے ان کا واحد رابطہ موبائل فون کے ذریعے ہوتا ہے، جب وہ اپنی فیملی یا دوستوں کے ساتھ ہندی میں بات کرتے ہیں یا کھورتھا بولتے ہیں، جو کہ جھارکھنڈ کے شمالی چھوٹا ناگپور اور سنتھال پرگنہ میں بولی جانے والی ایک زبان ہے۔
جھارکھنڈ کے ہی ایک اور نوجوان مہاجر مزدور، ۲۳ سالہ سوبین یادو بھی اپنی جان پہچان کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے موبائل فون پر منحصر ہیں۔ کچھ سال پہلے وہ ’’کرکٹ کھلاڑی دھونی کے گھر سے تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور‘‘ واقع اپنے گاؤں، مجگاؤں سے چنئی آ گئے تھے۔ چنئی کے ایک ڈھابہ پر کام کرتے وقت انہیں ہندی میں بات کرنے کا موقع مشکل سے ہی ملتا ہے۔ ہر شام کو جب وہ فون پر اپنی بیوی سے بات کر رہے ہوتے ہیں، صرف تبھی اپنی مادری زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ تمل میں بولتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں اپنے موبائل فون پر ہندی میں ڈب کی گئی تمل فلمیں بھی دیکھتا ہوں۔ سوریہ میرا پسندیدہ اداکار ہے۔‘‘
اُدھر، کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے پٹّن بلاک میں، ساجد غنی کے باورچی خانہ میں دوپہر کا کھانا کھاتے وقت بہار کے موتیہاری سے تعلق رکھنے والے ۵۳ سالہ راج مستری، ونود کمار کہتے ہیں، ’’ہندی، اردو، بھوجپوری…یہاں پر کوئی بھی زبان کام نہیں کرے گی۔ انگریزی بھی نہیں۔ صرف دلوں کی زبان کام کرتی ہے۔‘‘ ساجد ان کے مقامی آجر ہیں، جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ونود ہم سے سوال کرتے ہیں، ’’گھر کا مالک ایک مزدور کے بغل میں بیٹھ کر کھانا کھا رہا ہے – کیا آپ نے ایسا کہیں اور دیکھا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ وہ میری ذات کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ اپنے گاؤں میں اگر میں پانی کو چھو دوں تو وہاں کے لوگ اسے پینے سے بھی منع کر دیں گے، اور یہاں پر یہ اپنے باورچی خانہ میں مجھے کھانا کھلا رہے ہیں اور ساتھ میں بیٹھ کر کھا بھی رہے ہیں۔‘‘
ونود ۳۰ سال پہلے کام کی تلاش میں کشمیر آئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں پہلی بار ۱۹۹۳ میں مزدور کے طور پر کشمیر آیا تھا۔ تب میں کشمیر کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ اُس وقت، میڈیا آج کی طرح نہیں تھا۔ اگر اخبار میں بھی کوئی جانکاری چھپتی تو مجھے کیسے معلوم ہوتا؟ مجھے نہ تو پڑھنا آتا تھا اور نہ ہی کچھ لکھنا۔ جب بھی ٹھیکیدار کی طرف سے کوئی فون کال آتا، ہم روزی روٹی کمانے چل پڑتے تھے۔‘‘
اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ’’اس وقت اننت ناگ ضلع میں مجھے ایک نوکری مل گئی تھی۔ جس دن ہم وہاں پہنچے اچانک سب کچھ بند ہوگیا۔ کئی دنوں تک مجھے بے روزگار رہنا پڑا؛ میری جیب میں ایک بھی پیسہ نہیں تھا۔ لیکن یہاں کے گاؤں والوں نے میری مدد کی، ہم سبھی کی مدد کی۔ ہم ۱۲ لوگ تھے، جو ایک ساتھ یہاں کام کرنے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے ہمیں کھانا کھلایا۔ مجھے بتائیے، اس دنیا میں بغیر کسی مقصد کے کون اس طرح سے کسی کی مدد کرتا ہے؟‘‘ ونود بات کرنے میں مصروف ہیں، اُدھر ساجد ان کی پلیٹ میں چکن کا ایک اور پیس ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ ونود بڑی شائستگی سے انہیں منع بھی کر رہے ہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ونود مزید کہتے ہیں، ’’مجھے کشمیری کا ایک لفظ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن یہاں پر ہر کوئی ہندی سمجھتا ہے۔ ابھی تک اس نے اچھی طرح کام کیا ہے۔‘‘
ہم نے ان سے سوال کیا، ’’بھوجپوری [جو کہ ان کی مادری زبان ہے] کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
’’اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ وہ فوراً جواب دیتے ہیں۔ ’’جب میرے گاؤں سے کوئی یہاں آتا ہے تو ہم بھوجپوری میں بات کرتے ہیں۔ لیکن یہاں پر میں کس کے ساتھ بھوجپوری بولوں؟ آپ ہی بتائیے…؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ پھر ہنسنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’میں نے ساجد بھائی کو تھوڑی بہت اپنی مادری زبان سکھا دی ہے۔ کاہو ساجد بھائی؟ کیسن بانی؟ [بتائیے ساجد بھائی؟ آپ کیسے ہیں؟]‘‘
ساجد جواب دیتے ہیں، ’’ ٹھیک با [میں ٹھیک ہوں]۔‘‘
’’تھوڑی بہت غلطی تو ہو جاتی ہے۔ لیکن اگلی بار یہاں آئیے گا تو یہ بھائی صاحب آپ کو رتیش [ایک بھوجپوری اداکار] کا گانا بھی گا کر سنائیں گے!‘‘
اس اسٹوری کو محمد قمر تبریز نے دہلی سے؛ اسمیتا کھٹور نے مغربی بنگال سے؛ پرتشٹھا پانڈیہ اور شنکر این کینچنور نے کرناٹک سے؛ دیویش نے کشمیر سے؛ راجا سنگیتن نے تمل ناڈو سے؛ نرمل کمار ساہو نے چھتیس گڑھ سے؛ پنکج داس نے آسام سے؛ راجیو چیلنات نے کیرالہ سے؛ جے دیپ ہرڈیکر اور سورن کانتا نے مہاراشٹر سے؛ کمل جیت کور نے پنجاب سے رپورٹ کیا ہے؛ اور پرتشٹھا پانڈیہ نے میدھا کالے، اسمیتا کھٹور، جوشوا بودھی نیترا اور سمویتی ایّر کے ادارتی تعاون سے ایڈٹ کیا ہے۔ بینیفر بھروچا نے فوٹو ایڈٹنگ کی ہے۔ ویڈیو ایڈٹنگ شریہ کاتیائنی کے ذریعے کی گئی ہے۔
کور کا خاکہ: لابنی جنگی
مترجم: محمد قمر تبریز