’’پشمینہ شال کو ریشم جیسا چمکدار بنانے والے لوگ ہم ہی ہیں۔‘‘
سرینگر میں عبدالمجید لون (۴۲ سالہ) کا گھر دھاگوں سے بھرا پڑا ہے۔ اپنے ہاتھوں میں ایک وُچ (لوہے کا ایک دھار دار اوزار) لیے، وہ فرش پر بیٹھ کر تازہ بُنی ہوئی پشمینہ شال سے روئیں دار دھاگے اور کتان کو پوری مہارت سے نکال رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے ہنر کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔‘‘
وہ سرینگر ضلع کے نوا کدل وارڈ میں رہتے ہیں۔ مہنگی پشمینہ شال سے پُرز (رُواں یا دھاگہ) نکالنے کے لیے وہ ایک وُچ استعمال کرتے ہیں۔ اس کام کو پُرزگری کہا جاتا ہے اور اکیلے سرینگر میں ۲۰۰ سے زیادہ کاریگر اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ عبدالمجید دو دہائی سے پُرزگری کر رہے ہیں، اور روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد تقریباً ۲۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔
تمام قسم کی پشمینہ شال پر – چاہے وہ بُنی ہوئی، رنگی ہوئی یا کشیدہ کاری والی ہو – پُرزگری کا کام ہاتھ سے ہی کیا جاتا ہے۔ اس کا کپڑا اتنا نازک ہوتا ہے کہ مشین سے یہ کام نہیں کیا جا سکتا۔
پرزگری کے لیے وُچ کا ہونا ضروری ہے۔ اپنے سامنے لکڑی کے ایک کرگھے پر پھیلی پشمینہ شال پر پوری توجہ سے کام کرتے ہوئے عبدالمجید کہتے ہیں، ’’ہماری پوری کمائی وُچ اور اس کی کوالٹی پر ہی منحصر ہے۔ وُچ کے بغیر پشمینہ شال کو صاف ستھرا کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔‘‘
اب، سرینگر کے پُرزگروں کو ایسے لوہار نہیں مل پا رہے ہیں جو وُچ بنا سکیں، یا ان کی دھار کو اچھی طرح تیز کر سکیں۔ عبدالمجید فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایک وقت ایسا آئے گا جب وُچ نہ ملنے کی وجہ سے پرزگری کا کام ختم ہو جائے گا۔ میرے پاس آخری وُچ بچا ہے اور میں اسی کو استعمال کر رہا ہوں۔ اس کی دھار ختم ہوتے ہی میں بے روزگار ہو جاؤں گا۔‘‘
عبدالمجید کے گھر سے پیدل ۲۰ منٹ کے فاصلہ پر لوہار علی محمد آہنگر کی دکان ہے۔ سرینگر ضلع کے علی کدل علاقہ میں لوہاروں کی تقریباً ایک درجن دکانیں ہیں، جن میں علی محمد کی دکان سب سے پرانی ہے۔ لیکن، اب علی محمد سمیت کسی بھی لوہار کی دلچسپی وُچ بنانے میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کام میں جتنا وقت اور محنت درکار ہے، اتنا پیسہ نہیں ملتا۔
’’وُچ بنانے کے لیے ہنر چاہیے۔ وُچ کی دھار تیز ہونی چاہیے اور اسے اس طرح سے بنایا جانا چاہیے کہ یہ پشمینہ شال سے چھوٹے سے چھوٹے رُواں کو توڑ کر باہر نکال سکے۔‘‘ ہتھوڑے سے آری بناتے وقت ہم سے بات کرتے ہوئے، ۵۰ سالہ علی محمد کہتے ہیں، ’’میں اس بات کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ اگر میں وُچ بنانے کی کوشش بھی کروں، تو اس میں کامیاب نہیں ہو پاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد وہ پر اعتماد لہجہ میں کہتے ہیں، ’’صرف نور کو ہی وُچ بنانے میں مہارت حاصل تھی۔‘‘
نور محمد، جن کا ۱۵ سال پہلے انتقال ہو گیا، لمبے عرصے سے سرینگر میں وُچ بنانے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ سرینگر اور اس کے مضافات میں اس وقت جتنے بھی وُچ استعمال کیے جا رہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کو نور محمد نے ہی بنایا تھا۔ میرجان پورہ میں اپنے کارخانہ میں کام کرتے ہوئے نوجوان پُرزگر فیروز احمد بتاتے ہیں، ’’نور محمد نے صرف اپنے بیٹے کو وُچ بنانا سکھایا تھا۔ حالانکہ، ان کے بیٹے کو وُچ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ایک پرائیویٹ بینک میں نوکری کرتا ہے، جہاں اسے اس سے بہتر تنخواہ ملتی ہے۔‘‘
کارخانہ میں دیگر ۱۲ پرزگروں کے ساتھ ۳۰ سالہ فیروز جس وُچ سے کام کر رہے ہیں، اسے گزشتہ دو سالوں سے اچھی طرح تیز نہیں کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’پُرزگری سے آدمی ترقی نہیں کر سکتا۔ میں ۱۰ سال پہلے جتنا کماتا تھا، آج بھی اتنا ہی کما رہا ہوں۔‘‘
نظیر احمد بھٹ کہتے ہیں، ’’میں پچھلے ۴۰ سال سے پرزگر کے طور پر کام کر رہا ہوں، لیکن اتنا مشکل وقت میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ بیس سال پہلے، ایک شال پر کام کرنے کے عوض مجھے ۳۰ روپے ملتے تھے۔ اب اسی کام کے لیے مجھے ۵۰ روپے ملتے ہیں۔‘‘ اس طرح دیکھا جائے تو، نظیر کی کمائی سال میں صرف ایک روپیہ ہی بڑھ رہی ہے۔
پُرزگروں کو درپیش مسائل کا اندازہ پچھلی دہائی میں کشمیری شال کی برآمد میں ہونے والی تیز گراوٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ سرینگر کے ہینڈی کرافٹس اور ہینڈ لوم ڈپارٹمنٹ کے عہدیداروں نے پاری کو جو رپورٹ دکھائی، اس کے مطابق سال ۱۳-۲۰۱۲ میں ۶۲۰ کروڑ کشمیری شال کی برآمد ہوئی تھی، جو ۲۲-۲۰۲۱ میں گھٹ کر صرف ۹۸ء۱۶۵ کروڑ ہی رہ گئی۔
وُچ کو لگاتار استعمال کرنے کے ہر دو مہینے بعد تیز کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن، یہ کاروبار چونکہ دھیمی رفتار سے چل رہا ہے، اس لیے اب ایسے کم ہی لوہار بچے ہیں جو اس ہنر کو سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔
نظیر کی فیملی گزشتہ تین نسلوں سے پرزگری کا کام کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’پُرزگروں کو وُچ بنانا یا اس کی دھار کو تیز کرنا نہیں آتا۔‘‘ کچھ لوگ ریتی جیسے اوزار سے وُچ کی دھار کو تیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بقول نظیر، اس کا نتیجہ کبھی اطمینان بخش نہیں ہوتا۔
وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں کسی طرح کام چلانا پڑتا ہے۔‘‘
کارخانہ میں نظیر کے بغل میں بیٹھے عاشق احمد کہتے ہیں، ’’آپ خود ہی دیکھ لیجئے، یہ وُچ بھی اتنا تیز نہیں ہے۔‘‘ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے وُچ کی دھار دکھا رہے ہیں: ’’میں ایک دن میں مشکل سے ۳-۲ شال پر ہی کام کر پاتا ہوں۔ اور ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ۲۰۰ روپے ہی کما پاتا ہوں۔‘‘ تیز دھار والے وُچ کے مقابلے کم دھار والے وُچ سے شال کو صاف کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ عاشق بتاتے ہیں کہ تیز دھار والا اوزار ان کے کام کی رفتار اور درستگی کو بڑھا دیتا ہے، جس سے انہیں زیادہ پیسے کمانے میں مدد ملتی ہے – اس سے وہ روزانہ تقریباً ۵۰۰ روپے کما سکتے ہیں۔
تقریباً ۴۰ بائی ۸۰ انچ کی ایک پشمینہ شال پر کام کرکے، پُرزگر ۵۰ روپے تک کما سکتے ہیں۔ جب کہ کشیدہ کاری والی شال، جسے یہاں ’کانی‘ کہا جاتا ہے، پر کام کرنے سے انہیں تقریباً ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔
ریاستی حکومت نے پرزگروں کے مسائل کو کچھ حد تک کم کرنے کے لیے، انہیں اپنے محکمہ دستکاری اور ہینڈ لوم کے تحت رجسٹر کرنے کی پہل شروع کی ہے۔ محکمہ کے ڈائریکٹر، محمد احمد شاہ نے بتایا کہ اس سال مارچ اور اپریل میں ہونے والے ’’رجسٹریشن سے پرزگروں کو مالی مدد آسانی سے حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
رجسٹریشن کے ذریعے بہتر دنوں کا وعدہ تو کیا جا رہا ہے، لیکن پرزگر فی الحال کافی پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
کئی نوجوان پُرزگر یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ اپنی اس کاریگری سے وہ کوئی مستحکم آمدنی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ فیروز کہتے ہیں، ’’جب بھی کوئی موقع ملے گا، میں یہ کام چھوڑ کر کوئی اور کام کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک دوسرے کاریگر کا کہنا ہے، ’’کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ میری شادی ۴۵ سال کی عمر میں ہو رہی ہے؟ اتنا کم کمانے والے پُرزگر سے کوئی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے، کوئی اور کام کرنا ہی بہتر ہے۔‘‘
یہ سن کر فیاض احمد شالا (۶۲ سالہ) فوراً کہتے ہیں، ’’یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ ان دونوں نوجوان پرزگروں کے درمیان ہونے والی بات چیت کو غور سے سن رہے تھے۔ فیاض ۱۲ سال کی عمر سے ہی پرزگری کا کام کر رہے ہیں۔ اپنے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’مجھے یہ ہنر اپنے والد حبیب اللہ شالا سے وراثت میں ملا تھا۔ دراصل، ڈاؤن ٹاؤن سرینگر کے زیادہ تر پرزگروں نے یہ کاریگری میرے والد سے ہی سیکھی ہے۔‘‘
پرزگری کا مستقبل بے یقینی سے دوچار ہونے کے باوجود، فیاض اسے آسانی سے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس خیال کو ترک کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں دوسرے کاموں کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں۔‘‘ وقت کی کسوٹی پر کھرا اترنے کے لیے، وہ نازک پشمینہ شال پر کام کرتے ہوئے اس کے بیکار دھاگوں اور کتان کو ہٹا رہے ہیں اور مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’سچائی تو یہ ہے کہ مجھے پرزگری کے علاوہ کچھ اور نہیں آتا۔‘‘
محمد قمر تبریز