’’سر، ابھی کچھ گاہک آئے ہیں۔ کیا میں ان کو اٹینڈ کر سکتا ہوں؟ میرے پاس ایئر فون ہے، میں آپ کی باتیں سنتا رہوں گا۔‘‘ تھوڑی دیر کے لیے خود کو اَن میوٹ کرتے ہوئے مظفر نے ہچکچاتے ہوئے اپنے ٹیچر سے اجازت مانگی، تاکہ وہ سبزی خریدنے کے لیے اس کے ٹھیلے پر انتظار کر رہے گاہکوں کو سبزی دے سکے۔ مظفر نے ایک بار پھر سے ’’تازی... سبزی لے لو...‘‘ کی آواز لگائی اور اس کے بعد وہ اسمارٹ فون پر سائنس کی کلاس میں لوٹ آیا۔
یہ مظفر شیخ نام کے طالب علم کی پہلی کلاس تھی، جب وہ پہلی بار ۱۵ جون کو آن لائن کلاس میں شامل ہوا۔ آٹھویں کلاس میں پڑھنے والے مظفر نے بتایا، ’’میں ہر وقت بیک گراؤنڈ میں ٹریفک یا مول تول کرنے والے گاہوں کے شور کو سنتا رہتا تھا۔ میرے لیے یہ طے کرنا مشکل تھا کہ میں کلاس پر توجہ دوں یا سبزیاں فروخت کرنے پر۔‘‘ مظفر آن لائن کلاس میں ’شامل‘ تو ہوا، لیکن اس کے ساتھ ہی اسے صبح ۱۰ بجے کے آس پاس اپنے ٹھیلے سے بینگن، چقندر، ککڑی اور گوبھی کے ساتھ ساتھ دیگر سبزیاں بھی بیچنی پڑیں۔ اسے سبزی بیچنے کے لیے ملاڈ کے مالوَنی علاقے کے سب سے مصروف بازار میں اپنا ٹھیلہ گھمانا پڑا۔ یہ جگہ شمالی ممبئی میں واقع ہے۔
مظفر نے آن لائن کلاس میں شامل ہونے کے لیے، کچھ گھنٹوں کے لیے ایک دوست سے فون اُدھار لیا تھا۔ اس کے پاس خود کا اسمارٹ فون نہیں ہے۔ مظفر نے بتایا کہ ’’ٹھیک اسی وقت، نویں کلاس میں پڑھنے والے میرے بڑے بھائی، مبارک کو بھی کلاس جوائن کرنا تھا۔ اس کے لیے انہیں اپنے دوست کے گھر پر جانا پڑا۔ پاپا کام پر گئے ہوئے تھے۔ اس لیے، مجھے ٹھیلے پر سبزی بیچنی پڑی۔ ہم نے تین مہینے بعد، ۱۰ جون کو پھر سے سبزیاں بیچنی شروع کر دی تھیں۔‘‘
مظفر اور مبارک کے والد، اسلام نے جنوری میں ٹھیلہ کرایے پر لیا تھا۔ فیملی کے اخراجات بڑھ رہے تھے اور انہیں آمدنی کے دوسرے ذرائع کی ضرورت تھی۔ تقریباً ۴۰ سال کے اسلام ایک ٹرک ڈرائیور کے ہیلپر کے طور پر کام کرتے تھے، لیکن کم آمدنی کے سبب انہوں نے نوکری چھوڑ دی تھی۔ حالانکہ، انہوں نے جون میں اسی کام کو پھر سے کرنا شروع کر دیا تھا۔ لڑکوں کی ماں کا نام مومنہ ہے، جو ۳۵ سال کی ہیں۔ مومنہ، ہیئر کلپ بناتی ہیں اور گاؤن کی سلائی کرتی ہیں۔ سات رکنی اس فیملی میں ان لوگوں کے علاوہ تین اور لڑکیاں ہیں۔ ایک دو سال کی لڑکی ہے، جس کا نام حسنین ہے۔ اس کے علاوہ، ۱۳ سال کی لڑکی فرزانہ ہے، جو ساتویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ دو بھائی اور دو بہنوں کے علاوہ تیسری بہن بھی ہے، جس کا نام افسانہ ہے۔ افسانہ چھٹی کلاس میں پڑھتی ہے۔
لیکن ٹھیلہ کرایے پر لینے کے بمشکل دو مہینے بعد، ۲۵ مارچ سے کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن لگ گیا۔ اس کی وجہ سے انہیں اپنی نئی نئی سبزی کی دکان بند کرنی پڑی۔ مظفر نے بتایا، ’’پہلے پاپا ٹھیلہ گاڑی سنبھالتے تھے۔‘‘ اس وقت، وہ اور اس کا ۱۷ سال کا بھائی مبارک، صبح ۷ بجے سے دوپہر تک اسکول جاتے تھے۔ اسکول کے بعد دونوں بھائی سبزی فروخت کرنے میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
مومنہ کہتی ہیں، ’’پچھلے سال تک ہم مشکل سے ۵۰۰۰ روپے ہر مہینے کماتے تھے۔ پوری فیملی کو اکثر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی مدد پر منحصر رہنا پڑتا تھا۔ جب مومنہ کو کسی پڑوسی سے ایک سلائی مشین ملی، تو انہوں نے ہیئر کلپ بنانے کے علاوہ گاؤن کی سلائی سے تھوڑی بہت کمائی کرنی شروع کر دی۔ اس سے انہیں تقریباً ۱۰۰۰ روپے ہر مہینے ملنے لگے۔ لیکن، پھر لاک ڈاؤن کے دوران ان کی آمدنی بھی آنی بند ہو گئی۔ اسکول کی فیس، کیرانے کا سامان، بجلی کا بل، پانی کا بل جیسے اخراجات کا انتظام کرنا مشکل تھا۔ ہم نے آمدنی بڑھانے کے لیے سبزیاں فروخت کرنی شروع کر دیں، لیکن اس لاک ڈاؤن نے سب کچھ برباد کر دیا۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے، شیخ فیملی کی طرح ہی ہندوستان کی ایک بڑی آبادی بری طرح متاثر ہوئی۔ ان میں زیادہ تر کنبے ایسے ہیں جو اپنے شہر سے باہر رہ کر عارضی نوکری کرتے ہیں۔ ایسی نوکری کرنے والوں میں سب سے زیادہ دہاڑی مزدور تھے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) میں اگست ۲۰۲۰ میں شائع ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ چھوٹے کاروباری، پھیری والے، اور دہاڑی مزدور، اپریل میں لگائے گئے لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اپریل میں کل ۱۲ کروڑ ۵۱ لاکھ لوگوں کی نوکری گئی۔ ان میں سے سب سے زیادہ نوکری ایسے ہی طبقہ کے لوگوں کی گئی۔ یعنی تقریباً ۹ کروڑ ۱۲ لاکھ لوگوں کی نوکری چلی گئی۔
لاک ڈاؤن کے دوران، شیخ فیملی نے کئی لوگوں کو اپنے گاؤوں واپس لوٹتے دیکھا اور ان لوگوں نے بھی اپنے گاؤں واپس جانے کے بارے میں سوچا۔ ان کا گاؤں اتر پردیش کے بہرائچ ضلع میں پڑتا ہے۔ گاؤں کا نام بالاپور ہے۔ سال ۱۹۹۹ میں شیخ فیملی کام کی تلاش میں ممبئی آئی تھی۔ پہلے وہ گاؤں میں زرعی مزدور تھے، کیوں کہ ان کے پاس اپنی خود کی کوئی زمین نہیں تھی۔ مومنہ کہتی ہیں، ’’ہم لوگوں نے بھی اپنے گاؤں جانے کے بارے میں سوچا، لیکن ٹرین یا بس کا ٹکٹ نہیں مل پا رہا تھا۔ تبھی ہمیں ٹیمپو میں جا رہے لوگوں کے حادثوں کی خبر ملی۔ ہم جان خطرے میں ڈال کر گاؤں واپس نہیں جانا چاہتے تھے۔ اس لیے، ہم نے وہیں پر رکنے کا فیصلہ کیا اور حالات کے پہلے کی طرح بحال ہونے کا انتظار کیا۔‘‘
چونکہ ماں باپ میں سے کسی کے بھی پاس کام نہیں تھا، اس لیے مظفر اور مبارک دونوں بھائیوں نے اپریل کے ابتدائی دنوں میں لاک ڈاؤن اور سخت کرفیو کے درمیان احتیاط برتتے ہوئے سبزیاں فروخت کرنی شروع کیں۔ مظفر نے بتایا، ’’گھر کے پاس بازار میں بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے دوران ایک حولدار نے میرے بھائی مبارک کی کوہنی پر لاٹھی سے مارا۔ اس کے بعد، ہم نے ایک مہینے تک مالونی علاقہ میں ایک دوسرے سبزی فروش کے ٹھیلے پر کام کیا۔ اس کے لیے، انہیں مئی تک ہر دن ۵۰ روپے ملے۔‘‘
مومنہ بتاتی ہیں، ’’جون مہینے میں، جب لاک ڈاؤن میں لگائی گئی پابندیوں میں چھوٹ ملنی شروع ہوئی، تو لڑکوں نے پھر سے گاڑی کرایے پر لی۔ تھوک بازار سے سبزیاں خریدنے اور ٹھیلہ اور ٹیمپو کا کرایہ دینے کے بعد، دونوں لڑکے ہر مہینے تقریباً ۳-۴ ہزار روپے کمانے لگے۔‘‘
جون کے آخر میں، اسلام نے بھی ٹرک ڈرائیور کے ہیلپر کے طور پر اپنا کام کرنا پھر سے شروع کر دیا۔ ان کی تنخواہ پہلے جتنی ہی تھی۔ چار ہزار روپے ہر مہینے۔ مومنہ بتاتی ہیں، ’’وہ ہر ۲-۳ دن پر ممبئی سے باہر کے ۹ سے ۱۰ چکر لگانے جاتے ہیں۔ درمیانی وقت میں گھر آتے ہیں، ۲-۳ گھنٹے آرام کرتے ہیں اور پھر اگلے چکر کے لیے نکل جاتے ہیں۔ وہ دن رات کام کرتے ہیں۔‘‘
مومنہ نے بھی جون کے آس پاس پھر سے کام کرنا شروع کیا، لیکن مہینہ میں کچھ دن ہی کام آتا ہے۔ مومنہ بتاتی ہیں، ’’جولائی سے مجھے کچھ کام ملنا شروع ہو گیا ہے۔ حالانکہ، مارچ سے پہلے تقریباً ۲۰ دن کام کرتی تھی، لیکن ابھی صرف ۱۰ دن ہی کام کر پاتی ہوں۔ سپلائر نے کہا ہے کہ نقصان کی وجہ سے کئی کمپنیاں بند ہو گئی ہیں، اس لیے آرڈر کم آ رہے ہیں۔‘‘
دھیرے دھیرے ان کے معاش کا راستہ پھر سے تو کھل گیا، لیکن جس اسکول میں مظفر اور مبارک پڑھتے ہیں، وہ اسکول بند رہا۔ اس اسکول کا نام گروکل انگلش ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ہے، جو مالونی علاقے میں امبج واڑی کی جھگیوں سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ یہ اسکول ایک این جی او کے ذریعے چلتا ہے۔ اس اسکول میں کنڈرگارٹن سے لے کر ۱۲ویں تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ فی الحال، اس اسکول میں ۹۲۸ اسٹوڈنٹ پڑھتے ہیں۔ اس تعلیمی سال میں کلاس شروع تو ہوئی، لیکن آف لائن نہیں، بلکہ آن لائن کلاس شروع کی گئی۔
مبارک نے بتایا کہ ان لوگوں کے پاس ایک عام موبائل ہے، اس لیے انہیں خالہ کا موبائل (اسمارٹ فون) اُدھار لینا پڑا۔ لیکن، اس موبائل سے ان کے ۴ بھائی بہن ایک ساتھ نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر تب، جب سبھی کی کلاس ایک ساتھ چلتی ہے۔ اس لیے، ان کی دونوں چھوٹی بہنوں، فرزانہ اور افسانہ کو آن لائن کلاس کے لیے اپنی سہیلی کے گھر جانا پڑتا ہے۔ فرزانہ اور افسانہ، ایم ایچ بی اردو اسکول میں پڑھتی ہیں، جو میونسپل کارپوریشن کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ یہ اسکول امبج واڑی کی جھگی بستی سے تقریباً ۲ کلومیٹر دور ہے۔
مظفر اور مبارک باری باری سے اپنے سبزی کے کاروبار کو سنبھالتے ہیں اور اُدھار لیے گئے موبائل پر آن لائن کلاس کرتے ہیں۔ امبج واڑی کی جھگی بستی میں واقع گھر کے اکیلے کمرے میں وہ کلاس کرتے ہیں، تاکہ پچھلی بار کی طرح بازار میں ہونے والے شور کی وجہ سے، ان کو پھر سے اسی طرح کے تجربے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حالانکہ، ابھی بھی ان کے لیے پڑھائی پر فوکس کر پانا بے حد مشکل ہے، کیوں کہ ان کو تین گھنٹے کی کلاس میں شامل ہونا پڑتا ہے اور ہر دن ۶ سے ۷ گھنٹے کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ صرف اتوار کے دن ہی ان کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔
دونوں بھائی باری باری سے ہر دن، نوی ممبئی میں واقع زرعی پیداوار منڈی کمیٹی (اے پی ایم سی) یارڈ میں سبزیاں خریدنے جاتے ہیں۔ یہ جگہ امبج واڑی سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور ہے۔ سبزیاں خریدنے کے لیے دونوں بھائی، دوسرے سبزی فروشوں کے ساتھ آٹو سے جاتے ہیں۔ حالانکہ، انہوں نے پہلے بھی یہی کام اپنے والد کے ساتھ مل کر کیا تھا، جب ان کے والد اسلام نے ٹھیلہ کرایے پر لیا تھا۔ مظفر نے بتایا، ’’ہم رات کے تقریباً ۱۲ بجے جاتے ہیں، صبح ۵ سے ساڑھے پانج بجے گھر لوٹتے ہیں۔ زیادہ تر مواقع پر میں جاتا ہوں، مبارک ٹھیک سے مول تول نہیں کرتا ہے۔ صبح ساڑھے سات بجے تک ہم تازہ سبزیوں کو دھوتے ہیں اور ٹھیلے میں ان کو سجا کر رکھتے ہیں۔‘‘
مبارک نے بتایا، ’’سبزیوں کے تھوک بازار میں رات بھر جاگ کر، اگلی صبح یا دوپہر میں آن لائن کلاس کرتے ہوئے خود کو ترو تازہ بنائے رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ کلاس کے دوران نیند بھی آنے لگتی ہے، لیکن میں اپنی آنکھوں پر پانی چھڑکتا ہوں یا سر ہلا کر، کسی طرح نیند نہیں آتے دیتا ہوں۔‘‘
مالونی کی تنگ گلیوں میں ۱۵ سے ۲۰ کلو سبزی کے ساتھ ایک بھاری ٹھیلہ لے کر گھومنے سے دونوں بھائی کافی تھک جاتے ہیں۔ مظفر کہتے ہیں، ’’میرے کندھے میں درد ہونے لگتا ہے، ہتھیلیاں جلنے لگتیہ یں۔ اس وجہ سے، لکھتے وقت درد ہوتا ہے۔ ہم دونوں بھائی باری باری سے سبزی بیچتے ہیں۔ آج (۲۸ نومبر) کو مبارک کی کلاس ہے، تو میں سبزی بیچنے آ گیا۔ میری کلاس دوپہر میں ڈیڑھ بجے ہے۔‘‘
ان کے اسکول میں کئی طلبہ کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گروکل انگلش ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے بانی اور پرنسپل، فرید شیخ کہتے ہیں، ’’ہمارے تقریباً ۵۰ طلبہ ہوٹلوں، تعمیراتی مقامات پر کام کر رہے ہیں، سبزیاں فروخت کر رہے ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ کام کی وجہ سے وہ تھکے ہوئے ہیں یا ان کو نیند آ رہی ہے۔ ان بچوں کے لیے کلاس میں توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘
ممبئی میں کام کرنے والے این جی او ’پرتھم‘ کے پروگرام ہیڈ نوناتھ کامبلے بتاتے ہیں، ’’مالونی، دھاراوی، مان خورد، اور گوونڈی کی جھگی بستی میں رہنے والے کئی بچوں نے لاک ڈاؤن کے دوران کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ابھی بھی کام کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ آن لائن کلاس کے لیے ان بچوں کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے اور ان کے والدین بے روزگار ہیں۔‘‘ پرتھم، جھگیوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم پر کام کرتا ہے۔
کچھ اسی طرح کی کہانی روشنی خان کی بھی ہے، جو شیخ فیملی کے گھر سے تقریباً ۱۰ منٹ کی دوری پر امبج واڑی کی جھگی بستی میں رہتی ہے۔ روشنی اسی گروکل اسکول میں ۱۰ویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ روشنی نے کچھ وقت کے لیے کیک کی ایک دکان پر کام کرنا شروع کر دیا، تاکہ وہ پڑھائی کے لیے سیکنڈ ہینڈ موبائل خرید سکے۔ روشنی کے والد صابر ایک ویلڈر ہیں، جب کہ اس کی ماں رخسانہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ روشنی کے والدین ۱۹۷۰ کی دہائی میں بہار کے مدھے پورہ ضلع کے کلوتہا گاؤں سے ممبئی آئے تھے۔
روشنی بتاتی ہے، ’’پاپا کے پاس ایک عام موبائل تھا۔ ان کا کام مارچ سے بند ہو گیا تھا۔ اس لیے، اسمارٹ فون خریدنا ممکن نہیں تھا۔‘‘ روشنی ملاڈ ویسٹ کی جس دکان میں کام کرتی تھی وہ امبج واڑی میں واقع اس کے گھر سے ۵ کلومیٹر دور ہے۔ روشنی وہاں مفن اور کیک کی سجاوٹ کے سامان کی پیکنگ اور بیچنے کا کام کرتی ہے۔ بقول روشنی، ’’میرے دوست نے مجھے اس نوکری کے بارے میں مارچ میں بتایا تھا، اس لیے میں نے نوکری کر لی۔ ہر دن اسے دکان تک جانے کے لیے ایک طرف کا ۲۰ روپیہ کرایہ دینا پڑتا ہے۔ مجھے کچھ دور تک پیدل بھی چلنا پڑتا ہے۔‘‘
روشنی نے ۲۵۰۰ روپے کی قیمت کا ایک سیکنڈ ہینڈ فون خریدا۔ اس نے ۱۵ مئی کے آس پاس ۵ ہزار کی اپنی تنخواہ میں سے یہ پیسے خرچ کیے تھے۔ اس نے اپنا کام جاری رکھا، تاکہ اس کی فیملی کا خرچ چل سکے۔
روشنی کے کام کا وقت صبح ۱۱ بجے سے شام کے ۶ بجے تک ہے۔ اسی وقت اس کے اسکول کلاس کی ٹائمنگ بھی ہوتی ہے۔ روشنی بتاتی ہے، ’’ہفتہ میں تقریباً ۲-۳ بار مجھ سے دوپہر کی کلاس چھوٹ جاتی ہے۔ حالانکہ، کلاس میں جو پڑھائی چھوٹ جاتی ہے وہ میں اپنے ٹیچر کے ساتھ فون پر بات چیت کرکے پورا کر لیتی ہوں۔‘‘
روشنی پورے ۷ گھنٹے لگاتار کام کرتی ہے۔ اس وجہ سے وہ بہت تھک جاتی ہے۔ روشنی بتاتی ہے کہ کئی بار وہ اپنے اسکول کا کام پورا نہیں کر پاتی ہے۔ یہاں تک کہ کئی بار رات کا کھانا کھائے بغیر ہی سو جاتی ہے۔ کئی بار اس کے من میں آتا ہے کہ وہ پہلے سے ہی نوکری کرکے پیسے کما رہی ہے، تو اسے آگے پڑھائی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
’پرتھم‘ این جی او کے پروگرام ہیڈ نوناتھ کامبلے کہتے ہیں، ’’جھگی بستیوں میں رہنے والے ایسے بچے جو کہیں کام بھی کرتے ہیں ان کی پڑھائی کے تئیں بڑھتی افسردگی عام بات ہوتی جا رہی ہے۔ ان بچوں کی دلچسپی تعلیم میں زیادہ نہیں ہے۔ اگر بچے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ہیں، تو مزدور کے طور پر بچوں کا کام کرنا اور تیزی سے بڑھتا ہے۔‘‘
روشنی کے تین چھوٹے بھائی بہن ہیں – ریحانہ ساتویں کلاس میں، سمیرہ پانچویں کلاس میں، اور رضوانہ چوتھی کلاس میں ہے۔ تینوں بھائی بہن، ایم ایچ بی اسکول میں پڑھائی کرتے ہیں۔ روشنی کے مطابق، وہ آن لائن کلاس کے لیے اپنے دوست کے گھر جاتے ہیں کیوں کہ وہ موبائل اپنے ساتھ کام پر لے لیتی ہے۔
روشنی کے والدین نے ۱۵ ستمبر کے آس پاس سے کام کرنا شروع کر دیا ہے، لیکن ان کی تنخواہ میں کٹوتی کی گئی ہے۔ رخسانہ کہتی ہیں، ’’پہلے میں ۴ گھروں میں کام کر رہی تھی، لیکن ابھی میں صرف ایک گھر میں کام کرتی ہوں۔ نوکری دینے والے دوسرے گھروں نے مجھے ابھی تک نہیں بلایا ہے۔ فی الحال، میں بمشکل ایک ہزار روپے ہی کما پاتی ہوں، جب کہ مارچ سے پہلے میں ۴ ہزار تک کما لیتی تھی۔‘‘
رخسانہ بتاتی ہیں، ’’روشنی کے والد کو بھی اب صرف ۱۵ دنوں کے لیے کام ملتا ہے۔ ہر دن کی مزدوری ۴۰۰ روپے ہے۔ حالانکہ، مارچ سے پہلے ان کو ۲۵ دن کا کام مل جاتا تھا، جب وہ مالونی کے لیبر ناکہ پر کھڑے ہوتے تھے۔‘‘ اس طرح، فیملی کی مہینے کی پوری کمائی ۱۲ ہزار روپے سے کم ہے۔ اس میں روشنی کی کمائی بھی شامل ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے جب روشنی کام نہیں کرتی تھی، تب بھی اس کی فیملی کی کل کمائی تقریباً ۱۴ ہزار روپے تک ہو جاتی تھی۔
رخسانہ کہتی ہیں، ’’ہماری آمدنی کم ہوئی ہے، لیکن ہمارے خرچ کم نہیں ہوئے ہیں۔ کیرانے کاسامان، اسکول کی فیس، بجلی کا بل، رسوئی کے لیے گیس سیلنڈر، اور کھانے پینے کی چیزیں خریدنی ہی پڑتی ہیں۔ ہمارے پاس کوئی راشن کارڈ بھی نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہمارا کوئی راشن کارڈ بنا۔‘‘
رخسانہ اپنی بیٹی پر پڑنے والے مالی بوجھ کو لے کر پریشان ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’روشنی بہت چھوٹی ہے۔ مجھے اس کی فکر ہے۔ گھر چلانا اس کے لیے بہت بڑی ذمہ داری ہے۔‘‘
ان سب کے دوران، روشنی کو اپنے کام اور آن لائن کلاس کے درمیان تال میل بیٹھانا پڑتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح، جیسے مظفر اور مبارک بھی کام کرتے ہوئے آن لائن کلاس کر رہے ہیں۔ برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن نے اعلان کیا ہے کہ شہر میں اسکول کم از کم ۳۱ دسمبر تک بند رہیں گے۔
مظفر نے بتایا، ’’ہمیں پڑھائی اور کام، دونوں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے کتنے بھی وقت کے لیے کیوں نہ کرنا پڑے۔ لیکن میں کبھی پڑھائی نہیں چھوڑوں گا۔ ابھی یہاں سے میں اپنے گھر جاؤں گا اور آن لائن کلاس جوائن کروں گا۔ ویسے بھی اب ہم تھک کر پڑھائی کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ جیسے اب تک مینج کرتے آئے ہیں، ویسے ہی آگے بھی مینج کر لیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز