’’لاک ڈاؤن کے دوران ہم بہت تناؤ سے گزرے ہیں۔ کووڈ- ۱۹ سروے کے علاوہ، میں نے اپریل سے جولائی تک ۲۷ بچوں کی پیدائش کے وقت مدد فراہم کی۔ ماں کے چیک اَپ سے لیکر انہیں زچگی کے لیے پرائمری ہیلتھ سینٹر لے جانے تک، میں ان سبھی کے لیے وہاں موجود تھی،‘‘ عثمان آباد ضلع کے نلیگاؤں کی ایک آشا کارکن – منظور شدہ سماجی صحت کارکن – تنوجا واگھولے کہتی ہیں۔
مارچ کے آخر میں لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد، تنوجا نے ہر دن باہر نکلنے سے پہلے گھر کا کام پورا کرنے اور اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے لیے کھانا بنانے کے لیے (عموماً صبح ساڑھے سات بجے کے بجائے) صبح ۴ بجے جاگنا شروع کردیا۔ ’’اگر میں صبح ساڑھے سات بجے گھر سے نہ نکلوں، تو ہر کسی سے مل نہیں پاؤں گی۔ کبھی کبھی، لوگ ہم سے اور ہماری ہدایات سے بچنے کے لیے اپنے گھروں سے جلدی نکل جاتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
پہلے آشا کارکن مہینہ میں تقریباً ۱۵-۲۰ دن، صرف ۳-۴ گھنٹے روزانہ کام کرتی تھیں۔ لیکن ۴۰ سالہ تنوجا، جو ۲۰۱۰ سے آشا کارکن ہیں، اب روزانہ تقریباً چھ گھنٹے کام کرتی ہیں۔
تُلجاپور تعلقہ کے نلیگاؤں میں کووڈ- ۱۹ کا سروے ۷ اپریل کو شروع ہوا تھا۔ تنوجا اور ان کی ایک آشا معاون، الکا مُلے، اپنے گاؤں میں روزانہ ۳۰-۳۵ گھروں کا دورہ کر رہی ہیں۔ ’’ہم گھر گھر جاتے ہیں اور اس بات کی جانچ کرتے ہیں کہ کسی کو بخار یا کورونا وائرس کی کوئی دوسری علامت تو نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اگر کسی کو بخار کی شکایت ہے، تو اسے پیراسیٹامول ٹیبلیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر انہیں کورونا وائرس کی علامت ہے، تو ۲۵ کلومیٹر دور واقع اندُر گاؤں کے پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی) کو آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ (اس کے بعد پی ایچ سی کسی کو گاؤں بھیجتا ہے، تاکہ کووڈ ٹیسٹ کے لیے نمونے جمع کیے جا سکیں؛ اگر ٹیسٹ کا نتیجہ پازیٹو آتا ہے، تو اس شخص کو کوارنٹائن اور علاج کے لیے تُلجاپور کے دیہی اسپتال لے جایا جاتا ہے۔)
آشا کارکنوں کو گاؤں کے سبھی گھروں کی جانچ کرنے میں تقریباً ۱۵ دن لگتے ہیں، جس کے بعد وہ پھر سے ہر گھر کا دورہ کرتی ہیں۔ نلیگاؤں کے دائرہ میں دو ٹانڈا – ماضی کی خانہ بدوش لامن برادری، ایک درج فہرست قبیلہ، کی بستیاں ہیں۔ تنوجا کا اندازہ ہے کہ مرکزی گاؤں اور ٹانڈا کی کل آبادی تقریباً ۴ ہزار ہے۔ (۲۰۱۱ کی مردم شماری میں نلیگاؤں کے ۴۵۲ گھروں کی فہرست دی گئی ہے۔)
اپنے معمول کے کاموں کے طور پر، تنوجا اور ان کی معاون کارکن حاملہ عورتوں کی صحت کی بھی نگرانی کرتی ہیں، بچے کی پیدائش کے وقت مدد کرتی ہیں، اور نوزائیدوں کا وزن اور درجہ حرارت کی باقاعدگی سے پیمائش کرتی ہیں۔ بزرگ شہریوں پر خاص دھیان دیا جاتا ہے، تنوجا کہتی ہیں۔ ’’ان سب کے لیے، ہمیں سرکار سے جو کچھ ملا، وہ تھا کپڑے کا ایک ماسک، ایک بوتل سینیٹائزر اور ایک ہزار روپے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ماسک ان کے پاس ۶ اپریل کو، سروے شروع کرنے سے ٹھیک ایک دن پہلے پہنچا، اور سروے کے لیے اعزازیہ کے طور پر پیسہ، صرف ایک بار (اپریل میں) دیا گیا۔
شہر کے اسپتالوں میں پہلی صف کے کارکنوں کے برعکس، آشا کارکنوں – یا ’کمیونٹی صحت رضاکاروں‘ – کو ذاتی تحفظ کے لیے کوئی دیگر آلہ نہیں ملا ہے۔ کوئی اضافی ماسک بھی نہیں، تنوجا کہتی ہیں۔ ’’مجھے ۴۰۰ روپے میں کچھ ماسک خریدنے پڑے۔‘‘ انہیں ۱۵۰۰ روپے ماہانہ اعزازیہ ملتا ہے – عثمان آباد کی آشا کارکنوں کو ۲۰۱۴ سے اتنا ہی مل رہا ہے۔ اور وہ، مختلف نیشنل ہیلتھ پروگراموں کے تحت ’’ کارکردگی پر مبنی اعزازیہ ‘‘ کے طور پر اضافی ۱۵۰۰ روپے ہر مہینے کماتی ہیں۔ یہ شرحیں بھی ۲۰۱۴ سے اتنی ہی ہیں۔
لیکن، دیہی علاقوں میں لوگوں کی مدد کرنے میں آشا کارکنوں کا اہم رول ہے – خاص طور سے عورتوں، بچوں، اور کمزور برادریوں کے ممبران کو صحت خدمات تک پہنچانے میں۔ وہ صحت، غذائیت، ٹیکوں اور سرکار کی صحت سے متعلق اسکیموں کے بارے میں بیداری بھی پیدا کرتی ہیں۔
کووڈ- ۱۹ کے لیے سروے کرتے وقت، کمیونٹی کے قریب جاکر ان سے بات چیت کرنا انہیں زیادہ خطرے میں ڈالتا ہے۔ ’’میں روزانہ متعدد لوگوں کے رابطہ میں آتی ہوں۔ کون جانتا ہے کہ وہ پازیٹو ہیں یا نہیں؟ کیا کپڑے کا صرف ایک ماسک ہی کافی ہے؟‘‘ تلجاپور تعلقہ کے دہیتانا گاؤں کی ۴۲ سالہ آشا کارکن، ناگنی سُرواسے پوچھتی ہیں۔ ان کے تعلقہ میں آشا کارکنوں کو کافی دنوں کے بعد، جولائی کے وسط میں ایک انفراریڈ تھرمامیٹر گن اور پلس آکسی میٹر دیا گیا۔
سرکار کے ذریعے ۲۴ مارچ کو لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد، لوٹ رہے مہاجر مزدوروں پر نظر رکھنا بھی عثمان آباد کی آشا کارکنوں کے لیے ایک تشویش کا موضوع تھا۔ ’’اپریل سے جون کے درمیان تقریباً ۳۰۰ مہاجر ہمارے گاؤں لوٹے تھے۔ ’’آہستہ آہستہ یہ تعداد گھنٹے لگی اور پھرجون کے آخر میں رک گئی،‘‘ تنوجا کہتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ ۲۸۰ اور ۴۱۰ کلومیٹر دور واقع پونہ اور ممبئی سے آئے تھے، جہاں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ تھی۔ ’’لیکن ۱۴ دنوں کے لیے گھر پر کوارنٹائن ہونے کی بار بار درخواست کرنے کے باوجود، بہت سے لوگ باہر نکل جاتے تھے۔‘‘
نلیگاؤں سے تقریباً ۲۱ کلومیٹر دور، تلجاپور تعلقہ کی پھلواڈی گرام پنچایت میں پہلا کووڈ سروے وسط مارچ سے ۷ اپریل تک کیا گیا تھا۔ ’’اس وقت، ۱۸۲ مہاجر مزدور پھلواڈی لوٹے تھے۔ ان میں سے کئی ممبئی اور پونہ سے پیدل چل کر آئے تھے۔ کچھ لوگ آدھی رات میں گاؤں میں داخل ہوئے، جب کوئی بھی آدمی چوکیداری نہیں کررہا تھا،‘‘ ۴۲ سالہ آشا کارکن، شکنتلا لنگاڈے بتاتی ہیں۔ یہ پنچایت ۳۱۵ کنبوں کے تقریباً ۱۵۰۰ لوگوں کا گھر ہے۔ ’’۶ اپریل سے پہلے، جب سروے جاری تھا، تب مجھے تحفظ کے لیے کچھ بھی نہیں ملا – نہ ماسک، نہ دستانے اور نہ ہی کچھ اور،‘‘ شکنتلا کہتی ہیں۔
آشا کارکنوں کے لیے گاؤں آنے والے ہر کسی پر نظر رکھنا اور اس بات کی جانچ کرنا مشکل ہے کہ وہ خود سے کوارنٹائن ہیں، آشا معاون انیتا کدم کہتی ہیں، جو عثمان آباد ضلع کے لوہارا تعلقہ کے کانیگاؤں پی ایچ سی میں کام کرتی ہیں۔ ’’پھر بھی، ہماری آشا کارکن اپنے کاموں کو شکایت کیے بغیر کرتی ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ۴۰ سالہ انتیا، پی ایچ سی کو رپورٹ کرنے والی سبھی ۳۲ آشا کارکنوں کے کام کی دیکھ ریکھ کرتی ہیں۔ اس کے لیے وہ ماہانہ ۸۲۲۵ روپے (سبھی بھتے سمیت) کماتی ہیں۔
مارچ کے آخر میں، عثمان آباد ضلع کی ہر گرام پنچایت میں ایک ’کورونا سہایتا ککش‘ قائم کیا گیا تھا۔ اس کی قیادت گرام سیوک، پنچایت کے اہلکار، مقامی سرکاری اسکول کے پرنسپل اور ٹیچر اور ساتھ ہی آشا اور آنگن واڑی کارکنان کر رہے تھے۔ ’’ہماری آشا ٹیم کورونا سہایتا ککش کی بنیادی معاون ہے۔ انہوں نے ہمیں گاؤوں میں داخل ہونے والے لوگوں کے بارے میں روزانہ اپڈیٹ دیا،‘‘ تلجاپور کے بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر، پرشانت سنگھ مروڑ بتاتے ہیں۔
سب سے پہلے، عثمان آباد کی ۱۱۶۱ آشا کارکنوں (۲۰۱۴ تک، نیشنل ہیلتھ مشن مہاراشٹر کی سائٹ بتاتی ہے؛ ضلع میں کام کرنے والی اس تنظیم کے مطابق، آشا کارکنوں کی موجودہ تعداد ۱۲۰۷ ہے) کو وبا سے نمٹنے کے لیے کوئی باقاعدہ ٹریننگ نہیں دی گئی۔ اس کے بجائے، انہیں ضلع کلکٹر کے دفتر کے ذریعے مرتب کورونا وائرس کے بارے میں صرف ایک کتابچہ دیا گیا تھا۔ اس میں جسمانی دوری بنائے رکھنے اور گھر میں کوارنٹائن کے طریقوں کے لیے رہنما ہدایات تھیں۔ ۱۱ مئی کو، آشا کارکنوں کو ایک گھنٹے کے ویبنار میں شامل ہونا پڑا، جو انہیں وبا اور شہروں سے مہاجرین کی واپسی کے لیے تیار کرنے کے لیے تھا۔
اس کا انعقاد آشا معاونین کے ذریعے کیا گیا تھا، اور اس نے کووڈ- ۱۹ کی علامتوں اور گھر میں کوارنٹائن کے اقدام کا ایک خاکہ پیش کیا۔ آشا کارکنوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے گاؤں میں داخل ہونے والے تمام لوگوں کا ریکارڈ رکھیں اور اس معاملے میں اگر کوئی تنازع ہوتا ہے، تو پولس سے رابطہ کریں۔ ’’ہمیں سخت ہدایت دی گئی تھی کہ اگر کسی آدمی میں کووڈ- ۱۹ کی علامت ہو، تو اسے فوراً پی ایچ سی پہنچایا جائے،‘‘ تنوجا کہتی ہیں۔ ویبنار میں کووڈ- ۱۹ کے دوران حمل کے معاملوں کی نگہداشت کیسے کی جائے، اور بچوں اور بزرگ شہریوں کی صحت پر مباحثہ بھی شامل تھا۔
لیکن آشا کارکن اس وقت زیادہ دباؤ والی تشویشوں کو اجاگر کرنا چاہتی تھیں۔ ’’ہم نے بہتر میڈیکل کٹ کے لیے کہا، اس امید میں کہ سہولیات فراہم کنندگان پی ایچ سی میں ہماری آواز کو بلند کریں گے،‘‘ تنوجا کہتے ہیں۔ انہوں نے ایک اور اہم ایشو بھی اٹھایا: مریضوں کو لانے لے جانے کے لیے گاڑیوں کی کمی۔ ’’نزدیکی پی ایچ سی [اندُر اور نل دُرگ] میں ایمرجنسی ٹرانسپورٹ سروس دستیاب نہیں ہے۔ ہمارے لیے مریضوں کو وہاں لے جانا مشکل ہے،‘‘ تنوجا کہتی ہیں۔
دہیتانا گاؤں میں، ناگنی ہمیں سات مہینے کی حاملہ اس عورت کے بارے میں بتاتی ہیں، جو اپنے شوہر کے ساتھ پونہ سے لوٹی تھی۔ لاک ڈاؤن کے دوران اس نے تعمیراتی مقام پر اپنی نوکری کھو دی تھی۔ ’’یہ مئی کے پہلے ہفتے کی بات ہے۔ جب میں گھر میں کوارنٹائن پر بات کرنے کے لیے اس کے گھر گئی، تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں مرجھائی ہوئی ہیں اور وہ پیلی اور کمزور لگ رہی تھی۔ وہ ٹھیک سے کھڑی بھی نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘ ناگنی چاہتی تھیں کہ وہ فوراً پی ایچ سی جائے۔ ’’جب میں نے ایمبولینس کے لیے پی ایچ سی کو فون کیا، تو یہ دستیاب نہیں تھی۔ چار تعلقہ کے پی ایچ سی دو گاڑیوں سے کام چلاتے ہیں۔ ہم نے کسی طرح اس کے لیے ایک رکشہ کا انتظام کیا۔‘‘
نل دُرگ پی ایچ سی میں جانچ کے بعد پتا چلا کہ اس کے ہیموگلوبن کی سطح بہت کم تھی۔ یہاں کی عورتوں میں اینیمیا عام ہے، ناگنی بتاتی ہیں، لیکن یہ حمل کے دوران خطرناک اینیمیا کا معاملہ تھا۔ ’’ہمیں خون چڑھانے کے لیے دہیتانا سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور، تلجاپور کے دیہی اسپتال لے جانے کے لیے دوسرا رکشہ لینا پڑا۔ رکشہ کا کل کرایہ ۱۵۰۰ روپے آیا۔ اس کی مالی حالت کمزور تھی۔ اس لیے ہم نے کورونا سہایتا ککش کے ممبران سے پیسے کا انتظام کیا۔ کیا وافر تعداد میں ایمبولینس کا انتظام کرنا سرکار کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہے؟‘‘
ایسے حالات میں کئی بار، آشا کارکن خود اپنی جیب سے پیسے خرچ کرتی ہیں – حالانکہ وہ اتنا برداشت نہیں کر سکتیں۔ ۱۰ سال پہلے ایک بیماری سے اپنے شوہر کی موت کے بعد، ناگنی اپنی فیملی میں واحد کمانے والی رکن ہیں؛ ان کا بیٹا اور ساس بھی انہی کی آمدنی پر منحصر ہیں۔
پھلواڈی میں، شکنتلا کو لاک ڈاؤن کے دوران اپنی آمدنی سے فیملی کی مدد کرنی پڑی (اور انہیں ابھی تک جون اور جولائی کا بقایا نہیں ملا ہے)۔ ’’میرے شوہر، گرودیو لانگڈے زرعی مزدور ہیں۔ وہ ۲۵۰ روپے یومیہ مزدوری پاتے تھے، لیکن اس گرمی میں انہیں کوئی کام نہیں ملا ہے۔ انہیں جون سے لیکر اکتوبر تک ہی بیشتر روزگار ملتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں، ایک کی عمر ۱۷ سال اور دوسری کی ۲ سال ہے۔ اور گرودیو کے والدین بھی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔
مئی سے جولائی تک شکنتلا، اندُر واقع ایچ اے ایل او میڈیکل فاؤنڈیشن کے ذریعے چلائے جا رہے پروجیکٹ کے لیے اپنے گاؤں میں کھانا پکاکر تھوڑی اضافی کمائی کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس غیر منافع بخش تنظیم نے پیسہ لیکر کھانے پکانے کے لیے تیار آنگن واڑی اور آشا کارکنوں سے رابطہ کیا تھا۔ کیرانے کا سامان انہیں مہیا کرایا جاتا تھا۔ ’’ہم نے ایسے ۳۰۰ لوگوں کی پہچان کی، جنہیں لوہارا اور تلجاپور تعلقہ میں مدد کی بے حد ضرورت تھی۔ ہم نے ۱۵ مئی سے ۳۱ جولائی تک کھانا تقسیم کیا،‘‘ ایچ اے ایل او کے ایک رکن، بسَو راج نارے بتاتے ہیں۔
’’اس نے میرے جیسی آشا کارکنوں کی مدد کی، جنہیں معمولی تنخواہ ملتی ہے۔ مجھے دو وقت کا کھانا اور ایک کپ چائے بناکر پہنچانے کے لیے [فی کس] ایک دن کے ۶۰ روپے ملتے تھے۔ میں چھ لوگوں کے لیے کھانا پکاتی اور روزانہ ۳۶۰ روپے کماتی تھی،‘‘ شکنتلا بتاتی ہیں۔ سال ۲۰۱۹ میں، انہوں نے اپنی ۲۰ سالہ بیٹی سنگیتا کی شادی کے لیے ایک ساہوکار سے ۳ فیصد شرحِ سود پر، ۳ لاکھ روپے قرض لیے تھے۔ اس میں سے وہ ۸۰ ہزار روپے واپس کر چکی ہیں، اور لاک ڈاؤن کے دوران بھی وہ قسط چکانا نہیں بھولی تھیں۔
’’وبا کے دوران کام کرنے کی وجہ سے میری ساس فکرمند رہتی تھیں۔ ’تم اس بیماری کو گھر لے آؤگی،‘ وہ کہتی تھیں۔ لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اگر میں گاؤں کی دیکھ بھال کرتی ہوں، تو میری فیملی بھوکی نہیں رہے گی،‘‘ شکنتلا کہتی ہیں۔
تنوجا بھی اس تنظیم کے لیے کھانا پکاتیں اور ایک دن کے ۳۶۰ روپے پاتی تھیں۔ ہر دن، وہ آشا کے اپنے معمول کے کاموں کو پورا کرنے کے بعد گھر آکر کھانا پکاتیں اور چھ ٹفن لوگوں تک پہنچاتی تھیں۔ ’’دوپہر بعد، تقریباً ۴ بجے انہیں چائے دینے کے بعد، میں کورونا امدادی مرکز کی یومیہ میٹنگ میں شریک ہونے جاتی تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
۱۳ اگست تک تلجاپور تعلقہ میں کووڈ کے ۴۴۷ پازیٹو معاملے تھے اور لوہارا میں ۶۵ تھے۔ دہیتانا میں ۴ معاملوں کا پتا چلا، جب کہ نلیگاؤں اور پھلواڈی میں ابھی تک ایک بھی پازیٹو کیس نہیں ہے، ایسا آشا کارکنوں کا کہنا ہے۔
۲۵ جون کو، حکومت مہاراشٹر نے ماہانہ اعزازیہ میں اضافہ کا اعلان کیا تھا – آشا کارکنوں کے لیے ۲۰۰۰ روپے اور آشا معاونین کے لیے ۳۰۰۰ روپے – جس کی شروعات جولائی سے ہونی تھی۔ دیہی علاقوں میں کووڈ- ۱۹ سروے کے لیے ان کے کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر صحت راجیش ٹوپے نے ریاست کی ۶۵ ہزار سے زیادہ آشا کارکنوں کو ’’صحت کے ہمارے بنیادی ڈھانچہ کا ایک مضبوط ستون‘‘ کہا تھا۔
۱۰ اگست تک، ہم نے جن آشا کارکنوں سے بات کی، انہیں جولائی کا اپنا ترمیم شدہ اعزازیہ نہیں ملا تھا۔
لیکن وہ ابھی بھی کام کر رہی ہیں۔ ’’ہم اپنے لوگوں کے لیے بنا تھکے کام کرتے رہتے ہیں،‘‘ تنوجا کہتی ہیں۔ ’’زبردست خشک سالی ہو، بھاری بارش، ژالہ باری یا کورونا وائرس ہی کیوں نہ ہو، ہم کسی بھی حالت میں لوگوں کی صحت کے لیے سب سے پہلے حاضر رہتے ہیں۔ ہمیں ساوتری بائی پھُلے سے حوصلہ ملتا ہے، جنہوں نے ۱۸۹۷ میں طاعون کی وبا کے دوران لوگوں کی مدد کرنے کے لیے بلاغرض کام کیا تھا۔‘‘
پوسٹ اسکرپٹ: عثمان آباد کی آشا کارکنوں اور معاونین نے پورے ملک کی یونین کے ذریعے ۷-۸ اگست کو بلائی گئی کل ہند ہڑتال کی حمایت کی۔ طویل عرصے سے مستقل ملازمین کے طور پر مقرر کیے جانے، مناسب (اور وقت پر) تنخواہ کی ادائیگی، اعزازیہ کی شرحوں میں اضافہ اور نقل و حمل کی سہولیات کے ساتھ ساتھ، وہ حفاظتی آلات، کووڈ- ۱۹ کے کام کے لیے خصوصی ٹریننگ، پہلی صف کی کارکنوں کے لیے مسلسل تربیت اور وبا کی مدت کے دوران بیمہ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز