ذاکر حسین اور مہیش کمار چودھری بچپن سے دوست ہیں۔ دونوں کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہو چکی ہے، اور وہ اب بھی اتنے ہی قریب ہیں۔ ذاکر، اجنا گاؤں میں رہتے ہیں اور پاکوڑ کے تعمیراتی مقامات پر ٹھیکیدار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ شہر میں ہی مہیش اپنا ایک چھوٹا سا ریستوراں چلاتے ہیں۔

’’پاکوڑ بہت پر امن جگہ ہے؛ یہاں لوگ مل جل کر رہتے ہیں،‘‘ مہیش کہتے ہیں۔

اپنے دوست کے بغل میں بیٹھے ذاکر کہتے ہیں، ’’ہیمنت بسوا سرما [آسام کے وزیر اعلیٰ] جیسے باہر سے آئے لوگ اپنی تقریروں سے لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں۔‘‘

سنتال پرگنہ علاقے میں آنے والا پاکوڑ ضلع، جھارکھنڈ کے مشرقی کونے میں واقع ہے۔ ریاست میں ۲۰ نومبر، ۲۰۲۴ کو اسمبلی انتخاب ہونے ہیں، اور کل ۸۱ سیٹوں پر ووٹنگ کی جائے گی۔ سال ۲۰۱۹ میں ہوئے پچھلے انتخابات میں، جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کی قیادت والے محاذ نے بی جے پی کو شکست دی تھی۔

اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں، بی جے پی نے ووٹروں کو مائل کرنے کے لیے آسام کے وزیر اعلیٰ سمیت تمام لوگوں کو ووٹروں کے درمیان بھیجا ہے۔ بی جے پی لیڈر مسلمانوں کے خلاف لوگوں میں غصہ بھڑکا رہے ہیں، اور انہیں ’بنگلہ دیش سے آئے درانداز‘ بتا رہے ہیں۔

’’میرے پڑوس میں ہندو رہتے ہیں؛ وہ میرے گھر آتے ہیں، اور میں ان کے گھر جاتا ہوں،‘‘ ذاکر کہتے ہیں۔ ’’صرف الیکشن کے دوران ہی ہندو مسلم کا ایشو اٹھایا جاتا ہے۔ اس کے بغیر وہ [بی جے پی] جیتیں گے بھی کیسے؟‘‘

ستمبر، ۲۰۲۴ میں جمشید پور کی ایک ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی دراندازی کے ایشو کو سیاسی طول دیا۔ ’’سنتال پرگنہ میں آدیواسیوں کی آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ پنچایتوں کے عہدوں پر بھی درانداز قبضہ جما رہے ہیں،‘‘ انہوں نے مجمع سے کہا تھا۔

وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی اپنی تقریروں میں اسی طرح کی بات کہہ چکے ہیں۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے، ’’ہم جھارکھنڈ میں بنگلہ دیشیوں کی غیر قانونی دراندازی کو روکنے اور آدیواسی برادریوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ٹھوس قدم اٹھائیں گے۔‘‘

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: اجنا گاؤں میں اپنے کھیت میں ہل چلاتا ایک کسان۔ دائیں: ذاکر حسین (دائیں) اور مہیش کمار چودھری (بائیں) بچپن کے دوست ہیں۔ مہیش ایک چھوٹا سا ریستوراں چلاتے ہیں، وہیں ذاکر تعمیراتی مقامات پر بطور ٹھیکیدار کام کرتے ہیں

سماجی کارکن اشوک ورما کہتے ہیں کہ بی جے پی سیاسی فائدے کے لیے اس ایشو کا استعمال کر رہی ہے۔ ’’جھوٹی کہانی پیش کی جا رہی ہے۔ سنتال پرگنہ میں بنگلہ دیشیوں کی دراندازی کوئی ایشو نہیں ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹا ناگپور اور سنتال پرگنہ کاشتکاری قانون آدیواسی زمینوں کی فروخت پر پابندی لگاتا ہے، اور زمین کی فروخت کے کسی بھی معاملے میں مقامی لوگوں کی حصہ داری رہی ہے، نہ کہ بنگلہ دیشیوں کی۔

بی جے پی کے لیڈر درج فہرست قبائل کے قومی کمیشن (این سی ایس ٹی) کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دے رہے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی دراندازی کی وجہ سے جھارکھنڈ کے سنتال پرگنہ علاقے کی ’آبادی‘ بدل رہی ہے۔ این سی ایس ٹی نے وزارت داخلہ کو رپورٹ سونپی تھی، جے بعد میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا۔ اس رپورٹ کو عام نہیں کیا گیا ہے۔

اشوک ورما ایک آزاد فیکٹ فائنڈنگ (حقائق دریافت کرنے والی) ٹیم کا حصہ تھے، جو این سی ایس ٹی کی جانچ کر رہی تھی۔ وہ رپورٹ کے نتائج کو بے بنیاد بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آدیواسی غریبی، سوء تغذیہ، کم شرح پیدائش اور اعلی شرح اموات کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔

پولرائزیشن کے لیے استعمال کیے جا رہے اس ایشو کو میڈیا بھی ہوا دے رہی ہے۔ ’’بس اس کو [ٹی وی] دیکھنا بند کر دیا جائے، تو خود بخود ہم آہنگی لوٹ آئے گی۔ عام طور پر پڑھے لکھے لوگ ہی اخبار پڑھتے ہیں، لیکن ٹی وی ہر کوئی دیکھتا ہے،‘‘ ذاکر کہتے ہیں۔

ذاکر کے مطابق، ’’اس الیکشن میں مہنگائی اصل ایشو ہونا چاہیے۔ آٹا، چاول، دال، تیل…سب کچھ اتنا مہنگا ہو گیا ہے۔‘‘

جھارکھنڈ جنادھیکار مہا سبھا کے صدر، اشوک کہتے ہیں، ’’سنتال پرگنہ کے مسلمانوں اور آدیواسیوں کی ثقافت، کھانے پینے کی عادتیں ایک جیسی ہیں اور وہ ایک دوسرے کے تہوار بھی مل کر مناتے ہیں۔ اگر آپ مقامی آدیواسی ہاٹ (ہفتہ واری بازار) میں جائیں، تو دونوں فرقوں کی موجودگی دیکھنے کو ملتی ہے۔‘‘

*****

اس سال ۱۷ جون کو مسلمانوں کے تہوار، بقرعید کے دن جانوروں کی قربانی کو لے کر گوپی ناتھ پور میں فرقہ وارانہ تناؤ بڑھ گیا تھا۔ اجنا کی طرح، یہ گاؤں بھی پاکوڑ ضلع میں آتا ہے، اور یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ملی جلی آبادی رہتی ہے۔ ایک پتلی سی نہر کے اُس پار پڑوسی ریاست مغربی بنگال ہے۔ یہاں کے زیادہ تر رہائشی معمولی/چھوٹے کسان ہیں، جو کھیتی اور زرعی مزدوری کرتے ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: نمیتا اور ان کے شوہر دیپ چند منڈل گھر کے باہر کھڑے ہیں، جس پر جون ۲۰۲۴ میں حملہ کر دیا گیا تھا۔ دائیں: گھر کو پہنچے نقصان کے ثبوت ان کے پاس تصویروں کی شکل میں موجود ہیں، جس کے ذریعہ وہ معاوضہ حاصل کرنے کی امید لگائے ہوئے ہیں

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: نمیتا کے گھر کے باہر باورچی خانہ میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ دائیں: اس فیڈر نہر کے ایک طرف جھارکھنڈ، اور دوسری طرف مغربی بنگال ہے

گندھئی پور پنچایت کے وارڈ نمبر ۱۱ میں پولیس بلانی پڑی تھی۔ معاملہ ٹھنڈا ہوا، لیکن اگلے دن پھر سے بھڑک اٹھا۔ ’’مجمع پتھراؤ کر رہا تھا،‘‘ مقامی رہائشی سدھیر بتاتے ہیں، جنہوں نے ۲۰۰-۱۰۰ پولیس والوں کو جائے حادثہ پر آتے دیکھا تھا۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’ہر جگہ دھواں پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے بہت سی موٹر سائیکلوں اور پولیس کی ایک گاڑی کو آگ کے حوالے کر دیا تھا۔‘‘

نمیتا منڈل اپنی بیٹی کے ساتھ گھر پر تھیں، جب انہوں نے دھماکہ کی آواز سنی۔ وہ کہتی ہیں، ’’اچانک ہمارے گھر پر پتھراؤ ہونے لگا۔ ہم اندر بھاگے۔‘‘ ان کی آواز میں ڈر اب بھی سنائی دیتا ہے۔

تب تک مردوں کا ایک گروہ پہلے ہی تالا توڑ چکا تھا اور جبراً اندر داخل ہو گیا۔ انہوں نے ماں بیٹی کی پٹائی شروع کر دی تھی۔ ان کی ۱۶ سالہ بیٹی اپنی کمر اور کندھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’انہوں نے مجھے یہاں…اور یہاں مارا تھا۔ اب تک درد ہوتا ہے۔‘‘ نمیتا، پاری کو جائے حادثہ دکھاتے ہوئے بتاتی ہیں کہ مردوں نے باورچی خانہ کو بھی جلا دیا تھا، جو گھر کے باہر بنا ہوا تھا۔

مفصل تھانہ کے انچارج سنجے کمار جھا اس واقعہ کے بارے میں کہتے ہیں، ’’نقصان زیادہ نہیں ہوا۔ ایک جھونپڑی جلا دی گئی تھی اور معمولی قسم کی توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔ کسی کی موت نہیں ہوئی۔‘‘

نمیتا (۳۲) اپنی فیملی کے ساتھ جھارکھنڈ کے پاکوڑ ضلع کے گوپی ناتھ پور میں رہتی ہیں۔ ان کی فیملی ان تمام خاندانوں میں سے ہے جو نسلوں سے اس علاقہ میں رہتے آ رہے ہیں۔ ’’یہ ہمارا گھر ہے، ہماری زمین ہے،‘‘ وہ نہایت پختگی کے ساتھ کہتی ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: حملے کے بعد سے ہیما منڈل غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’پہلے ہندو مسلم نہیں کیا جاتا تھا، لیکن اب لگاتار ڈر بنا رہتا ہے۔‘ دائیں: ان کے باورچی خانہ میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: ریحان شیخ کہتے ہیں، ’یہاں کے مسلمان ہندوؤں کے ساتھ کھڑے تھے۔‘ دائیں: ان کے موبائل فون پر اس واقعہ کا ویڈیو موجود ہے

ضلع پریشد کی رکن پنکی منڈل بتاتی ہیں کہ پاکوڑ ضلع کی گندھئی پور پنچایت میں آنے والا گوپی ناتھ پور ہندوؤں کی اکثریت والا گاؤں ہے۔ نمیتا کے شوہر دیپ چند کا خاندان پانچ نسلوں سے یہاں آباد ہے۔ دیپ چند (۳۴) کہتے ہیں، ’’پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی تناؤ نہیں تھا، لیکن بقرعید کے واقعہ کے بعد سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔‘‘ وہ حملے کے وقت اپنے باقی دو بچوں کے ساتھ باہر گئے ہوئے تھے۔

نمیتا کہتی ہیں، ’’کسی نے پولیس کو فون کر دیا تھا، ورنہ کیا معلوم ہمارے ساتھ کیا ہوتا۔‘‘ اگلے ہفتہ، انہوں نے اپنے سسرال والوں سے ۵۰ ہزار روپے قرض لیے، تاکہ اپنے گھر کی کھڑکیوں اور دروازوں پر گرِل لگوا سکیں۔ دہاڑی مزدوری کرنے والے دیپ چند کہتے ہیں، ’’اس کے بغیر ہم یہاں خود کو محفوظ محسوس نہیں کر پا رہے تھے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’کاش میں اُس دن کام پر نہیں گیا ہوتا۔‘‘

ہیما منڈل اپنے برآمدے میں تیندو کے پتوں سے بیڑی بنا رہی ہیں۔ ’’پہلے ہندو مسلم نہیں کیا جاتا تھا، لیکن اب لگاتار ڈر لگا رہتا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ جب نہر کا پانی سوکھ جائے گا، تو ’’پھر سے جھگڑے ہوں گے۔‘‘ بنگال کے لوگ سرحد پار سے دھمکیاں دیتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’شام چھ بجے کے بعد، یہ پوری سڑک خاموش ہو جاتی ہے۔‘‘

نہر، جو اس لڑائی کا مرکز بن گئی ہے، ہیما کے گھر کی طرف جانے والی سڑک کے ساتھ ہی بہتی ہے۔ دوپہر میں بھی یہ علاقہ سُنسان رہتا ہے اور شام کو اسٹریٹ لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔

نہر کا ذکر کرتے ہوئے ۲۷ سالہ ریحان شیخ کہتے ہیں، ’’واقعہ میں شامل لوگ دوسری طرف، یعنی [مغربی] بنگال سے آئے تھے۔ یہاں کے مسلمان تو ہندوؤں کے ساتھ کھڑے تھے۔‘‘ ریحان بٹائی دار کسان ہیں اور دھان، گیہوں، سرسوں اور مکئی کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ سات لوگوں کی فیملی میں کمانے والے اکیلے انسان ہیں۔

بی جے پی کی بیان بازی کو خارج کرتے ہوئے، وہ سوال کرتے ہیں، ’’ہم کئی نسلوں سے یہاں رہتے ہیں۔ ہم بنگلہ دیشی ہیں؟‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Ashwini Kumar Shukla

अश्विनी कुमार शुक्ला झारखंड स्थित मुक्त पत्रकार असून नवी दिल्लीच्या इंडियन इन्स्टिट्यूट ऑफ मास कम्युनिकेशन इथून त्यांनी पदवी घेतली आहे. ते २०२३ सालासाठीचे पारी-एमएमएफ फेलो आहेत.

यांचे इतर लिखाण Ashwini Kumar Shukla
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

यांचे इतर लिखाण Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique