پیٹ کی بھوک نے جلال علی کو مچھلی پکڑنے کے لیے بانس کے پنجرہ نما جال بنانے کا طریقہ سیکھنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ جوان تھے اور یومیہ اجرت پر کام کرکے گزارہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن مانسون کی آمد کے ساتھ ہی ان کے کام کے سوتے خشک ہو جاتے تھے: ’’برسات کے موسم کا مطلب تھا دھان کے پودے لگانے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
لیکن مانسون اپنے ساتھ ان کے جائے مقام درانگ ضلع کے موسیٹا بلابری کے ندی نالوں اور دلدلوں میں مچھلیاں بھی لے کر آتا تھا، جس کے نتیجہ میں بانس سے بنے مچھلی کے جالوں کی مانگ بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ ’’میں نے مچھلی پکڑنے والے بانس کے جال بنانے کا طریقہ سیکھا، تاکہ اپنے کنبے کا پیٹ پال سکوں۔ جب آپ کو بھوک لگتی ہے، تو آپ کھانا حاصل کرنے کا آسان ترین طریقہ تلاش کرتے ہیں،‘‘ اپنی یادداشت پر زور ڈالتے ہوئے ۶۰ سالہ بزرگ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
آج جلال سیپا، بوسنا اور بایر بنانے والے ایک ماہر کاریگر ہیں۔ یہ بانس سے بنائے جانے والے مچھلی کے دیسی جال ہیں جو ان آبی ذخائر میں مختلف قسم کی مچھلیاں پکڑ سکتے ہیں۔ وہ انہیں آسام کے موسیٹا-بلابری کے دلددلی علاقوں کے کنارے بسے اپنے گاؤں پُب-پدوکھات میں اپنے گھر پر بناتے ہیں۔
جلال کہتے ہیں، ’’صرف دو دہائی قبل، میرے گاؤں اور قرب و جوار کے گاؤں کے تقریباً ہر گھر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے [بانس کے] جال استعمال میں لائے جاتے تھے۔ اس وقت یا تو یہ بانس کے پنجرہ نما جال تھے یا ہاتھ سے بنا شیو جال۔ وہ ایک ایسے جال کا حوالہ دے رہے ہیں جسے مقامی طور پر ٹونگی جال یا جھیٹکا جال بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک مربع شکل کا جال ہوتا ہے، جس کے چاروں سرے ڈوریوں کے سہارے بانس سے جڑے ہوتے ہیں۔
مچھلی پکڑنے والے بانس کے مقامی جالوں کے نام ان کی ہیئت کے مطابق رکھے گئے ہیں: ’’سیپّا بیضوی شکل کی ڈھول کی طرح لمبا ہوتا ہے۔ بایر بھی لمبا ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ لمبا اور زیادہ چوڑا ہوتا ہے۔ دارکی مستطیل نما ڈبہ کی شکل کا ہوتا ہے،‘‘ جلال وضاحت کرتے ہیں۔ دویر، دییار اور بویشنو نام کے جال بہتے ہوئے پانی میں لگائے جاتے ہیں، عموماً پانی سے بھرے دھان اور جوٹ کے کھیتوں میں، چھوٹی نہروں میں، دلدلوں میں آتے ہوتے ہوئے پانی میں، تری والے علاقوں میں یا دریا کے سنگم پر۔
آسام میں برہم پتر کی وادی مشرق میں سادیہ سے مغرب میں دھوبری تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں بے شمار ندیاں، نہریں، چھوٹی ندیاں اور نالے ہیں، جو دلدلی علاقوں کو ندیوں، سیلابی میدانی جھیلوں اور بے شمار قدرتی تالابوں سے جوڑتی ہیں۔ یہ آبی ذخائر مقامی برادریوں کی ماہی گیری کے ذریعہ معاش کو سنبھالے رکھتے ہیں۔ ہینڈ بُک آن فشریز اسٹیٹسٹک ۲۰۲۲ (ماہی گیری کے اعدادوشمار کا کتابچہ ۲۰۲۲) کا کہنا ہے کہ آسام میں ماہی گیری کی صنعت میں ۳۵ لاکھ سے زیادہ افراد شامل ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماہی گیری سے متعلق تجارتی ساز و سامان جیسے مُسوری جال (چھوٹا میش جال) اور مشینی ڈریگ نیٹ مہنگے اور آبی حیات کے لیے خطرناک ہیں کیونکہ یہ چھوٹی مچھلیوں کو بھی نکال کر پانی میں پلاسٹک کا فضلہ شامل کر دیتے ہیں۔ لیکن مقامی طور پر دستیاب بانس، گنے اور جوٹ سے بنائے گئے ماہی گیری کے دیسی جال پائیدار ہوتے ہیں اور مقامی ماحولیاتی نظام کے مطابق ہوتے ہیں، اور ان میں صرف ایک مخصوص سائز کی مچھلیاں ہی پھنستی ہیں، اس لیے اس میں کچھ بھی ضائع نہیں ہوتا۔
آئی سی اے آر-سینٹرل ان لینڈ فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تجارتی جالوں سے ضرورت سے زیادہ ماہی گیری ہوتی ہے اور اس سے دلدلی ماحولیاتی نظام تباہ ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے دوران گاد کی وجہ سے قدرتی دلدلوں اور تری والے علاقوں کا حجم بھی کم ہو رہا ہے۔ اب ان میں پانی کم رہتا ہے اور اندرونی مچھلیاں کم پکڑی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی افسوسناک حقیقت ہے جس سے ماہی گیر مقصود علی واقف ہیں: ’’اس سے پہلے، آپ برہم پتر کا بہتا ہوا پانی دیکھ سکتے تھے جو میرے گھر سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلہ سے گزرتی ہے۔ اس وقت میں کھیتوں کی ڈوبی ہوئی نالیوں پر مٹی ڈال کر پتلی دھارائیں بناتا تھا اور مچھلی پکڑنے کے جال بچھاتا تھا۔‘‘ اس ۷۰ سالہ شخص کا کہنا ہے کہ وہ بایر کا استعمال کرتے تھے کیونکہ ان میں جدید جال خریدنے کی استطاعت نہیں تھی۔
’’چھ یا سات سال قبل ہم وافر مقدار میں مچھلیاں پکڑ لیا کرتے تھے۔ لیکن اب مجھے اپنے چار بایروں سے آدھا کلو مچھلی بمشکل ہی ملتی ہے،‘‘ مُکسید علی کہتے ہیں، جو اپنی بیوی کے ساتھ درانگ ضلع کے گاؤں نمبر ۴ آری ماری میں رہتے ہیں۔
*****
آسام میں وافر مقدار میں بارش ہوتی ہے: وادی برہم پتر میں ۱۶۶ سینٹی میٹر اور وادی براک میں ۱۸۳ سینٹی میٹر۔ جنوب مغربی مانسون اپریل کے آخر میں شروع ہوتا ہے اور اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ جلال نے اپنے کام کو موسم کے مطابق ڈھال رکھا ہے۔ ’’میں جوشتی ماش [وسط مئی] میں مچھلی پکڑنے کے جال بنانا شروع کر دیتا تھا اور لوگ اشر ماش [وسط جون] سے بایر خریدنا شروع کر دیتے تھے۔ لیکن پچھلے تین سالوں کے دوران بارش میں آئی کمی کی وجہ سے لوگ معمول کے مطابق خریداری نہیں کرتے۔
سال ۲۰۲۳ میں شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسام میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، سالانہ بارش میں کمی اور شدید سیلاب کے واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ موسمیاتی تبدیلی آبی ذخائر کے گاد (تلچھٹ) میں بھی اضافہ کرے گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پانی کی سطح کم ہو جائے گی اور اس وجہ سے مچھلیاں بھی کم پکڑی جائیں گی۔
سال ۱۹۹۰ سے ۲۰۱۹ تک سالانہ اوسط درجہ حرارت میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم بالترتیب ۰۴۹ء۰ اور ۰۱۳ء۰ ڈگری سیلسیس کا اضافہ درج کیا گیا، یہ کہنا ہے ریاستی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے جاری ریلیز کا۔ یومیہ اوسط درجہ حرارت کی حد میں ۰۳۷ء۰ ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوا ہے اور اس عرصے کے دوران سالانہ بارش میں ۱۰ ملی میٹر سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
’’پہلے ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ بارش کب ہوگی۔ لیکن اب بارش کا انداز بالکل بدل چکا ہے۔ کبھی تھوڑے وقت میں بہت زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور کبھی بالکل بھی نہیں ہوتی ہے،‘‘ جلال کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تین سال پہلے ان جیسے کاریگر مانسون کے دوران ۲۰ ہزار اور ۳۰ ہزار روپے کے درمیان کی آمدنی کی امید رکھ سکتے تھے۔
اس ماہر کاریگر کا کہنا ہے کہ پچھلے سال انہوں نے تقریباً ۱۵ بایر فروخت کیے تھے، لیکن اس سال انہوں نے جون کے وسط سے جولائی کے وسط تک صرف پانچ بایر بنائے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب عام دنوں میں لوگ بانس کے بنے مچھلی پکڑنے والے دیسی جال خریدتے ہیں۔
وہ واحد کاریگر نہیں ہیں جن کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ ضلع ادلگوڑی کے رہنے والے ۷۹ سالہ جوبلا ڈیمری سیپا بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’درختوں پر کٹہل کم ہیں، گرمی بہت زیادہ ہے اور اب تک بارش نہیں ہوئی ہے۔ اس سال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، اس لیے میں اس وقت تک کوشش نہیں کروں گا جب تک کہ مجھے کچھ آرڈر نہ مل جائیں۔ پاری سے بات کرتے ہوئے ڈیمیری ایک سیپا کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ دکانداروں نے ان کے گھر آنا تقریباً بند کر دیا ہے۔ اس لیے جب ہم مئی ۲۰۲۴ کے ایک گرم دن کو ان سے ملے تو انہوں نے مچھلی پکڑنے والے صرف پانچ جال بنائے تھے۔
آسام کے سب سے بڑے بازاروں میں سے ایک، بالوگاؤں ہفتہ واری بازار میں سُرہاب علی کئی دہائیوں سے بانس کی اشیاء کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ’’یہ جولائی کا پہلا ہفتہ ہے اور میں نے اس سال ایک بھی بایر نہیں بیچا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
جلال اپنے ہنر کو دھیرے دھیرے معدوم ہوتے دیکھ رہے ہیں: ’’میرے پاس کوئی بھی اس ہنر کو سیکھنے نہیں آتا۔ مچھلیوں کے بغیر اس ہنر کے سیکھنے کا کیا فائدہ؟‘‘ وہ اپنے گھر کے پچھواڑے اپنی دارکی کا کام مکمل کرنے کے لیے واپس آتے ہوئے پوچھتے ہیں۔ ان کے گھر کا یہ حصہ دراصل موسیٹا-بلابری کی غیردرج شدہ بیل (بڑے دلدل) سے ملحق ایک کچی سڑک ہے۔
*****
’’اگر آپ یہ جال بنانا چاہتے ہیں، تو آپ کو بوریت کو بھولنا ہوگا اور پوری ثابت قدمی اور توجہ کے ساتھ کام کرنا ہو گا،‘‘ اپنے کام کے لیے ضروری یکسوئی کے بارے میں بات کرتے ہوئے جلال کہتے ہیں۔ ’’زیادہ سے زیادہ آپ کسی کی بات سن سکتے ہیں، لیکن اگر آپ اس بات چیت کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو آپ کو بایر پر گرہیں باندھنا بند کرنا پڑے گا۔‘‘ مسلسل کام کرکے وہ دو دن میں ایک جال مکمل کر سکتے ہیں۔ ’’اگر میں وقفہ دیتا ہوں تو اس میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
ان جالوں کو بنانے کا عمل بانس کے انتخاب سے شروع ہوتا ہے۔ ماہی گیری کے جال بنانے کے لیے، دستکار مقامی طور پر حاصل کیے گئے لمبے پوروں والے بانس کا استعمال کرتے ہیں۔ بایر اور سیپا دونوں تین فٹ یا ساڑھے تین فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ تولا باشیا یا جاتی باہ (بمبوسا تلدا) کو ان کی لچک کی وجہ سے ترجیح دی جاتی ہے۔
’’بانس کو مکمل طور پر پک کر تیار ہونے میں عام طور پر تین سے چار سال لگتے ہیں۔ پکے بانس جال کے لیے پائیداری کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ بانس کے پوروں کی دوری مثالی طور پر کم از کم ۱۸ سے ۲۷ انچ ہونی چاہیے۔ بانس کی خریداری کے دوران میری آنکھیں صحیح ڈھنگ سے ان کی پیمائش کرتی ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے انہیں ایک گانٹھ کے سرے سے لے کر دوسرے کانٹھ تک کاٹتا ہوں،‘‘ جلال مزید کہتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے بانس کی پتلی قمچیوں کی پیمائش کرتے ہیں۔
بانس کو ٹکڑوں میں کاٹ لینے کے بعد جلال ان کی پتلی مربع نما قمچیاں بناتے ہیں اور ان سے جال کے کنارے کی دیواریں بُنتے ہیں۔ ’’پہلے میں کاٹھی [بانس کی پتلی قمچیاں] بُننے کے لیے جوٹ کی ڈور استعمال کرتا تھا، لیکن اب پلاسٹک کے دھاگوں کا استعمال کرتا ہوں کیونکہ ہمارے علاقے میں اب جوٹ کی کاشت نہیں ہوتی۔‘‘
جلال کو بانس کی ۴۸۰ مربع شکل کی قمچیاں بنانا ہوتی ہیں، جو یا تو ۱۸ انچ یا ۲۷ انچ لمبی ہوتی ہیں۔ ’’یہ ایک بہت ہی تھکا دینے والا کام ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’کاٹھیوں کو سائز اور شکل میں برابر ہونا چاہیے اور بہت ہموار ہونا چاہیے، نہیں تو بُنائی کی طرف کی دیواریں ہموار نہیں ہوں گی۔‘‘ اسے ایسا کرنے میں آدھا دن لگ جاتا ہے۔
اس کام کا سب سے اہم مرحلہ والو (داخلہ) بنانا ہوتا ہے جس کے ذریعے مچھلیاں جال میں جاکر پھنس جاتی ہیں۔ ’’میں ایک بانس سے چار بایر بنا سکتا ہوں۔ ایک بانس کی قیمت تقریباً ۸۰ روپے ہوتی ہے، جبکہ پلاسٹک کی تاروں کی قیمت تقریباً ۳۰ روپے ہے،‘‘ ایلومینیم کا تار اپنے دانتوں کے درمیان دبائے دارکی کے اوپری سروں پر گرہ لگاتے ہوئے جلال کہتے ہیں۔
بانس کی قمچیوں کو بننے اور گرہ لگانے میں چار دن تک کی شدید مشقت لگتی ہے۔ ’’آپ اپنی نظریں تار اور بانس کی قمچیوں سے نہیں ہٹا سکتے۔ اگر آپ ایک گرہ لگانا بھول جاتے ہیں، تو بانس کے دو قمچیاں ایک گرہ میں داخل ہوسکتی ہیں، اور آپ کو وہاں تک کی قمچیوں کو کھولنا اور بنائی کے عمل کو دوبارہ کرنا پڑے گا،‘‘ وہ وضاحت کرتے ہیں۔ ’’اس کا تعلق مضبوطی سے نہیں ہے، بلکہ خاص نکات پر بہت نازک بنائی اور گرہ لگانے سے ہے۔ اس قدر انہماک اور توجہ سے کام کرنے کے بعد سر کا پسینہ پاؤں تک آجاتا ہے۔‘‘
کم بارش اور کم مچھلیوں کی وجہ سے جلال اپنے ہنر کے مستقبل کو لے کر فکرمند ہیں۔ ’’کون اس ہنر کا سمجھنا اور سیکھنا چاہے گا، جس کے لیے اتنے صبر اور استقامت کی ضرورت ہے؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔
اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم