سرسوتی باؤری کو نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ جب اس کی سبوج ساتھی سائیکل چوری ہوئی ہے، اس کے لیے اسکول جانا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ سرسوتی کو وہ دن یاد ہے، جب سرکاری اسکولوں میں ۹ویں جماعت اور ۱۰ویں جماعت کے طلباء کے لیے شروع کی گئی ریاستی حکومت کی ایک اسکیم کے تحت اسے وہ شاندار سائیکل ملی تھی۔ آہ! سورج کی سرخ روشنی میں کیسی چمک رہی تھی!
آج وہ امید لگائے گرام پردھان کے پاس آئی ہے اور نئی سائیکل کے لیے فریاد کر رہی ہے۔ ’’سائیکیل تو پیئے جابی رے چھونڑی، کِنتو تور اسکول ٹا آر کدِّن تھاکبے سیٹا دیکھ آگے [تم کو اپنی سائیکل تو مل جائے گی لڑکی، لیکن تمہارا اسکول زیادہ دن نہیں چلے گا]،‘‘ مسکراتے ہوئے سرپنچ کہتا ہے اور اپنے کندھے جھٹک دیتا ہے۔ سرسوتی کو اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی نظر آتی ہے۔ گرام پردھان کی بات کا کیا مطلب تھا؟ وہ اپنے اسکول جانے کے لیے ۵ کلومیٹر سائیکل چلاتی ہے۔ اب اگر وہ فاصلہ ۱۰ یا ۲۰ کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے گا، تو اس کی زندگی خراب ہو جائے گی۔ ’کنیا شری‘ کے تحت ہر سال ملنے والے ایک ہزار روپے کے سہارے وہ اپنے والد سے نہیں لڑ سکے گی، جو فوراً اس کی شادی کرانے پر آمادہ ہیں۔
سائیکل
اسکول چلی، بچّی تو اسکول چلی
سرکاری سائیکل پر مہوا کے پار چلی…
اسٹیل کے ہل کی طرح ہے مضبوط بڑی،
سرکاری بابو کو زمین کی طلب لگی،
کیا ہوگا بھئی اب اسکول جو بند ہوئے؟
لڑکی کی پیشانی پر کیوں ہے لکیر کھنچی؟
*****
بلڈوزر نے راستے پر جو نشان چھوڑے ہیں، وہاں پھُلکی ٹوڈو کا بیٹا کھیل رہا ہے۔
امید بھی آسائش کی چیز ہے جس کی وہ متحمل نہیں ہو سکتی۔ کووڈ کے بعد سے تو بالکل نہیں۔ جس کی چاپ گھُگھنی کی چھوٹی سی گُمٹی پر سرکار نے بلڈوزر چلایا ہو، تو وہ انسان امید باندھے بھی کہاں سے۔ سرکار بھی انہیں لوگوں کی ہے جو فاسٹ فوڈ اور پکوڑے تلنے کو ہماری صنعتی طاقت کی بنیاد بتاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان کے پیسے لوٹ لیے تھے، جب وہ اسٹال لگانا چاہتی تھیں۔ اب یہ لوگ ناجائز قبضہ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
بڑھتے قرض کو چُکانے کے لیے ان کا شوہر تعمیراتی مقام پر مزدوری کی تلاش میں ممبئی چلا گیا ہے۔ ’’یہ پارٹی کہتی ہے، ’ہم تمہیں ہر مہینے ۱۲۰۰ روپے دیں گے۔‘ وہ پارٹی کہتی ہے، ’ہم تم کو بھگوان سے ملا دیں گے!‘ بھاڑ میں گیا لوکھّیر [لکشمی] بھنڈار، بھاڑ میں گیا مندر مسجد۔ مجھے کیا؟‘‘ پھلکی غصے میں بڑبڑاتی ہے، ’’ہتوبھاگار دَل، آگے آمار ۵۰ ہزار ٹاکار کاٹ مانی پھیروت دے [سالے! پہلے میرے ۵۰ ہزار روپے لوٹاؤ، جو میں نے رشوت میں دیے تھے]!‘‘
بلڈوزر
قرض میں دبنا ہے…پیدائشی حق، امید میں پلنا
ہے…اپنی دوزخ،
ہم نے جو پکوڑے بیچے ہیں، ان کے بیسن میں
ڈوب کر۔
لوکھّیر [لکشمی] بھنڈار پر،
چلا ہے بلڈوزر،
خون پسینے سے سرابور ہماری پیٹھ پہ ملک
اِدھر ہے –
وعدے کے پندرہ لاکھ کدھر ہیں؟
*****
زیادہ تر لوگوں کے برعکس، لالو باگدی کو منریگا کے تحت ۱۰۰ میں سے ۱۰۰ دن کام کرنے کو ملا؛ یہ جشن منانے والی بات تھی۔ لیکن نہیں! لالو باگدی سرکاری کھینچ تان میں گھُٹ کر رہ گئے تھے۔ سرکاری بابوؤں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ انہوں نے مرکزی حکومت کی ’سووچھ بھارت‘ اسکیم یا ریاستی حکومت کے مشن ’نرمل بانگلا‘ کے تحت اپنے دن پورے کیے ہیں یا نہیں، اور ان کی ادائیگی نوکرشاہی کی لاپروائیوں میں اٹکی رہی۔
’’سوب شالا ماکال پھل [نکمّے ہیں سالے، سارے کے سارے]،‘‘ لالو باگدی انہیں گالیاں دیتے ہیں۔ جھاڑو، جھاڑو ہے، کچرا تو کچرا ہے، ہے کہ نہیں؟ ان کے نام پر اسکیم بنانے سے کیا ہوتا ہے؟ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومت، کیا فرق پڑتا ہے؟ خیر، فرق تو پڑتا ہے۔ ایک ملک کا غرور میں ڈوبا حکمراں کچرے میں بھی بھید بھاؤ کرتا ہے۔
کچرے کا ڈبہ
کہو جی نرمل، کیسے ہو بھائی بڑے؟
’’بغیر تنخواہ کی قطار میں صفائی ملازم ہیں کھڑے‘‘
ان ندیوں میں لاش کوئی اُپراتی نہیں اِدھر…
مزدوروں کا حق کیا ہوتا ہے؟ غائب ہوئے
کدھر…
جے جے ہو تیری سووچھ کمار، کیسے ہو بھائی
بڑے؟
’’بھگوان میرا پسینہ ہے، اب خون بھی ہرا بہے۔‘‘
*****
فاروق منڈل کو چین کی سانسیں نصیب نہیں ہیں! مہینوں کی خشکی کے بعد بارش ہوئی، پھر جیسے ہی فصل کٹنے والی تھی، اچانک سیلاب آیا اور کھیت بہہ گیا۔ ’’ہائے اللہ، ہے ماں گندھیشوری، ایتو نیٹھور کیانے تومرا [ہائے اللہ، ہے ماں گندھیشوری، میرے ساتھ اتنا بے رحم برتاؤ کیوں؟]‘‘ وہ پوچھتے رہے گئے۔
جنگل محل
– یہاں پانی ہمیشہ نایاب رہتا ہے، لیکن وعدے، پالیسیاں، منصوبے وافر تعداد میں نظر
آتے ہیں۔
سجل دھارا، امرت جل
۔ یہ نام خود فرقہ وارانہ تناؤ کا سبب رہا ہے –
جل
ہونا چاہیے یا پانی؟ پائپ بچھا دیے گئے ہیں، فنڈ ملتا رہا ہے، لیکن پینے
لائق صاف پانی کی ایک بوند نہیں ہے۔ نا امید ہو کر فاروق اور ان کی بی بی جان نے
کنواں کھودنا شروع کر دیا ہے، سرخ زمین کو کھود کر سرخ چٹان تک پہنچ گئے ہیں، پھر
بھی پانی کا کوئی نام و نشان نہیں ملا ہے۔
’’ہائے اللہ، ہے ماں گندھیشوری، ایتو
پاشان کیانے تومرا؟
[ہائے اللہ، ہے ماں گندھیشوری، اتنی پتھر دل کیوں ہو؟]‘‘
خشکی
امرِت کہوں یا امروت؟ ہے کون سا لفظ صحیح؟
ماں بولی کہ سینچیں
یا کر دیں وداع یہیں؟
سیفرن ہو یا زعفران…مسئلہ ہے کہاں کہاں؟
کیا اُس زمین کو ووٹ کریں جو صرف سوچ میں
بستی ہے،
یا اِسے لیے الگ ہو جائیں، کیا یہ دنیا
کہتی ہے؟
*****
سونالی مہتو اور چھوٹی عمر کا رامو اسپتال کے گیٹ کے پاس صدمے میں کھڑے تھے۔ پہلے بابا اور اب ماں۔ ایک سال کے اندر دو لاعلاج مرض۔
سرکاری ’سواستھیہ بیمہ کارڈ‘ کے لیے، وہ ایک دفتر سے دوسرے دفتر دوڑتے رہے، علاج کی بھیک مانگتے رہے، فریاد کرتے رہے، احتجاج درج کراتے رہے۔ سواستھیہ ساتھی کے ذریعہ دی جا رہی ۵ لاکھ کی مدد بیحد کم تھی۔ ان کے پاس زمین نہیں تھی اور وہ جلد ہی بے گھر بھی ہونے والے تھے۔ انہوں نے ’آیوشمان بھارت‘ کے لیے درخواست دینے کی کوشش کی۔ لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کیا ایسا کرنا ممکن ہے یا اس سے کوئی مدد مل سکے گی۔ کچھ نے کہا کہ سرکار نے اسکیم واپس لے لی ہے۔ دوسروں نے کہا کہ ٹرانس پلانٹیشن سرجری بیمہ میں نہیں آتی۔ پھر کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے ملنے والے پیسے کافی نہیں ہوں گے۔ معلومات فراہم کرنے کے نام پر انہوں نے زندگی میں افراتفری مچا دی تھی۔
’’دی-دی-دیدی رے، تبے جے اسکولے ب-ب-بلے سرکار آمادیر پ-پ-پاشے آچھے [دی-دی-دیدی رے، کیا ہمیں اسکول میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ سرکار ہمارے ساتھ ہے؟]‘‘ رامو لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولا۔ اپنی عمر کے لحاظ سے وہ حالات کو بہتر پڑھ پا رہا تھا۔ سونالی خاموش کھڑی تھیں اور بس خلاء میں ایک ٹک تاک رہی تھیں…
وعدے
آشا دیدی! آشا دیدی، مدد کرو نا ہماری!
بابا کو چاہیے نیا دل، ماں کو کڈنی کی
بیماری۔
بدتر اپنی صحت، اور ساتھی کا مطلب دوست،
آخر زمین تو بیچ دی، اور بیچا جسم کا گوشت۔
آیوش، کب ساتھ ہمارا دوگے، دکھ کی دوا
کروگے؟
یا تم باتونی بچے ہو، اور کچھ بھی نہیں
کروگے؟
*****
شاعر اس اسٹوری کو ممکن بنانے میں مدد کے لیے اسمیتا کھٹور کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جن کے مشورے کافی اہم ثابت ہوئے۔
مترجم: محمد قمر تبریز