’’ہم کئی نسلوں سے صرف دو کام کرتے آ رہے ہیں – کشتی چلانا اور مچھلی پکڑنا۔ بے روزگاری کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے مجھے لگنے لگا ہے کہ میرے بچوں کو بھی یہی کام کرنا پڑے گا،‘‘ وکرمادتیہ نشاد کہتے ہیں۔ وہ گزشتہ ۲۰ برسوں سے وارانسی کے تیرتھ یاتریوں اور سیاحوں کو گنگا ندی کے ایک گھاٹ سے دوسرے گھاٹ تک گھماتے رہتے ہیں۔
ہندوستان روزگار رپورٹ ۲۰۲۴ کے مطابق، اتر پردیش میں جہاں گنگا ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کرتے ہوئے گزرتی ہے، بے روزگاری کی شرح گزشتہ پانچ برسوں سے تقریباً ۵۰ فیصد پر برقرار ہے۔
’’مودی جی ’ووکل فار لوکل‘ اور ’وراثت ہی وکاس‘ کی بات کرتے رہے ہیں۔ براہ کرم مجھے بتائیں کہ یہ وراثت آخر کس کے لیے ہے؟ ہمارے، یعنی کاشی [وارانسی] کے لوگوں کے لیے یا باہری لوگوں کے لیے؟‘‘ وہ اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ملاح وکرمادتیہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی وارانسی سے تیسری بار رکن پارلیمنٹ منتخب کیے گئے ہیں اور ان کے چناؤ پرچار کی مہم نے من میں کڑواہٹ پیدا کر دی ہے۔ ’’ہمیں ترقی دکھائی بھی دینی چاہیے۔‘‘
’براہ کرم مجھے بتائیں کہ یہ وراثت آخر کس کے لیے ہے؟ ہمارے، یعنی کاشی [وارانسی] کے لوگوں کے لیے یا باہری لوگوں کے لیے؟‘ ملاح وکرمادتیہ نشاد کہتے ہیں
نشاد کا کہنا ہے کہ جنوری ۲۰۲۳ میں گنگا میں سیاحت کے لیے پی ایم مودی کے ذریعہ شروع کیے گئے کروز جہازوں نے ان کے جیسے ملاحوں کے پیٹ پر لات مار دی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ترقی کے نام پر وہ [مودی] مقامی لوگوں کی ترقی اور وراثت کو چھین لیتے ہیں اور باہری لوگوں کو پکڑا دیتے ہیں۔‘‘ نشاد یہ بات ان غیر مقامی لوگوں کے سلسلے میں کہتے ہیں جو بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر سے جڑے بڑے پروجیکٹوں کے لیے لائے گئے ہیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اتر پردیش کا ایک مزدور اوسطاً ۱۰ ہزار روپے ماہانہ سے تھوڑا ہی زیادہ کماتا ہے، جو اس معاملے میں ملک کی زیادہ تر ریاستوں سے کافی کم ہے۔
ہندوؤں کے درمیان تقدس کی علامت مانی جانے والی گنگا میں آلودگی کی حالت دیکھ کر اس ۴۰ سالہ ملاح کو کافی تکلیف ہوتی ہے۔ ’’وہ کہتے ہیں کہ گنگا کا پانی اب صاف ہو گیا ہے۔ پہلے اگر ہمارا سکہ ندی میں گر جاتا تھا، تو ہم اسے باہر نکال لیتے تھے، کیوں کہ ندی کا پانی شفاف ہوتا تھا۔ اب اگر کوئی انسان بھی ندی میں گر کر ڈوب جائے، تو اسے ڈھونڈنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔‘‘
مرکزی حکومت نے جون ۲۰۱۴ میں ’نمامی گنگے‘ پروگرام شروع کیا تھا اور گنگا کی آلودگی کم کرنے، تحفظ کو فروغ دینے اور اسے تروتازگی عطا کرنے کے مقصد سے ۲۰ ہزار کروڑ مختص کیے تھے۔ حالانکہ، ۲۰۱۷ کے ایک تحقیقی مقالہ میں بتایا گیا ہے کہ رشی کیش سے لے کر وارانسی کی طرف سینکڑوں کلومیٹر تک گنگا کا پانی معیاری اشاریہ (ڈبلیو کیو آئی) بہت خراب ہے۔ محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعہ شائع کردہ ڈبلیو کیو آئی کے اعدادوشمار اس کی سطح ’خطرناک‘ بتاتے ہیں۔
اپنی کشتی پر سیاحوں کا انتظار کرتے نشاد پاری سے کہتے ہیں، ’’کروز جہاز وارانسی کی وراثت کیسے ہو سکتا ہے؟ ہماری کشتیاں ہی وراثت کا اصل چہرہ ہیں، وارانسی کی پہچان ہیں۔‘‘ نشاد پریشان ہو کر مزید کہتے ہیں، ’’انہوں نے کئی قدیم مندروں کو تڑوا دیا اور وشوناتھ مندر کوریڈور بنوایا۔ پہلے جب تیرتھ یاتری وارانسی آتے تھے، تو وہ کہتے تھے کہ انہیں ’بابا وشوناتھ‘ کے پاس جانا ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ انہیں ’کوریڈور‘ جانا ہے۔‘‘ وارنسی کے باشندوں پر تھوپی گئی ثقافتی تبدیلیوں سے وہ صاف طور پر ناخوش ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز