وہ وراٹ کوہلی کا بھکت تھا، اور وہ بابر اعظم کو پسند کرتی تھی۔ وراٹ کے سنچری بنانے پر وہ اسے چھیڑتا تھا، اور جب بابر اعظم نے بہترین پاری کھیلی ہو، تو وہ اسے چڑھاتی تھی۔ کرکٹ کو لے کر ہونے والا ہنسی مذاق عائشہ اور نورالحسن کی محبت کی زبان تھی، اور اس حد تک پروان چڑھتی تھی کہ ان کے آس پاس کے لوگ یہ جان کر اکثر حیران ہوتے تھے کہ ان دونوں کی ’ارینج میرج [گھر والوں کے ذریعے طے کی گئی شادی]‘ ہوئی ہے۔

جون ۲۰۲۳ میں جب کرکٹ ورلڈ کپ کا ٹائم ٹیبل آیا، تو عائشہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ہندوستان بنام پاکستان مقابلہ ۱۴ اکتوبر کو گجرات کے احمد آباد میں ہونا تھا۔ مغربی مہاراشٹر میں اپنے والدین کے گاؤں راجاچے کُرلے میں عائشہ (۳۰) یاد کرتی ہیں، ’’میں نے نورل سے کہا تھا کہ ہمیں یہ میچ اسٹیڈیم میں دیکھنا چاہیے۔ ہندوستان اور پاکستان کم ہی آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی موقع تھا، ہم دونوں کے پسندیدہ کھلاڑیوں کو ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھنے کا۔‘‘

بطور سول انجینئر کام کرنے والے نورل (۳۰) نے کچھ فون کال کیے اور دو ٹکٹوں کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو دونوں کے لیے بہت خوشی کی بات تھی۔ عائشہ تب تک چھ مہینے کے حمل سے تھیں، اس لیے انہوں نے احتیاط سے ستارا ضلع کے اپنے گاؤں پوسے ساولی سے ۷۵۰ کلومیٹر کا سفر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ٹرین کی ٹکٹیں بک ہو گئیں اور رہنے کا انتظام کر لیا گیا۔ آخرکار وہ دن بھی آ گیا، لیکن وہ دونوں وہاں نہیں پہنچ سکے۔

چودہ اکتوبر، ۲۰۲۳ کو جب سورج آسمان میں چڑھا، تب نورل کو گزرے ایک مہینہ ہو چکا تھا اور عائشہ کی زندگی پوری طرح بکھر گئی تھی۔

*****

مہاراشٹر کے ستارا ضلع سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور واقع گاؤں پوسے ساولی میں ۱۸ اگست، ۲۰۲۳ کو ایک اسکرین شاٹ وائرل ہوا۔ گاؤں کے ۲۵ سالہ مسلم لڑکے عادل باگوان کو انسٹاگرام پر ایک کمنٹ میں ہندو دیوتاؤں کو گالی دیتے دیکھا گیا تھا۔ عادل کا آج بھی یہی کہنا ہے کہ اسکرین شاٹ فرضی تھا اور فوٹوشاپ کیا گیا تھا، اور یہاں تک کہ اس کے انسٹاگرام پر دوستوں نے بھی اصلی کمنٹ کو نہیں دیکھا تھا۔

حالانکہ، قانون اور نظم و نسق میں کوئی گڑبڑی نہ ہو، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پوسے ساولی میں مسلم برادری کے سینئر حضرات اسے پولیس کے پاس لے گئے، اور ان سے اسکرین شاٹ کی جانچ کرنے کو کہا۔ پوسے ساولی گاؤں میں ایک گیراج چلانے والے سراج باگوان (۴۷) نے بتایا، ’’ہم نے یہ بھی کہا کہ اگر عادل قصوروا پایا جاتا ہے، تو اسے سزا ملنی چاہیے اور ہم اس کی مذمت کریں گے۔ پولیس نے عادل کا فون ضبط کر لیا اور اس کے خلاف دو مذاہب کے درمیان نفرت پھیلانے کے الزام میں شکایت درج کی۔‘‘

'We also said that if Adil is found guilty, he should be punished and we will condemn it,' says Siraj Bagwan, 47, who runs a garage in Pusesavali village
PHOTO • Parth M.N.

پوسے ساولی گاؤں میں گیراج چلانے والے ۴۷ سالہ سراج باگوان کہتے ہیں، ’ہم نے یہ بھی کہا کہ اگر عادل قصوروار پایا جاتا ہے، تو اسے سزا ملنی چاہیے اور ہم اس کی مذمت کریں گے‘

اس کے باوجود، ستارا میں کٹر ہندو گروپوں کے ممبران نے اگلے دن پوسے ساولی میں ایک ریلی نکالی، جس میں مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کی اپیل کی گئی۔ انہوں نے قانون اور نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لینے کی بھی دھمکی دی۔

سراج اور مسلم برادری کے دیگر سینئر ممبران، جنہوں نے فوراً مقامی پولیس اسٹیشن سے اسکرین شاٹ کی غیر جانبدارانہ جانچ کرنے کے لیے کہا تھا، انہوں نے پوسے ساولی میں دیگر مسلم باشندوں کی حفاظت کے لیے بھی فریاد کی، جن کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ سراج یاد کرتے ہیں، ’’ہم نے پولیس کو بتایا کہ فساد ہونے کا خدشہ ہے۔ ہم نے حفاظتی انتظامات کے لیے ہاتھ جوڑے۔‘‘

حالانکہ، سراج کے مطابق، اوندھ پولیس اسٹیشن (جس کے تحت پوسے ساولی آتا ہے) کے اسسٹنٹ پولیس سب انسپکٹر گنگا پرساد کیندرے نے ان کا مذاق اڑایا۔ ’’انہوں نے ہم سے پوچھا کہ پیغمبر محمد کی پیروی کیوں کرتے ہو، جب کہ وہ ایک عام آدمی تھے۔ مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وردی پہنے ہوا ایک آدمی ایسا کچھ کہے گا۔‘‘

اگلے دو ہفتوں تک، دو کٹر دائیں بازو کے گروپ – ہندو ایکتا اور شیو پرتشٹھان ہندوستان – کے ممبران پوسے ساولی میں کسی بھی مسلم کو روک لیتے اور انہیں ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے لیے مجبور کرتے اور ان کے گھروں کو جلانے کی دھمکی دیتے۔ گاؤں خطرے میں تھا اور مقامی لوگوں کے اندر بے چینی صاف دکھائی دے رہی تھی۔

اس کے بعد، ۸ ستمبر کو اسی طرح کے دو اور اسکرین شاٹ، ۲۳ سال کے مزمل باگوان اور ۲۳ سال کے ہی التمش باگوان کے نام سے وائرل ہوئے۔ دونوں پوسے ساولی کے رہنے والے تھے اور عادل کی طرح ہی ایک انسٹاگرام پوسٹ پر ہندو دیوتاؤں کو گالی دیتے نظر آئے تھے۔ عادل کی طرح ہی دونوں نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اسکرین شاٹ فرضی تھے، اور فوٹوشاپ کیے گئے تھے۔ یہ پوسٹ مسلم مردوں کے ذریعے ہندوؤں کے خلاف غلط بیانی کا ایک کولاج تھا۔

الزام ہے کہ کٹر ہندو گروہوں نے یہ پوسٹ بنائی تھی۔

تب سے پانچ مہینے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور پولیس ابھی بھی ان تین اسکرین شاٹ کی صداقت کی جانچ کر رہی ہے۔

لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے – گاؤں، جو پہلے سے ہی فرقہ وارانہ کشیدگی کے دہانے پر تھا، تشدد کی بھینٹ چڑھ گیا۔ پوسے ساولی میں ۹ ستمبر کو مقامی مسلمانوں کے ذریعے حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کی کوشش کام نہیں آئی۔

دس ستمبر کو غروب آفتاب کے بعد سو سے زیادہ کٹر دائیں بازو کے حامی ہندوؤں کی بھیڑ نے گاؤں میں گھس کر مسلمانوں کی دکانوں، ان کی گاڑیوں اور گھروں میں آگ لگائی اور توڑ پھوڑ کی۔ مسلم برادری کے ممبران کے اندازہ کے مطابق، ۲۹ خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں کل ۳۰ لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ کچھ ہی منٹوں میں زندگی بھر کی بچت ملبے میں تبدیل ہو گئی۔

Vehicles parked across the mosque on that fateful day in September were burnt. They continue to remain there
PHOTO • Parth M.N.

پوسے ساولی میں مسجد کے پاس ستمبر میں جلائی گئی گاڑیاں ابھی تک وہیں پڑی ہوئی ہیں

اشفاق باگوان (۴۳)، جو پوسے ساولی میں ایک ای-سروس سنٹر (عام اپیل کنندہ کی تمام عدالتی ضروریات کے لیے بنایا گیا مرکز) چلاتے ہیں، اپنا فون نکالتے ہیں اور اس رپورٹر کو فرش پر بیٹھے ایک کمزور بوڑھے آدمی کی تصویر دکھاتے ہیں، جن کا سر خون سے شرابور تھا۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’جب انہوں نے میری کھڑکی پر پتھراؤ کیا، تو شیشہ ٹوٹ گیا اور میرے والد کے سر پر لگا۔ یہ ایک برے خواب جیسا تھا۔ زخم اتنا گہرا تھا کہ ہم گھر پر علاج نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

لیکن اشفاق مشتعل بھیڑ کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکے۔ اگر اشفاق ایسا کرتے، تو ان کے ساتھ وہی ہوتا جو عائشہ کے نوجوان شوہر اور کرکٹ کے شوقین نورالحسن کے ساتھ ہوا۔

*****

اس شام جب نورل کام سے گھر لوٹے، تو پوسے ساولی جلنا شروع نہیں ہوا تھا۔ اس دن پہلے سے تیار بھیڑ سے انجان، نورل نے ترو تازہ ہو کر عصر کی نماز ادا کرنے کے لیے گاؤں کی مسجد جانے کا فیصلہ کیا۔ عائشہ یاد کرتی ہیں، ’’میں نے کہا کہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیجئے، کیوں کہ مہمان آنے والے ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ وہ جلد ہی آ جائیں گے اور چلے گئے۔‘‘

ایک گھنٹے بعد نورل نے مسجد سے عائشہ کو فون کیا اور کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر گھر سے باہرنہ نکلے۔ عائشہ نورل کے لیے ڈری ہوئی تھیں، لیکن انہوں نے راحت کی سانس لی، جب انہیں پتہ چلا کہ وہ مسجد کے اندر ہیں۔ وہ قبول کرتی ہیں، ’’مجھے نہیں لگا تھا کہ بھیڑ نماز ادا کرنے والی جگہ پر حملہ کرے گی۔ مجھے نہیں لگا تھا کہ بات اتنی آگے بڑھ جائے گی۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ مسجد میں محفوظ رہیں گے۔‘‘

وہ غلط تھیں۔

مسلمانوں کی ملکیت والی جائیدادوں میں توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے بعد، بھیڑ نے مسجد پر دھاوا بول دیا، جسے اندر سے بند کر دیا گیا تھا۔ کچھ نے باہر کھڑی گاڑیوں میں آگ لگا دی، جب کہ باقیوں نے اندر گھسنے کی کوشش کی۔ مسجد کے دروازے پر ہر دھکے کے ساتھ کنڈی ڈھیلی ہو جاتی تھی۔ آخرکار، کنڈی نے جواب دے دیا اور دروازے کھل گئے۔

لاٹھیوں، اینٹوں اور فرش کی ٹائلوں سے مشتعل بھیڑ نے ان مسلمانوں پر بے رحمی سے حملہ کیا جو کچھ دیر پہلے پرامن طریقے سے عصر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے ایک ٹائل اٹھائی اور نورل کے سر پر توڑ دیا، جس کے بعد انہیں پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ حملے میں ۱۱ لوگ بری طرح زخمی ہو گئے۔ عائشہ کہتی ہیں، ’’جب تک میں نے ان کی لاش نہیں دیکھی، مجھے یقین نہیں ہوا۔‘‘

The mosque in Pusesavali where Nurul Hasan was lynched
PHOTO • Parth M.N.

پوسے ساولی کی وہ مسجد جہاں مشتعل بھیڑ نے نورالحسن کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا

غمزدہ بیوی آگے کہتی ہیں، ’’میں نورل کے قتل کے ملزموں کو جانتی ہوں۔ وہ انہیں بھائی کہتے تھے۔ مجھے حیرانی ہے کہ انہیں پیٹ پیٹ کر مار ڈالتے وقت انہیں یہ بات یاد کیسے نہیں آئی۔‘‘

پوسے ساولی میں مسلمانوں نے کئی دنوں تک پولیس سے اس طرح کے حملے کے خلاف حفاظتی انتظامات کی فریاد کی تھی۔ وہ بہت پہلے سے فکرمند تھے کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ علاقے میں شاید ستارا پولیس ہی اکیلی تھی جسے اس کا اندازہ نہیں تھا۔

*****

مسجد پر خطرناک حملہ پانچ مہینے پہلے ہوا تھا، لیکن پوسے ساولی اب بھی ایک تقسیم شدہ گھر بنا ہوا ہے: ہندوؤں اور مسلمانوں نے نہ صرف ملنا جلنا بند کر دیا ہے، بلکہ اب ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جو لوگ کبھی ایک دوسرے کے گھروں میں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، اب صرف بے رخی والی لین دین میں شامل ہیں۔ پوسے ساولی کے تین مسلم لڑکے، جن پر ہندو دیوتاؤں کے خلاف ہتک آمیز کمنٹ کرنے کا الزام تھا، انہوں نے اپنی جان کے ڈر سے گاؤں چھوڑ دیا ہے؛ وہ اب رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

مزمل باگوان (۲۳) نے اس شرط پر اس رپورٹر سے بات کی کہ ان کے ٹھکانے کا انکشاف نہیں کیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہندوستان میں، آپ قصوروار ثابت ہونے تک بے قصور ہوتے ہیں نا۔ لیکن اگر آپ مسلمان ہیں، تو بے قصور ثابت ہونے تک آپ قصوروار ہی مانے جاتے ہیں۔‘‘

مزمل ۱۰ ستمبر کی رات کو ایک خاندانی تقریب میں حصہ لینے کے بعد پوسے ساولی واپس جا رہے تھے۔ جب وہ گاؤں سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور کچھ کھانے کے لیے رکے، تو کھانا آنے کا انتظار کرتے وقت انہوں نے اپنے فون پر وہاٹس ایپ کھولا اور پتہ چلا کہ ان کے کچھ ہندو دوستوں نے اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا ہے۔

جب مزمل نے اپ ڈیٹ دیکھنے کے لیے کلک کیا، تو وہ حیران رہ گئے اور انہیں لگا انہیں اُلٹی آ جائے گی۔ ان سبھی نے اسکرین شاٹ اپ لوڈ کیا تھا، جس میں مزمل کی مذمت کی گئی تھی اور ان کا مبینہ ہتک آمیز تبصرہ نظر آ رہا تھا۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’میں ایسا کچھ پوسٹ کر کے پریشانی کو کیوں دعوت دوں گا؟ یہ ایک فوٹوشاپ کی گئی فرضی تصویر ہے جس کا مقصد صرف تشدد بھڑکانا ہے۔‘‘

مزمل نے فوراً مقامی پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا اور اپنا فون سرنڈر کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’میں نے ان سے اس کی پوری طرح جانچ کرنے کی گزارش کی۔‘‘

پولیس تبصروں کی صداقت کے بارے میں کچھ طے نہیں کر پائی ہے، کیوں کہ وہ انسٹاگرام کی مالکانہ کمپنی میٹا سے جواب آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ستارا پولیس کے مطابق، ضروری تفصیلات کمپنی کو بھیج دی گئی ہیں، جسے اپنے سروَر پر دیکھنا ہوگا اور جواب دینا ہوگا۔

ڈیجیٹل امپاورمنٹ فاؤنڈیشن کے بانی اسامہ منظر کہتے ہیں، ’’یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ میٹا نے جواب دینے میں اتنا وقت لگایا۔ یہ ان کی ترجیح نہیں ہے، اور پولیس بھی اسے حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہ عمل ہی سزا بن جاتا ہے۔‘‘

مزمل کا کہنا ہے کہ جب تک وہ بے قصور ثابت نہیں ہو جاتے، گاؤں نہیں لوٹیں گے۔ وہ فی الحال مغربی مہاراشٹر میں ۲۵۰۰ روپے ماہانہ کے کرایے والے ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔ وہ ہر ۱۵ دن میں ایک بار اپنے والدین سے ملتے ہیں، لیکن بات چیت بہت کم ہوتی ہے۔ مزمل کہتے ہیں، ’’جب بھی ہم ملتے ہیں، میرے والدین رونے لگتے ہیں۔ مجھے ان کے لیے بہادر بننا پڑتا ہے۔‘‘

'In India, you are supposed to be innocent until proven guilty,' says Muzammil Bagwan, 23, at an undisclosed location. Bagwan, who is from Pusesavali, was accused of abusing Hindu gods under an Instagram post
PHOTO • Parth M.N.

مزمل باگوان (۲۳) ایک نامعلوم ٹھکانے سے بات چیت میں کہتے ہیں، ’ہندوستان میں، آپ قصوروا ثابت ہونے تک بے قصور ہوتے ہیں نا۔‘ پوسے ساولی کے رہنے والے مزمل پر ایک انسٹاگرام پوسٹ میں ہندو دیوتاؤں کو گالی دینے کا الزام لگایا گیا تھا

مزمل نے ایک پنساری کی دکان پر نوکری کر لی ہے، جہاں انہیں ۸۰۰۰ روپے کی تنخواہ ملتی ہے، جس سے وہ کرایہ اور باقی اخراجات نکال پاتے ہیں۔ حالانکہ، پوسے ساولی میں وہ خود کا آئس کریم پارلر چلاتے تھے، جو اچھے سے چل رہا تھا۔ مزمل کہتے ہیں، ’’وہ کرایے کی دکان تھی۔ مالک ہندو تھا۔ جب یہ واقعہ ہوا، انہوں نے مجھے باہر نکال دیا اور کہا کہ دکان صرف تبھی واپس ملے گی، جب یہ ثابت ہو جائے گا کہ میں بے قصور ہوں۔ اب میرے والدین اپنے گزارہ کے لیے سبزی بیچ رہے ہیں۔ لیکن گاؤں کے ہندو ان سے خریداری کرنے سے منع کر دیتے ہیں۔‘‘

یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی پولرائزیشن سے اچھوتے نہیں رہے ہیں۔

ایک شام اشفاق کا ۹ سال کا بیٹا عزیر اسکول سے بہت اداس ہو کر لوٹا، کیوں کہ باقی بچے اس کے ساتھ نہیں کھیلتے۔ اشفاق کہتے ہیں، ’’اس کی کلاس میں ہندو بچوں نے اسے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ وہ ’لانڈیا‘ ہے، جو کہ مسلم لوگوں کے خلاف استعمال کیا جانے والا ہتک آمیز لفظ ہے، جو ختنہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میں بچوں کو قصوروار نہیں ٹھہراتا۔ وہ وہی دہراتے ہیں جو وہ اپنے گھر میں سنتے ہیں۔ یہ سب بہت افسوسناک ہے، کیوں کہ ہمارے گاؤں کا ماحول کبھی ایسا نہیں تھا۔‘‘

ہر تیسرے سال، پوسے ساولی میں پراین پروگرام منعقد کیا جاتا ہے، جہاں ہندو ۸ دنوں تک مذہبی کتابوں کا پاٹھ اور منتر وغیرہ پڑھتے ہیں۔ حال ہی میں یہ پروگرام ۸ اگست کو ہوا – گاؤں میں تشدد بھڑکنے سے ایک مہینہ قبل – جب مقامی مسلمانوں نے پروگرام کے پہلے دن کی دعوت کا انتظام کیا تھا۔ تقریباً ۱۲۰۰ ہندوؤں کے لیے ۱۵۰ لیٹر شیر خورما (سیوئیں سے بنی مٹھائی) تیار کی گئی تھی۔

سراج کہتے ہیں، ’’ہم نے اس دعوت پر ۸۰ ہزار روپے خرچ کیے۔ پوری برادری نے اس میں حصہ لیا، کیوں کہ یہ ہماری تہذیب ہے۔ لیکن اگر ہم نے اس پیسے کا استعمال مسجد میں لوہے کا دروازہ لگوانے میں کیا ہوتا، تو ہمارے درمیان کا ایک انسان آج زندہ ہوتا۔‘‘

*****

معاملے کی جانچ کر رہے پولیس انسپکٹر کے مطابق، ۱۰ ستمبر کو ہوئے تشدد کے لیے ۶۳ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور چارج شیٹ دائر کی گئی ہے، تقریباً ۳۴ فرار ہیں اور ۵۹ کو پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’اس معاملے میں راہل کمد اور نتن ویر دو اہم ملزم ہیں۔ دونوں ’ہندو ایکتا‘ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘‘

مغربی مہاراشٹر میں سرگرم دائیں بازو کی سخت گیر تنظیم ’ہندو ایکتا‘ کے سرکردہ لیڈر وکرم پاوسکر ہیں، جو بی جے پی کے لیے مہاراشٹر کے نائب صدر کا عہدہ بھی سنبھالتے ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ تصویریں ہیں اور انہیں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دیوندر پھڑنویس کا قریبی بتایا جاتا ہے۔

سینئر ہندوتوا لیڈر ونائک پاوسکر کے بیٹے وکرم کی نفرت آمیز تقریر دینے اور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی تاریخ رہی ہے۔ اپریل ۲۰۲۳ میں، انہوں نے ستارا میں ایک ’’غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مسجد‘‘ کو مسمار کرنے کے لیے ایک تحریک کی قیادت کی۔

Saffron flags in the village
PHOTO • Parth M.N.

گاؤں میں لگے بھگوا جھنڈے

جون ۲۰۲۳ میں، اسلام پور میں، پاوسکر نے ’لو جہاد‘ کے خلاف لڑنے کے لیے ’’ہندوؤں کو متحد ہونے‘‘ کی اپیل کی، جو دائیں بازو کے ہندوؤں کا دیا ایک غیر تصدیق شدہ سازشی ہتکھنڈہ ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مسلمان مرد ہندو عورتوں کو بہکاتے ہیں، تاکہ وہ بعد میں اسلام مذہب قبول کر لیں، جو ہندوستان میں ان کی آبادی میں اضافہ اور آخرکار ان کے غلبہ کو یقینی بنائے گا۔ پاوسکر کا کہنا تھا، ’’ہماری بیٹیوں، ہماری بہنوں کا اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں ’لو جہاد‘ کے لیے شکار بنایا جاتا ہے۔ جہادی ہندو مذہب میں عورتوں اور مسلکوں کو برباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سبھی کو انہیں بڑا جواب دینا ہوگا۔‘‘ انہوں نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی اپیل کرتے ہوئے مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی بھی حمایت کی۔

تشدد کے ایک چشم دید کے مطابق، حملہ سے کچھ دن پہلے پاوسکر نے پوسے ساولی میں ایک ملزم کے گھر میں میٹنگ کی تھی۔ چشم دید نے پولیس کو بتایا کہ سو سے زیادہ نامعلوم لوگ گاؤں پر حملہ کرنے والی ہندوتوا وادی بھیڑ کا حصہ تھے۔ لیکن ان میں سے ۲۷ لوگ اسی گاؤں سے تھے اور ان میں سے کچھ پاوسکر کے ذریعے منعقد میٹنگ میں موجود تھے۔ جب بھیڑ گاؤں کی مسجد میں داخل ہوئی، تو ان میں سے ایک نے کہا، ’’آج رات کوئی لانڈیا زندہ نہیں بچنا چاہیے۔ وکرم پاوسکر کا ہاتھ ہمارے سر پر ہے۔ کسی کو رحم دلی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

حالانکہ، پولیس نے اب تک انہیں گرفتار نہیں کیا ہے۔ ستارا کے سپرنٹنڈٹ آف پولیس سمیر شیخ نے اس اسٹوری کو لے کر رپورٹر سے بات کرنے سے منع کر دیا۔ ’’ضروری تفصیلات عوامی طور پر موجود ہیں،‘‘ انہوں نے کہا، اور جانچ کو لے کر یا تشدد میں پاوسکر کے رول کے بارے میں سوالوں کے جواب دینے سے بچتے رہے۔

جنوری ۲۰۲۴ کے آخری ہفتہ میں، بامبے ہائی کورٹ نے پاوسکر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کے لیے ستارا پولیس کو پھٹکار بھی لگائی۔

*****

ستارا پولیس کے ڈھل مل رویے کو دیکھ کر عائشہ سوچ میں پڑ جاتی ہیں کہ کیا انہیں کبھی انصاف ملے گا، کیا نورل کے قاتلوں کو کبھی سزا ملے گی، اور کیا تشدد کا منصوبہ بنانے والے سازشیوں کو کبھی پکڑا جائے گا۔ خود پیشہ سے وکیل اور شوہر کو کھونے کا سوگ مناتی بیوی کو شک ہے کہ اس معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’’زیادہ تر ملزم پہلے ہی ضمانت پر باہر ہیں اور گاؤں میں بے فکر ہو کر گھوم رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی بھدا مذاق چل رہا ہے۔‘‘

وہ پوسے ساولی میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں اور اپنے شوہر کو اور بھی زیادہ یاد کرتی ہیں، اس لیے انہوں نے راجاچے کُرلے میں اپنے والدین کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عائشہ کہتی ہیں، ’’یہ صرف چار کلومیٹر دور ہے، اس لیے میں دونوں گاؤوں کے درمیان آمد و رفت کر سکتی ہوں۔ لیکن ابھی میری ترجیح اپنی زندگی کو پٹری پر واپس لانے کی ہے۔‘‘

Ayesha Hasan, Nurul's wife, in Rajache Kurle village at her parents’ home
PHOTO • Parth M.N.

نورل کی بیوی عائشہ حسن، راجاچے کُرلے گاؤں میں اپنے والدین کے گھر پر ہیں

انہوں نے اپنی وکالت پھر سے شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن فی الحال ایسا نہیں کر رہی ہیں، کیوں کہ گاؤں میں رہتے ہوئے اس پیشہ میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ عائشہ کہتی ہیں، ’’اگر میں ستارا شہر یا پونے چلی جاتی، تو بات الگ ہوتی، لیکن میں اپنے والدین سے دور نہیں رہنا چاہتی۔ انہیں صحت سے متعلق مسائل ہیں اور مجھے ان کا خیال رکھنے کے لیے وہاں رہنا ضروری ہے۔‘‘

عائشہ کی ماں شمع (۵۰) کو ہائی بلڈ شوگر ہے، اور والد حنیف (۷۰) کو دسمبر ۲۰۲۳ میں دل کا دورہ پڑا تھا، جو ان کی بیٹی کے حالات سے پیدا ہوئے تناؤ کے سبب آیا تھا۔ عائشہ کہتی ہیں، ’’میرا کوئی بھائی بہن نہیں ہے، لیکن نورل نے بیٹے کی کمی پوری کر دی تھی، ایسا وہ اکثر محسوس کرتے تھے۔ جب سے ان کا انتقال ہوا ہے، میرے والد پہلے جیسے نہیں رہے۔‘‘

بھلے ہی عائشہ نے اپنے والدین کے ساتھ رہنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کا متبادل اختیار کیا ہے، لیکن وہ اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ کچھ ایسا جو ان کی زندگی کو معنی اور مقصد دے گا: وہ اپنے مرحوم شوہر کی خواہشات کو پورا کرنا چاہتی ہیں۔

حادثہ سے ٹھیک پانچ مہینے قبل، نورل اور عائشہ نے اپنی خود کی کنسٹرکشن کمپنی – اشنور پرائیویٹ لمیٹڈ بنائی تھی۔ نورل کو اس کا کام دیکھنا تھا، اور عائشہ قانونی چیزوں کو سنبھالنے والی تھیں۔

اب جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، وہ اسے بند نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں کنسٹرکشن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی، لیکن میں سیکھوں گی اور کمپنی کو آگے لے جاؤں گی۔ میں ابھی مالی اعتبار سے جدوجہد کر رہی ہوں، لیکن میں پیسے اکٹھا کروں گی اور اسے کامیاب بناؤں گی۔‘‘

دوسری خواہش تھوڑی کم پیچیدہ ہے۔

نورل اپنے بچے کو کرکٹ سکھانا چاہتے تھے۔ کسی اور کھیل اکادمی سے نہیں، بلکہ وہاں سے جہاں وراٹ کوہلی نے ٹریننگ لی تھی۔ نورل کے خواب کو پورا کرنے کے لیے عائشہ اس راستے پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ ’’میں یہ کر کے رہوں گی،‘‘ وہ پختگی سے کہتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

पार्थ एम एन हे पारीचे २०१७ चे फेलो आहेत. ते अनेक ऑनलाइन वृत्तवाहिन्या व वेबसाइट्ससाठी वार्तांकन करणारे मुक्त पत्रकार आहेत. क्रिकेट आणि प्रवास या दोन्हींची त्यांना आवड आहे.

यांचे इतर लिखाण Parth M.N.
Editor : Vishaka George

विशाखा जॉर्ज बंगळुरुस्थित पत्रकार आहे, तिने रॉयटर्ससोबत व्यापार प्रतिनिधी म्हणून काम केलं आहे. तिने एशियन कॉलेज ऑफ जर्नलिझममधून पदवी प्राप्त केली आहे. ग्रामीण भारताचं, त्यातही स्त्रिया आणि मुलांवर केंद्रित वार्तांकन करण्याची तिची इच्छा आहे.

यांचे इतर लिखाण विशाखा जॉर्ज
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique