مقامی ڈاکخانہ کی کھڑکی کے پٹ چرمرانے کی آواز کے ساتھ کھلتے ہیں اور اُن کھڑکیوں کے پٹ سے ڈاکیہ ہمیں وہاں پہنچتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
رینوکا مسکراتے ہوئے ایک کمرے والے اس ڈاکخانہ میں ہمارا خیر مقدم کرتے ہیں۔ کمرے کا ایک دورازہ اندر کی طرف کھلتا ہے۔ کاغذوں اور سیاہی کی بو ہمیں ان کے کام کرنے کی جگہ کا پتہ دیتی ہے۔ وہ دن کی آخری ڈاک کا بنڈل بناتے ہوئے ہمیں مسکراتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ ’’آئیے، آئیے! یہاں پر بیٹھئے۔‘‘
باہر کی گرمی کے برعکس، ان کے دفتر اور گھر کے اندر کا موسم نسبتاً ٹھنڈا ہے۔ ہوا کے تازہ جھونکے اندر آ سکیں، شاید اسی لیے کمرے کی اکلوتی کھڑکی کھلی ہوئی ہے۔ سفیدی کی ہوئی دیواروں پر ہاتھ سے بنے پوسٹر، نقشے اور کچھ جدول ٹنگے ہوئے ہیں۔ چھوٹا سا کمرہ اتنا ہی صاف ستھرا اور بالترتیب ہے جتنی کسی آدمی کو ایسی خاص جگہ کے ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ ایک میز اور سامان رکھنے کے لیے بنے کچھ ریک (الماری) نے کمرے کی زیادہ تر جگہ گھیر رکھی ہے۔ اس کے باوجود کمرہ تنگ نہیں دکھائی دیتا ہے۔
رینوکپّا (۶۴ سالہ) تمکورو ضلع کے دیورائے پٹنہ قصبہ میں ایک گرامین ڈاک سیوک (دیہی ڈاکخانہ کے ملازم) ہیں، جو چھ گاؤوں میں ڈاک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔
دیورائے پٹنہ میں دیہی ڈاکخانہ کے کام کا وقت صبح ساڑھے ۸ بجے سے دوپہر ایک بجے تک ہے، لیکن اس کے واحد ملازم ہونے کی وجہ سے رینوکا پرساد عموماً صبح ۷ بجے سے شام ۵ بجے تک کام کرتے ہیں۔ ’’ساڑھے چار گھنٹے کا وقت میرے لیے کافی نہیں ہے۔ میں اتنے کم وقت میں اپنا کام ختم نہیں کر سکتا۔‘‘
ان کا کام پاس کے بیلگُمبا گاؤں سے ڈاک کے تھیلوں میں بھر کر آنے والے خطوط، رسالوں اور کاغذات کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے وہ سبھی ڈاکوں کو ایک رجسٹر میں درج کرتے ہیں اور اس کے بعد دوپہر ۲ بجے کے آس پاس انہیں بانٹنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ یہ ان کا روز کا کام ہے۔ جن چھ گاؤوں میں وہ خط بانٹنے جاتے ہیں، ان کے نام ہیں – دیورائے پٹنہ، مارنائک پلیہ، پرشانت نگر، کندرو، بنڈے پلیہ اور شری نگر۔ یہ سبھی گاؤں چھ کلومیٹر کے دائرے میں آتے ہیں۔ وہ اپنی بیوی رینوکمبا کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی تینوں بالغ بیٹیاں اب ان سے الگ رہتی ہیں۔
وہ ہمیں اپنی میز سے متصل دیوار پر ٹنگا ایک نقشہ دکھاتے ہیں، جن میں وہ سبھی چھ گاؤوں دکھائے گئے ہیں جہاں ان کو جانا ہوتا ہے۔ اس نقشہ کے چاروں کمپاس نقطوں کو کنّڑ زبان میں نشان زد کیا گیا ہے، جن سے ان گاؤوں کے فاصلہ کا پتہ لگایا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی کہاوتوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ دیورائے پٹنہ سے قریب ترین گاؤں مارنائک پلیہ ہے، جو مشرق میں ۲ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ دوسرا گاؤں پرشانت نگر ہے، جو مغرب کی طرف تقریباً ڈھائی کلومیٹر دور ہے۔ کُندرو اور بنڈے پلیہ تقریباً ۳ کلومیٹر دور ہیں اور بالترتیب شمال اور جنوب میں واقع ہیں۔ شری نگر سب سے دور افتادہ گاؤں ہے، جو ۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
اس علاقے میں رینوکپّا واحد ڈاکیہ ہیں اور باہر سخت دھوپ ہو یا تیز بارش، مکتوبات کو روزانہ ان کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔
ان لمبے فاصلوں کو طے کرنے کے لیے ان کے پاس ایک پرانی سائیکل ہے، جو کم و بیش کہانیوں میں بتائے گئے کسی ڈاکیہ کی سائیکل جیسی ہے، جس پر سوار ہو کر وہ گاؤں میں پہنچتے ہیں اور کھلے ہوئے چہروں کے ساتھ لوگ ان کی طرف تیزی سے لپکتے ہیں اور ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
’’رینوکپّا، آج ہمارے گھر میں ایک پوجا ہے۔ آپ ضرور آئیے گا۔‘‘ گھر کے سامنے سے گزرتی ہوئی ایک عورت ان سے کہتی ہے۔ رینوکا کے چہرے پر ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ رضامندی میں اپنا سر ہلاتے ہیں۔ دریں اثنا، اُدھر سے گزرتا ہوا ایک دوسرا دیہاتی ہاتھ ہلاتا ہوا اونچی آواز میں انہیں سلام کرتا ہے۔ جواب میں رینوکپّا بھی مسکرا کر ہاتھ ہلاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر کسی ڈاکیہ کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کے رشتے کتنے خوش اخلاق ہو سکتے ہیں، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ڈاک پہنچانے کے لیے ایک اوسط دن میں رینوکا کو ۱۰ کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ اپنا کام ختم کرنے سے پہلے ان کو ہر ایک ڈاک اور دوسری چیزوں، جنہیں انہوں نے لوگوں تک پہنچایا ہے، کی تفصیل اور حساب کتاب ایک پرانی اور موٹی نوٹ بک میں لکھنا پڑتا ہے۔
رینوکپّا بتاتے ہیں کہ آن لائن ذرائع ابلاغ نے خط لکھنے کی روایت کو تیزی سے کم کیا ہے، ’’لیکن رسائل و جرائد، بینک کی دستاویز وغیرہ کی تعداد گزشتہ کچھ برسوں میں دو گنی بڑھی ہے، اس لیے میرا کام بھی بڑھ گیا ہے۔‘‘
ان کے جیسے تمام گرامین ڈاک سیوکوں کو ’ماورائے محکمہ ملازم‘ [ایکسٹرا ڈپارٹمنٹل ورکرز] مانا جاتا ہے، اور انہیں پینشن کے ساتھ ساتھ دیگر بھتوں سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ انہیں تمام ذمہ داریاں نبھانی ہوتی ہیں – مثلاً ڈاک ٹکٹ اور اسٹیشنری (لکھنے پڑھنے کے سامان) بیچنی پڑتی ہے، ڈاکوں کو ڈاکخانہ تک لانا اور پھر انہیں ان کی منزل تک پہنچانا ہوتا ہے اور ڈاک سے متعلق دیگر محکمہ جاتی ذمہ داریاں بھی نبھانی ہوتی ہیں۔ چونکہ وہ ریگولر سول سروس کا حصہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کا شمار سنٹرل سول سروس (پینشن) رولز، ۲۰۲۱ کے تحت نہیں کیا جاتا ہے۔ فی الحال حکومت کے پاس ایسی کوئی تجویز نہیں ہے جو اُن کے لیے کسی پینشن کی گارنٹی دیتی ہو۔ ایسے میں، انہیں صرف سروس ڈسچارج بینیفٹ اسکیم کا فائدہ ملتا ہے، جسے یکم اپریل ۲۰۱۱ سے نافذ کیا گیا ہے۔
رینوکپّا کے ریٹائر ہو جانے کے بعد ان کو ملنے والی ۲۰ ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ بند ہو جائے گی اور انہیں کسی قسم کا پینشن بھی نہیں ملے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے جیسے ڈاکیوں نے برسہا برس ہمارے حق میں کچھ اچھا ہونے کا انتظار کیا۔ ہمیں امید تھی کہ کوئی نہ کوئی تو ہماری محنت کی قیمت کو ضرور سمجھے گا۔ اگر دوسرے پینشنرز کو ملنے والی رقم کا چھوٹا حصہ بھی ہمیں مل جاتا – ہزار دو ہزار روپے بھی – تو وہ ہمارے لیے کافی ہوتا۔ حالات اگر ہمارے حق میں کبھی بدلے بھی، تب تک تو میں ریٹائر ہو چکا ہوں گا،‘‘ وہ ایک افسردہ لہجے میں اپنی بات پوری کرتے ہیں۔
جب میں ان سے دیوار پر ٹنگے اور لیمنیٹ کیے گئے چھوٹی کٹنگ والے پوسٹر کے بارے میں پوچھتا ہوں، تو وہ کافی خوش ہو جاتے ہیں۔ ’’یہ پوسٹر میری چھوٹی سی خوشی کا سبب ہے۔ میں اسے انچے چیٹی [اسٹامپ] پوسٹر کہتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
’’یہ میرا شوق بن گیا ہے۔ تقریباً دو سال پہلے ایک اخبار نے مشہور شعراء، مجاہدین آزادی اور دیگر اہم شخصیات کی یاد میں ان ڈاک ٹکٹوں کو جاری کرنا شروع کیا تھا۔‘‘ رینوکا اخبار کے آتے ہی ٹکٹوں کو کاٹ کر انہیں اپنے پاس رکھنے لگے۔ ’’اخبار کے اگلے شمارہ کے آنے کا انتظار کرنا اچھا لگتا تھا۔‘‘
اس رپورٹ کو لکھنے میں مدد کے لیے ہم تمکورو کی ٹی وی ایس اکادمی کی ٹیچر شویتا ستیہ نارائن کے شکر گزار ہیں۔ پاری ایجوکیشن نے ان طلباء کے ساتھ مل کر اس کام کو پورا کیا ہے: آدتیہ، آستھا، دھریتی، دویہ شری، خوشی جین، نیہا، پرنیتی، پرنیتی ایس، پرانجلا، سنہتا، گنوتّم، پرینیتا، نیروتا اور اتسو۔
مترجم: محمد قمر تبریز