’’مجھے اپنی ماں کے ذریعہ گائے گئے گیت کے دو تین لفظ یاد ہیں،‘‘ ہوسا بائی دیگھے نے کہا۔ یہ ۱۹۹۵ کی بات ہے اور وہ ہیما رائیکر اور گی پائیٹواں سے بات کر رہی تھیں۔ پونے کے یہ سوشل سائنٹسٹ اور کارکن، جنہوں نے ۱۹۸۰ کے عشرہ کے آخری حصے میں گرائنڈ مل سانگس پروجیکٹ (جی ایس پی) کی شروعات کی تھی، ہاتھ سے چکّی چلاتے وقت گیت گانے والی خواتین فنکاروں سے بات چیت کرنے کے مقصد سے اپنی ٹیم کے ساتھ مُلشی تعلقہ میں بھامبرڈے گاؤں آئے تھے۔

ہوسا بائی نے مزید کہا، ’’جب میں کھیت میں محنت کرکے لوٹتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ گھر میں آٹا نہیں ہے، تب میں چکّی پر کام کرنے کے لیے بیٹھ جاتی ہوں اور گیت گانے لگتی ہوں۔ اس کے بغیر گویا ہمارا دن ادھورا ہے۔ جیسے جیسے مجھے الفاظ یاد آتے جاتے ہیں ویسے ویسے یہ گیت بھی آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ گیت تبھی ختم ہوں گے، جب میں مر جاؤں گی۔ میرے مرنے تک یہ گیت مجھے یاد آتے رہیں گے۔‘‘ ان کے الفاظ اُن دیہی خواتین گلوکاروں کی ترجمانی کرتے ہیں جو کسانوں، زرعی مزدوروں، ماہی گیروں اور مالیوں کی برادریوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ روزانہ کئی کئی گھنٹے کام کرنے کے بعد وہ طلوع آفتاب سے بہت پہلے جاگ جاتی ہیں، تاکہ گھر کے کام کاج نمٹانے کے بعد کھیتوں پر کام کرنے جا سکیں۔

اور تقریباً ہمیشہ، ان کے دن کا پہلا کام چکّی پر اناج کو پیس کر آٹا نکالنا ہوتا تھا۔ اناج کو پیسنے کے وقت وہ گیت گاتی تھیں۔ یہ کام عموماً وہ باورچی خانہ کے کونے یا برآمدے میں بیٹھ کر کرتی تھیں۔ یہ جگہ ان کے نجی سکون و اطمینان کی ہوتی تھی، جہاں اپنے رنج و غم، خوشی و مسرت، زندگی کی جدوجہد جیسے جذبات کو انھیں گیتوں کے توسط سے آپس میں بانٹا کرتی تھیں۔

اس میں وہ دنیا، اپنے گاؤں اور برادری کی زندگی، خاندانی رشتے، مذہب، مقدس مقامات، ذات پر مبنی استحصال اور پدرانہ سماج کا جبر، بابا صاحب امبیڈکر کے کام، اور دیگر بہت سی چیزوں پر بھی اپنے خیالات کا اشتراک کرتی تھیں۔ اس ویڈیو میں، پونے کے مُلشی تعلقہ میں واقع کھڑک واڑی بستی کی تارا بائی اُبھے اس موضوع پر گفتگو کر رہی ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: دیہی ہندوستان کے باورچی خانوں میں گائے جانے والے گیت

پاری کی اس ڈاکیومینٹری میں ان گیتوں کی ریکارڈنگ کرنے والے علم موسیقی کے ماہر اور ٹیکنالوجسٹ برنارڈ بیل اور گرائنڈ میل گیتوں کا ڈیٹابیس بنانے والے اور انہیں مراٹھی رسم الخط میں منتقل کرنے والے محقق جتیندر میڈ اور ان گیتوں کا مراٹھی سے انگریزی میں ترجمہ کرنے والی آشا اوگلے کا انٹرویو بھی شامل ہے۔

جی ایس پی، پاری میں ۲۰۱۶ میں شامل ہوا اور ہم نے ان گیتوں کو ۶ مارچ، ۲۰۱۷ سے شائع کرنا شروع کیا۔ پڑھیں: چکّی کے گانے: قومی خزانے کی ریکارڈنگ

اب سات سال بعد، پاری نے خواتین گلوکاروں سے ان کے گاؤوں میں جا کر ملنا اور ان کی کہانیوں اور گیتوں کو شائع کرنا آج بھی جاری رکھا ہے۔ آپ ہمارے مجموعہ کو یہاں دیکھ سکتے ہیں: گرائنڈ مل سانگس پروجیکٹ: دیہی خواتین اور لوک گیتوں کی دنیا ۔

اس ڈاکیومینٹری میں شامل عورتیں ایک لاکھ ۱۰ ہزار گرائنڈ مل گیتوں کے مجموعہ میں تعاون کرنے والی مہاراشٹر کے ۱۱۰۷ اور کرناٹک کے ۱۱ گاؤوں کی کل ۳۳۰۲ گلوکاروں میں شامل ہیں۔

ان گیتوں کو تحریری شکل دینے کا بڑا کام جتیندر میڈ اور کچھ دیگر لوگوں کے ذمے ہیں۔ رجنی کھلدکر نے ان تحریر شدہ گیتوں کو مراٹھی کے ڈیٹابیس میں شامل کیا ہے۔ بہت سے گیتوں کو ہیما رائیرکر نے ترجمہ کیا ہے۔ آشا اوگلے نے جتیندر میڈ کے ساتھ بقیہ گیتوں کے ترجمے کا کام جاری رکھا ہے، اور تقریباً ۳۰ ہزار گیتوں کا اب بھی ترجمہ ہونا ہے۔

Left: Hausabai Dighe from Bhambarde village of Mulshi taluka .
PHOTO • Sanviti Iyer
Right: Hausabai singing ovis with Kantabai Dighe (centre) and Ashabai Pawar (left) when PARI visited them in December 2023
PHOTO • Sanviti Iyer

بائیں: مُلشی تعلقہ کے بھامبرڈے گاؤں کی ہوسا بائی دیگھے۔ دائیں: کانتا بائی دیگھے (درمیان میں) اور آشا بائی پوار (بائیں) کے ساتھ او وی گاتی ہوئی ہوسا بائی۔ یہ تصویر دسمبر ۲۰۲۳ کی ہے، جب پاری کی ٹیم ان سے ملنے گئی تھی

The women sang the songs when they sat at the stone mill to crush grain to flour and hence the name – jatyavarchya ovya or grindmill songs
PHOTO • Sanviti Iyer

عورتوں نے ان گیتوں کو تب گایا تھا، جب وہ چکّی پر بیٹھ کر اناج سے آٹا پیستی تھیں۔ اسی لیے ان گیتوں کو گرائڈ مل گیت یا چکّی کے گانے کہتے ہیں

یہ مختصر فلم اس پروجیکٹ کا ایک تعارف ہے اور اس میں علم موسیقی کے ماہر اور ٹیکنالوجسٹ برنارڈ بیل اور ان کا تعاون کرنے والے محققین اور کارکنوں کی ٹیم کے ذریعہ ۱۹۹۰ کی دہائی کے ویڈیو فوٹیج شامل کیے گئے ہیں۔

بیل نے ۱۹۹۵ سے ۲۰۰۳ کے درمیان ٹیپ پر ۴۵۰۰ گیت ریکارڈ کیے، لیکن اس بڑے پروجیکٹ سے جڑا زمینی کام بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ یہ ۱۹۸۰ کے عشرہ کی بات ہے جب گی بابا اور ہیما تائی (گلوکار عورتیں اس پروجیکٹ کے بانیوں کو عزت و احترام سے اسی طرح پکارتی ہیں) نے پونے ضلع کے کچھ گاؤوں کے دورے کیے۔ انہوں نے اُن عورتوں کے ساتھ کام کرنے کا منصوبہ بنایا اور پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی کے ساتھ ساتھ جہیز اور گھریلو ظلم و تشدد جیسی سماجی برائیوں کے خلاف لڑائی میں ان کی مدد کی۔ اس کے بعد ہی ان عورتوں نے ان گیتوں کے ذریعے اپنے خیالات اور اپنی زندگی کے جدوجہد کی کہانیاں ان کے ساتھ شیئر کیں۔ یہ گیت دیہی ہندوستان کے ان علاقوں کی خواتین کی جدوجہد اور خوشیوں کا بیانیہ ہیں۔

جی ایس پی کی موسیقی اور گیت دور دور تک پہنچے ہیں۔ سال ۲۰۲۱ میں یہ جنوبی کوریا میں ۱۳ویں گوانگزو بینالے اور ۲۰۰۳ میں لندن بربیکن کی نمائشوں کا حصہ تھا۔ انڈین ایکسپریس، اسکرول اِن، دی ہندوستان بزنس لائن اور میڈیا کے دیگر کئی ذرائع میں اس پروجیکٹ پر متعدد مضامین لکھے جا چکے ہیں۔

ناسک میں ایک ریسرچ اسکالر کے ذریعہ اپنی پی ایچ ڈی کے لیے بابا صاحب امبیڈکر پر لکھے گرائنڈ مل گیتوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکی یونیورسٹی کے ایک سائنس داں پونے ضلع کے علاقے میں اگنے والے بوری (جوجوبے)، ببول (اکیسیا) اور کَھیر (کیٹیشو) جیسے کانٹے دار درختوں کا قدرتی حوالہ دینے کے لیے جی ایس پی ڈیٹابیس اور دیگر فوک میوزک کے مجموعوں میں موجود او وی کا استعمال کر رہے ہیں۔ پاری کے مجموعہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے سال بھر طلباء اور دانشوروں کا مجمع لگا رہتا ہے۔

براہ کرم اس شاندار پروجیکٹ کی جھلک ضرور دیکھیں، جس میں ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں لوگ شامل ہیں، اور جس نے محققین، عام لوگوں، فوک میوزک اور شاعری کے شائقین کی راہ کو روشن کیا ہے۔

اس ڈاکیومینٹری میں برنارڈ بیل کے آرکائیول ویڈیو ’اَن فیٹرڈ وائسز‘ سے لیے گئے فوٹیج اور ۲۰۱۷ سے لے کر اب تک پاری پر شائع جی ایس پی اسٹوریز سے لیے گئے ویڈیو اور تصویروں کا استعمال ہوا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Video Producer : Vishaka George

विशाखा जॉर्ज बंगळुरुस्थित पत्रकार आहे, तिने रॉयटर्ससोबत व्यापार प्रतिनिधी म्हणून काम केलं आहे. तिने एशियन कॉलेज ऑफ जर्नलिझममधून पदवी प्राप्त केली आहे. ग्रामीण भारताचं, त्यातही स्त्रिया आणि मुलांवर केंद्रित वार्तांकन करण्याची तिची इच्छा आहे.

यांचे इतर लिखाण विशाखा जॉर्ज
Video Editor : Urja

ऊर्जा (जी आपलं पहिलं नाव वापरणंच पसंत करते) बनस्थळी विद्यापीठ, टोंक, राजस्थान येथे पत्रकारिता व जनसंवाद विषयात बी.ए. पदवीचं शिक्षण घेत आहे. पारी मधील प्रशिक्षणाचा भाग म्हणून तिने हा लेख लिहिला आहे.

यांचे इतर लिखाण Urja
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique