جب ۳۰ سالہ دیو کمبھار نے پچھلے مہینے کی ایک رات کو اپنے چچا کے کھیتوں کی رکھوالی کرنے کی پیشکش کی تھی، تب یہ ان کی آخری ملاقات ہو سکتی تھی۔ مہاراشٹر کے سرسبز ساحلی ضلع سندھو درگ کے دوڈا مارگ تعلقہ میں واقع بابر واڑی ایک پُرسکون گاؤں ہے، جہاں کے کسان اکثر ان ناپسندیدہ مہمانوں (ہاتھیوں) سے دو چار ہوتے رہتے ہیں۔ دیو دو ایکڑ کھیت میں بنے مچان پر سو رہے تھے، تبھی رات کے ڈھائی بجے کچھ ہلچل ہوئی اور ان کی نیند کھل گئی۔
گھپ اندھیرے کھیت میں انہوں نے از راہ تجسس اپنے فون کی لائٹ جلائی۔ اس کے بعد انہوں نے صرف یہ دیکھا کہ ایک بہت بڑا جنگلی ہاتھی ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دیو نے فوراً لائٹ آف کر دی اور ہاتھی نے ان کی بجائے مچان کے ساتھ لگے بجوکے کو کچل دیا۔
دیو کے چچا نہانو بتاتے ہیں، ’’جنگلی ہاتھی باقاعدگی سے رات کے وقت آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے، تو ہمیں صرف ایک غیر پائیدار مالیاتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ اس واقعہ کے اگلے دن ۳۰ کوئنٹل میں سے نصف سے زیادہ دھان کھیت میں بکھرے پڑے تھے۔ کیلے کے ۲۵ درخت جڑ سے اکھڑ چکے تھے۔ مرچیں ہل کے نیچے آئے کسی ٹوڈ (اس قسم کا بھدا مینڈک) کی تصویر پیش کر رہی تھیں۔ کھیت ملبہ ڈالنے کی جگہ سے مشابہ تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ صفائی کیوں نہیں کی گئی، تو نہانو کہتے ہیں، ’’جنگلات کے افسران کے آنے اور نقصان کا تخمینہ لگانے سے پہلے اگر ہم کچھ کرتے ہیں تو ہمیں معاوضہ نہیں ملے گا۔‘‘
بابر واڑی، تلاری ڈیم سے متصل دوڈا مارگ تعلقہ کے سب سے دور افتادہ گاؤوں میں سے ایک ہے۔ بجلی کی سپلائی اور فون لائنوں کا یہاں بہت برا حال ہے۔ ناہموار سڑکوں اور پھسلن بھری سرخ کیچڑ سے گزر کر وہاں تک پہنچنا مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگلات کے افسران ہمیشہ تباہی کا معائنہ کرنے کے لیے فوراً نہیں آتے ہیں۔ نہانو کہتے ہیں، ’’ہم باقی ماندہ فصل کو تباہ شدہ فصل سے الگ کر کے اس کی حفاظت کرسکتے ہیں، لیکن پھر ہمیں معاوضے سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے یا ہم افسروں کے آنے کا انتظار کر سکتے ہیں اور ہاتھیوں کے دوبارہ گھسنے اور باقی ماندہ فصل کی تباہی کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ یہ آگے کنواں پیچھے کھائی والا معاملہ ہے۔‘‘
ایک کوئنٹل دھان کی قیمت تقریباً ۱۵۰۰ روپے ہے، اور ہاتھی نے کھیت میں چند منٹ گزار کر ۳۰ ہزار روپے مالیت کی فصل تباہ کر دی۔ تقریباً ۲۵ ہزار روپے کی سرمایہ کاری اور گزشتہ پانچ مہینوں کی محنت چند ہی منٹوں میں برباد ہو گئی۔ تباہ شدہ فصلوں میں کیلے اور مرچیں بھی شامل ہیں۔ نہانو کو ایک رات میں تقریباً ۷۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ ’’لیکن معاوضے کا تخمینہ کبھی نہیں لگایا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
سال ۲۰۰۲ تک سندھو درگ میں جنگلی ہاتھی صرف ٹی وی پر دیکھے جا سکتے تھے۔ تاہم، ۱۹۴۴ سے ۱۹۹۰ کے درمیان کرناٹک کے اتر کنڑ ضلع میں چھ ڈیم تعمیر کیے گئے، نتیجتاً ریاست کی جنگلاتی زمین سکڑ گئی۔ ہاتھیوں کے رویے کے ماہر آنند شندے کہتے ہیں، ’’ہاتھیوں کی جینیاتی یادداشت ہوتی ہے۔ ان کے راستے طے شدہ ہوتے ہیں۔ اگر تجاوزات کی وجہ سے ان راستوں میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو وہ الجھ کر گاؤوں کی طرف بھٹک جاتے ہیں۔‘‘
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۴ تک مبینہ طور پر ۲۲ جنگلی ہاتھی مہاراشٹر کے سندھو درگ اور کولہاپور اضلاع میں گشت لگا چکے تھے۔ یہاں احتیاط سے لگائے گئے دھان، ناریل، کاجو، کیلے وغیرہ کی فصلیں ان کے لیے پرکشش دعوتیں تھیں۔ اب تک وہ ۱۳ افراد کو ہلاک اور ۲۱ کو زخمی کر چکے ہیں۔ ان دو اضلاع میں فصلوں کے نقصان کے ۱۱ ہزار معاملے سامنے آئے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق محکمہ جنگلات کو فصلوں کے نقصانات اور جانی نقصان کے معاوضے کے طور پر ۵ء۱۰ کروڑ روپے ادا کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ دریں اثنا، ریاست میں ۱۱ ہاتھیوں کی بھی موتیں ہوئی ہیں، جو یہاں پہلی مرتبہ انسان اور ہاتھی کے ٹکراؤ کی نشاندہی کرتی ہیں۔
سال ۲۰۰۴ میں ہاتھیوں کو واپس بھیجنے کا تجربہ کیا گیا تھا، جو دراصل جنگلی ہاتھیوں کو مہاراشٹر سے نکال کر ان کے اصل مسکن تک پہنچانے کا آپریشن تھا۔ تاہم، یہ ایک ناکام تجربہ ثابت ہوا، کیونکہ ہاتھیوں کے اصل مسکن بکھراؤ کے شکار ہو چکے تھے، اور جنگلی ہاتھیوں کے لیے اس میں مزید گنجائش نہیں پیدا ہو سکتی تھی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جنگلات کی زمین دن بہ دن کم ہوئی ہے۔ شندے کہتے ہیں، ’’جنگل سکڑنے کی وجہ سے ہاتھی حملہ آور ہونے لگے ہیں۔‘‘
دوڈا مارگ سے تقریباً ۷۰ کلو میٹر دور سندھو درگ کے کُڈال تعلقہ میں گزشتہ کئی سالوں میں ہاتھیوں کے خوف میں اس قدر اضافہ ہوا کہ مرکزی حکومت نے اس سال فروری میں ۶۹ لاکھ روپے کی مہم کی منظوری دی، تاکہ مان گاؤں وادی میں کُڈال کے آس پاس کے ۱۶ گاؤوں کو دہشت زدہ کرنے والے تین جنگلی ہاتھیوں کو پکڑا جا سکے۔ کرناٹک سے چار تربیت یافتہ ہاتھی لائے گئے۔ کرناٹک اور مہاراشٹر کے جنگلات کے ۲۰۴ اہلکار اس مشن کا حصہ بنے۔ ’’آپریشن پانچ دن تک جاری رہا،‘‘ کُڈال کے فاریسٹ رینج آفیسر، سنجے کَدم یاد کرتے ہیں۔ ’’یہ سکون دینے والا کام تھا۔‘‘
یہ مشن ۱۰ فروری کو شروع ہوا تھا۔ پہلے دن کا دوپہر ہاتھیوں کی تلاش کی کوشش میں گزرا تھا۔ واکی ٹاکی کی عدم موجودگی میں وہ لوگ جو ہاتھیوں کے علاقے سے واقف تھے مہم کا حصہ بن گئے تھے۔ شام ہوتے ہوتے تین جنگلی ہاتھیوں میں سے دو کی نشاندہی کر لی گئی تھی۔ ایک بھاگ کھڑا ہوا، دوسرے کا تعاقب کیا گیا۔ ویٹرنری ڈاکٹر نے اسے فوری طور پر ٹرانکیولائز (بیہوش) کر دیا۔ بیہوشی کی دوا دینے کے بعد جنگلی ہاتھی جس رفتار سے بھاگتے ہیں وہ انسان کی رفتار سے تیز ہوتی ہے۔ تربیت یافتہ ہاتھیوں میں سے ایک نے اس کا پیچھا کیا۔ ٹیم نے رسی کے ایک سرے کو ٹرانکیولائز شدہ ہاتھی کی ٹانگ سے اور دوسرے سرے کو تربیت یافتہ ہاتھی کی ٹانگ سے باندھا اور اسے مان گاؤں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر کرال کے آمبیری گاؤں میں لکڑی سے بنے ایک گھیرے تک پہنچایا۔ دوسرے دو ہاتھیوں کو اگلے پانچ دنوں میں اسی طرح پکڑ لیا گیا۔
سیاح ہاتھیوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آمبیری کے چھوٹے سے میدان میں آتے ہیں۔ کُڈال میں یہ ایک مکمل تبدیلی ہے، کیونکہ اس سے پہلے ہاتھیوں کے خیال محض سے ہی لوگ کانپنے لگتے تھے۔ ’’ہمارے بچے شام ۷ بجے کے بعد اپنے گھروں کے پچھواڑے نہیں جاتے تھے،‘‘ سبھاش باندھیکر یاد کرتے ہیں۔ ان کے کھیت تین مرتبہ تباہ ہوئے تھے۔ ’’ہم بھول گئے تھے کہ رات کی اچھی نیند کیا ہوتی ہے۔‘‘
تین ہاتھیوں نے باندھیکر کے باغ سے ۵۰ ناریل کے درختوں کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ مزید یہ کہ انہوں نے ان کے گھر میں رکھے چاول کے تھیلے اٹھانے کے لیے گھر کی کھڑکیوں اور پچھلے دروازے توڑ دیے تھے۔ باندھیکر کہتے ہیں، ’’ہم نے صحیح وقت پر خود کو ایک دوسرے کمرے میں بند کر لیا تھا اور کچھ پٹاخے بھی پھوڑے تھے۔ بعد میں وہ چلے گئے تھے۔‘‘
لیکن، گھنولے گاؤں کی وجیہ جادھو اتنی خوش قسمت نہیں تھیں۔ انہیں ان کے بچوں کے سامنے ایک ہاتھی نے اٹھا لیا اور زمین پر پھینک دیا۔ وہ آج تک بیہوشی کی حالت میں ہیں۔
بھلے ہی کُڈال کی فضا سے شدید خوف کے بادل چھٹ گئے ہوں، لیکن دوراندیشی کے فقدان کے باعث محکمہ جنگلات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پکڑے گئے تین جنگلی ہاتھیوں میں سے ایک، تربیت کے دوران اس سال فروری میں مر گیا۔ وہ ۴۰ سال کا تھا جب کہ ہاتھیوں کی اوسط عمر ۸۰ سال ہوتی ہے۔ کدم کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک قدرتی موت تھی۔ ہم نے اس کے ساتھ دوسرے دو ہاتھیوں سے مختلف سلوک نہیں کیا۔‘‘ تاہم، مقامی صحافی چندو شیڈگے کہتے ہیں، ’’اس علاقے میں ہاتھیوں کی صحت سے متعلق مہارت رکھنے والا کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ بلائے جانے پر میسور سے ایک ڈاکٹر یہاں آتا ہے۔‘‘
ہاتھی کی درجہ بندی زیر خطر نسل کے طور پر کیے جانے کے بعد ان کا تحفظ اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ایک ہاتھی کو ہر روز ۲۰۰ کلو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں گھاس، پودوں اور پانی کی برابر مقدار شامل ہے۔ اس کے علاوہ انہیں کیچڑ بھی بہت پسند ہے۔ وہ شدید گرمی میں اپنے جسم کے درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے کیچڑ میں بیٹھ جاتے ہیں، کیونکہ ان میں پسینے کے غدود نہیں ہوتے۔ ’’درجہ حرارت ۴۰ ڈگری پر جانے کے بعد کرال میں مطلوبہ دلدلی علاقے کا بندوبست کرنا عملی طور پر ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم ہاتھیوں کی نگہداشت کی صلاحیت رکھتے ہیں،‘‘ شندے کہتے ہیں۔ ’’میری رائے میں، ہمارے پاس افرادی قوت کی بھی کمی ہے۔‘‘
پونے کے فاریسٹ آفیسر سنیل لمیے نے ہاتھی کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے اور مستقبل میں اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہم معیارات کی پاسداری کریں اور ہاتھیوں کی ضرورت کی ہر چیز فراہم کریں۔‘‘
لیکن اس کے فوراً بعد، ایک حالیہ سنیچر کی دوپہر کو آمبیری کا سکون درہم برہم ہوگیا۔ زندہ بچے دو ہاتھیوں میں سے ایک پوری دوپہر چیختا چنگھاڑتا رہا۔ موسم نے اس پر اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔ سات سے آٹھ لوگوں نے اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی پرزور کوششیں شروع کیں۔ وہ ایک قابل رحم منظر تھا۔ ہاتھی اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ وہ اپنا وزن برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ لوگوں نے رسی کی مدد سے اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن آدھا اٹھنے کے بعد وہ پھر گر جاتا تھا۔ چند ناکام کوششوں کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے ایک شکست خوردہ اور کمزور جنگجو کی طرح بے حس و حرکت پڑا رہا۔
ماحول میں سنسنی پھیل گئی۔ مقامی ڈاکٹروں کو بلایا گیا اور انہوں نے سیلائین چڑھائی۔ جب کہ دوسرے لوگوں نے اسے کیلے کے درخت کھلائے، کچھ نے پائپ کا انتظام کیا اور اس پر پانی کے فوارے چھوڑے گئے۔ بعد میں آئس پیک لگایا گیا۔ وہ سارا دن نہیں اٹھا، جبکہ دوسرا ہاتھی بے بسی سے دیکھتا رہا۔ وہ اگلے دن اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہو گیا تھا، لیکن یہ ایک عارضی اطمینان ثابت ہوا کیونکہ وہ ایک ماہ کے اندر، ۲۹ مئی کو مر گیا۔
شندے کا کہنا ہے کہ ’’کُڈال میں ایک کل وقتی ہاتھی کا ماہر تعینات ہونا چاہیے۔‘‘ کدم نے اعتراف کیا کہ مہاراشٹر میں ابھی بھی جنگلی ہاتھیوں سے نمٹنے کے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کرناٹک میں سینکڑوں سالوں سے وہ طریقے موجود ہیں۔ ۲۰۰۴ سے قبل مہاراشٹر میں کسی نے اس طرح کے ٹکراؤ کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔‘‘
دیگر اعتراضات میں سے ایک، ہاتھیوں کو تربیت دینے کا طریقہ بھی ہے۔ آس پاس کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تربیت کے دوران ہاتھیوں کو مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شندے کہتے ہیں، ’’یہ ایک روایتی طریقہ ہے۔ ہاتھی جیسے حساس جانور کو تربیت دینے سے پہلے اسے اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔‘‘ ماہرین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ روایتی طریقہ دونوں ہاتھیوں کی موت کا سبب بنا ہو۔ ’’جنگلی ہاتھی پوری زندگی اپنی شرائط پر گزارتا ہے۔ اچانک اسے چہار دیواری میں قید کر لیا جاتا ہے۔ یہ اس کی نفسیات کو بری طرح متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے،‘‘ شندے کہتے ہیں۔ ’’ہاتھیوں کو اپنی فطری جبلت پر عمل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر ہم ایک نشان زدہ پناہ گاہ میں مناسب رہائش فراہم کرتے، تو وہ دیہاتوں میں نہیں بھٹکتے۔ کسان بے خوف زندگی گزارتے اور ہم جنگلات کا تحفظ بھی کر پاتے۔‘‘
لمیے کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر اور کرناٹک کی سرحد کے ساتھ ’’دانڈیلی–تلاّری ہاتھی ریزرو‘‘ اس ٹکڑاؤ کا ایک طویل مدتی حل ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ کام مہاراشٹر اور کرناٹک کی حکومتوں کی مشترکہ پہل سے ہوسکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایک فوری مقصد ’’کسانوں کو باخبر کرنا اور ان میں بیداری پیدا کرنا‘‘ ہو سکتا ہے، کیونکہ گھبراہٹ کا رویہ جنگلی ہاتھیوں کے درمیان جارحیت کا باعث بنتا ہے، جس سے اموات ہوتی ہیں۔ لمیے کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’’معاوضہ دینے کا عمل تیز تر ہونا چاہیے۔‘‘
وائلڈ لائف ٹرسٹ آف انڈیا کے کنزرویشن چیف، ڈاکٹر این وی کے اشرف کے پاس کسانوں کے لیے ایک بہترین تجویز ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہاتھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی فصلیں کھیت کے بیچ میں لگانی چاہئیں۔ لیموں، مرچ، شہد کی مکھیوں سے ہاتھی نفرت کرتے ہیں۔ انہیں کھیت کے کنارے لگانا چاہیے۔‘‘
تجاویز بہت ہیں، لیکن جنگلی جانوروں کے لیے سکڑتی ہوئی جگہوں اور بڑھتے ہوئے انسانی تجاوزات کے ساتھ، حل بہت کم ہیں۔ دیگر بہت سی پریشانیوں کے علاوہ دونوں گروپ خوف میں جی رہے ہیں اور آزادی سے محروم ہیں۔
دریں اثنا، جیسے ہی سورج آسمان کے ینچے اترتا ہے، نہانو کی بیوی اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ تمام کھڑکیاں اور دروازے مضبوطی سے بند ہیں۔ وہ اپنے پوتے، بیٹوں اور بہوؤں کو گھر میں واپس آنے کا حکم دیتی ہیں، اسی وقت نہانو ایک لاٹھی اور ٹارچ کے ساتھ کھیتوں میں رات گزارنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ آج رکھوالی کرنے کی باری ان کی ہے۔
مترجم: شفیق عالم