نام: وَجے سنگھ پارگی۔ پیدائش: ۱۹۶۳۔ گاؤں: ایتوا۔ ضلع: داہود، گجرات۔ برادری: آدیواسی پنچ مہالی بھیل۔ ممبران فیملی: والد، چسکا بھائی۔ ماں، چَتُرا بین۔ پانچ بھائی بہن، جن میں وجے سنگھ سب سے بڑے ہیں۔ فیملی کا ذریعہ معاش: زرعی مزدوری۔

غریب آدیواسی فیملی میں پیدا ہونے کی اپنی وراثت کو وجے سنگھ بیان کرتے ہیں: ’ماں کے حمل کا اندھیرا۔‘ ’تنہائی کا ریگستان۔‘ ’پسینے سے لبالب بھرا کنواں۔‘ ’اداسیوں میں رنگی بھوک۔‘ اور ’جگنو بھر روشنی۔‘ الفاظ سے محبت بھی ان میں پیدائش کے ساتھ ہی پیدا ہوئی۔

کسی زمانے کی کسی لڑائی کے درمیان، ایک گولی تب نوجوان رہے اس آدیواسی کے جبڑے اور گردن کو چیرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ ان کی آواز پر بھی زخم کا گہرا اثر پڑا، جس سے وہ سات سال کے لمبے علاج، ۱۴ سرجری اور بھاری قرض کے بعد بھی باہر نہیں نکل پائے۔ یہ ان کے لیے دوہرا جھٹکا تھا۔ انہوں نے جس برادری میں جنم لیا تھا اس کی تو اس دنیا میں کوئی سنوائی نہیں تھی، لیکن انہیں ذاتی طور پر تحفے کی طرح جو آواز ملی تھی وہ بھی اب بری طرح خراب ہو گئی تھی۔ ہاں، ان کی نظر ضرور پہلے جیسی ہی تیز بنی رہی۔ وجے سنگھ طویل عرصے سے گجراتی ادب کی دنیا کے سب سے بہترین پروف ریڈر رہے ہیں۔ حالانکہ، ان کی خود کی تحریر کو وہ عزت کبھی نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔

یہاں گجراتی رسم الخط میں لکھی وجے سنگھ کی پنچ مہالی بھیلی زبان کی نظم کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے، جو ان کے تذبذب کو بیان کرتا ہے۔

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں، پنچ مہالی بھیلی زبان میں یہ نظم سنیں

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں، انگریزی میں یہ نظم سنیں

મરવું હમુન ગમતું નથ

ખાહડા જેતરું પેટ ભરતાં ભરતાં
ડુંગોર ઘહાઈ ગ્યા
કોતેડાં હુકાઈ ગ્યાં
વગડો થાઈ ગ્યો પાદોર
હૂંકળવાના અન કરહાટવાના દંન
ઊડી ગ્યા ઊંસે વાદળાંમાં
અન વાંહળીમાં ફૂંકવા જેતરી
રઈં નીં ફોહબાંમાં હવા
તેર મેલ્યું હમુઈ ગામ
અન લીદો દેહવટો

પારકા દેહમાં
ગંડિયાં શેરમાં
કોઈ નીં હમારું બેલી
શેરમાં તો ર્‌યાં હમું વહવાયાં

હમું કાંક ગાડી નીં દીઈં શેરમાં
વગડાવ મૂળિયાં
એવી સમકમાં શેરના લોકુએ
હમારી હારું રેવા નીં દીદી
પૉગ મેલવા જેતરી ભૂંય

કસકડાના ઓડામાં
હિયાળે ઠૂંઠવાતા ર્‌યા
ઉનાળે હમહમતા ર્‌યા
સુમાહે લદબદતા ર્‌યા
પણ મળ્યો નીં હમુન
હમારા બાંદેલા બંગલામાં આસરો

નાકાં પર
ઘેટાં-બૉકડાંની જેમ બોલાય
હમારી બોલી
અન વેસાઈં હમું થોડાંક દામમાં

વાંહા પાસળ મરાતો
મામાનો લંગોટિયાનો તાનો
સટકાવે વીંસુની જીમ
અન સડે સૂટલીઈં ઝાળ

રોજના રોજ હડહડ થાવા કરતાં
હમહમીને સમો કાડવા કરતાં
થાય કી
સોડી દીઈં આ નરક
અન મેલી દીઈં પાસા
ગામના ખોળે માથું
પણ હમુન ડહી લેવા
ગામમાં ફૂંફાડા મારે સે
ભૂખમરાનો ભોરિંગ
અન
મરવું હમુન ગમતું નથ.

مرنا ہمیں پسند نہیں

ایک جوتے کے قد جتنا پیٹ بھرتے
پہاڑ دھنس گئے
ندیاں سوکھ گئیں
جنگلات پر گاؤوں کا قبضہ ہو گیا
دہاڑنے اور گریہ وزاری کے دن
اڑ کر پہنچ گئے بادلوں میں
بانسری میں ہوا پھونکوں، اتنی بھی
نہیں بچی پھیپھڑوں میں ہوا۔
اُس وقت چھوڑا اپنا گاؤں
اور ہوئے مسافر…

بیگانے ملک کے
کسی پاگل شہر میں
کوئی نہیں تھا –
ہمارا ہاتھ پکڑنے والا


شہر میں تھے ہم معمولی ذات کے
ہم گہری نہ کر لیں اپنی جنگلاتی جڑیں شہر میں
اس ڈر کے ستائے لوگوں نے
ہمیں پیر رکھنے کی زمین بھی نہ دی۔

پلاسٹک کے کمرے میں
ٹھنڈ میں ٹھٹھرتے رہے
گرمی کے دنوں میں تپتے رہے
بارش میں بھیگتے رہے
مگر ہمیں نہیں ملی
ہمارے ہی بنائے بنگلوں میں پناہ۔

گلی کے چوراہے پر
بھیڑ بکری کی طرح
لگائی جاتی رہی ہماری بولیاں
اور ہم خریدے جاتے رہے دو چار پیسوں میں۔

پیٹھ کے پیچھے
’ماما‘ اور ’لنگوٹیا‘ کے سنائی دیتے طعنے
زہریلے بچھو کے ڈنک جیسے
اور اس کی لہر چڑھ جائے چوٹی تک۔

ہر روز
کتے کی طرح بھگائے جانے کے عوض
لگتا ہے کہ چھوڑ دیں یہ دوزخ،
اور رکھ دیں سر
گاؤں کی گود میں۔
مگر ہمیں ڈسنے
گاؤں میں پھپھکار رہا ہے
بھکمری کا سانپ،
اور
مرنا ہمیں پسند نہیں…

مترجم: محمد قمر تبریز

شاعر کو پھیپھڑوں کا کینسر ہے جو چوتھے مرحلے میں پہنچ چکا ہے، اور اس وقت وہ داہود کے کیزر میڈیکل نرسنگ ہوم میں زیر علاج ہیں۔

Vajesinh Pargi

गुजरातमधील दाहोदस्थित कवी वजेसिंग पारगी पंचमहाली भिली आणि गुजरातीमध्ये लिहितात. त्यांच्या कवितांचे आजवर दोन संग्रह प्रकाशित झाले आहेत, ‘झाकळ ना मोती’ आणि ‘आगियानु अजवाळुं’. त्यांनी नवजीवन प्रेससोबत दहा वर्षांहून अधिक काळ मुद्रितशोधनाचं काम केलं आहे.

यांचे इतर लिखाण Vajesinh Pargi
Illustration : Labani Jangi

मूळची पश्चिम बंगालच्या नादिया जिल्ह्यातल्या छोट्या खेड्यातली लाबोनी जांगी कोलकात्याच्या सेंटर फॉर स्टडीज इन सोशल सायन्सेसमध्ये बंगाली श्रमिकांचे स्थलांतर या विषयात पीएचडीचे शिक्षण घेत आहे. ती स्वयंभू चित्रकार असून तिला प्रवासाची आवड आहे.

यांचे इतर लिखाण Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique