فقیرانی جاٹوں کے ۷۰ سالہ روحانی پیشوا آغا خان ساولانی کہتے ہیں، ’’اس مزار کو ہم نے ایک عارضی بندوبست کے طور پر تعمیر کیا ہے۔ ساولا پیر کا اصل مزار فوجی اہمیت کے مقام ہند-پاک سمندری سرحد پر واقع ہے۔‘‘ جس عارضی ڈھانچہ کا وہ ذکر کر رہے ہیں وہ ایک وسیع و عریض کھلے میدان کے درمیان تنہا کھڑا ایک چھوٹا، ہلکے سبز رنگ کا معمولی سا نظر آنے والا مزار ہے، جو لکھپت تعلقہ میں پِپَڑ بستی کے قریب واقع ہے، اور جو چند گھنٹوں میں ساولا پیر کی تقریب میں شامل ہونے والے عقیدت مندوں سے کھچا کھچ بھر جائے گا۔
اصل مزار ایک جزیرہ پر واقع ہے جو سیکورٹی وجوہات کی بناپر ۲۰۱۹ سے زیارت کے لیے بند ہے۔ اب وہاں بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کی ایک پوسٹ قائم کر دی گئی ہے۔ بائیو کلچرل کمیونٹی پروٹوکول کے مطابق، ’’آزادی سے قبل یہ میلہ کوٹیشور کے دوسری جانب کوری کریک (خلیج) کے جزیرہ پر ساولا پیر کے گھر پر منعقد کیا جاتا تھا۔ اس وقت موجودہ پاکستان کے سندھ صوبہ سے تعلق رکھنے والے جاٹ گڈریے کشتیوں کے ذریعے میلہ میں شرکت کرنے اور دعا کرنے آتے تھے۔‘‘
اس میلہ کی ایک روایت یہ بھی رہی ہے کہ اس میں علاقہ کے ہندو اور مسلمان دونوں گھرانوں اور تمام ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت اور دعا کرتے ہیں۔ فقیرانی برادری کے ذریعہ منعقد کیا جانے والا یہ میلہ ایک سالانہ تقریب ہے، جو گجراتی تقویم کے ماہِ چَیتر کے تیسرے یا چوتھے دن (مارچ اور اپریل کے آس پاس) منعقد ہوتی ہے۔
’’ساولا پیر کے مزار پر دعا کرنے کے لیے سب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے؛ یہاں کوئی تعصب نہیں ہے۔ کوئی بھی آکر اپنی خیر و برکت کے لیے دعا کر سکتا ہے۔ آپ دیر شام تک انتظار کریں اور خود ہی دیکھیں کہ یہاں کیسا ہجوم ہوتا ہے،‘‘ کَچھّ کی پپڑ بستی کے رہائشی سونو جاٹ کہتےہیں۔ ان کی عمر ۴۰ کی دہائی کے آخر میں ہے۔ اس بستی میں تقریباً ۵۰ سے ۸۰ فقیرانی جاٹوں کے کنبے آباد ہیں۔
فقیرانی جاٹ اونٹوں کا ریوڑ رکھتے ہیں اور کئی نسلوں سے ساحلی کچھّ کے خشک اور نیم خشک علاقوں میں مقیم ہیں۔ وہ کچھی اونٹوں کے ساتھ ساتھ کَھرائی نسل کے مقامی اونٹ بھی پالتے ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے یہ گلہ بان (گڈریا) ہیں اور صدیوں سے خانہ بدوش زندگی گزار رہے ہیں۔ روایتی طور پر انہیں ڈیری کسانوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو مکھن، گھی، دودھ، اون اور کھاد جیسی ضروری اشیاء شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کو فراہم کرتے ہیں۔ ان کے ریوڑ میں بھیڑیں، بکریاں، بھینسیں، گائے اور دیگر مقامی نوع کے مویشی بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر وہ خود کو اونٹ بان کے طور پر دیکھتے ہیں، اور اپنے اونٹوں اور کنبوں کے ساتھ پورے علاقے میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ فقیرانی خواتین ریوڑ اور نومولود اونٹوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
اس علاقہ کے ایک صوفی شاعر عمر حاجی سلیمان کہتے ہیں، ’’لیکن ابتدا میں ہم اونٹ نہیں پالتے تھے۔ ایک بار دو رَباری بھائیوں میں اونٹ کی ملکیت پر اختلاف ہوا،‘‘ وہ فقیرانی جاٹ کے ذریعہ معاش کے پس منظر کی کہانی بیان کرنا شروع کرتے ہیں۔ ’’اپنے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے، وہ ہمارے معزز بزرگ ساولا پیر کے پاس گئے، جنہوں نے موم سے ایک اونٹ بنایا اور دونوں بھائیوں سے کہا کہ وہ اصلی اور موم سے بنائے گئے اونٹ میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ بڑے بھائی نے جلدی سے زندہ اونٹ کا انتخاب کر لیا اور وہاں سے چلا گیا۔ چھوٹا بھائی، دیوی داس رباری، مومی اونٹ کے ساتھ وہاں کھڑا رہ گیا۔ فقیر نے دیوی داس کو دعا دی اور اسے یقین دلایا کہ واپسی کے سفر پر اونٹوں کا ریوڑ دیوی داس کے پیچھے آئے گا۔ اس کا ریوڑ اس وقت تک بڑھتا رہے گا اگر وہ گھر پہنچنے تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کا وعدہ کرے۔
’’دیوی داس اپنے تجسس پر قابو نہ رکھ سکا اور گھر پہنچنے سے ٹھیک پہلے ہی مڑ کر واپس دیکھ لیا۔ اس کے پیچھے اونٹوں کی ایک خاصی بڑی تعداد تھی، لیکن اب جب اس نے وعدہ خلافی کی تو تعداد بڑھنا بند ہوگئی۔ ساولا پیر نے دیوی داس سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اسے بہت سارے اونٹ مل جاتے ہیں تو ان کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری جاٹوں کو سونپ دے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی، جاٹ برادری اونٹوں کی نگہبانی کرتی ہے، جو انہیں رباریوں نے تفویض کیے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اور جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، اس کے بعد سے یہاں ہر شخص ساولا پیر کا پیروکار ہے۔‘‘
فقیرانی جاٹ مسلمان ہیں، اور ’ساولا پیر‘، جو تقریباً ۴۰۰ سال پہلے کوری کریک کے ایک جزیرہ پر اپنے اونٹوں کے ریوڑ کے ساتھ رہتے تھے، ان کے محبوب صوفی بزرگ ہیں۔ اور ہر سال کی طرح اس سال بھی انہوں نے لکھپت میں ۲۸ اور ۲۹ اپریل کو دو روزہ میلہ - ساولا پیر نو میلو - کا انعقاد کیا ہے۔
*****
میلہ میں خوب چہل پہل رہتی ہے، جو رنگوں، آوازوں، سرگرمیوں اور جذبات سے معمور رہتا ہے۔ جاٹوں نے شام کی پیشکش کے لیے ایک بڑے چبوترے کے اوپر ایک پنڈال نصب کر دیا ہے۔ کپڑے، کھانے، برتن اور دستکاری کی چھوٹی موٹی دکانیں کھل رہی ہیں۔ چائے پیتا ہوا بزرگوں کا ایک گروپ مجھے دیکھ کر خوش آمدید کہتا ہے، ’’ہمیں بہت خوشی ہے کہ آپ اتنی دور سے اس میلہ میں شرکت کے لیے یہاں آئے ہیں۔‘‘
میلہ میں اب تک بہت سے زائرین پہنچ چکے ہیں۔ کچھ پیدل آئے ہیں، کچھ آٹورکشہ میں سوار ہوکر، لیکن زیادہ تر ٹیمپو ٹریولروں میں بھر کر گروپوں میں آئے ہیں۔ میلے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو شوخ رنگوں کے لباس میں ملبوس ہیں، اور جو بات کرنے یا تصویر کھنچوانے سے گریزاں ہیں۔
رات کے ۹ بجے ہیں اور ڈھولچیوں نے ڈھول بجانا شروع کر دیا ہے۔ ڈھول کی نرم تھاپ کی آواز فضا میں گونجتی ہے۔ ایک بزرگ اچانک ساولا پیر کی شان میں ایک سندھی نغمہ گانا شروع کر دیتے ہیں۔ چند منٹوں میں مزید لوگ ان کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔ کچھ دوسرے لوگ ایک حلقہ بناتے ہیں اور رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں، گانے اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے آہستہ آہستہ آدھی رات ڈھل جاتی ہے۔
اگلا دن ۲۹ اپریل کا ہے جو تقریب کا اصل دن ہے۔ آج کی صبح برادری کے رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے مذہبی مذاکروں سے شروع ہوتی ہے۔ دکانیں سجی ہوئی ہیں، میلہ سے لطف اندوز ہونے اور دعائیں مانگنے کے لیے لوگ بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
’’ہم جلوس نکالنے کے لیے تیار ہیں، سبھی لوگ نماز ادا کرنے کی جگہ پر جمع ہو جائیں،‘‘ سہ پہر تین بجے بلند آواز میں یہ اعلان کیا جاتا ہے۔ مردوں کا ہجوم اپنے سروں کے اوپر لکڑی کی چھوٹی کشتیاں اٹھائے ہوئے ہے۔ ان کشتیوں کو سفید بادبانوں اور رنگ برنگی کڑھائی کے ساتھ مستول پر نصب پرچم سے مزین کیا گیا ہے۔ لوگ آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنی اور دھول کے بادل کے درمیان سے گزرتے ہوئے میلہ کا چکر لگاتے ہیں اور مزار کی طرف جاتے ہوئے خوشی سے شور مچاتے ہیں، گیت گاتے ہیں اور ساولا پیر کے لیے نعرہ بلند کرتے ہیں۔ یہ کشتی ساولا پیر کی موجودگی کی علامت ہے، کیونکہ پیر اپنی کشتی میں سوار ہوکر کریک کے مختلف جزیروں کا سفر کیا کرتے تھے۔
’’میں ہر سال یہاں آتا ہوں۔ ہمیں ساولا بابا کی دعا چاہیے،‘‘ ۴۰ سالہ جیش رباری کہتے ہیں۔ میلہ کے دوران میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ انجار سے آئے ہیں۔ ’’ہم پوری رات یہیں گزارتے ہیں، فقیرانی بھائیوں کے ساتھ چائے پیتے ہیں اور جب تقریب کا اختتام ہوتا ہے تو ہم خوشی خوشی گھر لوٹ جاتے ہیں۔‘‘
’’جب میرا کنبہ کسی مشکل یا مصیت میں ہوتا ہے تو ہم یہاں آ کر منت مانتے ہیں اور ہماری مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔ میں گزشتہ ۱۴سالوں سے یہاں آ رہی ہوں،‘‘ ۳۰ سالہ گیتا بین رباری کہتی ہیں، جو بُھج سے پیدل چل کر میلہ میں آئی ہیں۔
جب دو دن کی تقریبات کے بعد میں شاعر عمر حاجی سلیمان کو الوداع کہنے جاتا ہوں، تو وہ کہتے ہیں، ’’تمام مذاہب بنیادی طور پر محبت کی بنیاد پر قا ئم ہیں۔ یاد رکھیں کہ محبت کے بغیر کوئی مذہب مکمل نہیں ہوتا ہے۔‘‘
مترجم: شفیق عالم