نامدیو ترالے اپنے کھیت میں قدم رکھتے وقت اچانک رک جاتے ہیں۔ پھر ۴۸ سال کے یہ کسان جھک کر کھیت میں لگے سبز چنے کے پودوں کے ایک حصہ کو غور سے دیکھتے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ کسی نے اسے روندا ہے اور کھایا ہے۔ یہ فروری ۲۰۲۲ کی ایک سرد لیکن خوشگوار صبح ہے؛ اوپر آسمان میں چمک رہا سورج زیادہ سخت نہیں ہے۔
’’ ہا ایک پرکارچا دُش کالچ آہے [یہ نئی قسم کی خشک سالی ہے]،‘‘ وہ صفائی سے کہتے ہیں۔
یہ بیان ترالے کی مایوسی اور خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ پانچ ایکڑ زمین کے مالک ہیں، اور انہیں اپنے کھیتوں پر تور اور ہرے چنے کی کھڑی فصلوں کو کھونے کا ڈر ستا رہا ہے، جو تین مہینے کی کڑی محنت کے بعد اب کاٹے جانے کے لیے تیار ہیں۔ کاشتکاری کے اپنے ۲۵ سال سے زیادہ کے تجربے میں، انہوں نے مختلف قسم کی خشک سالی کا مشاہدہ کیا ہے – جیسے کہ موسمیاتی خشک سالی، جب بارش باکل بھی نہیں ہوتی یا حد سے زیادہ ہوتی ہے؛ ہائیڈرولوجیکل، جب زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے چلی جاتی ہے؛ یا زرعی خشک سالی، جب مٹی کے اندر موجود نمی کم ہو جانے کی وجہ سے فصلیں سوکھ جاتی ہیں۔
ترالے غصے سے کہتے ہیں کہ جیسے ہی یہ لگتا ہے کہ اس بار آپ کو اچھی فصل ملی ہے، تو چار ٹانگوں والی یہ آفت آ جاتی ہے یا کھیت کے اوپر اڑنے لگتی ہے اور ایک ایک کرکے پوری فصل کو چٹ کر جاتی ہے۔
ان خطروں کو گناتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’دن میں بطخ، بندر، خرگوش؛ رات میں ہرن، نیل گائے، سامبر، سؤر، شیر۔‘‘
وہ شکست خوردہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’ آمہالے پیرتا ییتے صاحب، پن واچوتا ییت ناہی [ہم اپنی فصل کی بوائی کرنا تو جانتے ہیں، لیکن اس کی حفاظت کرنا نہیں جانتے۔‘‘ وہ کپاس یا سویابین جیسی نقدی فصلوں کے علاوہ عام طور سے سبز چنا، مکئی، جوار، اور ارہر کی دال اگاتے ہیں۔
جنگل اور معدنیات سے مالا مال مہاراشٹر کے چندر پور ضلع کے دھامنی گاؤں میں یہ ناراضگی صرف ترالے کی ہی نہیں ہے۔ اس ضلع کے متعدد گاؤوں اور تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو (ٹی اے ٹی آر) کے ارد گرد علاقوں کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کے دوسرے حصوں میں رہنے والے کاشتکاروں کو بھی اسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
چپرالا گاؤں میں ترالے کے کھیت سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور، ۴۰ سالہ گوپال بونڈے بھی اتنے ہی پریشان ہیں۔ یہ فروری ۲۰۲۲ کا وسط ہے اور کوئی بھی آدمی ان کے لمبے چوڑے ۱۰ ایکڑ کھیت میں خاموش تباہی کو دیکھ سکتا ہے، جس کے آدھے حصے پر سبز چنے کی کھیتی کی گئی ہے۔ جگہ جگہ فصل کو کچل دیا گیا ہے – جیسے کسی نے انتقامی کارروائی کی ہو، فصل اکھاڑ دی ہو، پھلیاں ہڑپ کر لی ہوں اور کھیتوں کو تباہ کر دیا ہو۔
بونڈے سے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی، اس کے تقریباً ایک سال بعد، جنوری ۲۰۲۳ میں وہ ہم سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب میں رات کو سونے جاتا ہوں، تو مجھے یہ فکر ستاتی ہے کہ شاید اگلی صبح میں اپنی فصل نہیں دیکھ پاؤں گا۔‘‘ اور اس لیے سردی کا موسم ہو یا بارش، وہ رات میں کم از کم ایک دو بار اپنی موٹر سائیکل سے کھیت کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ دیر تک سو نہیں پانے، اور سردی کی وجہ سے وہ اکثر بیمار پڑ جاتے ہیں۔ گرمیوں میں، جب کھیت میں کوئی فصل نہیں ہوتی ہے تو انہیں وہاں نہیں جانا پڑتا ہے۔ لیکن باقی وقت میں، خاص طور پر کٹائی کے دوران انہیں ہر رات چکر لگانا پڑتا ہے۔ یہ بات وہ سردیوں کی ایک صبح کو اپنے گھر کے سامنے کے صحن میں کرسی پر بیٹھے ہوئے بتاتے ہیں۔
جنگلی جانور سال بھر کھیتوں کو چرتے رہتے ہیں: سردیوں میں جب کھیت سبز ہوتے ہیں اور مانسون کے دوران وہ پودوں میں نئی نکلنے والی شاخوں کو چرتے ہیں۔ گرمیوں میں، وہ کھیتوں میں پانی سمیت ہر چیز پر اچھل کود کرتے ہیں۔
اسی لیے، بونڈے کو جنگلی جانوروں کے ’’رات کے وقت جب وہ سب سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں‘‘ چھپے ہونے کا اندازہ لگانا پڑتا ہے اور اگر جانوروں نے ان کی فصل کو تباہ کر دیا ہے، تو ’’روزانہ چند ہزار روپے‘‘ کے مالی نقصانات کا حساب بھی لگانا پڑتا ہے۔ چھپی ہوئی جنگلی بلیاں مویشیوں کو بھی مار دیتی ہیں۔ ایک دہائی میں وہ شیر اور تیندوے کے حملوں میں کم از کم دو درجن گائیں کھو چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہر سال ان کا گاؤں، شیروں کے حملوں میں اوسطاً ۲۰ مویشی کھو دیتا ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ جنگلی جانوروں کے حملوں میں لوگ زخمی یا موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مہاراشٹر کے سب سے قدیم اور سب سے بڑے قومی پارکوں اور جنگلی حیات کے محفوظ مقامات میں شامل ٹی اے ٹی آر، تاڈوبا نیشنل پارک اور ملحقہ اندھاری وائلڈ لائف سینکچری کو آپس میں جوڑتا ہے، اور یہ چندر پور ضلع کی تین تحصیلوں کے ۱۷۲۷ مربع کلومیٹر رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ انسانوں اور جانوروں کے درمیان ٹکراؤ کی بڑی جگہوں میں سے ایک ہے۔ این ٹی سی اے کی ۲۰۲۲ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ وسطی ہندوستان کے پہاڑی علاقے، جس کا ٹی اے ٹی آر ایک حصہ ہے، کی سال ۲۰۱۸ میں ۱۰۳۳ کی تخمینہ شدہ آبادی کے مقابلے ’’شیروں کی آبادی میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس میں ۱۱۶۱ منفرد شیروں کی تصویریں کھینچی گئی ہیں‘‘۔
نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی (این ٹی سی اے) کی سال ۲۰۱۸ کی رپورٹ کے مطابق، ریاست مہاراشٹر میں کل ۳۱۵ سے زیادہ شیر ہیں، جن میں سے تقریباً ۸۲ شیر اکیلے تاڈوبا میں ہیں۔
ودربھ تک پھیلے ہوئے اس حصے کے دسیوں گاؤوں میں، ترالے یا بونڈے جیسے کسان – جن کے پاس کھیتی باڑی کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں ہے، وہ جنگلی جانوروں کو روکنے کے لیے عجیب و غریب حربے آزماتے ہیں۔ وہ شمسی بیٹری سے چلنے والی باڑیں بناتے ہیں جن کو چھونے سے بجلی کا جھٹکا لگتا ہے، اپنے کھیتوں اور یہاں تک کہ جنگلات کے کنارے کنارے سستی اور رنگ برنگی نایلان کی ساڑیاں باندھ دیتے ہیں؛ پٹاخے پھوڑتے ہیں؛ کتوں کے جھنڈ سے نگرانی کراتے ہیں اور جانوروں کی آوازیں نکالنے والے جدید ترین چینی گیجٹس بجاتے ہیں۔
کچھ بھی کام نہیں کرتا۔
بونڈے کا چپرالا اور ترالے کا دھامنی گاؤں ٹی اے ٹی آر کے بفر ژون کے قریب ہے، جو کہ ایک خشک پت جھڑ جنگل، ہندوستان کے شیروں کا ایک اہم محفوظ علاقہ، اور ایک سیاحتی مقام ہے۔ یہاں، محفوظ جنگل کے بنیادی علاقے کے قریب ہونے کی وجہ سے، کسان جنگلی جانوروں کے حملوں سے اکثر پریشان رہتے ہیں۔ بفر ژون اس علاقہ کو کہتے ہیں جہاں انسانوں کی رہائش کے چاروں طرف محفوظ جنگل ہوتا ہے۔ اس جنگل میں انسانی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہوتی اور اس کا انتظام ریاستی محکمہ جنگلات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
صورتحال خاص طور پر مشرقی مہاراشٹر کے ودربھ علاقے میں تشویش ناک ہے جس میں چندر پور سمیت ۱۱ اضلاع شامل ہیں۔ ودربھ، ہندوستان کے کچھ آخری بچے ان محفوظ جنگلات والے علاقوں میں سے ایک ہے جہاں شیروں اور جنگلی جانوروں کی آبادی ہے۔ ویسے یہ خطہ دیہی گھرانوں میں سب سے زیادہ مقروض ہونے اور کسانوں کی خودکشیوں کے واقعات کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
مہاراشٹر کے جنگلات کے وزیر سدھیر مُنگنٹیوار کے ایک بیان کے مطابق، اکیلے ۲۰۲۲ میں چندر پور ضلع کے اندر شیروں اور تیندوے کے حملے میں ۵۳ افراد مارے گئے۔ ریاست میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، جنگلی جانوروں کے حملے میں – زیادہ تر ٹی اے ٹی آر کے علاقے میں – تقریباً ۲۰۰۰ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یہ حملے زیادہ تر شیر، کالے ریچھ، جنگلی سؤر وغیرہ کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ کم از کم ۲۰-۱۵ ’پرابلم ٹائیگرز‘ – انسانوں کے ساتھ ٹکراؤ والے انفرادی شیروں – کو قابو میں کرنا پڑا ہے – جو اس بات کا ثبوت ہے کہ چندر پور شیروں اور انسانوں کے درمیان ٹکراؤ کا ایک بڑا مرکز ہے۔ جانوروں کے حملے میں زخمی ہونے والوں کی کوئی باقاعدہ گنتی نہیں کی گئی ہے۔
اکیلے مرد ہی جنگلی جانوروں کا سامنا نہیں کر رہے ہیں، بلکہ خواتین کو بھی اس سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
ناگپور ضلع کے بیلارپار گاؤں میں عمر کی پچاسویں دہائی میں چل رہیں ایک قبائلی کسان، ارچنا بائی گائیکواڑ کہتی ہیں، ’’ہم خوف کے عالم میں کام کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے شیر کو اپنے کھیتوں میں کئی بار دیکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر ہمیں لگتا ہے کہ آس پاس کوئی شیر یا تیندوا ہے، تو ہم لوگ عام طور پر اپنے کھیتوں سے نکل جاتے ہیں۔‘‘
*****
’’اگر ہم اپنے کھیتوں میں پلاسٹک اگائیں، تو وہ [جنگلی جانور] اسے بھی کھا جائیں گے!‘‘
گوندیا، بلڈھانہ، بھنڈارا، ناگپور، وردھا، واشم اور یوتمال ضلعوں میں کسانوں کے ساتھ یہ سرسری بات چیت اب مزیدار ہونے لگتی ہے۔ وردبھ کے علاقے سے گزرنے والے لوگ اس نامہ نگار کو بتاتے ہیں کہ ان دنوں جنگلی جانور کپاس کی سبز کلیوں کو بھی کھا رہے ہیں۔
ناگپور ضلع میں ٹی اے ٹی آر کے کنارے آباد بیلارپار گاؤں کے مان برادری سے تعلق رکھنے والے ۵۰ سالہ کسان، پرکاش گائیکواڑ بتاتے ہیں، ’’فصل کی کٹائی کے دوران، ہم اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر رات دن کھیتوں میں ہی رہ کر فصل کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘
گوپال بونڈے کے گاؤں چپرالہ میں ہی رہنے والے ۷۷ سالہ دتو جی تاجنے کہتے ہیں، ’’بیماری کی حالت میں بھی، ہمیں کھیتوں پر رہ کر فصلوں کی حفاظت کرنی پڑتی ہے، ورنہ ہم ایک دانہ بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ایک زمانہ تھا جب میں اپنے کھیت پر بغیر کسی خوف کے سو سکتا تھا؛ اب ایسا نہیں کر سکتا؛ ہر طرف جنگلی جانور ہیں۔‘‘
اس پچھلی دہائی میں ترالے اور بونڈے نے اپنے گائوں میں نہروں، کنویں اور بورویلوں کی شکل میں آبپاشی کی سہولیات کو فروغ پاتے دیکھا ہے۔ اس کی وجہ سے انہیں روایتی کپاس یا سویابین کے علاوہ سال بھر میں دو یا تین فصلیں اگانے کا موقع مل جاتا ہے۔
لیکن اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے: کھڑی فصلوں کے ساتھ سرسبز و شاداب کھیتوں کا مطلب ہے ہرن، نیل گائے اور سامبر جیسے سبزی خور جانوروں کے لیے وافر چارہ۔ اور جہاں پر یہ سبزی خور جانور موجود ہوں، وہاں ان پر گھات لگائے گوشت خور جانوروں کا ہونا بھی فطری ہے۔
ترالے یاد کرتے ہیں، ’’ایک دن، میں ایک طرف بندروں سے پریشان تھا تو دوسری طرف جنگلی سؤروں سے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے مجھے امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے – گویا وہ مجھے چھیڑ رہے ہوں۔‘‘
ستمبر ۲۰۲۲ میں، بونڈے ہاتھ میں بانس کی چھڑی لیے ایک دن ہمیں اپنا کھیت گھمانے لے جاتے ہیں جہاں سویابین، کپاس اور دیگر فصلیں اگ رہی ہیں۔ یہ کھیت ان کے گھر سے تقریباً دو تین کلومیٹر دور ہے، جہاں پیدل چل کر جانے میں ۱۵ منٹ لگتے ہیں۔ ان کے کھیت سے ملحق ایک نالہ ہے جو کھیتوں کو گھنے اور انتہائی پرسکون جنگل سے الگ کرتا ہے۔
کھیت کے ارد گرد گھومتے ہوئے، وہ ہمیں گیلی کالی زمین پر خرگوش سمیت لگ بھگ ایک درجن جنگلی جانوروں کے کھُر (قدموں) کے نشان دکھاتے ہیں۔ ان جانوروں نے فصلوں کو کھا لیا، سویابین کو روند دیا اور سبز ٹہنیاں اکھاڑ دی ہیں۔
بونڈے نے آہ بھرتے ہوئے کہا، ’’ آتا کا کرتا، سانگا؟ [آپ ہی بتائے، اب میں کیا کروں!]۔‘‘
*****
اگرچہ تاڈوبا کے جنگلات مرکزی حکومت کے پروجیکٹ ٹائیگر پروگرام کے ایک حصے کے طور پر شیروں کے تحفظ کے لیے ایک اہم توجہ کا مرکز ہیں، تاہم اس علاقے میں شاہراہوں، آبپاشی کی نہروں اور نئی کانوں کی مسلسل ترقی دیکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے جنگل کے محفوظ علاقوں میں کمی آئی ہے، لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا ہے اور جنگل کی ماحولیات متاثر ہوئی ہے۔
کانکنی ان علاقوں میں تجاوزات کر رہی ہے جو پہلے شیروں کے علاقے تھے۔ چندر پور ضلع میں ۳۰ سے زیادہ فعال سرکاری اور نجی شعبے کی کوئلے کی کانوں میں سے تقریباً دو درجن کانیں گزشتہ دو دہائیوں میں جنوبی اور مغربی حصوں میں آچکی ہیں۔
ماحولیاتی کارکن اور تحفظ پسند بندو دھوترے کہتے ہیں، ’’شیر کوئلے کی کانوں کے قریب یا چندر پور سپر تھرمل پاور اسٹیشن (سی ایس ٹی پی ایس) کے کیمپس میں دیکھے گئے ہیں۔ یہ علاقے انسان اور جانوروں کے درمیان ٹکراؤ کے تازہ ترین مقامات ہیں۔ ہم نے ان کے مسکن پر قبضہ کر لیا ہے۔‘‘ شیروں کے تخمینے پر این ٹی سی اے ۲۰۲۲ کی رپورٹ کے مطابق، وسطی ہندوستان کے پہاڑی علاقوں میں کانکنی کی سرگرمیوں کا زیادہ ارتکاز تحفظ کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
ٹی اے ٹی آر بڑے وسطی ہندوستانی جنگلات کے علاقے کا ایک حصہ ہے جس میں پڑوسی یوتمال، ناگپور اور بھنڈارا ضلعوں کے جنگلاتی علاقے شامل ہیں۔ این ٹی سی اے کی ۲۰۱۸ کی رپورٹ کے مطابق، ’’یہی وہ علاقہ ہے جہاں انسانوں اور شیروں کے درمیان سب سے زیادہ ٹکراؤ ہوتا ہے۔‘‘
جنگلی حیات کے ماہر حیاتیات اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (آئی آئی ایس ای آر)، پونہ کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ملند واٹوے کہتے ہیں، ’’اس مسئلے کے کسانوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے تحفظ کے لیے بہت بڑے قومی معاشی نتائج ہیں۔‘‘
قوانین محفوظ جنگلاتی علاقوں کی حفاظت کرتے ہیں اور جنگلی حیات کا تحفظ کرتے ہیں، لیکن فصلوں اور مویشیوں کے نقصانات کسانوں کی طرف سے غیر متناسب طور پر برداشت کیے جا رہے ہیں۔ واٹوے بتاتے ہیں کہ جانوروں کے حملوں سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کسانوں کو ناراض کر دیتے ہیں، اس طرح تحفظ کے اقدامات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ قوانین ریوڑ سے ان ناپسندیدہ جانوروں کو مارنے یا ختم کرنے کے عمل کو بھی روکتے ہیں جو غیر پیداواری ہیں یا افزائش کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
واٹوے نے ۲۰۱۵ سے ۲۰۱۸ کے درمیان ٹی اے ٹی آر کے آس پاس کے پانچ گاؤوں میں تقریباً ۷۵ کسانوں کے ساتھ ایک فیلڈ اسٹڈی کی۔ ودربھ ڈیولپمنٹ بورڈ کے ذریعہ مالی اعانت فراہم کرنے والے مطالعہ کے ذریعہ، انہوں نے کسانوں کے لیے جانوروں کے حملوں کی وجہ سے اپنے سال بھر کے نقصانات کی اجتماعی طور پر رپورٹ کرنے کا ایک نظام بنایا۔ انہوں نے تخمینہ لگایا کہ فصل کا نقصان اور مالی نقصان ۵۰ سے ۱۰۰ فیصد کے درمیان تھا – یا فصل کے لحاظ سے فی ایکڑ سالانہ ۲۵ ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے کے درمیان کا مالی نقصان تھا۔
جب تک معاوضہ نہیں ملتا، بہت سے کسان فصلوں کے محدود انتخاب پر قائم رہتے ہیں یا اپنے کھیتوں کو بنجر چھوڑ دیتے ہیں۔
ریاستی محکمہ جنگلات فصلوں کے نقصانات یا جنگلی جانوروں کے ہاتھوں مارے گئے مویشیوں کے لیے کسانوں کو ۸۰ کروڑ روپے کا سالانہ معاوضہ تقسیم کرتا ہے۔ یہی بات جنگلاتی فورس کے اس وقت کے سربراہ، مہاراشٹر کے پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ سنیل لمیے نے مارچ ۲۰۲۲ میں پاری کو بتائی تھی۔
اس مسئلہ پر کسانوں کو متحرک کرنے کے لیے کوشاں، عمر کی ۷۰ویں دہائی میں چل رہے وٹھل بڈکھل کہتے ہیں، ’’موجودہ نقد معاوضہ بہت کم ہے۔ کسان عام طور پر معاوضے کا دعویٰ نہیں کرتے کیونکہ یہ عمل بہت مشکل ہوتا ہے اور تکنیکی طور پر اسے سمجھنا مشکل ہے۔‘‘
بونڈے نے چند ماہ قبل ایک گائے سمیت مزید مویشی کھو دیے تھے۔ سال ۲۰۲۲ میں، انہوں نے تقریباً ۲۵ بار معاوضے کے لیے دعویٰ کیا تھا۔ انہیں ہر بار ایک فارم بھرنا پڑتا تھا، مقامی محکمہ جنگلات اور محصولات کے حکام کو مطلع کرنا پڑتا تھا، مقامی حکام کو ایک لازمی جگہ کا پنچنامہ (یا معائنہ) کرنے کے لیے قائل کرنا پڑتا تھا، اپنے اخراجات کا ریکارڈ رکھنا پڑتا تھا، اور جمع کرائے گئے اپنے دعوے کی پیش رفت کا پتہ لگانا پڑتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ معاوضہ ملنے میں مہینوں لگ جائیں گے۔ ’’اور یہ میرے تمام نقصانات کو پورا نہیں کرے گا۔‘‘
دسمبر ۲۰۲۲ کی ایک سرد صبح کو، بونڈے ہمیں ایک بار پھر اپنے کھیت پر لے جاتے ہیں، جو نئے بوئے ہوئے سبز چنے سے لہلہا رہا ہے۔ جنگلی سؤر پہلے ہی نازک ٹہنیوں کو چبا چکے ہیں اور بونڈے فصل کی قسمت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔
اس کے بعد کے مہینوں میں وہ زیادہ تر فصل کو بچانے میں کامیاب رہے، سوائے چند ٹکڑوں کے جو ممکنہ طور پر ہرن کے ریوڑ نے کھا لیے تھے۔
جانوروں کو چارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے ہی بونڈے، ترالے اور دیگر کسانوں کو بھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ان کے کھیتوں پر دونوں کی ضرورتیں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز