جلیاں والا باغ نئے پنپ رہے قومی شعور کا ایک اہم موڑ تھا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ سنتے ہوئے بڑے ہوئے کہ بھگت سنگھ کی کہانی وہیں سے شروع ہوئی تھی – جب ۱۰ سال کی عمر میں، انھوں نے اُس جگہ کا دورہ کیا اور خون سے آلودہ مٹی کو ایک چھوٹی سی بوتل میں بھر کر اپنے گاؤں لے آئے تھے۔ وہاں، اُس مٹی کو انھوں نے اپنی بہن کے ساتھ مل کر اپنے دادا کے گھر میں بنے باغیچہ میں ایک جگہ پر ڈال دیا۔ پھر، اس جگہ پر انھوں نے ہر سال پھول اُگائے۔
ایسا لگتا ہے کہ ۱۳ اپریل، ۱۹۱۹ کو پنجاب کے امرتسر میں ایک ہزار نہتّے شہریوں (انگریزوں کا کہنا ہے کہ وہ ۳۷۹ تھے) کا قتل عام، مجرموں یا ان کی آئندہ حکومتوں کے ضمیر کو ابھی تک جھنجھوڑ نہیں پایا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ٹیریسا مے نے اس ہفتہ اپنی پارلیمنٹ میں اس پر افسوس کا اظہار کیا – لیکن ظلم کی انتہا کے لیے کوئی معافی نہیں مانگی۔
آپ کو جلیاں والا باغ کا دورہ کرنے کے لیے کرشمائی طور پر بے حس اور سخت جان ہونا پڑے گا۔ ۱۰۰ سال گزر چکے ہیں، لیکن قصداً کیے گئے اس قتلِ عام کی چیخیں ابھی بھی اس باغ میں گونج رہی ہیں۔ تقریباً ۳۵ سال قبل جب میں وہاں گیا تھا، تو پاس کی دیوار پر یہ سطور لکھنے سے خود کو روک نہیں پایا تھا:
انھوں نے ہم نہتے لوگوں پر وار کیا
مجمع میں بھگدڑ مچ گئی
انھوں نے اپنے لاٹھی ڈنڈوں کا استعمال کیا
ہماری ہڈیاں ٹوٹ گئیں
انھوں نے گولی چلا دی
کئی سانسیں ٹوٹ گئیں
ہمارا حوصلہ نہیں ٹوٹا
ان کی سلطنت ٹوٹ گئی
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)