منجیت کور (۴۸) اپنے دونوں ہاتھوں سے، مویشیوں کے باڑے میں مٹی اور اینٹ سے بنے فرش سے بھینس کا گوبر اٹھاتی ہیں۔ اکڑوں (دو زانو) بیٹھ کر وہ فرش پر باقی بچے گوبر کو بھی صاف کرتی ہیں اور اسے ایک بالٹا (ٹب) میں جمع کرتی ہیں۔ پھر اسے اپنے سر پر اٹھاتی ہیں اور پوری احتیاط سے وزن کو سنبھالتے ہوئے لکڑی سے بنے دروازے کو پار کرتی ہیں، اور تقریباً ۵۰ میٹر دور گوبر کے ایک ڈھیر پر لے جا کر اسے پلٹ دیتی ہیں۔ گوبر کے اس ٹیلے کی اونچائی ان کے سینہ کے برابر پہنچ چکی ہے، جو اُن کی مہینوں کی محنت کا ثبوت ہے۔
یہ اپریل کا مہینہ ہے اور دوپہر کے وقت سورج کی تپش اپنے عروج پر ہے۔ منجیت، گوبر پھینکنے کے لیے اسی طرح ۸ چکّر لگاتی ہیں اور آخر میں ننگے ہاتھوں سے ہی اُس ٹب کو پانی سے دھوتی ہیں۔ آج کا کام ختم کرنے سے پہلے، وہ اسٹیل کے ایک چھوٹے سے ڈبے میں بھینس کا آدھا لیٹر دودھ نکالتی ہیں، جو اُن کے ننھے سے پوتے کے پینے کے کام آئے گا۔
وہ صبح ۷ بجے سے ہی کام کر رہی ہیں، اور یہ چھٹا گھر ہے جس کا کام انہوں نے ابھی ابھی ختم کیا ہے۔ یہ سبھی گھر جاٹ سکھوں کے ہیں، جو پنجاب کے ترن تارن ضلع کے حویلیاں گاؤں کے بڑے زمیندار ہیں اور یہاں پر انہیں کا غلبہ ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’مجبوری ہے۔‘‘ یہ ان کی بے بسی ہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے مویشیوں کے باڑے کی صفائی کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ انہیں تو ٹھیک سے یہ بھی نہیں معلوم کہ اپنے سر پر وہ ایک دن میں کتنا گوبر ڈھوتی ہیں، اس کا وزن کتنا ہوتا ہے، البتہ وہ کہتی ہیں، ’’بڈّا سِر دُکھدا ہے، بھار چُکدے چُکدے [اتنا وزن اٹھانے کی وجہ سے میرے سر میں کافی درد ہونے لگتا ہے]۔‘‘
گھر لوٹتے وقت ان کے راستے میں سنہری بالیوں والے گیہوں کے کھیت دور دور تک نظر آ رہے ہیں۔ بیساکھی کے فوراً بعد ان فصلوں کی کٹائی شروع ہو جائے گی۔ بیساکھی اپریل میں ہی منائی جاتی ہے اور پنجاب میں یہ فصلوں کی کٹائی کے آغاز کا تہوار ہے۔ حویلیاں کے جاٹ سکھوں کی زیادہ تر زمین گنڈی وِنڈ بلاک میں ہے، جہاں وہ عام طور سے چاول اور گیہوں کی کھیتی کرتے ہیں۔
بہرحال، منجیت نے ٹھنڈی چپاتی (روٹی) اور چائے کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا اور ایک گھنٹے تک آرام کیا۔ اب انہیں پیاس لگی ہوئی ہے۔ لیکن، وہ اپنے اونچی ذات کے آجروں کے بارے میں شکایت کرتے ہوئی کہتی ہیں، ’’اتنی گرمی پڑ رہی ہے، پھر بھی وہ ہمیں پانی تک کے لیے نہیں پوچھتے ہیں۔‘‘
منجیت کا تعلق ’مذہبی سکھ‘ نام کی ایک دلت برادری سے ہے۔ تقریباً دو دہائی قبل، انہوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ ہندوستان ٹائمز کی ۲۰۱۹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، حویلیاں کی دو تہائی آبادی درج فہرست ذات اور پس ماندہ ذات کے لوگوں کی ہے جو دہاڑی یا زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بقیہ لوگ جاٹ سکھ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، جاٹ سکھوں کے تقریباً ۱۵۰ کھیت سرحد پر لگے تاروں کے باڑ کے درمیان میں ہیں، جہاں سے پاکستان کی سرحد صرف ۲۰۰ کی دوری پر ہے۔
حویلیاں گاؤں کی دلت عورتیں یا تو گوبر اکٹھا کرتی ہیں اور مویشیوں کے باڑے کی صفائی کرتی ہیں یا جاٹ سکھوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔
منجیت کہتی ہیں، ’’غریباں دا سرکار نہی سوچ دی تاں ہی تے گوہا چُکدے ہاں اسی [سرکار غریب لوگوں کے بارے میں نہیں سوچتی ہے، تبھی تو ہم گوبر اٹھا رہے ہیں]۔‘‘
آپ کو مزدوری کی شکل میں کیا ملتا ہے؟
منجیت کے مطابق، ’’ایک گائے یا بھینس (کے گوبر کی صفائی) کے بدلے ہمیں ہر چھ مہینے پر ایک من [تقریباً ۳۷ کلو کے برابر] گیہوں یا چاول ملتا ہے۔ یہ فصل کے سیزن کے اوپر منحصر ہے۔‘‘
منجیت سات گھروں میں کام کرتی ہیں، جن میں کل ملا کر ۵۰ ڈانگر [مویشی] ہیں۔ ’’ایک گھر میں ۱۵ ہیں، دوسرے میں سات ہیں۔ جو تیسرا گھر ہے اس میں پانچ بھینسیں ہیں؛ چوتھے گھر میں چھ ہیں…‘‘ منجیت باضابطہ گنتی شروع کر دیتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ سب کے سب گیہوں اور چاول کا صحیح صحیح حصہ دیتے ہیں۔ صرف ایک گھر ہے جو ۱۵ ڈانگروں کے عوض میں ’’صرف ۱۰ من [۳۷۰ کلو] اناج دیتا ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ ان کا کام چھوڑ دوں۔‘‘
جس گھر میں سات بھینسیں ہیں، منجیت نے اپنے نوزائیدہ پوتے کے لیے کپڑے خریدنے اور گھر کے دیگر اخراجات کے لیے وہاں سے ۴۰۰۰ روپے کا قرض لیا ہے۔ مئی میں اس گھر میں اپنے کام کے چھ مہینے مکمل ہونے پر جب انہیں ان کے حصے کا گیہوں ملا، تب بازار کے حساب سے گیہوں کی قیمت طے کرکے ان کے حصے سے اتنا گیہوں کاٹ لیا گیا۔
سات مویشیوں کے حساب سے ان کی مزدوری سات من یا تقریباً ۲۶۰ کلو بنتی ہے۔
فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے مطابق، اس سال ایک کوئنٹل (۱۰۰ کلو) گیہوں کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) ۲۰۱۵ روپے ہے۔ اس حساب سے منجیت کے ۲۶۰ کلو گیہوں کی قیمت ۵۲۴۰ روپے بنتی ہے۔ اپنا قرض چکانے کے بعد ان کے پاس گیہوں کی قیمت کے طور پر صرف ۱۲۴۰ روپے ہی بچیں گے۔
انہیں سود کی رقم بھی نقد کی شکل میں ہی ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’قرض کے پیسے کے عوض میں وہ ہر ۱۰۰ روپے پر ۵ روپے کا سود وصول کرتے ہیں۔‘‘ اس لحاظ سے یہ سالانہ ۶۰ فیصد کی شرح سود ہوئی۔
اپریل کے وسط تک انہیں سود کے طور پر ۷۰۰ روپے ادا کرنے پڑے تھے۔
منجیت اپنی سات رکنی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں – ۵۰ کی عمر پار کر چکے ان کے شوہر ایک زرعی مزدور ہیں، ان کا ۲۴ سال کا بیٹا بھی ایک زرعی مزدور ہی ہے۔ ان کی بہو، دو پوتے پوتیاں اور ۲۲ و ۱۷ سال کی دو غیر شادی شدہ بیٹیاں فیملی کے دیگر رکن ہیں۔ دونوں بیٹیاں جاٹ سکھوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں، اور دونوں ہر مہینے پانچ پانچ سو روپے کماتی ہیں۔
منجیت نے اپنے ایک دوسرے آجر سے ۲۵۰۰ روپے الگ سے لیے ہیں۔ یہ رقم انہیں سود کے بغیر ملی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ گھر کے راشن کی خریداری، دوا دارو کے خرچ، رشتہ داریوں میں شادیاں اور دوسرے مواقع پر ہونے والے چھوٹے موٹے اخراجات کے لیے، مبینہ اونچی ذات کے گھروں سے چھوٹے موٹے قرض لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ انہیں مویشیوں کی خریداری اور دیگر اخراجات کے لیے عورتوں کی مدد کرنے والے چھوٹی بچت کے گروہوں کی ماہانہ قسطیں چکانے کے لیے بھی پیسے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
مارچ ۲۰۲۰ کو جاری کیے گئے ایک تحقیقی مقالہ ’دلت ویمن لیبررز اِن رورل پنجاب: اِنسائٹ فیکٹس‘ میں پٹیالہ کی پنجابی یونیورسٹی میں اقتصادیات کے (سابق) پروفیسر ڈاکٹر گیان سنگھ کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم کے ذریعے کیے گئے ایک سروے میں یہ پایا گیا کہ دیہی پنجاب میں ۳ء۹۶ فیصد دلت خواتین مزدوروں کے کنبے اوسطاً ۵۴۳۰۰ روپے کے قرض میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور، قرض کی رقم کا تقریباً ۴۰ء۸۰ فیصد حصہ غیر ادارہ جاتی ذرائع سے آیا تھا۔
حویلیاں گاؤں کی ایک اور دلت خاتون اور سُکھبیر کور (۴۹) بتاتی ہیں کہ پرانے آجر ویاج (سود) نہیں لگاتے ہیں، صرف نئے آجر (مالک) ہی سود کی وصولی کرتے ہیں۔
سکھبیر، منجیت کی فیملی کی رشتہ دار ہیں اور بغل میں ہی اپنے دو کمروں کے گھر میں رہتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر اور ۲۰ سال سے زیادہ کی عمر کے دو نوجوان بیٹوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ تینوں دہاڑی یا زرعی مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ کام مل جانے پر ان کا روز کا محنتانہ ۳۰۰ روپے ہوتا ہے۔ سکھبیر بھی پچھلے پندرہ سالوں سے جاٹ سکھوں کے گھروں میں گوبر اٹھانے اور مویشیوں کے باڑے کی صفائی کرنے کا کام کرتی ہیں۔
وہ ایسے دو گھروں میں کام کرتی ہیں، جن میں کل ملا کر ۱۰ مویشی ہیں۔ تیسرے گھر میں وہ ۵۰۰ روپے ماہانہ پر گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔ وہ صبح نو بجے سے پہلے اپنے کام پر نکل جاتی ہیں، لیکن ان کے گھر واپس لوٹنے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا ہے۔ سکھبیر کہتی ہیں، ’’کبھی کبھی میں دوپہر میں ۳ بجے ہی لوٹ آتی ہوں، اور کئی بار مجھے واپس لوٹنے میں شام کے چھ بھی بج جاتے ہیں۔ گھر لوٹنے کے بعد مجھے کھانا پکانے کے علاوہ، گھر کے دوسرے کام بھی نمٹانے ہوتے ہیں۔ جب میں سونے کے لیے بستر پر پہنچتی ہوں، تو رات کے ۱۰ بج چکے ہوتے ہیں۔‘‘
سکھبیر بتاتی ہیں کہ منجیت کی حالت تھوڑی بہتر ہے، کیوں کہ ان کی بہو گھر کے زیادہ تر کام خود ہی کر لیتی ہیں۔
منجیت کی طرح سکھبیر بھی اپنے آجروں سے لیے گئے قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ تقریباً پانچ سال قبل، اپنی بیٹی کی شادی کے لیے انہوں نے اپنے ایک آجر سے ۴۰ ہزار روپے قرض لیے تھے۔ قرض کی قسط کے طور پر ہر چھ مہینے پر اپنی مزدوری میں ملنے والے چھ من (تقریباً ۲۲۰ کلو) گیہوں یا چاول کا ایک بڑا حصہ چُکانے کے بعد بھی ان کا قرض ابھی ادا نہیں کیا جا سکا ہے۔
قرض کی بقیہ رقم کا حساب کتاب ہر چھ مہینے پر کیا جاتا ہے، لیکن خاندانی تقریبات اور دیگر گھریلو اخراجات کے سبب ان کے اوپر دوسرے قرضے بھی ہیں۔ سکھبیر کہتی ہیں، تے چلدا ہی ریہندا ہے [یہ سب چلتا ہی رہتا ہے]۔ انہی وجہوں سے ہم قرض کے جال سے باہر نہیں نکل پاتے۔‘‘
کئی بار انہیں اُس فیملی کے لیے کچھ اضافی کام بھی کرنا پڑتا ہے جس سے انہوں نے قرض لیے ہیں۔ سکھبیر کہتی ہیں، ’’چونکہ ہم نے ان سے اُدھار لیا ہوا ہوتا ہے، اس لیے ہم ان کے کسی حکم کو ٹال نہیں پاتے ہیں۔ اگر ہم کبھی ایک دن کے لیے بھی کام پر نہ جا پائیں، تو ہمیں ان کی کھری کھوٹی سننی پڑتی ہے۔ وہ ہمیں اپنے پیسے چکانے کے لیے کہتے ہیں، اور کام سے نکال دیے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔‘‘
گگن دیپ، جو ایک ماہر قانون اور سرگرم سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ۱۹۸۵ سے پنجاب میں غلامی اور ذات پر مبنی تفریق کو ختم کرنے کے لیے سرگرم عمل تنظیم، دلت داستا وِرودھی آندولن کی صدر بھی ہیں، کہتی ہیں کہ ان کاموں میں لگی ہوئی زیادہ تر دلت خواتین غیر تعلیم یافتہ یا کم پڑھی لکھی ہیں۔ ’’وہ اپنے قرضوں کا حساب کتاب نہیں رکھ پاتی ہیں، لہٰذا سود اور قرض کی شکل میں ان کے حصے کے اناج میں جو کٹوتیاں کی جاتی ہیں، انہیں اس وصولی کے غلط صحیح ہونے کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔ قرض کے جال میں ان کے پھنسے رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔‘‘
گگن دیپ جو صرف اپنے پہلے نام کا استعمال کرتی ہیں، کے مطابق، پنجاب کے مالوہ (جنوبی پنجاب) اور ماجھا (پنجاب کا سرحدی علاقہ، جہاں ترن تارن واقع ہے) کے ان علاقوں میں دلت خواتین کا استحصال ایک عام بات ہے۔ ’’دوآبہ علاقے [ویاس اور ستلج ندی کے درمیان کا پنجاب کا خطہ] میں حالات تھوڑے بہتر ہیں، کیوں کہ وہاں کے بہت سے لوگ دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔‘‘
پنجابی یونیورسٹی کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں پایا کہ سروے میں شامل کی گئیں دلت خواتین کارکنوں میں کسی کو بھی کم سے کم اجرت کے قانون، ۱۹۴۸ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔
بدقسمتی سے مویشیوں کا گوبر اٹھانے کا کام کرنے والی ان عورتوں کو مزدوروں کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے، اور جیسا کہ گگن دیپ بتاتی ہیں، انہیں کم سے کم اجرت کے قانون کے تحت درج فہرست بھی نہیں کیا گیا ہے۔ سرکار نے گھریلو کام کرنے والی عورتوں کو اس فہرست میں شامل کیا ہے، جب کہ گھروں کے باہر بنے مویشیوں کے باڑے کی صفائی کرنے والی خواتین کو ان سے باہر رکھا گیا ہے۔ گگن دیپ کہتی ہیں، ’’ان عورتوں کے لیے بھی فی گھنٹہ کی مزدوری کی بنیاد پر کم سے کم اجرت کی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ روزانہ ایک سے زیادہ گھروں میں صاف صفائی اور گوبر اٹھانے کا کام کرتی ہیں۔‘‘
سکھبیر کبھی بھی اپنی بیٹی کے سسرال والوں سے اپنی تکلیفیں شیئر نہیں کر سکتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’انہیں پتہ چلے گا، تو وہ ہم سے نفرت کرنے لگیں گے۔ وہ سمجھیں گے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی ایک غریب فیملی میں کر دی۔‘‘ ان کا داماد راج مستری کا کام کرتا ہے، لیکن اس کے گھر والے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ سکھبیر نے انہیں بس اتنا ہی بتایا ہے کہ وہ کبھی کبھی کھیتوں میں مزدوری کا کام کرتی ہیں۔
منجیت نے بھی ۱۷ سال کی عمر میں شادی کرنے کے بعد حویلیاں آنے سے پہلے کبھی کام نہیں کیا تھا۔ لیکن یہاں مالی مشکلات نے انہیں کام کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔ ان کی بیٹیاں دوسرے کے گھروں میں کام کرتی ہیں، لیکن وہ اس بات پر بضد ہیں کہ پیٹ بھرنے کے لیے گوبر اٹھانے جیسا کام ہرگز نہیں کریں گی۔
منجیت اور سکھبیر دونوں ہی یہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر ان کی کمائی کو شراب میں اڑا دیتے ہیں۔ سکھبیر ناراضگی اور اداسی کے ساتھ کہتی ہیں، ’’وہ ۳۰۰ روپے کی یومیہ مزدوری میں سے ۲۰۰ روپے شراب خریدنے کے لیے نکال لیتے ہیں۔ باقی بچے پیسوں سے ہمارا گزارہ مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ جب ان کے پاس (شراب) پینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، تو وہ گھر کی عورتوں کے چھپائے ہوئے پیسے بھی چھین لیتے ہیں۔ سکھبیر مزید بتاتی ہیں، ’’اگر ہم انہیں منع کرتے ہیں، تو وہ ہمارے ساتھ زور زبردستی کرنے لگتے ہیں، ہمیں مارتے ہیں اور ہمارے اوپر برتن پھینکنے لگتے ہیں۔‘‘
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۲۱-۲۰۱۹ (این ایف ایچ ایس۔۵) کے مطابق، پنجاب میں ۴۹-۱۸ سال کی عمر کی ۱۱ فیصد شادہ شدہ عورتیں اپنے شوہر کے ذریعے کسی نہ کسی شکل میں جسمانی تشدد کی شکار ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ۵ فیصد عورتوں کی شکایت تھی کہ ان کے ساتھ دھکا مُکّی کی گئی تھی یا کسی گھریلو سامان سے ان کے اوپر حملہ کیا گیا تھا؛ ۱۰ فیصد عورتوں پر ان کے شوہروں نے تھپڑ چلائے تھے؛ ۳ فیصد عورتوں کی گھونسے یا مُکّوں سے پٹائی کی گئی تھی، اور تقریباً اتنی ہی عورتوں کی پیروں سے پٹائی کی گئی تھی، انہیں گھسیٹا گیا تھا یا لات مُکّے مار کر زخمی کر دیا گیا تھا۔ گھریلو تشدد کی شکار ان عورتوں میں ۳۸ فیصد وہ عورتیں تھیں جن کے شوہر شراب کے عادی تھے۔
دلت مذہبی سکھ کمیونٹی کی ہی ۳۵ سالہ سکھوندر کور اپنے ۱۵ سال کے بیٹے، ۱۲ سال کی بیٹی اور اپنے ۶۰ سال کے آس پاس کی عمر کے سسر کے ساتھ پڑوس میں ہی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ کم عمر کی تھیں، تب انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں گوبر ڈھونے جیسا کام کرنا پڑے گا۔ جب ان کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی، تب ان کی ساس (جن کا انتقال پانچ سال پہلے ہو چکا ہے) نے ان سے کہا کہ گھر کے خرچے میں ہاتھ بٹانے کے لیے انہیں باہر جا کر کام کرنا ہی ہوگا، جب کہ ان کے شوہر ایک زرعی مزدور کے طور پر کام کر رہے تھے۔
پانچ سال شادی شدہ زندگی گزارنے کے بعد انہوں نے گوبر اٹھانے اور مویشیوں کے باڑے کی صفائی کرنے کے علاوہ، مبینہ اونچی ذات کے گھروں میں فرش پر پونچھے لگانے کا کام شروع کر دیا۔ آج وہ پانچ گھروں میں کام کرتی ہیں – دو گھروں میں ۵۰۰ روپے ماہانہ پر گھریلو ملازمہ کے طور پر، اور بقیہ تین گھروں میں ۳۱ مویشیوں کے باڑے کی صفائی اور گوبر اٹھانے کا کام کرتی ہیں۔
پہلے انہیں اس کام سے نفرت تھی۔ وہ ۱۰ کلو کے گوبر بھرے ٹب کے وزن کے بارے میں سوچتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میرے لیے یہ ایک ناقابل برداشت بوجھ کی طرح ہے۔ اور اس کی تیز بدبو!‘‘ وہ غم و غصہ کے لہجہ میں کہتی ہیں، ’’او دماغ دا کِڈّا مر گیا [دماغ کا وہ کیڑا مر گیا، یعنی اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے]۔‘‘
اکتوبر ۲۰۲۱ میں زرعی مزدوری کرنے والے ان کے شوہر بیمار پڑ گئے۔ بعد میں جانچ کے بعد بتایا گیا کہ ان کی کڈنی نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ گھر والے انہیں ایک پرائیویٹ اسپتال لے کر گئے، لیکن اگلی صبح ہی ان کی موت ہو گئی۔ سکھوندر بتاتی ہیں، ’’میڈیکل رپورٹ سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ ان کو ایڈز تھا۔‘‘
اس وقت انہوں نے اپنے شوہر کی جانچ کرانے کے لیے اپنے ایک آجر (مالک) سے ۵۰۰۰ روپے کا قرض لیا تھا۔ بعد میں، ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے ۱۰ ہزار اور ۵۰۰۰ روپے کے دو قرض اور لیے۔
جو قرض انہوں نے اپنے شوہر کی موت سے پہلے لیا تھا، اس کا ماہانہ سود ۱۰۰ روپے پر ۱۰ روپے تھا، جو سالانہ شرح سود کے حساب سے ۱۲۰ روپے بنتا ہے۔ بعد میں اس فیملی کے لوگوں نے ان پر گھر سے زیورات چوری کرنے کا بھی الزام لگایا۔ سکھوندر بتاتی ہیں، ’’اس لیے میں نے ان کا کام چھوڑ دیا اور دوسروں سے ۱۵ ہزار روپے کا قرض دوبارہ لیا، تاکہ سود سمیت پہلا قرض چکا سکوں۔ بعد میں ان کے زیورات ان کے ہی گھر میں پائے گئے۔‘‘
بہرحال، ان کے اوپر ۱۵ ہزار روپے کا قرض ابھی بھی بنا ہوا ہے۔
دلت داستا وِرودھی آندولن کے ترن تارن ضلع کے صدر، رنجیت سنگھ کہتے ہیں کہ اعلیٰ شرح سود اس بات کو یقینی بنا دیتی ہے کہ یہ عورتیں اپنا پورا قرض کبھی بھی واپس ادا نہ کر پائیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’سود کی شرح اتنی اونچی ہوتی ہے کہ کوئی بھی عورت اپنا قرض پوری طرح واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہو پاتی۔ نتیجتاً، انہیں بندھوا مزدوری کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔‘‘ مثال کے طور پر، سکھوندر اپنے ۱۰ ہزار روپے کے قرض کا سود بھرنے کے لیے ۱۰۰۰ روپے ماہانہ چکانے کے لیے مجبور ہوئیں۔
پینتالیس سال پہلے ہندوستان نے بندھوا مزدور نظام کے خاتمہ سے متعلق قانون، ۱۹۷۶ کا اعلان کیا تھا۔ اس قانون کی کسی بھی شکل میں خلاف ورزی کرنے کی حالت میں تین سال کی قید بامشقت اور ۲۰۰۰ روپے کے جرمانے کا التزام ہے۔ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل (انسداد مظالم) قانون، ۱۹۸۹ کے تحت کسی درج فہرست ذات سے تعلق رکھنے والے شخص کو اگر بندھوا مزدور کے طور پر کام کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، تو یہ ایک قابل سزا جرم ہے۔
رنجیت کے مطابق، ایسے سنگین معاملوں کو نمٹانے میں ضلع انتظامیہ کی بھی کوئی خاص دلچسپی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
اپنی مشکلوں اور مجبوریوں سے پریشان ہو چکیں سکھوندر کہتی ہیں، ’’آج اگر میرے شوہر زندہ ہوتے، تو میرے لیے اپنا گھر چلانا زیادہ آسان ہوتا۔ ہماری زندگی صرف قرض لینے اور اسے چُکانے میں ہی کٹتی جا رہی ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز