بالا بھائی چاوڑا (۵۷ سالہ) کے پاس گجرات کے سریندر نگر ضلع میں پانچ ایکڑ کھیت ہے۔ یہ زمین زرخیز ہے۔ سینچائی والی ہے۔ گزشتہ ۲۵ سالوں سے اس کا مالکانہ حق ان کے پاس ہے۔ لیکن، مسئلہ صرف ایک ہے۔ انہیں اپنے کھیتوں کے آس پاس سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
وہ اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے زرد، پھٹا پرانا زمین کا کاغذ دکھاتے ہیں، ’’میرے پاس اپنے مالکانہ حق کا ثبوت ہے۔ لیکن، اونچی ذات کے لوگوں نے [زمین پر] قبضہ جمایا ہوا ہے۔‘‘
بالا بھائی چمار برادری سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور ہیں، جنہیں گجرات میں درج فہرست ذات کا درجہ حاصل ہے۔ وہ مدد کی فریاد لے کر کہاں کہاں نہیں گئے، لیکن سب نے انہیں واپس لوٹا دیا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں بلا ناغہ ہر دن اپنی زمین پر جاتا ہوں۔ میں اسے دور سے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میری زندگی کیا سے کیا ہو سکتی تھی۔‘‘
گجرات کی تقسیم اراضی پالیسی کے تحت ۱۹۹۷ میں بالا بھائی کو دھرانگ دھرا تعلقہ کے بھرڑ گاؤں میں ایک کھیت الاٹ کیا گیا تھا۔ گجرات ایگریکلچرل لینڈز سیلنگ ایکٹ، ۱۹۶۰ (جس نے زرعی زمین پر مالکانہ حق کی حدود متعین کی تھیں) کے تحت زیر تحویل ’سرپلس لینڈ‘ (بچی ہوئی زمین) کو ’’مفاد عامہ‘‘ کے تحت نشان زد کیا گیا تھا۔
سرکاری ملکیت والی بنجر زمین کے ساتھ ساتھ تحویل میں لی گئی ان زمینوں (جنہیں سنتھانی زمین کے نام سے جانا جاتا ہے) کو ایسے لوگوں کے نام کیا جانا تھا، جنہیں ’’زرعی زمین کی ضرورت‘‘ تھی۔ ان میں کسانوں کی کوآپریٹو سوسائٹیز، بے زمین کسان، زرعی مزدور وغیرہ شامل تھے۔ اس میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لوگوں کو ترجیح دی گئی تھی۔
کاغذ پر تو یہ اسکیم بہت ہی اچھی دکھائی دیتی ہے، لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔
زمین پر مالکانہ حق پانے کے بعد، بالا بھائی نے اس پر کپاس، جوار اور باجرا کی کھیتی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے کھیت میں ہی ایک چھوٹا سا گھر بنانے کے بارے میں بھی سوچا تھا، تاکہ وہ جہاں کام کریں وہیں پر رہ سکیں۔ اس وقت ۳۲ سال کی عمر میں ان کی ایک چھوٹی سی فیملی تھی، جس کے خوبصورت مستقبل کے لیے انہوں نے نہ جانے کتنے خواب دیکھے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میرے تین چھوٹے بچے تھے۔ میں مزدوری کرتا تھا۔ مجھے لگا کہ کسی اور کے لیے پسینہ بہانے کے دن چلے گئے۔ میں نے سوچا تھا کہ اپنی زمین ہونے سے میں اپنی فیملی کو ایک اچھی زندگی دے پاؤں گا۔‘‘
حالانکہ، بالا بھائی کو گہرا صدمہ ملنا ابھی باقی تھا۔ جب تک وہ زمین پر اپنا حق جتاتے، گاؤں کے دو کنبوں نے اس پر اپنا قبضہ جما لیا۔ دونوں کنبے (ایک راجپوت اور دوسرا پٹیل برادری سے ہے) اس علاقے میں اونچی مانی والی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور آج تک اس زمین پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ وہیں، بالا بھائی کو زندگی بھر مزدوری کرتے رہنا پڑا۔ ان کے بیٹوں، راجیندر (۳۵ سالہ) اور امرت (۳۲ سالہ)، نے بہت چھوٹی عمر سے کھیتوں میس جا کر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ جب بھی انہیں کام ملتا ہے (ہفتے میں تقریباً تین بار)، تو وہ دن بھر میں ۲۵۰ روپے کما لیتے ہیں۔
بالا بھائی کہتے ہیں، ’’میں نے اپنے دعوے کے لیے بہت ہاتھ پیر مارے، لیکن اس زمین کے چاروں طرف اونچی ذات کے لوگوں نے اپنی جائیدادیں کھڑی کر لی ہیں۔ وہ لوگ مجھے وہاں گھسنے ہی نہیں دیتے۔ شروعات میں، میں نے [کھیتی کرنے کا] اپنا حق جتایا اور لڑائیاں بھی کیں، لیکن وہ لوگ بہت طاقتور ہیں اور ان کی اوپر تک پہنچ ہے۔‘‘
ایک بار ایسی ہی لڑائی ۹۰ کی دہائی میں ہوئی تھی، جس کے بعد بالا بھائی کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔ ان پر ایک کدال سے حملہ کیا گیا تھا، جس سے ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے پولیس سے شکایت کی تھی۔ میں نے [ضلع] انتظامیہ سے بھی ملاقات کی۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ سرکار یہ دعویٰ کرتی ہے کہ انہوں نے بے زمینوں کو زمینیں بانٹی ہیں۔ لیکن، زمینی حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ صرف کاغذوں تک ہی محدود ہے۔‘‘
سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، ہندوستان میں بے زمین زرعی مزدوروں کی تعداد ۱۴ کروڑ سے زیادہ تھی۔ اس تعداد میں ۲۰۰۱ کے اعداد و شمار (تقریباً ۱۱ کروڑ) کے مقابلے ۳۵ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران صرف گجرات میں ہی ۱۷ لاکھ لوگ بے زمین مزدور بن گئے، یعنی ۲۰۰۱ سے لے کر ۲۰۱۱ تک بے زمین مزدوروں کی تعداد (۵۱ لاکھ سے بڑھ کر ۶۸ لاکھ ہو گئی) میں ساڑھے ۳۲ فیصد کا اضافہ ہوا۔
غریبی کے ایک اشاریہ کے طور پر، بے زمین ہونے کا تعلق ذات سے ہے۔ حالانکہ، گجرات میں درج فہرست ذاتوں کی تعداد اس کی کل آبادی کا ۷۴ء۶ فیصد ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)، لیکن ان کا ریاست کی صرف ۸۹ء۲ فیصد زرعی زمینوں پر (زمین کے مالک یا کسی اور شکل میں) کنٹرول ہے۔ ریاست کی آبادی کا ۸ء۱۴ فیصد حصہ درج فہرست ذاتوں کا ہے، لیکن وہ صرف ۶ء۹ فیصد زمینوں پر کام کرتے ہیں۔
سال ۲۰۱۲ میں، دلتوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے کارکن جگنیش میوانی نے گجرات ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کی تھی، جس میں ریاستی حکومت کے ذریعے اصلاحی پالیسیوں کو نافذ نہیں کیے جانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ سیلنگ قانون کے تحت تحویل میں لی گئی زمینوں کی تقسیم ان برادریوں، بے زمینوں، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کو نہیں کیا گیا، جن کے لیے ایسا کیا جانا تھا۔
عدالتی کارروائی کے دوران زمین کی سیلنگ کے قوانین کے نفاذ پر مرکزی حکومت کی سہ ماہی پیش رفت رپورٹ (مجموعی) کو پیش کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق، ستمبر ۲۰۱۱ تک، گجرات میں ۱۶۳۶۷۶ ایکڑ زمین ۳۷۳۵۳ مستفیدین میں تقسیم کی جا چکی تھی اور صرف ۱۵۵۱۹ ایکڑ زمین کی تقسیم باقی تھی۔
حالانکہ، میوانی کی مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل)، جس پر ابھی بھی گجرات ہائی کورٹ میں سماعت چل رہی ہے، کے محور میں الاٹ کی گئی زمیں سے بے دخل کیے جانے کا مدعا ہے۔ انہوں نے آر ٹی آئی کے جواب اور سرکاری دستاویزوں کی بنیاد پر کئی معاملوں کا ذکر کیا، جہاں لوگوں کو انہیں مختص سرپلس زمین اور بنجر زمین پر قبضہ نہیں ملا ہے۔
بالا بھائی دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے شروعات میں قبضہ کے لیے لڑائیاں لڑیں۔ میری عمر ۳۰ سال کے آس پاس تھی۔ اس وقت میرے پاس بہت سارا جوش اور طاقت تھی۔ لیکن پھر میرے بچے بڑے ہونے لگے، اور میں مصروف ہو گیا۔ مجھے ان کی دیکھ بھال کرنی تھی اور ان کی سلامتی کے بارے میں بھی سوچنا تھا۔ میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے ان کی جان کو خطرہ ہو۔‘‘
میوانی کی ۱۷۰۰ صفحات پر مشتمل عرضی میں پورے گجرات سے مثالیں پیش کی گئی ہیں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بالا بھائی کا معاملہ اکیلا نہیں ہے۔
گجرات اسمبلی میں وڈگام انتخابی حلقہ کی نمائندگی کرنے والے میوانی کہتے ہیں، ’’کچھ معاملوں میں، مستفیدین کو زمین کا قبضہ ملا ہے، لیکن کارکنوں کی لگاتار مداخلت کے بعد ہی ایسا ممکن ہوا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ان کی عرضی کا جواب دیتے وقت ریاست اور انتظامیہ نے ان خامیوں کو قبول کیا۔
مثال کے طور پر، احمد آباد ضلع کے زمین سے متعلق ریکارڈ کے انسپکٹر (ڈی آئی ایل آر) نے مورخہ ۱۸ جولائی، ۲۰۱۱ کو تحریر کردہ ایک مکتوب میں کہا تھا کہ محصولات انتظامیہ کے افسران کی تساہلی کی وجہ سے احمد آباد ضلع کے کچھ گاؤوں میں زمین کی پیمائش کا کام ادھورا ہی رہ گیا تھا۔ کچھ سال بعد، ۱۱ نومبر ۲۰۱۵ کو بھاؤ نگر ضلع کے زمین سے متعلق ریکارڈ کے انسپکٹر نے تسلیم کیا کہ ۵۰ گاؤوں میں ۱۹۷۱ سے لے کر ۲۰۱۱ تک تقسیم کی گئی زمین کی حدبندی نہیں کی گئی تھی۔
ریاست کے محکمہ محصولات کے ایڈیشنل سکریٹری، ہریش پرجاپتی نے ۱۷ دسمبر، ۲۰۱۵ کو گجرات ہائی کورٹ میں دائر ایک حلف نامہ میں کہا کہ ۱۵۵۱۹ ایکڑ غیر منقسم زمین پر مقدمے چل رہے ہیں اور ۲۱۰ معاملے زیر التوا ہیں۔
پرجاپتی نے یہ بھی کہا کہ زرعی زمین سیلنگ قانون کو نافذ کرنے کے لیے ایک میکانزم بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی، جس میں چار افسران کی تقرری اور ریاست کا ایک علاقائی ڈویژن بنانا بھی شامل ہے۔ حلف نامہ کے مطابق، ’’پوری ریاست میں سبھی زمینوں کی طبعی تصدیق کی جانی تھی اور اس کے علاوہ قبضے کی بھی توثیق کرنی تھی۔ اس میں ہزاروں ایکڑ زمین کا براہ راست جائزہ لینے جیسے بھاری کام کو انجام دینا شامل تھا۔‘‘ اس میں آگے کہا گیا کہ بنجر زمینوں کی تقسیم کلکٹر کے دائرہ اختیار میں رہے گی۔
گجرات ہائی کورٹ میں میوانی کی طرف سے مفاد عامہ کی عرضی دائر کرنے والے مشہور وکیل آنند یاگنک کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات برسوں میں کچھ نہیں بدلا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ریاست رسوخ دار ذاتوں سے زمین کو اپنی تحویل میں لیے بغیر تقسیم سے متعلق انصاف کی تحت زمین الاٹ کر دیتی ہے۔ اگر درج فہرست ذات کے مستفیدین اس زمین پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں پیٹا جاتا ہے۔ مقامی انتظامیہ کبھی مدد نہیں کرتی۔ اسی لیے تقسیم سے متعلق انصاف صرف کاغذ تک محدود ہے اور آزاد ہندوستان نسل در نسل چلے آ رہے ان مسائل میں ابھی تک گرفتار ہے۔‘‘
اس رپورٹر نے محکمہ محصولات کے موجودہ ایڈیشنل چیف سکریٹری کمل دیانی اور اصلاحات اراضی کے کمشنر سوروپ پی کو گجرات میں زمین کی تقسیم کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جاننے کےلیے ایک خط لکھا تھا۔ اگر وہ اس کا جواب دیتے ہیں، تو اسے اسٹوری میں جوڑ دیا جائے گا۔
چھگن بھائی پیتامبر (۴۳ سالہ) کا معاملہ انتظامیہ کی ناکامی کی ایک اور کہانی ہے، جب کہ ان کی زمین کسی کے بھی قبضے میں نہیں تھی۔ انہیں ۱۹۹۹ میں بھرڑ میں جو پانچ ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی، وہ چندر بھاگا ندی کے بالکل درمیان میں ہے۔ وہ ہمیں وہاں لے کر گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ’’یہ زمین زیادہ تر وقت پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔ اس لیے، میں یہاں زیادہ کچھ کر نہیں سکتا۔‘‘
ان کی زمین کا ایک بڑا حصہ کیچڑ بھرے پانی سے لبالب ہے، اور باقی پھسلن بھرا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’۱۹۹۹ میں ہی میں نے زمین بدلنے کے لیے ڈپٹی کلکٹر کو [ایک خط] لکھا تا۔ سال ۲۰۱۰ میں، معاملات دار [تعلقہ کے سربراہ] نے میری درخواست کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ الاٹمنٹ کے ۱۰ سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور اب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیا یہ میری غلطی ہے کہ انتظامیہ نے پچھلے ۱۰ سالوں میں کچھ بھی نہیں کیا؟‘‘
اس قسم کی اندیکھی کا خمیازہ چھگن بھائی اور ان کی فیملی کو بھگتنا پڑا ہے۔ ان کی بیوی کنچن بین کہتی ہیں کہ جب فیملی پوری طرح سے مزدوری پر منحصر ہے، تو کسی قسم کی ترقی یا تحفظ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’آپ دن میں کماتے ہیں اور رات میں کھانا خریدتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس زمین ہے، تو آپ کم از کم اپنے لیے اناج اگا سکتے ہیں، اور مزدوری سے ملے پیسے کو دیگر ضروریات پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
بچوں کی تعلیم کے لیے فیملی کو نجی ساہوکاروں سے قرض لینا پڑا ہے۔ کنچن بین (۴۰ سالہ) کہتی ہیں، ’’تقریباً ۱۰ سال پہلے، ہم نے ماہانہ ۳ فیصد شرح سود پر ۵۰ ہزار روپے قرض لیے تھے۔ ہمارے چار بچے ہیں۔ اُن دنوں ہماری آمدنی یومیہ ۱۵۰-۱۰۰ روپے سے زیادہ نہیں تھی، ہمارے پاس زیادہ متبادل نہیں تھے۔ ہم ابھ تک قرض کی رقم ادا کر رہے ہیں۔‘‘
اپنی زمین پر اپنا حق کھو دینے کے نقصان بہت ہیں۔ اس کے لیے درخواست دینے اور توانائی خرچ کرنے اور پھر مالکانہ حق نہ ملنے کے تناؤ کے علاوہ، برسوں کے مالی نقصان کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ ایک کسان دو فصلی موسم کے دوران اپنی ایک ایکڑ زمین سے کم از کم ۲۵ ہزار روپے کماتا ہے، تو جیسا کہ میوانی کی مفاد عامہ کی عرضی کہتی ہے کہ ۷-۵ سالوں میں اسے فی ایکڑ ایک لاکھ ۷۵ ہزار روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
بالا بھائی کے پاس ۵ ایکڑ زمین ہے، اور گزشتہ ۲۵ سالوں سے انہیں اپنی زمین پر کھیتی کرنے سے روکا گیا ہے۔ مہنگائی کی قیمت جوڑ کر دیکھا جائے، تو انہیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اور بالا بھائی جیسے ہزاروں کسان ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’آج بازار میں صرف زمین کی ہی قیمت ۲۵ لاکھ روپے ہوگی۔ میں ایک راجا کی طرح زندگی بسر کر سکتا تھا۔ میں اپنی خود کی موٹر سائیکل خرید سکتا تھا۔‘‘
اپنی زمین کے ہونے سے صرف مالی تحفظ ہی نہیں ملتا، بلکہ گاؤں میں عزت و وقار بھی حاصل ہوتا ہے۔ سریندر نگر ضلع کے دھرانگ دھرا تعلقہ کے رام دیو پور گاؤں میں رہنے والے ۷۵ سالہ تربھوون واگھیلا کہتے ہیں، ’’اونچی ذات کے زمیندار اپنے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں۔ وہ آپ کی بے عزتی کرتے ہیں کیوں کہ آپ ان پر منحصر ہوتے ہیں۔ آپ معاش کے لیے ان پر منحصر ہوتے ہیں، اس لیے آپ کچھ کر نہیں سکتے۔‘‘
واگھیلا کا تعلق بنکر برادری سے ہے، جو کہ ایک درج فہرست ذات ہے۔ انہیں ۱۹۸۴ میں ۱۰ ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی۔ لیکن ۲۰۱۰ میں جا کر اس زمین پر انہیں قبضہ ملا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اتنا وقت اس لیے لگا، کیوں کہ سماج ذات پر مبنی تفریق کے تئیں اپنی آنکھیں بند رکھتا ہے۔ میں نوسرجن ٹرسٹ کے رابطہ میں آیا۔ ان کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور انتظامیہ پر [کارروائی کے لیے] دباؤ ڈالا۔ ہمیں بس ہمت کی ضرورت تھی۔ ان دنوں ٹھاکر [راجپوت] ذات کے خلاف کھڑا ہونا آسان نہیں تھا۔
گجرات میں دلتوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے ایک مشہور کارکن اور نوسرجن ٹرسٹ کے بانی، مارٹن میکوان بتاتے ہیں کہ اصلاحات اراضی کا فائدہ سوراشٹر (سریندر نگر اسی علاقے میں ہے) کے کاشتکاروں کو ملا، جن میں سے زیادہ تر پٹیل (پاٹی دار) ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ ’’سوراشٹر [ریاست] کے پہلے وزیر اعلیٰ، اوچھنگ رائے ڈھیبر نے تین قانون بنائے اور ۱۹۶۰ میں گجرات کے ایک الگ ریاست بننے سے پہلے ۳۰ لاکھ ایکڑ سے زیادہ کی زمین پٹیلوں کو دے دی گئی۔ [اور اس وقت کی سوراشٹر ریاست کو اس میں ضم کر دیا گیا]۔ برادری نے اپنی زمین کا تحفظ کیا اور آنے والے سالوں میں یہ گجرات کی سب سے بڑی برادریوں میں سے ایک بن گئی۔‘‘
واگھیلا ایک زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنی زمین کے لیے لڑ رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ لڑائی ضروری تھی۔ میں نے ایسا اس لیے کیا، تاکہ میرے بیٹے اور اس کے بچوں کو ان مشکلوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جو میں نے کیا۔ اس وقت بازار میں اس زمین کی قیمت ۵۰ لاکھ روپے ہے۔ وہ گاؤں میں اپنا سر اٹھا کر چل سکتے ہیں۔‘‘
واگھیلا کی بہو، ۳۱ سالہ نانو بین کا کہنا ہے کہ فیملی کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ اب اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم کھیت میں کڑی محنت کرتے ہیں اور سال بھر میں ڈیڑھ لاکھ روپے کما لیتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ لیکن، اب ہم خود اپنے مالک ہیں۔ ہمیں کام یا پیسے کے لیے دوسروں سے گزارش نہیں کرنی پڑتی۔ میرے بچوں کی شادی میں اب کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ کوئی بھی اپنے بچوں کی شادی ایسے گھر میں نہیں کرنا چاہتا، جس کے لیے پاس زمین نہ ہو۔‘‘
بالا بھائی بھی ایسی آزادی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، جس طرح سے واگھیلا کی فیملی ۱۰ سال سے جی رہی ہے۔ اپنے زمین کے پرانے کاغذ کو قرینے سے موڑتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں نے اپنی پوری زندگی اپنی زمین پر مالکانہ حق حاصل کرنے کے انتظار میں گزار دی۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے ۶۰ سال کی عمر میں مزدوری کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ کچھ رتبے اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔‘‘
بالا بھائی اب بھی اس دن کا تصور کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی زمین پر مالکانہ حق حاصل کر لیں گے۔ وہ اب بھی اس پر کپاس، جوار اور باجرا کی کھیتی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اب بھی اپنی زمین پر ایک چھوٹا سا گھر بنانے کی سوچتے ہیں۔ وہ یہ محسوس کرنا چاہتے ہیں کہ زمین کا مالک ہونا کیسا ہوتا ہے۔ انہوں نے ۲۵ سالوں سے یہ سوچ کر اپنے کاغذوں کو سنبھال کر رکھا ہے کہ ایک دن یہ کام آئے گا۔ لیکن، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہیں اب بھی امید ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہی وہ اکلوتی چیز ہے جس نے مجھے اب تک زندہ رکھا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز