شنکر واگھیرے اپنے پلاسٹک کے تھیلے کو زمین پر رکھتے ہیں اور تھوڑی دیر سانس لینے کے لیے اپنی لکڑی کی چھڑی کا سہارا لیتے ہیں۔ پھر وہ جھکتے ہیں، ہانپتے ہوئے، اور اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اگلے ۱۵ منٹ تک ان کی آنکھیں بند رہتی ہیں۔ اس ۶۵ سال کے بزرگ شخص کو آج کافی چلنا پڑا۔ رات کے اندھیرے میں تقریباً ۲۵ ہزار دیگر کسان ان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں۔
’’ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہے،‘‘ اِگت پوری کے رائے گڑھ نگر علاقہ میں ممبئی-ناسک شاہراہ پر بیٹھے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ کسانوں کے اس عظیم مورچہ کا یہ پہلا پڑاؤ ہے، جو ناسک شہر سے ۶ مارچ کو مصروف منگل کی دوپہر کو نکلا تھا۔ کسانوں کا اتوار، ۱۱ مارچ کو ممبئی پہنچنے، اور پھر اگلے دن قانون ساز اسمبلی کو گھیرنے کا ارادہ ہے – ریاستی حکومت کی وعدہ خلافی کے تئیں احتجاج درج کرانے کے لیے (دیکھیں لمبا مارچ: آبلہ پا، پختہ عزم اور مارچ کے بعد، نتیجہ... )
اکھل بھارتیہ کسان سبھا، جو مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کی ایک کسان تنظیم ہے، نے اس لمبے مارچ کا انعقاد کیا۔ اس مورچہ کے ایک آرگنائزر اور کسان سبھا کے جنرل سکریٹری، اجیت ناولے کہتے ہیں کہ سرکار کھوکھلی باتیں کرکے بھاگ نہیں سکتی ہے۔ ’’۲۰۱۵ میں ہم نے کسانوں کو جنگلاتی زمین [پر ان کے حقوق] دلانے، فصلوں کی بہتر قیمتیں، قرض معافی اور ایسے دیگر مطالبات کے لیے مظاہرہ کیا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’سرکار اپنے وعدے پورا کرنے کے لیے صرف جھوٹا بھروسہ دلا رہی ہے۔ اس بار، ہماری لڑائی آر پار کی ہے۔‘‘
یہ مورچہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے، مہاراشٹر بھر کے مختلف علاقوں – مراٹھواڑہ، رائے گڑھ، ودربھ اور دیگر ضلعوں – سے بھاری تعداد میں کسانوں کے اس میں شامل ہونے کا امکان ہے اور جب یہ مورچہ اپنے نقطہ آغاڑ سے ۱۸۰ کلومیٹر دور، ممبئی پہنچے گا تو اس کی تعداد کئی گنا بڑھ جانے کی امید ہے۔ فی الحال، جتنے بھی کسان اس وقت پیدل مارچ کر رہے ہیں، ان میں سے زیادہ ناسک ضلع اور آس پاس کے علاقوں سے ہیں، اور آدیواسی برادریوں سے بھی بہت ہیں۔ (دیکھیں کھیتی کرنے والوں نے مارچ نکالا )
واگھیرے، کولی مہادیو برادری سے ہیں، اور ناسک ضلع کے ڈنڈوری تعلقہ کے نالے گاؤں سے آئے ہیں۔ اُس صبح، وہ نالے گاؤں سے ۲۸ کلومیٹر دور، ناسک کے سی بی ایس چوک پیدل چل کر پہنچے۔ اس چوک سے ممبئی کے لیے لمبا مارچ اُس دن دوپہر کو نکلا۔
’’ہم کئی نسلوں سے اس زمین پر کھیتی کر رہے ہیں، پھر بھی یہ محکمہ جنگلات کے نام پر ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’وعدہ کرنے کے باوجود [کہ ۲۰۰۶ کے حقوق جنگلات قانون کے تحت آدیواسیوں کو زمین کا حق دیا جائے گا] ہم زمین کے مالک نہیں ہیں۔‘‘ واگھیرے کے گاؤں میں، تقریباً ہر شخص دھان کی کھیتی کرتا ہے۔ ’’ایک ایکڑ کھیتی کی لاگت ہے ۱۲ ہزار روپے۔ اگر بارش اچھی ہوئی، تو ہمیں [ایک ایکڑ سے] ۱۵ کوئنٹل چاول مل جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’موجودہ [بازار] قیمت ۱۰ روپے فی کلو ہے [ایک ہزار روپے فی کوئنٹل]۔ ہم کیسے گزارہ کریں گے؟ جب مجھے اس مورچہ کے بارے میں معلوم ہوا، تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس میں شرکت کروں گا، چاہے جو ہو جائے۔‘‘
جب میں دن کے ۱ بجے سی بی ایس چوک پہنچا، تو لوگ ابھی بھی جمع ہو رہے تھے، انتظار کر رہے تھے۔ دھیرے دھیرے، جیپ بھر بھر کے کسان وہاں پہنچنے لگے، پوری سڑک لال جھنڈوں اور ٹوپیوں سے بھر گئی۔ سخت دھوپ سے بچنے کے لیے کچھ مردوں نے اپنی پیشانی پر رومال لپیٹ لیے تھے، جب کہ عورتوں نے اپنی ساڑیوں سے سر ڈھک لیا۔ یہاں زیادہ تر لوگ پلاسٹک کے تھیلے یا کندھوں پر لٹکانے والے جھولے لے کر چل رہے ہیں، جس میں ہفتہ بھر کے اس لمبے مارچ کے لیے کپڑے اور گیہوں، چاول، باجرا اور کچھ دیگر اناج رکھے ہوئے ہیں۔
دوپہر کے ڈھائی بجے، مردوں اور عورتوں نے اپنے اپنے تھیلوں سے اخبار میں لپیٹ کر رکھی گئی چپاتی اور سبزی نکالی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے وہ سڑک پر بیٹھ گئے۔ پاس میں، دیگر آدیواسی کسان وقت گزاری کے لیے روایتی گانا گا رہے ہیں۔ بالو پوار، وشنو پوار اور ییوا جی پیٹھے – یہ سبھی ناسک ضلع کے سرگانا تعلقہ کے پنگارنے گاؤں سے ہیں – ناچ گا رہے ہیں۔ سڑک کے بیچوں بیچ بیٹھے ہوئے، جسے اب پولس نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، بالو کے ہاتھ میں تُنتُنا ہے، وشنو ڈفلی بجا رہے ہیں اور ییواجی جھانجھ کے انچارج ہیں۔ ’’آپ کیا گا رہے ہیں؟‘‘ میں نے ان سے پوچھا۔ ’’یہ ہمارے بھگوان، کھنڈے رایا کی عقیدت میں گایا گیا گیت ہے،‘‘ انھوں نے کہا۔
یہ تینوں موسیقار بھی کولی مہادیو برادری سے ہیں، اور ان کے مسائل بھی وہی ہیں جو واگھیرے کے ہیں۔ ’’میں پانچ ایکڑ کھیت جوتتا ہوں،‘‘ وشنو کہتے ہیں۔ ’’تکنیکی طور پر، یہ زمین میری ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں محکمہ جنگلات کے رحم و کرم پر ہوں۔ وہ کبھی بھی آ سکتے ہیں اور مجھے یہاں سے بے دخل کر سکتے ہیں۔ پڑوسی گاؤں میں، اہلکاروں نے اُن کھیتوں کو کھودنا اور ان پر درخت لگانا شروع کر دیا، جہاں کچھ کسان دھان کی کھیتی کرتے تھے۔ اگلا نمبر ہمارا ہو سکتا ہے۔‘‘
سنجے بوراستے بھی ریلی میں حصہ لینے آئے ہیں۔ وہ ڈنڈوری تعلقہ کے ڈنڈوری گاؤں کے رہنے والے ہیں، جو ناسک شہر سے ۲۶ کلومیٹر دور ہے۔ انھوں نے ۸ لاکھ روپے سے زیادہ کا قرض لے رکھا ہے۔ ’’جب سرکار نے پہلی بار قرض معافی کا اعلان کیا، تو میں نے سوچا کہ مجھے اب اس سے چھٹکارہ مل جائے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن وزیر اعلیٰ نے ۱ء۶ لاکھ روپے کی شرط لگا کر ہمارے ساتھ ایک بھدا مذاق کیا ہے۔‘‘ ۴۸ سالہ بوراستے نے اپنے ڈھائی ایکڑ کھیت پر اسی مہینے لوکی کی فصل کاٹی۔ ’’مجھے ۲ روپے فی کلو کے حساب سے اسے بیچنا پڑا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ قیمتوں میں گراوٹ آئی ہے۔ اور لوکی خراب ہونے والی چیز ہے۔‘‘
پچھلے سال مراٹھواڑہ سے رپورٹ کرتے وقت، کسانوں نے مجھے بار بار ان مسائل کے بارے میں بتایا تھا، جیسے کہ کم از کم امدادی قیمت سے متعلق سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں کو نافذ کرنا، مکمل قرض معافی، بھروسہ مند سینچائی۔ حالانکہ ناسک میں جمع ہوئے زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ مطالبہ اہم ہے، لیکن ان کی بنیادی تشویش زمین کے مالکانہ حق کو لے کر ہے۔ یہ مارچ جیسے جیسے آگے بڑھے گا، اس میں شامل ہونے والے کسانوں کی تشویشیں بھی بدلتی رہیں گی۔
دوپہر ۳ بجے، مارچ کے آرگنائزرس نے وہاں جمع کسانوں سے خطاب کرنا شروع کیا، اور تقریباً ۴ بجے، ہزاروں لوگ ناسک-آگرہ شاہراہ پر آگے کی جانب تیزی سے چلنے لگے۔ مارچ میں سب سے آگے ہیں ۶۰ سالہ رُکما بائی بینڈ کُلے – جو اپنے ہاتھ میں لال جھنڈا لیے ناچ رہی ہیں۔ رکما بائی ڈنڈوری تعلقہ کے ڈونڈے گاؤں کی رہنے والی ایک زرعی مزدور ہیں۔ وہ روزانہ ۲۰۰ روپے کماتی ہیں اور ہفتہ میں تین دن کام کرتی ہیں – سڑک پر چھ دن گزارنے کا مطلب ہے ان کو ۶۰۰ روپے کا نقصان۔ ’’ویسے تو میں کسی فصل کی کھیتی نہیں کرتی، لیکن اگر میرے گاؤں کے کسان اپنی زمین [محکمہ جنگلات کو] کھو دیں گے، تو مجھے بھی کام نہیں ملے گا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ لیکن، کیا سرکار سنے گی، میں نے ان سے پوچھا۔ ’’کیا ان کے پاس کوئی اور متبادل ہے؟‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔
ناولے کہتے ہیں کہ اس قسم کے احتجاجی مظاہروں سے سرکار پر اثر پڑتا ہے۔ ’’ہم جن مسائل کے بارے میں بات کر رہے ہیں، وہ اب بحث کا موضوع بن چکے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ہی سہی، سرکار کو قرض معافی کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ ہم اسے لوٹ واپسی کہتے ہیں۔ سرکاروں نے برسوں تک ہماری پچھلی نسلوں کو لوٹا اور ان کا استحصال کیا۔ ہم تو صرف اسے دھیرے دھیرے واپس لے رہے ہیں۔‘‘
راستے میں، بہت سے کسان آرگنائزرس کے ذریعے منگوائے گئے پانی کے ٹینکر سے اپنی خالی بوتلیں بھر رہے ہیں۔ پانچ گھنٹے بعد، رات کے تقریباً ۹ بجے رائے گڑھ نگر پہنچنے سے پہلے، وہ یہیں پر تھوڑی دیر کے لیے رکے تھے۔ رائے گڑھ نگر میں، جو کہ ولدیوی ڈیم سے زیادہ دور نہیں ہے، شاہراہ کے کنارے انھوں نے آسمان کے نیچے ایک کھلے میدان میں رات گزاری۔
رات میں بھی انھوں نے اپنے تھیلوں میں بھر کر لائی گئی چپاتی اور سبزی کھائی۔ اس کے بعد کچھ کسانوں نے، مورچہ کے ساتھ چلنے والے ٹرک کے اسپیکر پر میوزک چلانا شروع کر دیا۔ اندھیری رات میں فوک میوزک گونجنے لگا اور، ایک دوسرے کی پیٹھ کے پیچھے ہاتھ رکھ کر، بہت سے مردوں نے نیم دائرہ بنا لیا اور موسیقی پر رقص کرنے لگے۔
کمبل لپیٹے ہوئے واگھیرے، ان کی توانائی کو دیکھ کر حیران ہیں۔ ’’میں تھک گیا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے پیروں میں درد ہو رہا ہے۔‘‘ کیا آپ اگلے چھ دنوں تک پیدل چلنے لائق رہیں گے، میں ان سے پوچھتا ہوں۔ ’’بالکل،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن اب میں سوؤں گا۔‘‘
یہ بھی دیکھیں ناامیدی کے کھیتوں سے امید بھرا مارچ اور ’میں ایک کسان ہوں، میں اس لمبے سفر پر چل رہا ہوں‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)