گُنجی گاؤں کے مکانوں کے روایتی نقاشی دار لکڑی کے دروازے صبح ۴ بج کر ۴۵ منٹ پر ایک ایک کر کے کھلتے ہیں۔ ان گھروں میں رہنے والے لوگ پانی کی بوتلیں اپنے ہاتھوں میں لیے رفع حاجت کے لیے باہر نکلنے لگتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک ان کے ہاتھوں میں ٹن یا اسٹیل کے ڈبے ہوا کرتے تھے، لیکن اب ڈسپوزیبل پلاسٹک کی بوتلیں روزانہ صبح میں ان کی حوائج ضروریہ کے کام آتی ہیں۔
وہ مسکرا کر ایک دوسرے کو نمستے کرتے ہیں اور مختلف سمتوں میں کھیتوں کی جانب نکل جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی کھیت ان کے مالکان کی ہجرت کی وجہ سے بنجر پڑے ہیں۔ بعض سحر خیز لوگ پو پھٹنے سے قبل ہی خالی بولتیں ہاتھوں میں لیے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
رفع حاجت کے لیے بہترین جگہ گھنی اور اونچی جھاڑیوں کے پیچھے ہوتی ہے۔ لیکن ۳۲۰۰ میٹر کی اونچائی پر ایسی جگہیں بہت کم دستیاب ہیں، اور اگر ہیں بھی تو چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں۔ صبح جلدی اٹھنے والوں کو یہ قیمتی جگہیں مل جاتی ہیں۔ ویسے برف سے ڈھکے ’اپی‘ پہاڑی سلسلے کے نارنجی رنگ اختیار کرنے اور دن کی روشنی پھوٹ پڑنے سے قبل ہی گنجی کے مکین کھیتوں میں اُکڑوں بیٹھ جاتے ہیں۔
قریب ہی دریائے کُٹی یانگتی چیخ چنگھاڑ رہی ہے، اور گھوڑوں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی آوازیں اور پتھریلی زمین پر پڑنے والے ان کی ٹاپوں کی سخت آوازوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو رہی ہیں۔ ان کے مالکان یا راکب جانوروں کو ۵۰ کلومیٹر دور گربادھار لے جا رہے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ ہند-چین سرحد سے ہونے والی تجارت کے لیے برآمد کی جانے والی اشیاء پہنچانے کا انتظار کریں گے۔ سرحد یہاں سے صرف ۲۲ کلومیٹر دور ہے۔
اگرچہ گنجی کے داخلی راستے پر مردوں اور عورتوں کے لیے تین بیت الخلاء بنائے گئے ہیں، لیکن ان پر بھی تالا لگا ہوا ہے۔ چھ عارضی بیت الخلاء کی تعمیر اس وقت ہوئی تھی جب ایک اعلیٰ پولیس افسر گاؤں میں اپنا گھر دیکھنے آئے تھے، اب وہ بھی بند پڑے ہیں۔ یہ ۲۰۰ سال پرانے پتھروں کی چھتوں والے مکانات میں بنائے گئے ہیں۔ ان کی چابیاں گُنجی کے منتخب پردھان کے پاس ہوتی ہیں۔ لیکن ان کا زیادہ تر وقت ۷۰ کلومیٹر دور دھارچولا میں گزرتا ہے۔
گُنجی بالائی ہمالیہ کے ۲۱ گاؤں میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں اتراکھنڈ کے پتھورا گڑھ ضلع کے دھارچولا بلاک میں واقع ہے۔ یہاں کے کچھ لوگ موسمی مہاجر ہیں، جو ہر سال نومبر میں اپنی فیملی اور جانوروں کے ساتھ دھارچولا میں اپنے موسم سرما کے گھروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
مئی کے اوائل میں جیسے ہی برف پگھل کر پیچھے سرکتی ہے، یہ لوگ چار دنوں میں ۶۰ سے ۷۰ کلومیٹر لمبا سفر طے کرکے گنجی واپس لوٹ آتے ہیں، اور کھیتی باڑی شروع کر دیتے ہیں۔ جب اچھی بارش ہوتی ہے (گزشتہ دو سالوں سے کم ہوئی ہے یا نہیں ہوئی ہے)، تو وہ اکتوبر میں کوٹّو، راجما، مٹر اور دیگر فصلیں کاٹتے ہیں، اور پھر اپنے جانوروں کے ساتھ موسم سرما کے گھروں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
لیکن، سبھی فیملیز کے پاس دو مختلف مقامات پر دو گھر نہیں ہیں۔ لہٰذا، دو درجن سے کچھ زائد فیملیز کو یخ بستہ سردیوں میں، جب پارہ منفی ۲۰ ڈگری تک گر جاتا ہے، مجبوراً گنجی میں ہی رکنا پڑتا ہے۔ خیال رہے کہ گرمیوں میں گنجی کا درجہ حرارت تقریباً ۱۰ ڈگری سیلسیس ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ گنجی کوئی گمنام جگہ ہے – یہ ہند-چین سرحد پر واقع سب سے بڑے گاؤوں میں سے ایک ہے۔ اس گاؤں میں انڈو تبتی بارڈر پولیس (آئی ٹی بی پی) کا ایک کیمپ، سشستر سیما بل (ایس ایس بی) کا ایک کیمپ اور ایک کسٹم آفس واقع ہیں، ساتھ میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور پوسٹ آفس کی عارضی شاخیں بھی ہیں جو سال میں صرف چھ مہینے ہی کھلی رہتی ہیں۔
لیکن ۱۹۴ فیملیز (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) پر مشتمل اس گاؤں میں صرف ایک قابلِ استعمال بیت الخلاء ہے، وہ بھی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے دفتر کا ہے۔ بین الاقوامی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے غیر قانونی تجارت کے امکانات کے مدنظر اور کیلاش مانسروور یاترا کے زائرین کا راستہ ہونے وجہ سے آئی بی گُنجی میں موجود رہتی ہے۔ تاہم آئی بی کے بیت الخلاء میں بھی نل کے پانی کی سپلائی نہیں ہے۔ رفع حاجت کے لیے نل سے بالٹی میں پانی لے کر اندر جانا پڑتا ہے۔
گاؤں میں صرف ایک نل ہے، جو قریب سے گزرنے والی کُٹی-یانگتی ندی سے منسلک ہے۔ یہاں کے لوگ اس پانی کو پینے، نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سردیوں میں جب گنجی اور اس کے ارد گرد کے پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں اور نلوں میں پانی جم جاتا ہے، تو پھر ڈیڑھ کلومیٹر دور منیلا میں تعینات جنرل ریزرو انجینئر فورس (جی آر ای ایف) گنجی کے رہائشیوں کو کبھی کبھار پینے کا پانی فراہم کرتی ہے۔
انٹیلی جنس بیورو کے بیت الخلاء میں بھی نل کے پانی کی سپلائی نہیں ہے۔ رفع حاجت کے لیے وہاں بھی نل سے بالٹی میں پانی لے کر اندر جانا پڑتا ہے
ٹھنڈے موسم میں اپنی فیملی کے ساتھ گنجی میں رہنے والے منگل گنجیوال بتاتے ہیں، ’’جی آر ای ایف کبھی کبھی ہمیں سردیوں میں پانی فراہم کرتا ہے، لیکن باقی وقت ہمیں خود ہی اس کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں پورے سال پانی کی شدید قلت رہتی ہے، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں۔ جب ان پہاڑوں سے برفیلی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی ہیں تو پانی کا حصول بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ عام طور پانی کی سپلائی کا واحد نل یا تو برف جمنے کی وجہ سے یا پتھروں کے ٹکڑے گرنے کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ہم دریائے کُٹی یانگتی سے [بالٹیوں میں بار بار] پانی لاتے ہیں، لیکن یہ دریا بھی جم جاتا ہے۔ پھر ہم پانی پینے یا چائے بنانے کے لیے برف کو گرم کرتے ہیں۔‘‘
پتھورا گڑھ ضلع (جہاں گنجی گاؤں واقع ہے) کو پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کی وزارت نے ۱۵ اپریل ۲۰۱۷ کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک (او ڈی ایف) قرار دے دیا تھا۔ سووچھ بھارت مشن، گرامین (ایس بی ایم، دیہی) کے تحت اس سال ۲۳ جون کو (سِکّم، ہماچل پردیش اور کیرالہ کے بعد) دیہی اتراکھنڈ کو ہندوستان میں رفع حاجت سے پاک چوتھی ریاست قرار دیا گیا تھا۔ اس مہم کا دعویٰ ہے کہ اتراکھنڈ کے تمام ۱۵۷۵۱ گاؤں میں اب کوئی بھی کھلے میں رفع حاجت نہیں کرتا ہے۔
دھارچولا کے بلاک آفس میں ایس بی ایم کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ دریائے کالی کے کنارے واقع دھارچولا میں گنجی کی ہر ایک فیملی کے موسم سرما کے گھر میں بیت الخلاء موجود ہے۔ لیکن گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ پانی کی کمی کی وجہ سے اپنے سردیوں کے گھروں میں قیام کے دوران بھی رفع حاجت کے لیے کھلے میں جاتے ہیں۔
سردیوں کے مہینے میں بھی گنجی میں ہی قیام کرنے والے پھل سنگھ گنجیوال کا کہنا ہے، ’’یہاں کوئی بیت الخلاء نہیں ہے، کیونکہ ہمارے پاس پانی نہیں ہے۔ گرمیوں میں ہمیں پائپ کنکشن کے ذریعہ پانی ملتا ہے، لیکن اس وقت تک ہر شخص دھارچولا سے واپس گُنجی آ جاتا ہے، اس لیے یہاں سب کو بہت کم پانی ملتا ہے۔‘‘
ایس بی ایم کے پروجیکٹ مینیجر اور ضلع کے رابطہ کار، دیپ چندر پونیتھا کا کہنا ہے کہ منریگا سمیت مختلف اسکیموں کے تحت بالائی ہمالیہ کے دیہاتوں میں کمیونٹی ٹوائلٹ بنائے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اونچائی پر بسے دیہاتوں میں جگہ کی کمی کی وجہ سے دھارچولا کے مہاجرت والے ۲۱ گاؤوں میں کمیونٹی ٹوائلٹ بنائے جا رہے ہیں۔‘‘
لیکن پانی کی فراہمی کے بغیر بیت الخلاء کیسے بنائے جا رہے ہیں؟ اور نئے بنائے گئے بیت الخلاء مقفل کیوں ہیں؟ گُنجی کی گرام پردھان ارچنا گنجیوال اس کی ایک عجیب وجہ بتاتی ہیں: ’’یہ نئے بیت الخلاء ہیں۔ پانی کے بغیر گاؤں والے انہیں گندا کر دیں گے۔‘‘ تو پھر انہیں پانی کی سپلائی والے نل سے کب جوڑا جائے گا؟ ’’اس میں وقت لگے گا۔ ہمیں پانی کی پائپ کے مزید کنکشن تیار کرنے ہوں گے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم ان کا استعمال نہیں کر سکتے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
اس دوران لوگ کھلے میں رفع حاجت کرتے رہے ہیں، حالانکہ سرکاری ریکارڈ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں فعال بیت الخلاء موجود ہیں۔ اور ایس بی ایم کی باقاعدگی سے بُنی جانے والی کامیابی کی متعدد کہانیوں میں سے گُنجی کی کہانی کسی بھی طرح سے غیر معمولی نہیں ہے۔ گنجی سے تقریباً ۱۹ کلومیٹر دور، ۴۵۰۰ میٹر کی اونچائی پر واقع کُٹی گاؤں کے ۳۶۳ رہائشیوں پر چار بیت الخلاء تھے، دو مردوں کے لیے اور دو عورتوں کے لیے۔ لیکن ان میں سے دو کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ دیگر دو کا فضلہ بظاہر سیپٹک ٹینک میں گرتا ہے، لیکن وہاں کوئی نل نہیں ہے، حالانکہ قریب میں دو پائپ موجود ہیں جن سے پانی نکلتا رہتا ہے۔ کُٹی گاؤں کی پاروتی دیوی کہتی ہیں، ’’ہم رفع حاجت کے لیے لیٹرین کو اور پیشاب کے لیے بنجر کھیتوں کا استعمال کرتے ہیں اور اندھیرے میں اپنے گھروں کے قریب ہی پیشاب کرتے ہیں۔‘‘ پاروَتی کے شوہر انڈو تبتی بارڈر پولیس سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
بعض معاملوں میں گاؤں کے لوگ ہی تبدیلی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ کُٹی گاؤں کی ایک بزرگ کسان، سکھ متی دیوی کہتی ہیں، ’’ہمارے اسلاف مدتوں سے اسی طرح زندگی گزارتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں اور جب کوئی باہر والا ایسا کرنے کو کہے، تو ہم اچانک کیسے بدل سکتے ہیں؟‘‘
سووچھ بھارت مشن کی مہم کا دعویٰ ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۹ تک وہ ’کلین انڈیا‘ کے اپنے وژن کو حاصل کر لے گا۔ لیکن زیادہ تر بیت الخلاء پانی کی سپلائی کے بغیر تعمیر کیے جا رہے ہیں، اور لوگ ناقص ٹوائلٹ استعمال کرنے سے گریزاں ہیں، اس لیے اس عظیم الشان منصوبے سے کچھ بدبو تو آ رہی ہے۔
مترجم: شفیق عالم