یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، لیکن اس کی تاریخ کافی شاندار ہے۔ تلنگانہ کے عادل آباد ضلع کے اس قصبہ کا نام ۱۷ویں صدی کے حکمراں، نِمّا نائڈو کے نام پر نرمل پڑا، جن کی آرٹ اور کھلونا بنانے میں کافی دلچسپی تھی۔ اپنے زمانے میں انھوں نے ۸۰ کاریگروں کو جمع کیا اور کھلونا بنانے والی صنعت شروع کی، جس کی وجہ سے ان کے قصبہ کو ثقافتی اہمیت حاصل ہوئی۔
اب آئیے اس کی موجودہ حالت پر غور کرتے ہیں۔ نرمل میں تھوڑی دیر کے لیے وہ لوگ ٹھہرتے ہیں، جو عادل آباد شہر گھومنے آئے ہیں یا پھر جو لوگ پاس میں موجود کُنٹالا واٹر فالس (جھرنے) کو دیکھنے جاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ ایک لاکھ سے بھی کم آبادی والے اس قصبہ میں لکڑی سے کھلونے بنانے کا یہ قدیم فن وہاں کے تقریباً ۴۰ گھرانوں میں اب بھی موجود ہے۔
نرمل کے کھلونا بنانے والوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ یہاں کے حیوانات و نباتات سے ان کی تصویریں بنانے کے ماہر ہیں۔ قدرتی لکڑی کا استعمال کرنے کے علاوہ، وہ کھلونوں کو مختلف زاویوں میں ڈھالنے کے لیے ان کی شکل و صورت اور ہیئت کا مطالعہ کرتے ہیں، چاہے وہ جانور ہوں یا پھر پھل، تاکہ ان کی بالکل صحیح نقل تیار کر سکیں۔
نرمل کے کھلونا بنانے والے، اپنی کالونی کے ٹھیک سامنے بنے ورکشاپ میں
اس قصبہ کے سبھی کھلونا بنانے والے کلا نگر (کلا کا مطلب ہے فن) نام کی کالونی میں رہتے ہیں۔ یہ علاقہ اس ورکشاپ کے ٹھیک پیچھے بنا ہوا ہے، جہاں پر کھلونے بنائے جاتے ہیں۔ اس ورکشاپ کے ایک ماہر کاریگر کا نام ہے نام پَلّی لِمبیہ۔ وہ فخریہ انداز میں بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد سے یہ فن کیسے سیکھا۔ ان کے والد خود ایک ماہر کاریگر تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں اس فن کو تب سے دیکھ رہا ہوں، جی رہا ہوں اور سیکھ رہا ہوں، جب سے میں پیدا ہوا ہوں۔ اسے میں نے آسانی سے سیکھ لیا۔ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب اسے سیکھنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ کیا آپ سیکھنا چاہتے ہیں، نہیں سیکھ سکتے۔ آپ کو اس فن کے ساتھ جینا پڑے گا۔‘‘
لمبیہ تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کا ہاتھ بغیر رکے ہوئے پالش کر رہا ہے۔ کھلونا بنانے میں ایک خاص قسم کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے، جسے ’پونیکی چیکا‘ (پونیکی درخت کی لکڑی) کہتے ہیں۔ یہ کھلونے کبھی ٹوٹیں گے نہیں اور نہ ہی خراب ہوں گے، یہ ان کا دعویٰ ہے۔ اس کے بعد وہ ایک مادّہ نکالتے ہیں، جسے وہ ’لَپّم‘ کہتے ہیں۔ یہ گوند کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ اس سے کھلونے کو پالش کرنے اور انھیں مضبوط بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’لپم اِملی کے بیج کو پیس کر بنایا گیا گوند ہے۔‘‘
کئی دہائیوں قبل نرمل کے کامگاروں کا ایک گروپ جمع ہوا اور اس نے خود کو ایک سوسائٹی کے طور پر منظم کرکے صوبائی حکومت کے ذریعے دی گئی زمین پر اس ورکشاپ کو بنایا۔ اپنے ذریعہ بنائے گئے کھلونوں کی تعداد اور قسموں کی بنیاد پر لمبیہ اس ورکشاپ میں ایک کاریگر کے طور پر ماہانہ ۶۰۰۰ روپے سے ۷۰۰۰ روپے تک کما لیتے ہیں۔
کاریگر نام پلی لمبیہ ’لپم‘ نام کے گھریلو گوند سے کھلونے کو پالش کر رہے ہیں۔ نیچے: ورکشاپ میں
فرصت کے وقت۔ دائیں: کاریگر بوسانی لکشمی اپنے گھر میں
وہ ہرن کی شکل کے کھلونے کو، جس پر وہ ابھی کام کر رہے ہیں، بغل میں رکھتے ہیں اور گہری سانس لیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب ہمیں انھیں بنانے کا خام مال نہیں مل پا رہا ہے۔ اس لکڑی کو پانے کے لیے آپ کو گھنے جنگلوں کے اندر جانا پڑے گا۔ اس میں جتنی محنت لگتی ہے، اس کے حساب سے اگر ہم کھلونوں کی قیمت بڑھا دیں، تو انھیں کوئی نہیں خریدے گا۔ میں اپنے بچوں کو یہ ہنر سکھاؤں گا، کیوں کہ یہ ہمارے لیے ایک موروثی ملکیت کی مانند ہے، لیکن میں نہیں چاہتا کہ وہ اسے ایک پیشہ کے طور پر اپنائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ تعلیم حاصل کریں گے اور شہر جاکر اپنے لیے کوئی نوکری تلاش کریں گے۔ میں ان کے مستقبل کو لے کر فکرمند ہوں۔‘‘
ورکشاپ کے ایک کونے میں ہرن کے کھلونوں کی قطار جنھیں پینٹنگ کا انتظار ہے
پونیکی درخت کی لکڑیاں ملائم ہوتی ہیں اور نرمل کے آس پاس کے جنگلات میں ملتی ہیں۔ پہلے انھیں ان درختوں کی خاص پود کاری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، کیوں کہ تب جنگلوں میں یہ لکڑی کثرت سے مل جایا کرتی تھی۔ اب، چونکہ یہ لکڑی بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے، اور جنگلات میں ان درختوں تک رسائی پر بھی لگاتار پابندی لگائی جا رہی ہے، اس لیے زیادہ تر کاریگر اب اس پیشہ کو چھوڑ رہے ہیں، کیوں کہ انھیں اس میں کوئی مستقبل نہیں دکھائی دے رہا ہے۔
یہاں کا ایک دوسرا کاریگر بتاتا ہے کہ سب سے زیادہ جدوجہد ان بوڑھی عورتوں کو کرنی پڑ رہی ہے، جو اس کالونی میں رہتی ہیں اور یہی ان کا ذریعۂ معاش ہے۔ ورکشاپ میں کام کرنے والے مرد ان کے لیے لکڑیاں جمع کرتے ہیں اور یہ عورتیں بغیر کسی جدید آلے یا مشینری کے ان لکڑیوں کو کاٹ کر ان سے کھلونے تیار کرتی ہیں۔
کالونی میں رہنے والی بوسانی لکشمی بتاتی ہیں کہ چند سال قبل ان کے شوہر کی موت ہوگئی اور ان کے کوئی بچہ بھی نہیں ہے۔ چونکہ ان کی مدد کرنے والا اب کوئی نہیں ہے، اس لیے ان کے پاس اب زیادہ مواقع نہیں ہیں۔ شادی کے بعد سے ہی وہ ان کھلونوں کو بنانے میں اپنے شوہر کی مدد کیا کرتی تھیں۔ انھیں صرف یہی کام آتا ہے۔
’’بعض دفعہ یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ چونکہ لکڑیوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے ورکشاپ پہلے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے اس کے بعد جو کچھ بچ جاتا ہے اسے ہمارے پاس کھلونے بنانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ہمیں ایک عدد کھلونا بنانے کے عوض تقریباً بیس روپے ملتے ہیں اور انھیں پیسوں سے میں اپنی ضروریات پوری کرتی ہوں،‘‘ یہ بات وہ اپنے گھر سے کسٹرڈ سیب کی شکل کے بنائے گئے کھلونے کو خشک کرنے کے لیے باہر لے جاتے ہوئے بتاتی ہیں۔ چونکہ ایک ہفتہ میں وہ ۵۰ کھلونے بنا لیتی ہیں، اس لیے ان کی ماہانہ آمدنی تقریباً ۴۰۰۰ روپے ہے۔
بوسانی لکشمی کسٹرڈ سیب کے اپنے کھلونوں کے خشک ہونے کا انتظار کر رہی ہیں
لکشمی کو صرف لکڑیوں کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ یہ لکڑیاں تب تک حاصل کر سکتی ہیں، جب تک ان کی سپلائی ہو رہی ہے۔ ’’جب یہ سپلائی رک جائے گی، میں بھی رک جاؤں گی،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)
ڈاکٹر محمد قمر تبریز ایک انعام یافتہ، دہلی میں مقیم اردو صحافی ہیں، جو راشٹریہ سہارا، چوتھی دنیا اور اودھ نامہ جیسے اخبارات سے جڑے رہے ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے تبریز اب تک دو کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھنے کے علاوہ متعدد کتابوں کے انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمے کر چکے ہیں۔ آپ ان سے یہاں رابطہ کر سکتے ہیں: @Tabrez_Alig
بھاونا مرلی لویولا اکیڈمی، حیدرآباد سے ماس کمیونی کیشن میں گریجویٹ ہیں۔ ان کی دلچسپی ترقیاتی تعلیم اور دیہی صحافت میں ہے۔ یہ مضمون انھوں نے جنوری ۲۰۱۶ میں ’پاری‘ کے ساتھ ِانٹرن شِپ کے دوران لکھا تھا۔
Dr. M.Q. Tabrez is an award-winning Delhi-based Urdu journalist who has been associated with newspapers like Rashtria Sahara, Chauthi Duniya and Avadhnama. He has worked with the news agency ANI. A history graduate from Aligarh Muslim University and a PhD from JNU, Tabrez has authored two books, hundreds of articles, and also translated many books from English and Hindi to Urdu. You can contact him at: @Tabrez_Alig