برہم پتر ندی میں دیسی کشتیاں، روزانہ صبح کو متعدد چار – ایسے چھوٹے جزیرے جو لگاتار کٹ کر ندی میں ملتے جا رہے ہیں – سے ڈیلی ویج ورکرز کو، آسام کے دھوبری ضلع کے دھوبری ٹاؤن لے آتی ہیں۔ پڑوسی ریاست میگھالیہ سے بھی بانس کے لٹھوں کے بیڑے یہاں پہنچتے ہیں، جو دھوبری میں برہم پتر ندی میں آکر ملنے والی اس کی معاون گدادھر ندی سے بہہ کر یہاں آتے ہیں۔
لیکن اس سنگم پر اب ذریعہ معاش محدود ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران بانس کاٹنے والوں کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ ان بانسوں کا استعمال باڑ، پینل، بانس کی دیوار اور لکڑی کے پلائی ووڈ بنانے میں کیا جاتا ہے۔ لیکن آسام میں لگاتار سیلاب اور مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے اب چار یا دیگر جگہوں پر رہنے والے لوگ بانس سے بنے اور مخصوص قسم کی چھتوں والے روایتی گھروں کی بجائے نئے زمانے کے ٹن کی چھتوں اور دیواروں سے بنے فولڈنگ ہاؤس میں رہنے لگے ہیں۔ بانس کاٹنے کی مانگ اب مغربی بنگال اور بہار میں بھی کم ہونے لگی ہے، کیوں کہ وہاں پر بھی لوگ اب اینٹ یا ٹن کی مدد سے کم لاگت والے گھر تیزی سے بنانے لگے ہیں۔
معین الدین پرمانِک، عمر ۳۵ سال، کُنٹیر چار سے روزانہ دھوبری آتے ہیں۔ چار بچوں کے والد، معین الدین کا ذریعہ معاش ہے دن بھر کڑی محنت کرکے بڑے چاقو سے بانسوں کو ٹکڑوں میں کاٹنا، اس کام کو مقامی زبان میں باشیر کاج کہتے ہیں۔ وہ روزانہ آٹھ گھنٹے میں اوسطاً ۲۰ بانسوں کو کاٹ کر ۲۵۰ روپے کماتے ہیں۔ بانس کا کام کرنے والے ان متعدد لوگوں میں معین الدین بھی شامل ہیں، جو مقامی ٹھیکہ داروں کے ذریعہ یہاں لائے جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب یہ کام یہاں زیادہ دستیاب نہیں ہے، مشکل سے سال کے چھ مہینے کام ملتا ہے۔
ہر ایک بانس کو تین ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے – اوپری حصہ کافی نرم ہوتا ہے جسے بانس کی دیواریں بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے؛ بیچ کا حصہ بھی دیوار بنانے میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ نرم نہیں ہوتا؛ اور سب سے نچلا حصہ لکڑی کے پلائی بورڈ میں بھرنے کے کام آتا ہے۔
پہلے جہاں ہر مہینے دو ٹرک لادے جاتے تھے، وہ اب گھٹ کر دو مہینے میں صرف ایک ٹرک لوڈ ہی رہ گیا ہے
مزدور کاٹے گئے بانس کے ٹکڑوں کو رسیوں سے باندھ کر اس کا گٹھر بنا دیتے ہیں اور پھر کام کی جگہ پر ہی کہیں جمع کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بعد میں اسے ٹرک یا دیگر گاڑیوں پر لاد کر دوسری جگہ بھیج دیا جاتا ہے۔ کاٹے گئے بانس کے ٹکڑوں کو جمع کرکے رکھنے کے لیے بڑی جگہ چاہیے۔ یہ جلدی خراب ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی بازاری قیمت گھٹ جاتی ہے؛ اس کے بعد بانس کو کم قیمت پر صرف جلانے کے ایندھن کے طور پر ہی بیچا جا سکتا ہے۔
بانس کو ترتیب سے رکھنا: دھوبری میں ندی کے کنارے کا ایک عام منظر
چار سے کاٹے گئے بانسوں کی مانگ اس لیے کم ہو گئی ہے، کیوں کہ بدلتے جزیروں پر رہنے والے لوگ اب ٹن سے بنے نئے فولڈنگ گھروں کو ترجیح دینے لگے ہیں، جو زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور آسانی سے کہیں اور لے جایا جا سکتا ہے، جب سیلاب آئے یا چار کے کٹاؤ کے سبب انھیں کہیں اور جانے پر مجبور ہونا پڑے۔
محکمہ جنگلات پہلے ریاست کے اندر باڑ لگا کر پیڑ پودوں کی حفاظت کے لیے بھاری مقدار میں خاص طور سے بُنے ہوئے بانس خریدتا تھا، لیکن اب وہ اس کی جگہ پر لوہے یا پلاسٹک کی جالیوں کا استعمال کرنے لگا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی بانس کاٹنے والوں کی مانگ میں کمی آئی ہے۔
ٹھیکہ دار مزدوروں کو منگل اور جمعرات کو پیسے دیتا ہے، جو کہ مقامی بازار کے دن ہوتے ہیں۔ معین الدین کے ٹھیکہ دار، رادھا کرشن منڈل (سب سے دائیں)، میگھالیہ سے ایک بانس ۱۰ روپے کے حساب سے خریدتے ہیں اور پھر معین الدین اور سات دیگر لوگوں سے اسے کٹواتے ہیں۔
چار سال پہلے تک منڈل، مغربی بنگال اور بہار جیسی ریاستوں کو ہر ماہ کم از کم دو ٹرک کٹے ہوئے بانس کے ٹکڑے سپلائی کیا کرتے تھے۔ اب وہ بتا رہے ہیں کہ وہ دو ماہ میں صرف ایک ٹرک ہی بانس سپلائی کر پاتے ہیں۔
دھوبری ٹاؤن میں ڈُھلائی کے ۴ گھاٹ ۳۵۰ چار کو جوڑتے ہیں ۔ ان چاروں گھاٹوں پر بانس کی کٹائی ایک عام سرگرمی ہے اور یہی ذریعہ معاش بھی ہے۔ ہر ایک گھاٹ پر کم از کم سات ٹھیکہ دار اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔
یہ کاروبار اب ختم ہوتا جا رہا ہے، معین الدین کے پاس کام کے لیے کوئی دوسرا متبادل نہیں بچا ہے۔ گاڑیوں پر سامان لادنے، سروں پر بوجھ ڈھونے، رکشہ چلانے، گیراج میں ہیلپر اور اس قسم کے روزانہ کے متعدد کاموں کی تلاش میں ۳۵۰ چار کے مزدوروں کی بھاری تعداد اس سنگم پر ہر وقت موجود رہتی ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)