رمیش جگتاپ کا دن خراب رہا۔ انھوں نے صبح کو اپنی بیوی، گنگو بائی سے جھگڑا کیا۔ لڑائی کے بعد ان کی بیوی نے زہر کھا لیا۔ وہ انھیں ایک ساجھے والے رکشہ میں بیٹھا کر اپنے گاؤں ساتیفل سے ۳۰ کلومیٹر دور، عثمان آباد شہر کے ضلع کے سول اسپتال لے کر گئے۔ ’’پورے سفر کے دوران میرا دل زور زور سے دھڑکتا رہا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’خوش قسمتی سے، ہم ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے وقت پر پہنچ گئے۔‘‘
وہ دوپہر میں بھاگے ہوئے ساتیفل واپس آئے۔ ضلع کے کوآپریٹو بینک کی مقامی شاخ سرکار کی فصل بیمہ اسکیم کے تحت کسانوں کے ذریعے مانگے گئے پیسے بانٹ رہی تھی۔ ’’میں واپس آیا اور ایک گھنٹہ تک قطار میں کھڑا رہا،‘‘ جگتاپ کہتے ہیں۔ ’’لیکن بینک نے پیسے کا صرف ایک حصہ جاری کیا۔‘‘ اور یہ پیسہ صرف اُن کسانوں کو دیا گیا، جنہوں نے ان سے پہلے ٹوکن لے لیا تھا۔
ویڈیو دیکھیں: ’میں ۱۵ دنوں سے بینک جا رہا ہوں‘ رمیش جگتاپ بتاتے ہیں
۵۰ سالہ جگتاپ، جو اپنی پانچ ایکڑ زمین پر سویابین، جوار اور گیہوں کی کھیتی کرتے ہیں، کو نہیں معلوم کہ وہ اگلے دن جب سوکر اٹھیں گے، تو انھیں کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے بینک سے پہلے ہی ایک لاکھ ۲۰ ہزار کا قرض لے رکھا ہے، اور انھیں پرائیویٹ ساہوکار کو ۵۰ ہزار روپے دینے ہیں۔ ’’میں نے پچھلے سال قحط کے دوران اور اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پیسے قرض لیے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’پیسے چکانے میں دیری کی وجہ سے ساہوکار ہمیں ہر روز گالی دیتے ہیں۔ میری بیوی سے جھگڑا اسی بات کو لے کر شروع ہوا۔ وہ دباؤ اور ذلت کو برداشت نہیں کر سکی، اسی لیے اس نے اسی وقت زہر کھا لیا۔ مجھے اپنے قرض چکانے ہیں۔ مانسون کے موسم سے پہلے مجھے اپنے کھیت کو تیار کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
پیسوں کی شدید خواہش نے جگتاپ کو اسپتال میں گنگوبائی کو چھوڑ کر ساتیفل لوٹنے پر مجبور کیا۔ وہ ۱۵۔۲۰۱۴ کے ربیع کے موسم کے فصل بیمہ کے لیے حکومت سے ۴۵ ہزار روپے لینے کے اہل ہیں۔ جگتاپ جیسے ۲۶۸۰۰۰ کسانوں کے لیے حکومت نے ۴ مارچ کو عثمان آباد ڈسٹرکٹ سنٹرل کوآپریٹو بینک (او ڈی سی سی) میں ۱۵۹ کروڑ روپے جمع کرا دیے تھے۔ لیکن دو مہینے بعد، صرف ۴۲ کروڑ روپے ہی تقسیم کیے گئے۔
بینک کو ساتیفل کے کسان، چندر کانت اوگالے کو ان کے فصل بیمہ کے ۱۸ ہزار روپے اب بھی دینے باقی ہیں
حکومت نے ۱۷۔۲۰۱۶ کے خریف موسم کے لیے فصلہ بیمہ کے ۳۸۰ کروڑ روپے ۵ اپریل کو جمع کر دیے تھے۔ کسانوں کو یہ پیسہ بھی ابھی تک نہیں ملا ہے۔
عثمان آباد کے کسان لیڈر، سنجے پاٹل دودھ گاؤنکر، جنہوں نے بینک کی طرف سے پیسے کی ادائیگی میں ہونے والی دیری کے بعد ۱۹ اپریل کو تین روزہ بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی، ان کا الزام ہے کہ او ڈی سی سی نے پیسے کو سرمایہ کاری میں لگا دیا ہے اور اب اس کا سود کھا رہا ہے۔ ’’یہی وہ وقت ہے جب کسانوں کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ نازک وقت ہے اور اس وقت ہاتھ میں پیسے ہونے کا دیر تک فائدہ ہوتا ہے۔ کسان اپنے ہی پیسے کے لیے مہینوں انتظار کیوں کرے؟‘‘ انھوں نے اپنی بھوک ہڑتال تب جاکر ختم کی، جب بینک نے ۱۵ دنوں کے اندر پیسے دینے کا وعدہ کر لیا، لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔
ساتیفل کے ۵۲ سالہ چندرکانت اوگالے کہتے ہیں کہ پیسے کے لیے بار بار دوڑتے رہنے کی وجہ سے خریف موسم کے لیے کھیت کو تیار کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ’’اُدھار پر اب بیج اور کھاد حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ہر آدمی ہماری مالی حالت کے بارے میں جانتا ہے۔ پیسے والے کسان پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔‘‘ بینک کو اُگالے کو ان کے فصل بیمہ کی رقم، ۱۸ ہزار روپے ابھی بھی دینے ہیں۔
ویڈیو دیکھیں: ’میں گزشتہ آٹھ دنوں سے بینک جا رہا ہوں، لیکن کوئی فائدہ نہیں‘ چندرکانت اوگالے کہتے ہیں
او ڈی سی سی کے چیف آفیسر (ایڈمنسٹریشن اور اکاؤنٹس)، وی بی چانڈک کہتے ہیں کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے وافر نوٹ جاری نہیں کیے ہیں، اسی لیے بینک کو پیسے جاری کرنے میں دقت ہو رہی ہے۔ ’’ہم اب بھی جتنی تیزی سے ہوسکے پیسے تقسیم کر رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم کوشش کریں گے کہ سارے پیسے ۱۵ دنوں میں بانٹ دیے جائیں۔‘‘
چانڈک جس وقت اپنے بینک کا دفاع کر رہے ہیں، اس وقت بھی ۱۰ سے ۱۵ لوگ غصے سے ان کے کیبن میں گھس آتے ہیں۔ وہ ان کے اوپر کاغذات پھینکتے ہیں، ان پر اپنی مالی منصوبوں کو برباد کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور نقد پیسے مانگتے ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنا فکسڈ ڈپوزٹ نکالنا چاہتے ہیں، جس کی میعاد سالوں پہلے پوری ہو چکی ہے۔ انہیں میں سے ایک ۴۵ سالہ سنیتا جادھو ہیں، جو ایک بیوہ ہیں اور ایک سال پہلے میچور ہو چکی ۳۰ ہزار روپے کی اپنی رقم نکالنا چاہتی ہیں۔ ’’میری بیٹی کی شادی ۷ مئی کو ہونے والی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں اپنے پیسوں کے بغیر یہاں سے واپس نہیں جاؤں گی۔‘‘
جلکٹ گاؤں کی سنیتا جادھو: ’میری بیٹی کی شادی ۷ مئی کو ہونے والی ہے۔ میں اپنے پیسے لیے بغیر یہاں سے واپس نہیں جاؤں گی‘
جادھو، عثمان آباد شہر سے ۵۰ کلومیٹر دور جلکٹ گاؤں میں رہتی ہیں۔ بینک آنے کے لیے انھوں نے اپنی تقریباً ایک دن کی مزدوری، ۲۰۰ روپے خرچ کی ہے۔ اور گزشتہ چھ مہینوں میں انھوں نے او ڈی سی سی کے کئی بار چکر لگائے ہیں۔ وہ اپنے پرس سے شادی کا ایک کارڈ نکالتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’اس پیسے کو بچانے کے لیے میں نے کڑی محنت کی ہے۔‘‘ جادھو اینٹ کی ایک بھٹی میں مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کا بھائی، جو ان کے ساتھ ہی رہتا ہے، جلکٹ کے ایک ہوٹل میں ویٹر کا کام کرتا تھا، لیکن اب اس کی نوکری جا چکی ہے۔ ’’اپنی کڑی محنت سے کمائی گئی رقم کو حاصل کرنے کے لیے دن بھر گڑگڑانے کا مطلب ہے اپنی ایک دن کی مزدوری بھی گنوا دینا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’مقامی شاخ کہتی ہے کہ میں ہیڈکوارٹرس جاؤں۔ یہاں وہ کہتے ہیں کہ میں مقامی شاخ میں جاؤں۔‘‘
چانڈک ان سب کی باتوں کو سنتے ہیں اور نرمی سے کہتے ہیں کہ بینک میں پیسے نہیں ہیں۔ ان کی بات صحیح ہے۔ اوڈی سی سی تباہی کا شکار ہے۔ بینک فکسڈ ڈپوزٹ کے تقریباً ۴۰۰ کروڑ روپے واپس کرنے کی حالت میں نہیں ہے، لیکن وہ غیر زرعی لون کے اپنے ۵۰۰ کروڑ روپے وصول کرنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر رہا ہے۔ ان میں سے ضلع کی گنے کی دو فیکٹریوں ۔ ٹیرنا اور تُلجا بھوانی نے بینک سے ۳۸۲ کروڑ روپے کے قرض لے رکھے ہیں۔
مزید برآں، او ڈی سی سی نے کسانوں کو جو لون دیے ہیں، اس کے پیسے ۴۶۷ وِوِدھ کاریہ کاری سیوا سوسائٹیز کے ذریعے نکالے گئے، جو بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان سوسائٹیز کے او ڈی سی سی پر، کسانوں سے واپس لی جانے والی رقم سے ۲۰۰ کروڑ روپے زیادہ بقایہ ہیں۔ یہ پیسہ کہاں گیا، کسی کو نہیں معلوم۔
اِن مسائل کے بارے میں کچھ کرنے کی بجائے او ڈی سی سی نے نومبر وسط میں ۲۰ ہزاروں کسانوں کو، جن کے بینک پر ۱۸۰ کروڑ روپے بقایہ ہیں کھلے عام دھمکی دی اور انھیں نوٹس بھیجا۔ بینک نے یہ دھمکی اس وقت واپس لی، جب نیوز میڈیا میں اس معاملہ کو اٹھایا گیا۔ ’’غیر زرعی قرضے بارسوخ لوگوں نے لے رکھے ہیں (جن کا سیاسی تعلق ہے)،‘‘ ایک بینک اہلکار نے بتایا۔ ’’ہم جب انھیں یاددہانی کرانے کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں، تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم قرب و جوار میں تھے اور پھر قرض کی بات کو ٹال جاتے ہیں۔‘‘
پیسے جمع کرنے والے ناراض لوگ عثمان آباد ڈسٹرکٹ کوآپریٹو بینک میں، اپنے پیسے واپس مانگ رہے ہیں
او ڈی سی سی نے ڈیفالٹروں سے چونکہ قرض کے پیسے واپس نہیں وصول کیے ہیں، اس لیے اس نے کسانوں کو فیصلہ بیمہ اسکیم کے جو پیسے ملنے تھے، انھیں فصل کے لیے نکالی جانے والی قرض کی رقم کے ساتھ ’ایڈجسٹ‘ کر دیا ہے، جو کسانوں نے ابھی نکالے نہیں ہیں۔ یہاں پر ’ایڈجسٹ‘ کا مطلب ہے بیمہ کی جو رقم ان پر بقایہ ہے، اس کو فصل کے لیے ان کے ذریعے لیے گئے قرض کی رقم سے گھٹا دینا۔ ’’کلکٹر نے ۲۲ مارچ کو کہا کہ ہم رقم کا ۵۰ فیصد ’ایڈجسٹ‘ کر سکتے ہیں،‘‘ چانڈک بتاتے ہیں۔ یعنی ایک کسان کو دی جانے والی بیمہ کی رقم کا آدھا پیسہ اس طرح سے گھٹایا جا سکتا ہے۔ ’’۳۱ مارچ کو، اس فیصلہ کو واپس لے لیا گیا۔ اگر ہمیں سرکار سے واضح احکامات ملے، تو ہم ان لوگوں کے پیسے واپس کر دیں گے، جسے ہم نے ایڈجسٹ کر دیا تھا۔‘‘
دودھ گاؤنکر کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ حکومت نے ۲۲ مارچ سے ۳۱ مارچ کے درمیان اس طریقے سے بیمہ کی رقم کے ۵ کروڑ روپے دوسری جانب منتقل کر دیے، جب کہ گزشتہ چھ مہینوں میں غیر زرعی لون کے ۵۰ لاکھ روپے بھی ریکور نہیں کیے۔
او ڈی سی سی دوسرے طریقوں سے بھی کسانوں کے تناؤ کو بڑھا رہا ہے۔ چند سال قبل، بینک نے کسانوں کے ٹرم لون اور کراپ لون کو ایک ساتھ جوڑ کر ان کے قرضوں کو پھر سے ترتیب دینا شروع کیا۔ (بیج اور کھاد خریدنے جیسی زرعی سرگرمیوں کے لیے) کراپ لون پر شرحِ سود ۷ فیصد ہے؛ اس میں سے ۴ فیصد ریاستی حکومت ادا کرتی ہے۔ ٹرم لون (جس کا استعمال بڑی رقم کی سرمایہ کاری میں ہوتا ہے) پر اس شرحِ سود کا دو گنا لگ سکتا ہے۔ دوبارہ ترتیب دے کر، بینک دونوں لون کو آپس میں ضم کر رہا ہے اور پھر انھیں ایک نئے ٹرم لون میں بدل رہا ہے، جس سے کسانوں کے بقایوں میں بھاری اضافہ ہو رہا ہے۔
شیل گاؤں کے ۶۷ سالہ بابو راؤ ناولے کہتے ہیں کہ ان کے پرنسپل لون کی رقم صرف ۴ لاکھ روپے تھی۔ اسے دوبارہ ترتیب دینے کے بعد گزشتہ برسوں میں یہ رقم بڑھ کر اب ۱۷ لاکھ روپے ہو چکی ہے۔ بینک کا دعویٰ ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے کسانوں سے ان کی منظوری لی گئی تھی، لیکن کسان کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ ’’ہم سے ایک کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا، تاکہ ہمارے گھروں پر چھاپے نہ پڑیں اور سامان نہ قرق کیے جائیں،‘‘ ناولے بتاتے ہیں، جو اپنی چار ایکڑ زمین پر گیہوں، جوار اور باجرا کی کھیتی کرتے ہیں۔ ان کے گاؤں کے ۲۵ کسانوں کا او ڈی سی سی پر مجموعی طور پر ۲ کروڑ روپے سے زیادہ کا بقایہ ہے، ابتدائی رقم تقریباً ۴۰ لاکھ روپے تھی۔ ’’کیا یہ بینک کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ہمارے دستخط لینے سے پہلے ہمیں پوری جانکاری دے؟‘‘
شیل گاؤں کے کسان، بابو راؤ ناولے، جن کا ۴ لاکھ روپے کا پرنسپل لون اب بڑھ کر ۱۷ لاکھ روپے ہو چکا ہے
مراٹھواڑہ کے تقریباً سبھی ڈسٹرکٹ کوآپریٹو بینکس، جن میں بہت سے کسانوں کے کھاتے ہیں، بدحالی کے شکار ہیں۔ یہ بینک، جو طاقتور ڈیفالٹروں سے نمٹ نہیں سکتے اور خود مالی خستہ حالی کے شکار ہیں، کسانوں کو مشکل سے ہی اقتصادی مضبوطی عطا کر سکتے ہیں، اس لیے یہ کسان اب پرائیویٹ ساہوکاروں کا رخ کر رہے ہیں۔
ساتیفل میں، جب جگتاپ اپنی پریشانیوں کے بارے میں مجھ سے بات کر رہے ہیں، اپنی موٹرسائیکلوں سے وہاں سے گزرنے والے کئی لوگ ہمارے پاس جمع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی بینک سے لوٹ رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو راحت ملی ہے، لیکن کئی لوگ مایوس ہیں۔ اس دن بینک کی شاخ نے ساتیفل کے صرف ۷۱ کسانوں کو فصل بیمہ کی رقم بانٹی۔ جگتاپ نے واپس اسپتال جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری بیوی مجھ سے پوچھے گی کہ کیا مجھے بیمہ کی رقم ملی، تو میں اسے کیا جواب دوں گا۔۔۔؟‘‘
تصاویر: پارتھ ایم این