’ہم آدیواسی ہیں اور چشموں میں رہتے ہیں، ہم گریجن کہلاتے ہیں
ہم وہ ہیں جو جنگل کے خزانے پر رہتے ہیں...
اگر ہمیں مشکلوں کا سامنا ہو، تو ہم ایڈجسٹ کر لیتے ہیں
اگر ہمیں نقصان کا سامنا ہو، تب بھی ہم زندہ رہ پاتے ہیں‘
۱۵ سالہ کورسا آدتیہ دیگر کسانوں کے ساتھ مارچ کرتے وقت ڈپّو بجاتے ہوئے گاتا ہے۔ وہ نیلا کرتا پہنے ہے، اس کی پیشانی پر ہرے رنگ کی پٹّی اور کمر میں لال کندوا ہے۔
اس کے پیروں میں چھالے پڑ چکے ہیں اور بائیں گھٹنے میں تیز درد ہے۔ پھر بھی وہ اسے ڈگمگا نہیں پاتے۔ ’’مجھے کل (مارچ کے منتظمین کے ذریعے) کچھ دوائیں اور مرہم دیے گئے تھے، جس کے بعد چیزیں تھوڑی بہتر ہوئیں،‘‘ آدتیہ کہتا ہے، جو بُٹّائے گوڈیم منڈل کے گن پاورم گاؤں کے اسکول میں ۹ویں کلاس میں ہے۔ اس لمبے سفر کے آدھے راستے میں چپل ٹوٹ جانے کے بعد وہ ننگے پاؤں چلتا رہا۔
وہ اور تقریباً ۵۰۰ دیگر آدیواسیوں – جن میں سے زیادہ کویا اور کونڈا ریڈی برادری کے تھے – نے ۱۰ جولائی کو مغربی گوداوری ضلع کے کُکونور منڈل کے چیرا ولّی گاؤں سے یہ مارچ شروع کیا تھا؛ ۱۶ جولائی کو جب وہ ضلع ہیڈکوارٹر ایلورو پہنچے، تو منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بڑھ کر ۱۵۰۰ ہو گئی تھی۔ میں آخر کے دو دن ان کے ساتھ چلا، دینڈولورو سے ایلورو تک۔ مارچ نکالنے والوں میں سے کچھ نے مجھے بتایا کہ وہ عام طور سے آدیواسی کسانوں کے ذریعے مارچ ۲۰۱۸ میں مہاراشٹر کے ناسک سے ممبئی تک نکالے جانے والے لمبے مارچ سے متاثر تھے۔
منتظمین نے اس مارچ، کو ایجنسی پورویاترا کہا۔ ’ایجنسی‘ پانچویں درج فہرست علاقہ کے لیے مقامی لفظ ہے – عموماً آدیواسی علاقے جہاں ہندوستان کا آئین تاریخی اور اقتصادی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے خاص توجہ اور حقوق فراہم کرتا ہے۔ تیلگو میں ’پورو‘ کا مطلب ہے ’لڑائی‘۔
آندھرا پردیش میں مِغربی گوداوری ضلع کا پانچواں درج فہرست علاقہ آٹھ منڈلوں میں پھیلا ہوا ہے – ان میں سے دو اندرا ساگر (پولاورم) کثیر مقصدی پروجیکٹ اور جلیرو آبی ذخیرہ (چنتل پُڈی لفٹ آبپاشی اسکیم کا حصہ)، دونوں ہی گوداوری ندی پر واقع ہیں، کے ذریعے پوری طرح سے اور دیگر چھ جزوری طور پر پانی میں ڈوب جائیں گے۔ پولاورم پروجیکٹ ۲۰۰۴ میں شروع کیا گیا تھا اور سرکار کا دعویٰ ہے کہ یہ ۶۰ فیصد مکمل ہو چکا ہے؛ چنتل پُڈی اسکیم کا اففتاح ۲۰۱۴ میں کیا گیا تھا اور اب تک کوئی تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا ہے۔
پولاورم پروجیکٹ مغربی گوداوری ضلع کے تقریباً ۲۰۰ گاؤوں کو غرقاب اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کر دے گا۔ جلیرو آبی ذخیرہ ۱۶ آدیواسی بستیوں کو پوری طرح سے اور ۱۲۷ کو جزوی طور پر غرقاب کر دے گا۔ یہ اعداد و شمار محکمہ ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی کے ہیں، جو اس نے میرے ذریعے جون ۲۰۱۷ میں دائر حق اطلاع قانون (آر ٹی آئی) کے تحت درخواست کے جواب میں مہیا کیے ہیں۔
اس ہفتے، ان میں سے کئی بستیوں اور گاؤوں میں رہنے والے آدیواسیوں نے کل ۳۰۰ کلومیٹر کی دوری طے کی، ۲۰۰ سے زیادہ گاؤوں اور بستیوں سے گزرے، کئی بار بھاری بارش میں اور سیلاب زدہ ندیوں سے ہوکر۔ مارچ کا اختتام ایلورو میں ضلع کلکٹریٹ کے سامنے ایک میٹنگ اور دھرنا سے ہوا۔
’ہم ننگے پیر چلے پوری طرح سے اندھیرے میں، کمر تک گہرے پانی میں، کیچڑ میں، جس میں ہم اپنے گھٹنوں تک ڈوب گئے، جنگلوں اور کھیتوں میں...’
۱۶ جولائی کو، پد یاترا کا انعقاد کرنے والے گروہوں – آندھرا پردیش گریجن سنگھ (اے پی جی ایس)، آل انڈیا زرعی مزدور یونین، اور آندھرا پردیش ڈسپلیسڈ پیپلز یونین – کے رہنماؤں نے ضلع کلکٹر سے ملاقات کی اور ۲۲ مطالبات کی فہرست کے ساتھ انہیں ایک میمورنڈم سونپا۔
سب سے اہم مطالبات میں شامل ہے فاریسٹ رائٹس ایکٹ (ایف آر اے)، ۲۰۰۶ کے مطابق آدیواسیوں کے جنگلاتی حقوق کو منظوری؛ تحویل اراضی، رہائش کی فراہمی اور باز آبادکاری (ایل اے آر آر) قانون، ۲۰۱۳ کے مطابق پولاورم باندھ اور جلیرو آبی ذخیرہ کے ذریعے بے گھر ہوئے لوگوں کو مناسب رہائش اور باز آبادکی؛ اور ۱۹۷۰ کی زمین کی منتقلی کے ریگولیشن (ایل ٹی آر) قانون اور پنچایت (درج فہرست علاقوں تک توسیع) قانون (پی ای ایس اے)، ۱۹۹۸ کا صحیح نفاذ۔
ایف آر اے کہتا ہے کہ اپنی گزر بسر کے لیے روایتی طور پر جنگلات پر منحصر آدیواسی برادریوں سے تحویل اراضی کرنے سے پہلے جنگلاتی حقوق کو منظوری دی جانی چاہیے اور زمین کے نقصان کی تلافی کی جانی چاہیے۔ وہ جنگلات کی زمینوں پر کاشت کاری کرتے ہیں اور جنگلی پیداوار جیسے املی، شہد اور بانس کو فروخت بھی کرتے ہیں۔ ایف آر اے کا کہنا ہے کہ آدیواسیوں کو کھیتی کے لائق زمین کا ذاتی ٹائٹل اور جنگلی پیداوار کے عوامی علاقوں کے لیے مشترکہ ٹائٹل دے کر ان روایتی حقوق کو منظوری دی جانی چاہیے۔ ایل اے آر آر اور پی ای ایس اے آدیواسیوں سے تحویل اراضی کیے جا سکنے سے پہلے گرام سبھا کی قراردادوں کو منظوری دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ اس عمل میں، ذاتی اور عوامی دونوں جنگلاتی حقوق کو منظوری دی جانی چاہیے۔ اور ایل ٹی آر آدیواسیوں سے غیر آدیواسیوں کو زمین کی منتقلی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
’’ان سبھی کی پولاورم پروجیکٹ کو پورا کرنے کی جلد بازی میں اندیکھی کی جا رہی ہے اور سرکار اپنی تمام طاقتوں کا استعمال کرکے آدیواسیوں کے خلاف جھوٹے معاملے درج کرکے ان کے احتجاج کو دبانے میں لگی ہے،‘‘ اے پی جی ایس کے ضلع صدر تیلّم رام کرشن کہتے ہیں، جن کے خلاف درجن بھر معاملے درج ہیں۔ رام کرشن ایک کویا آدیواسی ہیں، اور ان کا گاؤں بھی جلیرو آبی ذخیرہ کے ڈوبنے والے علاقے میں ہے۔
’’ہم اپنی چربی پگھلانے کے لیے نہیں چل رہے تھے، ہم اپنی زمین واپس حاصل کرنے کے لیے چل رہے تھے،‘‘ ضلع کلکٹریٹ پر جمع ۲۰۰۰ لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ آدیواسی بہبود کے سابق وزیر ریڈیا نائک کے ۲۰۰۶ کے ایک بیان کے مطابق، ۵۵ ہزار ایکڑ زمین جو آدیواسیوں کی تھی، ان کی اکیلے مغربی گوداوری ضلع میں تحویل کر لی گئی، رام کرشن مجمع کو بتاتے ہیں۔ ’’زمین ہمارا بنیادی حق ہے۔ ہم اپنی زمین واپس چاہتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں ناظرین زور زور سے تالیاں بجاتے ہیں۔
پدیاترا کے دوران، خواتین تعداد میں واضح طور پر مردوں سے زیادہ ہیں۔ وہ منتظمین کے ذریعے دی گئی پانی کی بوتلوں اور کھانے کے پیکٹوں کو پلاسٹک کی ٹوکری اور کپڑے کے تھیلوں میں رکھے، اور اپنے خود کے دوپہر کے معمولی کھانے کے ڈبے لے کر چل رہی ہیں۔ جیلوگو ملّی منڈل کے انکنّا گوڈیم گاؤں کی ساورم لکشمی نے پوری مسافت طے کی ہے۔ ’’کبھی کبھی ہمارے پاس کئی کلومیٹر تک پانی نہیں ہوتا تھا۔ دیگر مقامات پر جم کر بارش ہو رہی تھی۔ پھر بھی ہم چلتے رہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’ہم ہر صبح ۸ بجے چلنا شروع کرتے اور رات کو ۱۰ بجے رک جاتے تھے [ایک دن میں تقریباً ۴۰-۵۰ کلومیٹر کی دوری طے کرنے کے بعد]۔ ایک یا دو دن، ہم آدھی رات تک چلے کیوں کہ خراب موسم کے سبب پروگرام میں دیر ہو گئی۔ ہم ننگے پیر چلے پوری طرح سے اندھیرے میں، کمر تک گہرے پانی میں، کیچڑ میں، جس میں ہم اپنے گھٹنوں تک ڈوب گئے، جنگلات میں اور کھیتوں میں،‘‘ جیلکوگو ملی منڈل کے بریں کل پاڈو کی ۳۲ سالہ کورسا دُرگا، مجھے اپنے پیروں کے چھالے دکھاتے ہوئے کہتی ہیں۔
پدیاترا کی پوری دوری پیدل طے کرنے والی ۲۵ سالہ تامرم وینکیا کہتی ہیں، ’’ہمارے اجداد نے چھ ایکڑ پوڈو [جنگلاتی] زمین پر کھیتی کی اور اب، بغیر کسی کاغذ [قانونی حقوق] کے، ہماری زمین ڈوب رہی ہے۔ ہم پٹّہ [زمین کا ٹائٹل] اور معاوضہ چاہتے ہیں۔‘‘ حالانکہ آدیواسیوں میں سے کئی نے گرام سبھا میں حقوق جنگلات کمیٹی کے توسط سے پٹّہ کے لیے درخواست دی ہے، مالکانہ حق کی دستاویز ضلع سطحی کمیٹی (کلکٹر کی صدارت میں، جو پٹّہ جاری کرتی ہے) میں اٹکی ہوئی ہے۔
’’لگتا ہے کہ غرقابی علاقہ کے لوگوں کے دعووں کو منظوری نہیں دینے کے لیے جنگل کے اہلکاروں اور آندھرا پردیش حکومت کے درمیان ایک غیر تحریری اتفاق ہو چکا ہے، کیوں کہ ایسا کرنے سے آدیواسی کی رہائش کا کہیں اور انتظام کرنے کے لیے بڑی مقدار میں زمین کی ضرورت ہوگی،‘‘ پی سریش کمار کہتے ہیں، جو آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے ایک وکیل ہیں اور آدیواسیوں کی طرف سے مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
آدیواسیوں نے اس تکلیف دہ اور مشکل سفر کو طے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ’’ہم نے کسانوں [غیر آدیواسیوں] کے ذریعے ہماری زمین کو چھینے جانے کے سلسلے میں مقامی افسران کو کئی بار درخواست دی ہے، لیکن کسی نے پرواہ نہیں کی۔ ہم یہاں اس امید میں آئے تھے کہ کلکٹر ہماری بات سنیں گے،‘‘ دُرگا کہتی ہیں۔
لیکن، کلکٹر، کاتم نینی بھاسکر، تھکے ہوئے آدیواسیوں سے ملنے نہیں آئے اور انہوں نے ضلع ریونیو افسر این ستیہ نارائن کو بھیج دیا، جنہوں نے میمورنڈم لیا اور احتجاج کرنے والوں سے بات کیے بغیر چلے گئے۔
پھر بھی، دُرگا، وینکیّا اور دیگر کو امید ہے کہ ۳۰۰ کلومیٹر چلنے سے فرق پڑے گا۔ نوجوان آدتیہ نے پدیاترا میں حصہ لینے کے لیے اپنے اسکول سے ایک ہفتہ کی چھٹی لی۔ ’’میں نے اپنے لوگوں کے لیے، اپنی پوڈو زمینوں کے لیے، اپنے جنگلات کے لیے ایسا کیا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)