تاراونتی کور فکرمند ہیں۔ ’’فی الحال ہمارے لیے جو بھی کام دستیاب ہیں، ان زرعی قوانین کے نافذ ہونے کے بعد وہ بھی دستیاب نہیں ہوں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اس لیے وہ پنجاب کے کلّیاں والی گاؤں سے، مغربی دہلی کے ٹیکری احتجاجی مقام پر آئی ہیں۔ تاراونتی اور تقریباً ۳۰۰ دیگر خواتین اُن ۱۵۰۰ زرعی مزدوروں میں شامل ہیں، جو ریاست کے مختلف ضلعوں – بھٹنڈا، فرید کوٹ، جالندھر، موگا، مُکتسر، پٹیالہ اور سنگرور سے ۷ جنوری کی رات کو یہاں پہنچے تھے۔ یہ سبھی پنجاب کھیت مزدور یونین کے رکن ہیں، جو معاش، دلتوں کے لیے زمین کا حق اور ذات پر مبنی تفریق جیسے امور پر کام کرتا ہے۔
اور وہ پورے ہندوستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں، جو گزر بسر کے لیے زرعی کاموں پر منحصر ہیں – ملک کے ۱۴۴ اعشاریہ ۳ ملین زرعی مزدوروں میں سے کم از کم ۴۲ فیصد خواتین ہیں۔
۷۰ سالہ تاراونتی، مُکتسر ضلع کی ملوٹ تحصیل کے اپنے گاؤں میں گیہوں، دھان اور کپاس کے کھیتوں پر مزدوری کرکے ایک دن میں ۲۵۰-۳۰۰ روپے کماتی ہیں۔ ’’لیکن پہلے کے مقابلے اب یہاں زیادہ کام دستیاب نہیں ہے۔ مزدور سبز انقلاب کے بعد سے پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں،‘‘ وہ ۱۹۶۰ اور اس کے بعد کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، جب دیگر زرعی تبدیلیوں کے ساتھ، پنجاب میں کاشتکاری میں مشینوں کا استعمال بڑے پیمانے پر ہونے لگا تھا۔
’’میں بھلے ہی بوڑھی ہو چکی ہوں، لیکن کمزور نہیں ہوں۔ کام ملنے پرمیں اب بھی کڑی محنت کر سکتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن مشینیں آ گئی ہیں۔ ہم زرعی مزدوروں کو اب [زیادہ] کام نہیں مل رہا ہے۔ ہمارے بچے بھوکے رہتے ہیں۔ دن میں صرف ایک بار ہم ٹھیک سے کھانا کھا پاتے ہیں۔ تمام حدود کو پار کرتے ہوئے ہم سے پہلے ہی ہمارے سارے کام چھین لینے کے بعد، سرکار نے ہماری زندگی کو ایک زندہ جہنم بنا دیا ہے۔‘‘
وہ بتاتی ہیں کہ اب کھیتوں پر کام زیادہ دنوں تک دستیاب نہیں ہوتا، اس لیے مزدوروں نے منریگا کے مقامات کی طرف رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) دیہی ہندوستان کی ہر ایک فیملی کو سال میں ۱۰۰ دن کام کرنے کی گارنٹی دیتا ہے – پنجاب میں ۲۵۸ روپے یومیہ مزدوری کے لیے۔ ’’لیکن کب تک؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔ ’’ہم مستحکم نوکریوں کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ہم یومیہ کام کی مانگ کرتے ہیں۔‘‘
تاراونتی کا تعلق دلت برادری سے ہے۔ ’’یہ ہمارے لیے ہمیشہ الگ رہا ہے۔ اور ہم غریب ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’وہ [اونچی ذات کے لوگ] ہمیں برابر نہیں مانتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کے ذریعے انسان نہیں سمجھا جاتا۔ ہمیں کیڑے مکوڑوں کی طرح دیکھا جاتا ہے۔‘‘
لیکن اس احتجاج کے دوران تمام طبقات، ذات اور صنف کی حصہ داری روزانہ مضبوط ہوتی جا رہی ہے، وہ کہتی ہیں۔ ’’اس بار ہم سبھی لوگ اس احتجاج میں ایک ساتھ آئے ہیں۔ ہم اب صحیح راستے پر ہیں۔ ہم ان زرعی قوانین کے منسوخ ہونے تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ یہ سبھی کے لیے متحد ہونے اور انصاف کی مانگ کرنے کا وقت ہے۔‘‘
زرعی قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔ کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ یہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔
’’سرکار کہتی ہے کہ وہ ان قوانین میں تبدیلی [ترمیم] کریں گے،‘‘ تاراونتی کہتی ہیں۔ ’’لیکن اگر یہ قوانین صحیح تھے، جیسا کہ وہ ہمیں بتا رہے ہیں، تو انہیں اب اس میں تبدیلی کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ انہوں نے جو قوانین پاس کیے ہیں وہ کبھی اچھے تھے ہی نہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز