ہیسل بلاڈ ایوارڈ یافتہ فوٹوگرافر دیانیتا سنگھ نے پاری کے ساتھ مل کر دیانیتا سنگھ – پاری ڈاکیومینٹری فوٹوگرافی ایوارڈ کی شروعات کی ہے
پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے فوٹوگرافر، ایم پلانی کمار کو ۲ لاکھ روپے کے پہلے دیانیتا سنگھ – پاری ڈاکیومینٹری فوٹوگرافی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ہے۔
انعام دینے کا یہ خیال دیانیتا کے ذریعے ۲۰۲۲ کا ہیسل بلاڈ ایوارڈ جیتنے کے بعد آیا – جسے دنیا کا سب سے باوقار فوٹوگرافی انعام سمجھا جاتا ہے۔ دیانیتا کا کہنا ہے کہ وہ نوجوان پلانی کمار کی خود سے سیکھی ہوئی فوٹوگرافی میں پوشیدہ ان کے ارادے، مواد، جذبہ اور دستاویزی ذہانت سے کافی متاثر ہیں۔
انہوں نے اس انعام کو پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) کے باہمی تعاون سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ وہ پاری کو ڈاکیومینٹری فوٹوگرافی کے آخری بچے قلعوں میں سے ایک مانتی ہیں – جو حاشیہ پر پڑے لوگوں کی زندگی اور معاش پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
پلانی کمار، پاری کے کل وقتی فوٹوگرافر ہیں (ہم ابھی تک تقریباً ایسے ۶۰۰ لوگوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں، جو بطور معاون ہمارے لیے شوٹ کرتے رہے ہیں)۔ پاری پر نمایاں طور پر شائع کیا جانے والا ان کا کام پوری طرح سے ان لوگوں پر مرکوز ہے، جنہیں ہم سب سے کم توجہ دیتے ہیں – جیسے کہ صفائی کارکن، سمندری کائی و کھر پتوار جمع کرنے والے، زرعی مزدور وغیرہ۔ فیلڈ میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو فوٹوگرافی کے اُن کے ہنر اور مضبوط سماجی شعور سے میل کھا سکیں۔
رانی اُن خواتین میں سے ایک ہیں جو معمولی اجرت کے عوض جنوبی تمل ناڈو کے توتوکوڈی ضلع میں ۲۵۰۰۰ ایکڑ میں پھیلے کھیتوں میں محنت و مزدوری کرتی ہیں۔ دیکھیں: توتوکوڈی کے نمک کے کھیتوں کی رانی
اے موکُپوری تقریباً آٹھ سال کی عمر سے ہی سمندری کائی جمع کرنے کے لیے سمندر میں غوطے لگا رہی ہیں۔ تمل ناڈو کے بھارتی نگر کی بہت سی ماہی گیر خواتین اس غیر معمولی، روایتی پیشہ سے جڑی رہی ہیں، جن کا ذریعہ معاش ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے: دیکھیں: تمل ناڈو کی سمندری کائی جمع کرنے والی خواتین
ستر سال سے زیادہ عمر کی گووندمّا، بکنگھم نہر سے جھینگا مچھلی پکڑتیں اور انہیں اپنے منہ سے پکڑی ہوئی ٹوکری میں جمع کرتی ہیں۔ وہ اپنے زخموں اور آنکھوں کی کم روشنی کے باوجود اپنی فیملی چلانے کے لیے اس عمر میں بھی یہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ دیکھیں: گووِندَمّا: جنہوں نے پوری زندگی پانی میں گزار دی
تمل ناڈو کے کرور ضلع میں واقع کاویری ندی کے کنارے کورائی کے کھیتوں میں کام کرنے والی کئی خواتین میں سے ایک اے مریایی بھی ہیں۔ یہ انتہائی مشکل کام ہے، مزدوری بہت کم ملتی ہے، اور اس سے ان کی صحت پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ دیکھیں: ’کورائی کے یہ کھیت میرا دوسرا گھر ہیں‘
تمل ناڈو کے توتوکوڈی ضلع کا ایک نمک مزدور باورچی خانہ کی سب سے عام، لیکن سب سے ضروری چیز کو نکالنے کے لیے تپتی دھوپ میں کڑی محنت کر رہا ہے، جب کہ کام کے حالات بے حد خراب ہیں۔ دیکھیں: توتوکوڈی کے نمک کے کھیتوں کی رانی
پی مگراجن، تمل ناڈو کے کومبو فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ ہاتھی کی سونڈ کی شکل کے اس آلہ موسیقی کی مانگ پوری ریاست میں گھٹ رہی ہے، جس کی وجہ سے فنکاروں کے پاس کوئی کام نہیں رہ گیا ہے اور اب گزارہ چلانے میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے: دیکھیں: مدورئی میں کومبو کی دھیمی ہوتی آواز
کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران چنئی میں صفائی ملازمین کو کام پر جانے کے لیے پیدل ہی لمبی دوری طے کرنی پڑی، بغیر کسی حفاظتی آلات کے شہر کی صفائی کرنی پڑی، اور اس درمیان انہیں ایک دن کی بھی چھٹی لینے کی اجازت نہیں تھی۔ دیکھیں: صفائی ملازمین – ناشکری کی اجرت
گویائی اور سماعت سے معذور ریتا اَکّا چنئی کارپوریشن کے لیے کام کرتی ہیں اور صبح میں کوٹّورپورم کی سڑکوں پر صفائی کرتی ہیں، لیکن شام کو وہ اپنا وقت کتوں کو کھلانے اور ان سے بات کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ دیکھیں: ریتا اَکّا کی زندگی کتّوں (اور بلّیوں) کے ساتھ
ڈی متھوراجا اپنے بیٹے وشانت راجا کے ساتھ۔ غریبی، خراب صحت، اور جسمانی معذوری کے باوجود متھوراجا اور ان کی بیوی ایم چترا ہمت اور امید کے ساتھ زندگی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دیکھیں: چترا اور متھوراجا کے پیار کی ان کہی داستان
فنکار آر یہلل آرسن نے آرٹ، دستکاری، تھیٹر اور گیتوں کے ذریعے تمل ناڈو کے بے شمار بچوں کی زندگی میں ہنسی اور روشنی بھر دی ہے۔ دیکھیں: اپنی طرح مجھے بھی مٹی کی شکلوں میں ڈھالنے والے یہلِل اَنّا
پلانی کی ماں تیرومائی، ایک نایاب خوشگوار لمحہ کے دوران۔ دیکھیں: میری ماں کی زندگی – ایک لیمپ پوسٹ کی روشنی میں
مترجم: محمد قمر تبریز