اس اسٹوری میں سرکاری اہلکاروں کو چھوڑ کر، سبھی افراد کے نام بدل دیے گئے ہیں، تاکہ ان کی شناخت کو پوشیدہ رکھا جا سکے؛ اسی لیے، ان کے گاؤوں کا نام بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ یہ دو حصوں پر مشتمل اسٹوری کا پہلا حصہ ہے۔
شام کے تقریباً پانچ بجے ہیں، اور آسمان پر ابھی تھوڑی روشنی باقی ہے، تبھی ۱۶ سالہ وویک سنگھ بشت اور کچھ دیگر لوگ ساتپیر کے اپنے کیمپ میں لوٹتے ہیں۔ ’’ہم یہاں ۱۰ دن اور رہیں گے، تاکہ مزید کیڑا جڑی تلاش کر سکیں۔ یہ موسم ہمارے لیے بہت اچھا نہیں رہا،‘‘ اس دن اپنے ذریعہ جمع کی گئی پھپھوندی کے ۲۶ پیس مجھے دکھاتے ہوئے، وہ کہتے ہیں۔
ہم ساتپیر کے گھاس بھرے میدانوں میں ہیں، سمندر کی سطح سے ۴۵۰۰ میٹر اونچائی پر، برف سے ڈھکے ڈھلانوں سے گھرے، جہاں ترپال سے بنے ۳۵ نیلے ٹینٹ کیمپ کے اوپر سے گزرنے والی تیز برفیلی ہواؤں سے پھڑپھڑا رہے ہیں۔ ان ٹینٹوں میں مختلف گاؤوں سے آنے والے وویک جیسے پھپھوندی شکاری رہتے ہیں، جو وسط مئی سے یہاں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ساتپیر ہند-نیپال سرحد سے کچھ کلومیٹر دور مغرب میں، پتھورا گڑھ ضلع کے دھارچُلا بلاک میں ہے۔
دن اگر اچھا رہا، تو پھپھوندی چننے والے ایک دن میں ۴۰ عدد تک جمع کر سکتے ہیں؛ ورنہ خراب دنوں میں، صرف ۱۰۔ اتراکھنڈ میں وسط جون کے آس پاس مانسون شروع ہوتے ہی، منافع بخش کیڑا چننے کا موسم تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ پچھلے سال، جون ماہ تک، وویک کے والدین، دادا دادی اور آٹھ سالہ بہن ۹۰۰ کیڑا جڑی لے کر اپنے گاؤں لوٹے تھے۔ ہر ایک کیڑا جڑی کا وزن آدھا گرام سے بھی کم ہوتا ہے اور یہ فیملی اسے ۱۵۰-۲۰۰ روپے فی عدد کے حساب سے فروخت کرے گی۔
گزشتہ ایک دہائی میں کیڑا جڑی یا ’سونڈی پھپھوندی‘ جمع کرنے سے ہندوستان اور نیپال کے تبتی پٹھاروں میں واقع گاؤوں – خاص کر بلند و بالا پہاڑی سرحدی ضلع پتھورا گڑھ اور چمولی کے کئی غریب خاندانوں کی قسمت بدل چکی ہے (اس بارے میں تفصیل سے اسٹوری کے دوسرے حصہ میں بات کی جائے گی)۔ پھپھوندی جمع کرنے کا یہ کام جب اتنا مقبول نہیں تھا، تب گاؤں والے بنیادی طور پر زراعت اور یومیہ مزدوری پر منحصر تھے۔ اب فی کلو پھپھوندی ۵۰ ہزار روپے سے لے کر ۱۲ لاکھ روپے تک فروخت ہوتی ہے، جو اس کے معیار اور سائز پر منحصر ہے۔ یہاں تک کہ کم قیمت والی پھپھوندی بھی کئی مہینوں تک ان کنبوں کی آمدنی کا بڑا حصہ ہوتی ہے۔
ہندوستانی یا نیپالی ایجنٹ کیڑا جڑی چین کے خریداروں اور صارفین کو تھوک میں بیچتے ہیں۔ یہ ایجنٹ اتراکھنڈ کی پولس یا محکمہ جنگلات اور ریونیو ڈپارٹمنٹ (محکمہ مالیات) کے اہلکاروں کے ذریعہ پکڑے جانے سے بچنے کے لیے، دور دراز کے سرحدی پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے کیڑا جڑی کی اسمگلنگ نیپال اور چین میں کرتے ہیں۔
اس پھپھوندی کا سائنسی نام اوفیوکارڈِی سیپس سائنینسس ہے، یہ کارڈی سیپس مَش روم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسے ’سونڈی پھپھوندی‘ اس لیے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ ایک کیڑے کے لاروا کو مار کر اس پر ایک حشرہ پھپھوندی کی شکل میں پنپتا ہے۔ یہ لاروا کو مار کر اس کی لاش کو پیلے-بھورے رنگ کے خول میں ڈھک لیتا ہے۔ اس کے بعد، سردی شروع ہونے سے ٹھیک پہلے جب مٹی جم جاتی ہے، ایک چھوٹی کلی لاروا کے سر سے باہر نکلتی ہے۔ موسم بہار میں – جب مئی کے مہینے میں برف پگھلتی ہے – ایک بھورے رنگ کے مش روم جیسی پھپھوندی مٹی کے اوپر نکل آتی ہے۔
اتراکھنڈ میں اسے کیڑا جڑی، پڑوسی تبت اور نیپال میں یارسا گُمبا اور چین میں ڈانگ چانگ جھیا چاؤ کہا جاتا ہے۔ اس کے چینی اور تبتی-نیپالی ناموں کا وسیع ترجمہ ہے، ’سردی کا کیڑا گرمی کی گھاس‘۔
اس پھپھوندی کے تصوراتی جنسی خواہشات کو ابھارنے والی خوبیوں کے سبب یہ مہنگا بِکتا ہے، جس کی وجہ سے اسے ’ہمالیائی ویاگرا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ روایتی چینی دواؤں کا ایک بنیادی مرکب بھی ہے۔ یارسا گُمبا کی مانگ مبینہ طور پر ۱۹۹۳ میں اچانک تب بڑھ گئی، جب اس پھپھوندی سے بنے ٹانک کا لگاتار استعمال کرنے کے بعد چین کے تین ایتھلیٹوں نے بیجنگ نیشنل گیمس میں پانچ ورلڈ ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
تقریباً ایک عشرہ بعد، اس پھپھوندی کو چننے کا کام ہندوستان میں بھی شروع ہو گیا۔ ’’۲۰۰۰ کے عشرہ [کی شروعات] میں، ہم نے تبتی کھامپاؤں کو ہندوستانی سرحد کی چراگاہوں میں پھپھوندی تلاش کرتے دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبتی علاقے میں اب یہ مشکل سے ملتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے انجان علاقوں میں تلاش کیا اور ہم سے مدد کرنے کو کہا،‘‘ کرشنا سنگھ کہتے ہیں۔ اس وقت بازار میں کیڑا جڑی کی قیمت معمولی تھی۔ لیکن ۲۰۰۷ کے آس پاس، یہ کاروبار بہت منافع بخش ہو گیا، اور اس نے بہت سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
’’اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے – چُننا، خریدنا، بیچنا – یہ سب پوری طرح سے غیر قانونی ہے،‘‘ اتراکھنڈ کے چیف جنگلات محافظ، رنجن مشرا کہتے ہیں۔ ’’اس لیے ہم حقیقت میں کبھی یہ نہیں جان پاتے کہ خود ہندوستانی بازار میں کیڑا جڑی کی قیمت کیا ہے۔‘‘
یہ کاروبار شروع میں غیر قانونی تھا، لہٰذا اسے روکنے اور اس پر قابو کرنے کے لیے اتراکھنڈ حکومت نے ۲۰۰۲ میں، دیہی برادریوں کے ذریعہ چلائی جانے والی پنچایتوں کو، مقامی باشندوں کو پھپھوندی چُننے کا لائسنس جاری کرنے کا اختیار دیا، لیکن صرف ان پنچایتوں کے ماتحت آنے والے علاقوں کے اندر۔ ان لائسنس ہولڈروں کے لیے وَن پنچایتوں کے علاوہ کسی اور کو پھپھوندی بیچنا غیر قانونی ہے۔ ریاستی حکومت نے ۲۰۱۵ میں، اس پالیسی کو مزید بہتر کیا – کاغذوں میں۔ لیکن بالائی پہاڑ کے گھاس کے میدانوں پر کچھ ہی وَن پنچایتوں کا دائرۂ اختیار ہے۔ اور، دیہی باشندوں سے لے کر پنچایت اراکین تک، کسی نے بھی اس پالیسی پر عمل نہیں کیا۔
پھر بھی، اس قسم کی گرفتاریاں نہ کے برابر ہیں۔ ’’مجرموں کو پکڑنا ممکن نہیں ہے، کیوں کہ وہ پھپھوندی کی اسمگلنگ کرنے کے لیے دور دراز کے علاقوں کا استعمال کرتے ہیں،‘‘ پتھورا گڑھ کے سابق سپرنٹنڈنٹ آف پولس، اجے جوشی کہتے ہیں۔ ’’گزشتہ ایک سال میں ہم نے کیڑا جڑی کے معاملے میں کوئی بھی گرفتاری نہیں کی ہے۔‘‘
پولس، جنگلات اور مالیات محکموں کے درمیان دائرۂ اختیار کی صورتحال بھی واضح نہیں ہے۔ ’’زیادہ تر علاقہ محکمہ مالیات کے ماتحت آتا ہے، جو محکمہ جنگلات کے ساتھ مل کر کیڑا جڑی کی غیر قانونی اسمگلنگ کے معاملوں کو دیکھتا ہے،‘‘ جوشی کہتے ہیں۔
لیکن دھار چُلا کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ، آر کے پانڈے کہتے ہیں، ’’پولس، محکمہ جنگلات و ماحولیات کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا۔ اکیلے محکمہ جنگلات کیڑا جڑی کو ضبط نہیں کر سکتا ہے۔ ہم نے ایک سال میں کچھ بھی ضبط نہیں کیا ہے۔‘‘
جب پولس یا کوئی دیگر اہلکار کیرا جڑی کو ضبط کرتا ہے – جو کہ گاؤوں والوں کے ذریعہ احتیاط سے لپیٹ کر اور ہوا بند مرتبان (ایئر ٹائٹ جار) میں محفوظ کیا ہوا ہوتا ہے – تب وہ اسے جانچنے کے لیے کھولتا ہے۔ چونکہ یہ تیزی سے خراب ہونے والی پھپھوندی ہے، اس لیے پولس کے پاس اسے بچانے کے دو ہی طریقے ہیں – یا تو اسے نیلامی کے لیے محکمہ جنگلات کو سونپ دیا جائے یا دہرہ دون میں آیوش (دیسی ادویات) محکمہ یا اس محکمہ کے کسی بھی ضلعی مرکز کو دے دیا جائے۔ لیکن ایسا شاید ہی کبھی ہوتا ہے، اور پھپھوندی خراب ہو جاتی ہے۔
سال ۲۰۱۷ میں، چمولی پولس نے بدری ناتھ جنگلات ڈویژن کو دو کلو کیڑا جڑی دی تھی۔ لیکن تب، کیڑا جڑی کی نیلامی اس لیے نہیں کی جا سکی تھی، کیوں کہ تب تک یہ خراب ہو چکی تھی، بدری ناتھ ڈویژن کے جنگلات افسر کے دفتر نے مجھے یہ بات بتائی۔
پھپھوندی کی اونچی قیمت اس کی تصوراتی جنسی خواہشات کو ابھارنے والی خوبیوں کی وجہ سے ہے.... یہ روایتی چینی دواؤں کا ایک بنیادی مرکب بھی ہے
دریں اثنا، گاؤوں والوں کے لیے، مئی جون میں پھپھوندی جمع کرنے سے بڑا کوئی اور کام نہیں ہوتا۔ ’’سرکاری نوکری کرنے والے لوگ ایک ماہ کے لیے ’صحت سے متعلق چھٹی‘ (میڈیکل لیو) لے لیتے ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ پھپھوندی کے شکار پر نکل جاتے ہیں،‘‘ راجو سنگھ بتاتے ہیں۔ ’’فیملی کے ممبران کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی، کیڑا جڑی اتنی ہی زیادہ جمع کی جا سکے گی۔ زیادہ کیڑا جڑی کا مطلب ہے، زیادہ پیسہ۔‘‘ صرف بزرگ اور بیمار، جو نہ تو کھڑی چڑھائی چڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی سخت موسم کا سامنا کر سکتے ہیں، صرف وہی گھر پر رہ جاتے ہیں۔
بچے جیسے ہی چھ یا سات سال کے ہوتے ہیں، اور گھاس کے بالائی پہاڑی علاقوں میں حد سے زیادہ ٹھنڈے اور سخت موسم کو جھیلنے لائق ہو جاتے ہیں، تو وہ بھی پھپھوندی چُننا شروع کر دیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کیڑا جڑی جمع کرنے والے بن جاتے ہیں۔ ’’بالغوں کے مقابلے ہماری بینائی زیادہ تیز ہے۔ ہم ایک دن میں تقریباً ۴۰ پھپھوندی ڈھونڈ کر جمع کر سکتے ہیں، جب کہ بالغ حضرات بہت ہی کم ڈھونڈ پاتے ہیں؛ کسی کسی دن انھیں ایک بھی نہیں ملتا،‘‘ ۱۶ سالہ وویک پورے اعتماد سے کہتا ہے۔
اتراکھنڈ میں اسکول عام طور پر مئی کے مہینے میں بند رہتے ہیں، اس لیے بچے اپنی فیملی کے ساتھ ہمالیائی گھاس کے میدانوں کی طرف جانے کے لیے خالی رہتے ہیں۔ وویک گزشتہ ۹ برسوں سے ساتپیر آ رہا ہے، سات سال کی عمر سے ہی، لیکن اس کی اسکولی تعلیم متاثر نہیں ہوئی ہے۔ اس نے حال ہی میں ۸۲ فیصد نمبرات کے ساتھ ۱۰ویں جماعت کا امتحان پاس کیا ہے۔ اور اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ لینے سے پہلے ۱۲ویں کلاس کے نتائج آنے تک انتظار کرنا چاہتا ہے۔
’’شکار میں فیملی کا ہر رکن شامل ہوتا ہے۔ اگر وہ رینگ کر کیڑے نہیں چُن سکتے تب بھی، وہ فیملی کے باقی اراکین کے لیے کھانا اور پانی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ مئی کے مہینے میں ساتپیر کے ۹ گاؤوں خالی ہو جاتے ہیں۔ تمام فیملی کیڑا جڑی کے موسم میں بُگیال [پہاڑ کے بالائی علاقوں میں گھاس کے میدان] چلے جاتے ہیں،‘‘ راجو بتاتے ہیں، جو کہ وویک کے ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
پہاڑوں کی وادی میں رہنے والے لوگ کیڑا جڑی کے علاقوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں – وہ ان لوگوں پر نظر رکھتے ہیں، جو اُن کے گاؤوں اور آس پاس کے علاقوں میں آ جا رہے ہیں۔ باہری لوگوں کو ’اُن کے علاقے‘ میں پھپھوندی چُننے کی اجازت نہیں ہے، حالانکہ دیہی باشندے کبھی کبھی باہری محققین کو اس کی اجازت دیتے ہیں۔ مجھے اندر آنے کی اجازت صرف اس لیے ملی ہے، کیوں کہ میرے پاس پتھورا گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ کا ایک لیٹر ہے – جو انھوں نے مجھے ایک نامہ نگار کے طور پر دیا ہے، جس میں انھوں نے افسروں اور دیگر اہلکاروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مجھے اپنے علاقوں میں (اکثر حساس سرحدی علاقوں میں) جانے کی اجازت دیں اور ضرورت پڑنے پر مدد فراہم کریں۔
میں نے کیمپ تک پہنچنے کے لیے خچر والے راستے سے اپنے گائڈ (اس کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا) کے ساتھ، ۲۵ کلومیٹر تک تیز ڈھلان اور تھکا دینے والا راستہ ۱۲ گھنٹے سے زیادہ وقت میں طے کیا۔ گاؤں کے لوگ جب پھپھوندی چُننے کے موسم کی تیاری کرتے ہیں، تب خچروں کے ساتھ اس راستے کا استعمال گھاس کے میدانوں تک ضروری غذائی اشیاء لے جانے میں کرتے ہیں۔ ’’ہم خچروں کے ذریعہ ساتپیر میں راشن لانا اپریل میں شروع کر دیتے ہیں – جس میں تقریباً ۲۵ کلو چاول، ۱۰ کلو دال، پیاز، لہسن اور مسالے ہوتے ہیں،‘‘ راجو بتاتے ہیں۔
یہ راستہ گھنے جنگلوں اور تیز بہاؤ والے پہاڑی نالوں سے ہوتا ہوا ایک ایسے علاقے میں نکلتا ہے، جو اپنے تیندوے اور بھالوؤں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ جانوروں کے حملوں سے بچنے کے لیے گاؤوں کے لوگ، کیمپ تک پہنچنے والے راستے میں چاقو اور ڈنڈے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
لیکن صرف چل کر جانا ہی ان کے لیے واحد خطرہ نہیں ہے۔ سونڈی پھپھوندی جمع کرنا جوکھم بھرا کام ہے اور اس کے لیے کڑاکے کی سردی میں تنگ اور ڈھلواں پہاڑی درّوں پر سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے لیے آپ کو گھاس کے میدان پر پیٹ کے بَل رینگنا پڑتا ہے، کوہنی اور گھٹنے کو برف میں گاڑے ہوئے اپنے سامنے کی زمین کو چھاننا پڑتا ہے۔ گھر لوٹنے پر، گاؤوں کے ان باشندوں میں جوڑوں کا درد، برف کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے بینائی کا چلا جانا اور سانس لینے میں دقت جیسی شکایتیں عام ہوتی ہیں۔
سال ۲۰۱۷ میں ساتیپر سے ۳۵ کلومیٹر دور، پتھورا گڑھ کے ایک دوسرے بالائی گھاس کے میدان میں، پھپھوندی چُننے کے دوران کھڑی چٹان سے نیچے گرنے کے سبب دو لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ اپریل ۲۰۱۸ میں، ایک اور آدمی کی موت اس وقت ہو گئی، جب وہ کیڑا جڑی کے موسم میں راشن لے جاتے وقت چٹان کے کنارے سے نیچے گر گیا تھا۔ لیکن پھپھوندی سے جہاں اتنا بڑا مالی منافع ہو رہا ہو، وہاں موت اور پریشانیاں گاؤوں والوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)