رانی مہتو اپنے دو دن کے بچے کی بحفاظت ڈلیوری کی خوشی اور گھر جاکر اپنے شوہر کو یہ بتانے کے خوف کے درمیان پھنسی ہوئی ہیں کہ انہیں ایک بار پھر لڑکی ہوئی ہے۔
گھبرائے ہوئے لہجے میں وہ بتاتی ہیں، ’’انہیں اس بار بیٹے کی امید تھی۔‘‘ ۲۰ سالہ رانی بہار کے پٹنہ ضلع کے داناپور سب ڈویژنل اسپتال میں اپنے بیڈ پر نوزائیدہ بچے کو دودھ پلاتی ہوئی کہتی ہیں۔ ’’مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ جب میں گھر جاؤں گی اور ان سے بتاؤں گی کہ اس بار بھی لڑکی ہی پیدا ہوئی ہے، تو نہ جانے ان کا ردعمل کیا ہو۔‘‘
سال ۲۰۱۷ میں، ۱۶ سال کی عمر میں شادی ہو جانے کے بعد رانی نے جلد ہی اپنی پہلی بیٹی کو جنم دیا تھا۔ ان کے شوہر، پرکاش کمار مہتو تب ۲۰ سال کے تھے۔ پٹنہ ضلع کے پھلواری بلاک واقع اپنے گاؤں (جس کا وہ نام نہیں بتانا چاہتیں) میں وہ اپنے شوہر اور ساس کے ساتھ رہتی ہیں۔ مہتو فیملی کا تعلق قدامت پرست او بی سی برادری سے ہے۔
رانی، جو نوعمری میں ہوئی شادی سے پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھتی ہیں، بتاتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں زیادہ تر لڑکیوں کی شادی ۱۶ سال کی عمر تک ہو جاتی ہے۔‘‘ تبھی چھٹی والے کاغذ (اسپتال سے چھٹی کا پیپر) کا انتظار کر رہی رانی کی ساس، گنگا مہتو ان کے پاس آکر بیٹھتی ہیں۔ رانی مزید بتاتی ہیں، ’’میری ایک چھوٹی بہن بھی ہے، اس لیے میرے والدین چاہتے تھے کہ میری شادی جلد از جلد ہو جائے۔‘‘
رانی اور ان کی بہن کا معاملہ کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ مردم شماری، قومی خاندانی صحت کا سروے اور دیگر سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لینے والے ’چائلڈ رائٹ س اینڈ یو‘ (کرائی) نامی این جی او کے مطابق، ملک میں کم عمری کی شادی کے کل معاملوں میں سے ۵۵ فیصد بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور راجستھان سے ہیں۔
رانی تفصیل سے بتاتی ہیں، ’’جب چھٹی والا کاغذ مل جائے گا، تو ہم اپنے گاؤں جانے کے لیے ایک آٹو رکشہ کرایے پر لیں گے۔‘‘ رانی ابھی تک معمول سے دو دن زیادہ اسپتال میں گزار چکی ہیں، کیوں کہ ان کو کچھ اور بھی طبی مسائل ہیں جنہیں توجہ کی ضرورت ہے۔ ’’مجھے خون کی کمی (اینیمیا) ہے،‘‘ رانی کہتی ہیں۔
ہندوستان میں اینیمیا (خون کی کمی) ایک سنگین طبی مسئلہ ہے، خاص طور پر عورتوں، نوعمر لڑکیوں اور بچوں میں۔ آفیشیل اور آزادانہ، دونوں ہی طور پر ہوئے تحقیقی مطالعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جن لڑکیوں کی شادی کم عمر میں ہو جاتی ہے، انہیں غذائی عدم تحفظ، کم غذائیت اور اینیمیا جیسے مسائل کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ اور کم عمری کی شادی کا کم آمدنی اور تعلیم سے قریبی تعلق ہے۔ غریب گھروں میں، جہاں غذائی عدم تحفظ زیادہ ہو، وہاں کم عمر میں شادی کر دینے کو فیملی کا مالی بوجھ کم کرنے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
جن لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہی کردی جاتی ہے، ان کی صحت اور غذائیت کے متعلق فیصلوں میں ان کی رائے کم ہی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ پورا سماجی عمل یکے بعد دیگرے خراب صحت، کم غذائیت، اینیمیا، اور پیدائش کے وقت بچوں کے کم وزن جیسے مسائل کا راستہ کھول دیتا ہے۔ ان سب کی ایک بڑی وجہ کم عمری کی شادی ہے، اور اس پورے سماجی عمل کا اثر کم عمری کی شادی کے طور پر بھی نظر آتا ہے۔ اور پھر، ایک اور سوال ہے جو اس ایشو پر پالیسی بنانا مشکل کر دیتا ہے: ہندوستان میں بچہ کسے کہا جائے۔
بچوں کے حقوق پر ۱۹۸۹ میں منعقدہ اقوام متحدہ کا اجلاس – جس کی قرارداد پر ہندوستان نے ۱۹۹۲ میں دستخط کیے – کے مطابق جو کوئی بھی ۱۸ سال سے کم عمر کا ہے، وہ بچہ ہے۔ ہندوستان میں بچہ مزدوری، شادی، انسانوں کی اسمگلنگ، اور نابالغ کے لیے انصاف پر بنائے گئے قوانین میں بلوغت کی الگ الگ تشریحات ہیں۔ بچہ مزدوری پر مبنی قانون میں یہ عمر ۱۴ سال ہے۔ شادی سے متعلق قانون کے مطابق، لڑکی ۱۸ سال کی ہونے پر بالغ ہوتی ہے۔ ہندوستان میں الگ الگ قوانین ’بچہ‘ اور ’نابالغ‘ کے درمیان بھی فرق کرتے ہیں۔ نتیجتاً، ۱۵ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے نوجوان انتظامی کارروائی سے بچ جاتے ہیں۔
بہرحال، رانی مہتو کے معاملے میں سماجی رسم و رواج اور صنفی بدگمانی کو قانون اور قانونی ضابطوں کے مقابلے کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
رانی بتاتی ہیں، ’’جب راکھی (ان کی بڑی بیٹی) کی پیدائش ہوئی تھی، تو میرے شوہر نے مجھ سے ہفتوں تک بات نہیں کی تھی۔ ہفتہ میں دو تین بار وہ اپنے دوستوں کے گھر چلے جاتے تھے اور جب لوٹتے تو نشے میں ہوتے تھے۔‘‘
پرکاش مہتو مزدوری کرتے ہیں، لیکن ہر مہینے بمشکل ۱۵ دن کام پر جاتے ہیں۔ پرکاش کی ماں گنگا پریشان ہوکر کہتی ہیں، ’’وہ مہینے میں ۱۵ دن کام کرے گا، لیکن پھر جو کچھ بھی وہ کماتا ہے، اگلے ۱۵ دنوں میں اسے اپنے اوپر ہی خرچ کر دیتا ہے۔ شراب نہ صرف اس کی، بلکہ ہماری بھی زندگی تباہ کر رہی ہے۔‘‘
رانی کے گاؤں کی آشا کارکن نے انہیں دوسرے بچے کے بعد نس بندی کروا لینے کی صلاح دی۔ لیکن رانی کے شوہر اس بات پر راضی نہیں ہوں گے۔ رانی بتاتی ہیں، ’’آشا دیدی نے مجھے دو سے زیادہ بچے نہ پیدا کرنے کی صلاح دی۔ انہوں نے ایسا اس لیے کہا، کیوں کہ اینیمیا کی وجہ سے میرا جسم بے حد کمزور ہے، اس لیے تیسری بار حاملہ ہونے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے، جب میرے حمل کا چوتھا مہینہ چل رہا تھا، میں نے پرکاش سے ڈلیوری کے بعد اس آپریشن کی بات کی۔ لیکن میری یہ بات میرے لیے ایک برا خواب ثابت ہوئی۔ پرکاش نے مجھ سے کہا کہ اگر میں اس گھر میں رہنا چاہتی ہوں، تو مجھے ایک بیٹے کو جنم دینا ہی ہوگا، اس کے لیے چاہے جتنی بار بھی حاملہ ہونا پڑے۔ وہ کسی بھی طرح کا احتیاط نہیں برتتے ہیں، لیکن میں اگر اس کے لیے زور دیتی ہوں، تو مجھے مار پڑتی ہے۔ نس بندی نہ کرنے اور بیٹے کے لیے کوشش کرتے رہنے کی بات پر میری ساس بھی انہیں سے متفق ہیں۔‘‘
رانی کا اپنی ساس کے سامنے کھل کر بولنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں کے تعلقات میں کڑواہٹ نہیں ہے۔ رانی سے ہمدردی رکھنے کے بعد بھی، گنگا اس قسم کی پدرانہ ذہنیت سے نجات نہیں دلا سکتیں۔
قومی خاندانی صحت کے سروے۔۴ کے مطابق، پٹنہ (دیہی) کے صرف ۳۴ اعشاریہ ۹ فیصد لوگ ہی خاندانی منصوبہ بندی کے کسی بھی طرح کے طریقے کو اپناتے ہیں۔ بتائے گئے طریقوں میں سے مردوں کی نس بندی کی تعداد ضلع کے دیہی علاقوں میں صفر فیصد ہے۔ این ایف ایچ ایس۔۴ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بہار میں ۱۵-۴۹ سال کی عمر کی حاملہ عورتوں میں سے ۵۸ فیصد میں اینیمیا کی علامتیں ہیں۔
رانی آگے کہتی ہیں، ’’۲۰ سال کی عمر میں دوسرے بچے کو جنم دینے کے بعد، میں نے ایک بات تو سوچ لی ہے۔ وہ یہ کہ کم از کم ۲۰ سال کا ہونے تک میں اپنی بیٹیوں کی شادی کسی قیمت پر نہیں ہونے دوں گی۔ جہاں تک میرا سوال ہے، مجھے تو تب تک بچے پیدا کرتے رہنا ہے، جب تک کہ میں بیٹے کو جنم نہ دے دوں۔‘‘
رانی نے آہ بھرتے ہوئے لیکن تھوڑے صبر کے ساتھ کہا، ’’ہمارے جیسی عورتوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہوتا، ہمیں وہی کرنا پڑتا ہے جو ہمارے آدمی ہم سے بولیں۔ آپ میرے بیڈ سے تین بیڈ دور اُس عورت کو دیکھ رہی ہیں؟ وہ نغمہ ہے۔ کل اس کی چوتھی بار ڈلیوری ہوئی ہے۔ اس کے گھر میں بھی بچہ دانی نکلوانے کی بات سرے سے خارج کر دی گئی۔ لیکن، اب جب کہ وہ یہاں اپنے ماں باپ کے ساتھ ہے، سسرال والوں کے ساتھ نہیں، دو دن بعد وہ بچہ دانی نکلوا دے گی۔ وہ بہت بہادر ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ شوہر کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے۔ رانی یہ کہتے ہوئے ہنس پڑتی ہے۔‘‘
یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق، رانی کی طرح زیادہ تر کم عمر دلہنیں اپنی نوعمری میں ہی بچے کو جنم دیتی ہیں ۔ ساتھ ہی، ان کی فیملی زیادہ عمر میں شادی کرنے والی لڑکیوں کے مقابلے زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ وبائی مرض کے دوران حالات اور بدتر ہوگئے ہیں۔
کنیکا صراف کہتی ہیں، ’’۲۰۳۰ تک کم عمری کی شادی کو ختم کرنے کا ہدف چنوتی بھرا لگتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو بس ملک کی کسی بھی ریاست کے دیہی علاقوں پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔‘‘ کنیکا صراف آنگن ٹرسٹ، بہار کے چائلڈ سیفٹی سسٹمز کی سربراہ ہیں، جو کلی طور پر بچوں کی حفاظت پر مرکوز ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’لیکن وبائی مرض نے مسئلہ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس دوران، ہم صرف پٹنہ میں ہی ۲۰۰ کم عمری کی شادی کو رکوانے میں کامیاب رہے ہیں۔ آپ بقیہ ضلعوں اور وہاں کے گاؤوں کا اندازہ خود لگا سکتی ہیں۔‘‘
نیتی آیوگ کے مطابق ، ۲۰۱۳-۲۰۱۵ کی مدت کے دوران بہار میں پیدائش کے وقت کا صنفی تناسب فی ۱۰۰۰ ہزار مردوں پر ۹۱۶ مردوں کا تھا۔ یہ تعداد ۲۰۰۵-۰۷ کے مقابلے بہتری کے طور پر دیکھی گئی تھی، تب یہ تعداد ۹۰۹ تھی۔ حالانکہ، اس سے کوئی امید نہیں بندھتی، کیوں کہ ۵ سال کی عمر ہونے سے پہلے ہی لڑکوں کے مقابلے کہیں زیادہ لڑکیوں کی موت ہو جانے کے سبب صنفی تناسب آگے بدتر ہو جاتا ہے۔ ریاست میں ۵ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات (فی ہزار پیدائش پر ۵ سال کی عمر سے پہلے ہی موت کا امکان) ۳۰ لڑکوں پر ۴۳ لڑکیوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے اندازے کی بنیاد پر ۲۰۱۹ میں اس سلسلے میں قومی تعداد ۳۴ لڑکوں پر ۳۵ لڑکیوں کی تھی۔
گنگا کا ماننا ہے کہ پوتا فیملی میں خوشیاں لیکر آئے گا، جو ان کا بیٹا کبھی نہ لا سکا۔ وہ کہتی ہیں، ’’پرکاش کسی کام کا نہیں ہے۔ پانچویں کے بعد وہ کبھی اسکول نہیں گیا۔ اسی لیے، میں چاہتی ہوں کہ ایک پوتا ہو۔ وہی فیملی کا اور اپنی ماں کا خیال رکھے گا۔ رانی کو وہ مقوی غذا نہیں مل سکی جو ایک حاملہ عورت کو ملنی چاہیے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے کمزوری کی وجہ سے وہ بول بھی نہیں پا رہی ہے۔ اسی لیے، میں خود اس کے ساتھ اسپتال میں رہی اور بیٹے کو گھر بھیج دیا۔‘‘
گنگا کہتی ہیں، ’’جب وہ نشے میں گھر لوٹتا ہے اور میری بہو اسے ٹوکتی ہے، تو وہ اسے مارتا ہے اور گھر کا سامان توڑنے لگتا ہے۔‘‘ مگر یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا بہار میں شراب بندی نہیں ہے؟ این ایف ایچ ایس۔۴ کے مطابق، شراب بندی کے اعلان کے بعد بھی بہار کے ۲۹ فیصد مرد شراب پیتے ہیں۔ دیہی مردوں میں یہ تعداد تقریباً ۳۰ فیصد ہے۔
رانی کے حمل کے دوران، گنگا نے اپنے گاؤں سے باہر گھریلو ملازمہ کا کام تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر انہیں ناکامی ہاتھ لگی۔ رانی بتاتی ہیں، ’’میری حالت اور مجھے بیمار پڑتے دیکھ کر میری ساس ایک رشتہ دار سے تقریباً پانچ ہزار روپے اُدھار لے آئیں، تاکہ کبھی کبھی میرے لیے پھل اور دودھ لا سکیں۔‘‘
اپنی زندگی اور اپنے جسم پر اپنا قابو نہ ہونے کی کہانی کو اُداس من سے بیان کرتے ہوئے رانی کہتی ہیں، ’’اگر وہ مجھے اسی طرح بچے پیدا کرنے کی مشین بنائے رکھیں گے، تو میں نہیں جانتی کہ آنے والے دنوں میں میرا کیا ہوگا۔ لیکن، اگر میں زندہ رہ پائی، تو میں کوشش کروں گی کہ میری بیٹیاں جہاں تک چاہیں، میں انہیں پڑھا پاؤں۔‘‘
’’میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹیوں کی بھی وہی حالت ہو جو میری ہے۔‘‘
اس اسٹوری میں کچھ لوگوں اور جگہوں کے نام شناخت ظاہر نہ کرنے کے ارادے سے بدل دیے گئے ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
جگیاسا مشرا ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہریوں کی آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کوئی ادارتی کنٹرول نہیں کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز