مدورئی میں ہمارے گھر کے سامنے ایک لیمپ پوسٹ ہے جس کے ساتھ میری کئی یادگار بات چیت ہے۔ گلی کے اس بلب سے میرا ایک خاص رشتہ ہے۔ میرے گھر میں کئی سالوں تک بجلی نہیں لگی تھی، حتیٰ کہ میں نے اپنی اسکولی تعلیم مکمل کر لی۔ سال ۲۰۰۶ میں، آخرکار جب بجلی کا کنکشن ملا، تو اُس وقت ہم آٹھ بائی آٹھ فٹ کے ایک گھر میں رہتے تھے۔ اس میں صرف ایک ہی کمرہ تھا، جس کے اندر ہم پانچ لوگ رہتے تھے۔ ان حالات نے مجھے اُس اسٹریٹ لائٹ کے قریب تر کر دیا۔
بچپن میں ہمارا گھر اکثر و بیشتر بدلتا رہا – ایک چھوٹی جھونپڑی سے کچا مکان، پھر ایک کرایے کا کمرہ، اور اب ۲۰ بائی ۲۰ فٹ کا ایک گھر جس میں ہم لوگ اس وقت رہ رہے ہیں۔ اسے بنانے کے لیے میرے ماں باپ نے ۱۲ سالوں تک ایک ایک اینٹ جوڑی۔ جی ہاں، انہوں نے ایک راج مستری کو تو کام پر رکھا تھا لیکن اسے بنانے میں خود اپنی جی توڑ محنت لگائی، اور ابھی یہ پوری طرح مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ ہم اس میں منتقل ہو گئے۔ ہمارے تمام گھر اُس لیمپ پوسٹ سے قریب یا اس کے دائرہ کے اندر ہی تھے۔ میں نے اسی کی روشنی میں بیٹھ کر چی گویرا، نیپولین، سجاتا اور دیگر شخصیات کی کتابیں پڑھیں۔
آج بھی، جب میں یہ کہانی لکھ رہا ہوں تو وہی اسٹریٹ لائٹ اس کی گواہ ہے۔
*****
کورونا کا شکریہ، کہ اس نے مجھے ایک طویل عرصے کے بعد اپنی ماں کے ساتھ کئی اچھے دن گزارنے کا موقع دیا۔ میں نے ۲۰۱۳ میں جب پہلی بار اپنا کیمرہ خریدا تھا، تبھی سے گھر پر بہت کم وقت گزار پاتا تھا۔ اسکول کے دنوں میں، میں بالکل الگ ذہن کا تھا، اور جب میرے ہاتھ میں کیمرہ آ گیا تو دوبارہ میری عادت بالکل بدل گئی۔ لیکن وبائی مرض کے اس دور میں کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے، مجھے کئی مہینے تک گھر پر اپنی ماں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل گیا۔ ان کے ساتھ اتنا لمبا وقت گزارنے کا موقع مجھے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔
میری ماں نے تین بار خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ تینوں بار ان کی جان بچ گئی۔
ایسا ہی ایک واقعہ میں آپ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ تب میں ایک چھوٹا بچہ تھا۔ ایک دن میری ماں گلے میں پھندا لگا کر لٹکنے کی کوشش کر رہی تھیں، تبھی میں بہت زور سے رونے لگا۔ میری چیخ سن کر، پڑوسی بھاگے ہوئے آئے اور دیکھا کہ میری ماں پھندے سے لٹکی ہوئی ہیں۔ پھر انہوں نے ان کی جان بچائی۔ کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ ان کی زبان باہر نکل گئی تھی۔ ماں آج بھی کہتی ہیں، ’’اگر تو رویا نہیں ہوتا، تو کوئی بھی مجھے بچانے نہیں آتا۔‘‘
اپنی ماں کی طرح ہی، میں نے کئی دوسری ماؤں کی کہانیاں سنی ہیں، جنہوں نے خود کی جان لینے کی کوشش کی۔ پھر بھی، انہوں نے کسی طرح ہمت جُٹائی اور اپنے بچوں کی خاطر آج بھی زندہ ہیں۔ ماں جب بھی اس موضوع پر بات کرتی ہیں، ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔
ایک بار وہ پڑوسی گاؤں میں دھان کی روپائی کرنے گئی ہوئی تھیں۔ وہاں انہوں نے پاس کے ایک درخت پر تھولی (بچوں کے لیے کپڑے کا جھولا) باندھ دی اور مجھے اس میں سُلا دیا۔ میرے والد وہاں آئے، میری ماں کو پیٹا اور مجھے جھولے سے باہر پھینک دیا۔ میں کچھ دور سبز کھیتوں کی گیلی مٹی کے پاس جا کر گرا، اور ایسا لگا کہ میری سانسیں رک گئی ہیں۔
میری ماں نے مجھے ہوش میں لانے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ میری چیتھی (ماں کی چھوٹی بہن) نے مجھے اُلٹا کرکے میری پیٹھ کو تھپتھپانا شروع کیا۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ایسا کرنے میں میری سانسیں لوٹ آئیں اور میں نے رونا شروع کر دیا۔ اماں جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتی ہیں، ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں موت کے منہ سے باہر آیا۔
*****
جب میں دو سال کا تھا، تو میری ماں نے کھیتوں میں مزدوری کرنا چھوڑ دیا اور مچھلی بیچنا شروع کیا۔ تب سے آج تک یہی ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اپنی فیملی کا کمانے والا رکن بنے ہوئے مجھے ابھی صرف ایک سال ہوئے ہیں۔ تب تک، صرف میری ماں کی محنت سے ہمارا گھر چلتا تھا۔ آرتھرائٹس کی وجہ سے گھٹنے میں درد ہونے کے بعد بھی، انہوں نے گولیاں (ٹیبلیٹ) کھا کر مچھلی فروخت کرنے کا کام جاری رکھا۔ وہ ہمیشہ سے محنتی تھیں۔
میری ماں کا نام تیرومائی ہے۔ گاؤں والے انہیں ’کُپّی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ مجھے عام طور سے لوگ ’کپی کا بیٹا‘ کہتے ہیں۔ وہ برسوں تک کھیتوں سے گھاس پھوس نکالنے، دھان کی روپائی کرنے، نہر کھودنے کا کام کرتی رہیں۔ میرے نانا نے ایک بار جب زمین کا ایک ٹکڑا پٹّہ پر لیا، تو ماں نے تن تنہا اس میں کھاد ڈال کر اسے فصل کی بوائی کے لیے تیار کیا تھا۔ آج تک، میں نے اتنا محنتی کام کرتے ہوئے کسی اور کو نہیں دیکھا جتنا میری ماں کرتی ہیں۔ میری امّایی (نانی) اکثر کہا کرتی تھیں کہ اماں کا مطلب ہے کڑی محنت۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی تھی کہ کیسے کوئی اتنی کمر توڑ محنت کر سکتا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ دہاڑی کرنے والے اور مزدور – خاص کر عورتیں – عموماً بہت سارا کام کرتے ہیں۔ ماں سیمت میری نانی کے ۷ بچے تھے – ۵ لڑکیاں اور ۲ لڑکے۔ میری ماں ان میں سب سے بڑی ہیں۔ میرے نانا ایک شرابی تھے، جنہوں نے اپنا گھر بیچ کر سارا پیسہ شراب میں اڑا دیا۔ میری نانی نے اکیلے سب کچھ کیا: پیسے کمائے، اپنے بچوں کی شادی کی، اور اپنے پوتے/پوتی اور نواسے/نواسی کی بھی دیکھ بھال کی۔
اپنی ماں کے اندر بھی میں وہی جذبہ دیکھتا ہوں۔ میری چیتھی جس لڑکے سے پیار کرتی تھیں، جب اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو اماں نے اس میں ان کی کھل کر مدد کی۔ ایک بار، ہم جس جھونپڑی میں رہتے تھے، اس میں اچانک آگ لگ گئی۔ میری ماں نے میرا، میرے چھوٹے بھائی اور بہن کا ہاتھ پکڑا اور ہمیں جلنے سے بچا لیا۔ وہ ہمیشہ سے بے خوف رہیں۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو اپنی زندگی داؤ پر لگنے کے باوجود، سب سے پہلے اپنے بچوں کے بارے میں سوچتی ہے۔
وہ گھر کے باہر، لکڑی کے ایک چولہے پر پنیارم (پکوڑی جو میٹھی یا نمکین ہو سکتی ہے) بنایا کرتی تھیں۔ اس کی خوشبو سے لوگ وہاں پہنچ جاتے؛ بچے کھانے کے لیے مانگتے۔ وہ ہمیشہ کہتیں، ’’پہلے دوسروں کے ساتھ شیئر کرو۔‘‘ اور میں اپنی مٹھی میں پکوڑی بھر کر پڑوسی بچوں میں بانٹ دیتا۔
دوسروں کے بارے میں ان کی فکرمندی کئی طرح سے جھلکتی تھی۔ میں جب بھی اپنی موٹرسائیکل اسٹارٹ کرتا ہوں، وہ کہتی ہیں: ’’اگر کبھی تمہیں چوٹ لگ جائے تو کوئی بات نہیں، لیکن کسی اور کو زخمی مت مارنا…‘‘
میرے والد نے زندگی میں ایک بار بھی میری ماں سے یہ نہیں پوچھا کہ انہوں نے کھانا کھا لیا ہے نہیں۔ وہ دونوں ایک ساتھ نہ تو کبھی کوئی فلم دیکھنے گئے اور نہ ہی کبھی مندر۔ وہ ہمیشہ کام کرتی رہیں۔ اور مجھ سے کہتیں، ’’اگر تم نہیں ہوتے، تو میں کب کی مر چکی ہوتی۔‘‘
کیمرہ خریدنے کے بعد، اپنی اسٹوریز تلاش کرنے کے لیے میں جن عورتوں سے ملتا ہوں، وہ ہمیشہ یہی کہتی ہیں، ’’میں اپنے بچوں کے لیے جی رہی ہوں۔‘‘ اب ۳۰ سال کا ہونے کے بعد، میں جانتا ہوں کہ یہ بات بالکل سچ ہے۔
*****
میری ماں جن گھروں میں جاکر مچھلی فروخت کرتیں، اُن گھروں میں فیملی کے بچوں کے ذریعے جیتے گئے کپ اور میڈل سجا کر رکھے ہوتے تھے۔ میری ماں کہتیں کہ وہ بھی چاہتی ہیں کہ ان کے بچے بھی ٹرافیاں لے کر گھر آئیں۔ لیکن تب انہیں دکھانے کے لیے میرے پاس انگریزی کے پیپر میں صرف ’فیل مارکس‘ ہوا کرتے تھے۔ اُس دن انہیں کافی غصہ آتا اور وہ مجھ سے ناراض ہو جایا کرتی تھیں۔ وہ ناراضگی سے کہتیں، ’’میں پرائیویٹ اسکول کی فیس ادا کرتی ہوں، اور تم انگریزی میں فیل ہو رہے ہو۔‘‘
ان کا غصہ مجھے کسی نہ کسی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کا حوصلہ عطا کرتا۔ پہلی کامیابی فٹ بال سے آئی۔ مجھے فٹ بال کھیلنا بہت پسند ہے اور پچھلے دو سال سے میں اسکول کی ٹیم میں شامل ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ اور اپنی ٹیم کے ساتھ پہلے ہی میچ میں، ہم نے ٹورنامنٹ کا کپ جیت لیا۔ اُس دن، پورے فخر سے میں گھر لوٹا اور ماں کے ہاتھوں میں کپ سونپ دیا۔
فٹ بال سے مجھے اپنی پڑھائی میں بھی مدد ملی۔ ہوسور کے انجینئرنگ کالج میں مجھے اسپورٹس کوٹہ کی بنیاد پر ہی داخلہ ملا تھا۔ حالانکہ، میں نے فوٹوگرافی کی خاطر انجینئرنگ کی پڑھائی چھوڑ دی۔ قصہ مختصر یہ کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں، صرف اپنی ماں کی وجہ سے ہوں۔
بچپن میں، میں ان کے ساتھ بازار جایا کرتا، اور ’پروتھی پال پنیارم‘ (کپاس کے بیج کے دودھ اور گڑ سے بنائی گئی میٹھی پکوڑی) کا مطالبہ کرتا، جسے وہ خرید کر مجھے کھلایا کرتیں۔
بازار میں تازہ مچھلی آنے کے انتظار میں، سڑک کے کنارے بنے پلیٹ فارم پر رات بھر جاگ کر گزارنا جہاں مچھر بری طرح کاٹتے تھے – اور مچھلی خریدنے کے لیے صبح سویرے ہی جاگ جانا، آج یہ سب سوچ کر عجیب سا لگتا ہے۔ لیکن اس وقت یہ عام بات تھی۔ تھوڑا سا منافع کمانے کے لیے ہمیں مچھلی کے آخری ٹکڑے تک کو بیچنا پڑتا تھا۔
ماں، مدورئی کے کریمیدو مچھلی بازار سے ۵ کلو مچھلی خریدتیں۔ اس میں مچھلیوں کو پیک کرنے میں استعمال ہونے والے برف کا وزن بھی شامل ہوتا تھا۔ لہٰذا، مدورئی کی گلیوں میں جب وہ اپنے سر پر ٹوکری لے کر ایک چھوٹی مچھلی فروش کے طور پر آواز لگاتیں، تو برف کے پگھلنے سے اس کا ایک کلو وزن کم ہو جایا کرتا تھا۔
آج سے ۲۵ سال پہلے جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا، تب وہ ایک دن میں ۵۰ روپے سے زیادہ نہیں کما پاتی تھیں۔ اس کے بعد یہ آمدنی بڑھ کر ۳۰۰-۲۰۰ روپے ہو گئی۔ اس درمیان، انہوں نے سڑک کے کنارے مچھلی کی خود اپنی ایک دکان کھول لی اور گلیوں میں گھوم گھوم کر بیچنا بند کر دیا۔ اب اُن کی ماہانہ آمدنی ۱۲ ہزار روپے کے آس پاس ہے – جس کے لیے وہ مہینے کے تیسوں (۳۰) دن کام کرتی ہیں۔
بڑا ہونے پر مجھے سمجھ میں آیا کہ کریمیدو کے بازار سے مچھلی خریدنے کے لیے وہ روزانہ ۱۰۰۰ روپے خرچ کیا کرتی تھیں، اور ان کی جو کچھ کمائی ہوتی تھی وہ اسی سے ہوتی تھی۔ اختتامِ ہفتہ پر ان کی مچھلیاں زیادہ فروخت ہوتی تھیں، اس لیے ان دنوں میں وہ ۲۰۰۰ روپے خرچ کرتیں۔ اب، وہ روزانہ ۱۵۰۰ روپے اور اختتامِ ہفتہ پر ۵ سے ۶ ہزار روپے خرچ کرتی ہیں۔ لیکن اماں بہت کم منافع کما پاتی ہیں کیوں کہ وہ بہت سخی ہیں۔ وہ وزن کرنے میں سختی نہیں برتتیں اور اپنے گاہکوں کو اکثر زیادہ دے دیتی ہیں۔
میری ماں، کریمیدو بازار سے مچھلی خریدنے کے لیے ایک ساہوکار سے نقدی لیتی ہیں اور اگلے دن انہیں یہ پیسہ لوٹانا ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے ۱۵۰۰ روپے لیے، جیسا کہ وہ اکثر کرتی ہیں، تو ۲۴ گھنٹے کے بعد انہیں ۱۶۰۰ روپے لوٹانے پڑتے ہیں – یعنی ایک دن کے ۱۰۰ روپے۔ چونکہ لین دین کا سارا حساب اکثر اسی ہفتہ میں تمام ہو جاتا ہے، اس لیے اس حقیقت کا انکشاف نہیں ہوتا کہ پورے سال کا حساب لگانے پر اس قرض کا شرح سود ۲۴۰۰ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اگر وہ اختتام ہفتہ پر مچھلی خریدنے کے لیے اس سے ۵ ہزار روپے قرض لیتی ہیں، تو پیر کے روز انہیں ۵۲۰۰ روپے لوٹانے پڑیں گے۔ قرض اختتام ہفتہ پر لیا جائے یا کسی اور دن، اگر اسے لوٹانے میں ایک دن کی بھی تاخیر ہوئی تو ان کے اوپر اضافی ۱۰۰ روپے کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ اگر اختتام ہفتہ پر لیے گئے قرض کا سالانہ شرح سود نکالا جائے، تو یہ ۷۳۰ فیصد بنتا ہے۔
مچھلی بازار جانے سے، مجھے بہت سی کہانیاں سننے کا موقع ملا۔ ان میں سے کچھ کہانیوں نے میری حیرانی بڑھا دی۔ فٹ بال میچ کے دوران سنی گئی کہانیاں، سینچائی والی نہر میں اپنے والد کے ساتھ مچھلی پکڑنے جانے پر سنی گئی کہانیاں، ان تمام دوروں نے سنیما اور وژوئل میں میری دلچسپی بڑھا دی۔ میری ماں ہر ہفتے مجھے جو پیسے دیا کرتیں، انہی پسیوں سے میں نے چی گویرا، نیپولین اور سجاتھا کی کتابیں خریدی تھیں، وہی کتابیں جنہوں نے مجھے اُس لیمپ پوسٹ کے قریب کر دیا تھا۔
*****
کچھ دنوں بعد، میرے والد میں بھی تبدیلیاں آنے لگیں اور وہ بھی کچھ پیسے کمانے لگے۔ مختلف قسم کی یومیہ مزدوری کا کام کرتے ہوئے، انہوں نے بکریاں بھی پالنی شروع کر دیں۔ پہلے، وہ ہفتہ میں ۵۰۰ روپے کمایا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ ہوٹلوں اور ریستوراں میں کام کرنے لگے۔ اب وہ ایک دن میں تقریباً ۲۵۰ روپے کماتے ہیں۔ سال ۲۰۰۸ میں، وزیر اعلیٰ کی ہاؤسنگ انشورنس اسکیم کے تحت، میرے والدین نے پیسے قرض لیے اور گھر بنانا شروع کیا، جس میں آج ہم رہتے ہیں۔ یہ گھر جواہر لال پورم میں ہے، جو کسی زمانے میں تمل ناڈو کے مدورئی کے مضافات میں ایک گاؤں ہوا کرتا تھا، لیکن اب اس شہر کے پھیلنے کی وجہ سے اسی میں ضم ہو گیا ہے۔
میرے والدین کو اپنا گھر بنانے میں ۱۲ سال کا لمبا وقت لگ گیا، اور اس درمیان انہیں کئی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے والد نے بڑی محنت سے ایک ایک پیسے بچائے، کبھی کپڑا رنگنے والی فیکٹریوں اور ہوٹلوں میں کام کرکے، تو کبھی مویشی چرانے کا کام کرکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اور بھی کئی کام کیے۔ اپنی بچت کے پیسے سے انہوں نے مجھے اور میرے دو بھائی بہنوں کو اسکول میں ڈالا اور ایک ایک اینٹ کا انتظام کرکے گھر بھی بنایا۔ ہمارا گھر، جس کے لیے انہوں نے اتنی قربانیاں دیں، ان کے صبر و تحمل کی نشانی ہے۔
میری ماں کی بچہ دانی میں جب کچھ مسئلہ پیدا ہوا، تو ایک سرکاری اسپتال میں ان کی سرجری کرائی گئی۔ اس پر ہمیں ۳۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ اس وقت میں ایک انڈر گریجویٹ تھا اور پیسے سے ان کی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ اماں کی دیکھ بھال کے لیے مامور کی گئی نرس نے ان کا اچھی طرح خیال نہیں رکھا۔ جب میری فیملی انہیں کسی اچھے اسپتال میں داخل کرانے کے بارے میں سوچ رہی تھی، تب میں ان کی مدد کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔ لیکن، جیسے ہی میں پاری (پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا) کی ٹیم میں شامل ہوا، میرے حالات تبدیل ہونے لگے۔
پاری نے میرے بھائی کی سرجری کرانے کا خرچ بھی برداشت کیا۔ میں اماں کو اپنی تنخواہ کے پیسے ماہانہ آمدنی کے طور پر دے سکتا تھا۔ جب مجھے بہت سے انعامات ملنے لگے – جیسے کہ وکٹن ایوارڈ – تو میری ماں کی امید بندھی کہ اب جا کر اس کا بیٹا کچھ اچھا کرنے لگا ہے۔ میرے والد اب بھی مجھے طعنہ دیتے اور کہتے: ’’تم ایوارڈ تو جیت سکتے ہو، لیکن کیا تم کچھ اچھے پیسے کما کر گھر لا سکتے ہو؟‘‘
وہ صحیح کہہ رہے تھے۔ ویسے تو میں نے ۲۰۰۸ میں ہی اپنے اَنکل اور دوستوں سے موبائل فون اُدھار لے کر تصویریں کھینچنی شروع کر دی تھیں، لیکن ۲۰۱۴ میں جا کر میں نے خرچ کے لیے اپنی فیملی سے پیسے لینا بند کیا۔ تب تک میں چھوٹے موٹے کام کرتا تھا جیسے کہ ہوٹلوں میں برتن صاف کرنا، شادی اور اس جیسی دیگر تقریبات میں لوگوں کو کھانا پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔
اپنی ماں کو کچھ اچھے پیسے کما کر دینے میں مجھے ۱۰ سال لگے۔ گزشتہ دہائی میں ہمیں کئی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میری بہن بھی بیمار پڑ گئی تھی۔ کبھی اس کی اور کبھی ماں کی بیماری کی وجہ سے، اسپتال ایک طرح سے ہمارا دوسرا گھر بن گیا تھا۔ اماں کی بچہ دانی میں مزید مسائل پیدا ہو گئے۔ لیکن آج، حالات قدرے بہتر ہیں۔ اب جا کر مجھے لگتا ہے کہ اپنے ماں باپ کے لیے میں کچھ کر سکتا ہوں۔ محنت کش طبقے کے بارے میں، بطور فوٹو جرنلسٹ میں جن کہانیوں کو دستاویزی شکل دیتا ہوں – اس کا سبب انہیں دیکھنا اور ان کے جیسی زندگی گزارنا ہے۔ ان کا صبر و تحمل ہی میری زندگی کا سبق ہے۔ اور وہ لیمپ پوسٹ آج بھی میرے لیے مشعل راہ ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز