سوما کڈالی کہتے ہیں کہ گھر والے انہیں ہمیشہ فون کرکے ان کی خیریت پوچھتے رہتے ہیں۔ اور ۸۵ سالہ یہ کسان انہیں بھروسہ دلاتے رہتے ہیں کہ ’’مجھے کچھ نہیں ہوگا، میں ٹھیک ہوں۔‘‘
اکولے (جسے اکولہ بھی کہا جاتا ہے) تعلقہ کے ورنگھوشی گاؤں کے رہنے والے سوما نے مہاراشٹر کے احمد نگر ضلع میں کسانوں کے ذریعے اکولے سے لونی تک نکالنے جانے والے تین روزہ (۲۶ سے ۲۸ اپریل تک) احتجاجی مارچ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ بڑھاپے کے باوجود اس مارچ میں شامل ہونے کی ضرورت کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں نے اپنی پوری زندگی کھیتوں پر ہی گزاری ہے۔‘‘
سوما کے اوپر ڈھائی لاکھ روپے کا قرض ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ۷۰ سالوں تک یہ [کاشتکاری] کرنے کے بعد میں بے یقینی کا شکار ہو جاؤں گا۔‘‘ مہادیو کولی آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے سوما کڈالی کے پاس گاؤں میں پانچ ایکڑ زمین ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کل موسم جس طرح غیر متوقع ہو گیا ہے، ویسا انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
وہ مزید کہتے ہیں، ’’میرے جوڑوں میں تکلیف ہے۔ چلتے وقت میرے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے۔ اور صبح کو بستر سے اٹھنے کا من نہیں کرتا۔ پھر بھی، میں چلنے کو تیار ہوں۔‘‘
سوما کڈالی ان ۸۰۰۰ کسانوں میں سے ایک ہیں، جو تین روزہ احتجاجی مارچ کے لیے ۲۶ اپریل ۲۰۲۳ کو جمع ہوئے تھے۔ ان کسانوں نے جب اکولے سے سنگم نیر کی طرف چلنا شروع کیا، تو راستے میں ٹرک اور بس میں بھر کر اور بھی بہت سے کسان ان کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کا اندازہ ہے کہ اسی دن دیر شام کو جب یہ کسان سنگم نیر پہنچے، تو اس وقت تک وہاں ۱۵ ہزار لوگ جمع ہو چکے تھے۔
آل انڈیا کسان سبھا کے صدر، ڈاکٹر اشوک ڈھولے اور تنظیم کے دیگر ممبران نے اکولے میں اُس دن شام کو ۴ بجے ایک بڑے عوامی جلسہ کے بعد اس ریلی کو روانہ کیا تھا۔ اس مجمع کو سب سے پہلے مشہور و معروف صحافی پی سائی ناتھ نے خطاب کیا تھا، جو تینوں دن ان کے ساتھ اس ریلی میں شامل رہیں گے۔ دیگر مقررین میں مشہور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر آر رام کمار اور آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسو سی ایشن (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) کی جنرل سکریٹری، مریم ڈھولے بھی شامل تھیں۔
اس قسم کے زیادہ تر پروٹیسٹ کا اہتمام کرنے والے آل انڈیا کسان سبھا کے جنرل سکریٹری، اجیت نولے کہتے ہیں، ’’ہم لوگ وعدوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان وعدوں کو پورا کیا جائے۔‘‘
یہ مارچ ۲۸ اپریل کو لونی میں مہاراشٹر کے وزیر محصولات، رادھا کرشن وکھے پاٹل کی رہائش گاہ پر جا کر ختم ہوگا۔ حد سے زیادہ گرمی اور ۳۹ ڈگری سیلسیس درجہ حرارت کے باوجود اس مارچ میں کئی بزرگ شہریوں کا شامل ہونا کسانوں کی مایوسی اور ان کے غصے کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔
اس قسم کے زیادہ تر پروٹیسٹ کا اہتمام کرنے والے آل انڈیا کسان سبھا کے جنرل سکریٹری، اجیت نولے کہتے ہیں، ’ہم لوگ وعدوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان وعدوں کو پورا کیا جائے‘
ریاست کے وزیر محصولات کی رہائش گاہ کی طرف تیزی سے مارچ کرتے ہزاروں کسانوں کے اس نظارہ نے ریاستی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ موجودہ حکومت کے تین وزراء – محصولات، قبائلی امور اور محنت – کسانوں کے ان مطالبات پر بات کرنے کے لیے وہاں پہنچنے والے ہیں۔
لیکن بھارتی مانگا جیسے کسانوں کو مطمئن کر پانا آسان نہیں ہوگا۔ ان کی عمر ۷۰ سال سے زیادہ ہو چکی ہے، اور وہ پالگھر ضلع کے ایبدھ پاڑہ گاؤں سے ۲۰۰ کلومیٹر کا سفر کرکے کسانوں کے اس مارچ میں شامل ہونے پہنچی ہیں۔ بھارتی کہتی ہیں، ’’یہ ہمارے حقوق کے لیے ہے۔ یہ ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے ہے۔‘‘
ان کی فیملی کا تعلق وارلی برادری سے ہے، جو اپنے دو ایکڑ کھیت میں کئی نسلوں سے اناج اگا رہے ہیں۔ لیکن اس زمین کو جنگل کی زمین قرار دے دیا گیا ہے، جس پر ان کا کوئی مالکانہ حق نہیں ہے۔ بھارتی کہتی ہیں، ’’مرنے سے پہلے، میں اپنی فیملی کو اس زمین کے مالک کے طور پر دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
وہ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتیں کہ تین دنوں کی اس ریلی کے لیے وہ کتنی روٹیاں اپنے ساتھ لائی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے جلد بازی میں انہیں لپیٹ لیا تھا۔‘‘ انہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ کسان اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بار پھر مارچ کر رہے ہیں اور وہ ان میں سے ایک ہیں۔
یہاں جمع ہونے والے ہزاروں کسانوں کے مطالبات نئے نہیں ہیں۔ سال ۲۰۱۸ میں کسانوں کے لمبے مارچ کے بعد سے ہی، جب کسانوں نے – جن میں سے زیادہ تر آدیواسی تھے – ناسک سے ممبئی ۱۸۰ کلومیٹر تک مارچ کیا تھا، ریاست کے ساتھ مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ (پڑھیں: مارچ جاری ہے… )
کسان چاہتے ہیں کہ سرکار فصلوں کا قرض معاف کر دے، جو بڑھتی ہوئی پیداواری لاگتوں، فصل کی گھٹتی قیمتوں اور ماحولیاتی تبدیلی کے مہلک امتزاج کی وجہ سے جمع ہو گئے ہیں؛ کسان ان قرضوں کو فصلوں کی کاشت کے بعد بھی چکا نہیں پا رہے ہیں۔ وہ مانسون کے پچھلے دو موسموں کے دوران حد سے زیادہ بارش کی وجہ سے تباہ ہونے والی فصلوں کا معاوضہ مانگ رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے معاوضہ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا، لیکن اسے کبھی پورا نہیں کیا۔
مہاراشٹر کے قبائلی ضلعوں میں، آدیواسی کسان گزشتہ کئی برسوں سے تاریخی حقوق جنگلات قانون (ایف آر اے)، ۲۰۰۶ کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
زرعی کارکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت ڈیئری کسانوں کو ہونے والے نقصان پر بھی توجہ دے، جنہیں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے بعد ۱۷ روپے فی لیٹر دودھ بیچنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
کسی زمانے میں اکولے تعلقہ کے شیل ویہرے گاؤں میں کھیتی باڑی کرنے والے گل چند جنگلے اور ان کی بیوی کوسا بائی کو اپنی زمین بیچنی پڑی تھی۔ ۷۰ سال سے زیادہ کے ہو چکے یہ دونوں میاں بیوی جب بھی موقع ملتا ہے کھیتوں پر یومیہ مزدوری کرتے ہیں اور اپنے بیٹے کو بھی کاشتکاری کرنے سے منع کر دیا ہے۔ اپنے بیٹے کے بارے میں پاری کو بتاتے ہوئے گل چند کہتے ہیں، ’’وہ پونے میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ میں نے اس سے کاشتکاری کا کام چھوڑ دینے کے لیے کہا تھا۔ اس میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘‘
اپنی زمین بیچنے کے بعد، گل چند اور کوسا بائی اب بھینسیں پالتے ہیں اور دودھ بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کووڈ۔۱۹ کے بعد سے گزارہ چلانا مشکل ہو گیا ہے۔‘‘
کسانوں کے اس مارچ میں شامل ہونے کے لیے پر عزم، گل چند کہتے ہیں، ’’اس احتجاجی مارچ میں شامل ہونے کے لیے میں نے تین دن کی اپنی یومیہ مزدوری چھوڑ دی ہے۔ اس عمر میں تین دنوں تک اتنی زیادہ گرمی میں چلنے کے بعد، میں فوراً کوئی کام نہیں کر پاؤں گا۔ سمجھ لیجئے کہ میری پانچ دنوں کی اجرت چلی گئی۔‘‘
لیکن ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی آواز سنی جائے۔ ’’جب آپ ہزاروں کسانوں کو کندھے سے کندھا ملا کر مارچ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو آپ کو خود بھی اچھالگتا ہے۔ یہ آپ کو ایک خاص بھروسہ اور امید دیتا ہے۔ ہم شاید ہی کبھی اس کا تجربہ کر پاتے ہیں۔‘‘
پوسٹ اسکرپٹ
مارچ کے دوسرے دن، یعنی ۲۷ اپریل ۲۰۲۳ کو حکومت مہاراشٹر نے اپنی تین کابینی وزراء – وزیر محصولات رادھا کرشن وکھے پاٹل، وزیر محنت سریش کھڈے اور قبائلی ترقی کے وزیر وجے کمار گاوِت کو کسان لیڈروں سے ملاقات کرنے اور ان کے مطالبات پر تفصیلی بات چیت کرنے کے لیے سنگم نیر بھیجا۔
ان وزراء کے اوپر چونکہ مسئلہ کو نمٹانے کا بہت زیادہ دباؤ تھا، اور دوسری طرف ۱۵۰۰۰ کسان (جن میں سے اکثریت آدیواسی کسانوں کی تھی) لونی میں واقع وزیر محصولات کی رہائش گاہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے، اس لیے انہوں نے تین گھنٹے کے اندر ہی کسانوں کے تقریباً سبھی مطالبات مان لیے۔ اس کے بعد، آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) اور دیگر نے پروٹیسٹ مارچ شروع ہونے کے اگلے دن اسے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
مترجم: محمد قمر تبریز